پہنچنا ہے فلک کے اس پار اے
راہبر
خواب ادھورے ہیں میرے کاش کہ تعبیر ہو
کبھی کبھی زندگی ہمیں بہت سی تلخیاں،محرومیاں،درد اور مسائل سے سامنا
کرواتی ہے۔ ایک شخص وہ ہے جو زندگی کے ان مسائل کی پرواہ نہ کرتے ہوئے
زندگی کے ان مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے اور اپنے لئے ہر منزل آسان بنا
لیتا ہے۔
مگر زندگی سب کیلئے ایک جیسی نہیں ہوتی ۔ کچھ لوگ غمو ں اور دکھوں کے پہاڑ
اٹھائے زندگی بسر کرتے ہیں۔وہ چاہتے تو ہیں کہ زندگی کے یہ مسائل کسی نہ
کسی طرح سے ختم ہو جائیں لیکن وہ عملی طور پر ان مسائل کو حل کرنے کیلئے
کچھ نہیں کر پاتے۔شائد زندگی سے مقابلہ کرکے ان لوگوں کی قوت ارادی اور
خوشحالی پر یقین اٹھ جاتا ہے۔ اور وہ ان مسائل سے چھٹکارا پانےکےلئے موت کو
تلاش کرنے لگے پڑتےہیں ۔۔لیکن ان بدنصیبوں کو موت بھی کہاں آسانی سے نصیب
ہو تی ہے۔تو ایک اڑتے کاغذ کی طرح وہ حالات کے رحم و کرم پر زندگی کے پیچھے
پیچھے چلتے جاتے ہیں جہاں زندگی انہیں لے جائے وہی ان کی منزل بن جاتی ہے۔
اور پھر شائد انہیں ایک دن اپنی زندگی کا کوئی مقصد بھی مل جاتا ہے۔۔۔۔۔۔
مگر کیا اس سے ماضی کے غموں کو بھلایا جاسکتا ہے یا پھر کسی نئے تجربے
کےپردے تلے ماضی کو دفن کرکے نئی زندگی کا آغاز کرنا ہی دانشمندی ہے۔۔۔
کیا زندگی وہی ہے جو ہمیں نظر آتی ہے یا اس کا کوئی اور پہلو بھی ہے جو
ہمارے ہی اند ر چھپا ہوا ہے مگر جسے ہم کبھی دریافت ہی نہ کر پائے ہوں۔اور
پھر زندگی میں کوئی ایسا آجائے جو ہمارے اند ر چھپی خوشی کو پہچاننے میں
ہماری رہنمائی کرے تو یقینا ایسا کردار کسی مسیحا کا ہی ہو سکتا ہے۔
خواب ادھورے ہیں میرے “ احمد فیصل ایاز“ ایک ناول جو کتابی شکل میں ٢٠١٠میں
طبع ہوا۔
ایک ٢٣سال کے نوجوان ناول نگار نے زندگی کے تجربات اور اپنی علمی استعداد
کے مطابق قلم کشائی کی ہے۔اور کوشش کی ہے روائیتی افسانوں اور ناولوں سے ہٹ
کر کوئی چیز تخلیق کی جائے۔یہ کاوش اس کی ایک شکل ہے۔امید ہے کہ قارئین کو
پسند آئیگی۔۔۔۔۔۔۔ |