کپاس اور گندم کی ترکیب آٹھ
عناصر سے ہوئی اختلاف مقادیر سے کہیں وہ عناصر گندم کی صورت میں جلوہ گر
ہوئے اور کہیں کپاس کی شکل میں پانی میں دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ
آکسیجن ہے اگر اس مقدار کو ذرہ بھر گھٹا بڑھا دیا جائے تو ایک زہر تیار
ہوگا اگر یہ دو عناصر مساوی مقدار میں جمع کر دئیے جائیں تب بھی ایک مہلک
مرکب بنے گا۔ آکسیجن و ہائیڈروجن ہر دوقاتل و مہلک گیسیں ہیں جن کے مختلف
اوزان سے لاکھوں مرکبات تیار ہوسکتے ہیں اور ہر مرکب زہر ہلاہل ہوتا ہے
لیکن اگر دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن کو ترکیب دی جائے تو ان دو
زہروں سے پانی تیار ہوگا جو تمام عالم کامدار حیات ہے۔
ترجمہ: ہم نے پانی کو ہرچیز کا مدار حیات قرار دیا ہے۔‘‘ (انبیاء 30)
غور فرمائیے کہ اللہ مقادیر کا کتنا بڑا عالم ہے وہ کس طرح معین مقداروں سے
کائنات کی مختلف اشیاء تیار کررہا ہے۔
ترجمہ: ہم نے ہر چیز کو (عناصر کی) معین مقدار سے پیدا کیا ہے۔ (قمر49)
لیموں اور کالی مرچ ہر عدد ہائیڈروجن دس حصے اور کاربن بیس حصے سے تیار
ہوئے ہیں لیکن سالمات کے تفاوت سے ہر عدد کی شکل‘رنگ‘ ذائقہ اور تاثیر بدل
گئی۔ اسی طرح کوئلہ اور ہیراکاربن سے بنے ہیں لیکن سالمات کے اختلاف سے ایک
کارنگ کالا‘ دوسرا سفید ایک قابل شکست اور دوسرا ٹھوس ہے۔
ترجمہ: ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم معین مقدار میں ہر چیز کو
نازل کرتے ہیں۔ اور ہم اشیاء کی تخلیق (وترکیب) سے غافل نہیں تھے۔ (مومنون
71)
کائنات کی ہرچیز عناصر کی نہایت وقیق وانسب آمیزش سے تیار ہوتی ہے اگر یہ
ترکیب ذرہ بھر کم و بیش ہوجائے تو سلسلہ حیات آناً فاناً درہم برہم ہوجائے
اگر آج اللہ تعالیٰ پانی کی ساخت میں سے ہائیڈروجن صرف ایک درجہ کم کردے
تو دریاؤں اور سمندروں میں زہر کا سیلاب آجائے اور کوئی ذی حیات باقی نہ
رہے غور فرمائیے کہ اللہ کا علم عناصرو مقاویر کس قدر لرزہ فگن اور ہیبت
انگیز ہے تمام نباتات کے عناصر ترکیبی ایک ہیں یہ صرف اختلاف مقاویر
کااعجاز ہے۔
حیوانات و نباتات کی ترکیب آکسیجن‘ ہائیڈروجن‘ کاربن‘ نائٹروجن اور چند
دیگر نمکوں سے ہوئی انہیں عناصر سے ہڈیاں‘ پٹھے‘ خون اور بال تیار ہوئے اور
انہی سے درختوں کے پتے شگوفے پھول‘ خوشے‘ رس اور پھل بنے۔ کڑواہٹ ترشی اور
مٹھاس انہی عناصر کا کرشمہ ہے اور رنگ و وضع کی یہ نیرنگیاں انہی کی بدولت
ہیں۔
ترجمہ: ہم نے سب چیزیں تول تول کر پیدا کیں۔ (حجر19)
قرآن حکیم میں مسلمانوں کو 756 دفعہ مناظر قدرت و قوانین فطرت پر غور کرنے
کی ہدایت کی گئی۔ علامہ ابن رشد‘ فارابی‘ بوعلی سینا اور فخرالدین رازی نے
بھی ہمیں اسی طرف متوجہ کیا لیکن ہم نے توجہ نہ کی۔ نتیجہ یہ کہ آج دوسری
قومیں برق وباد پر سوار ہوکر منازل حیات طے کررہی ہیں اورہم صحرائے حیات
میں طوفان ریگ کے تھپیڑے کھارہے ہیں۔ علامہ شعرانی اسلام کے طبیعی پہلو کو
سمجھتے تھے اور انہیں یقین تھا کہ اگر مسلمان‘ مسلمان رہا تو وہ علم شریعت
کی طرح علم فطرت میں بھی ایک نہ ایک دن کمال پیدا کرکے رہے گا۔ اسلیے تو
فرمایا تھا کہ ترجمہ:’’ اسلام آغاز میں محض شریعت تھا اور آخری زمانے میں
حقیقت بن جائے گا۔‘‘ وہ آخری زمانہ یہی ہے ضرورت ہے کہ آیات ارض و سما کی
طرف متوجہ ہوکر اسلام کو ایک حقیقت اور ٹھوس اصلیت ثابت کرنے کی کوشش کریں۔
ترجمہ: زمین و آسمان میں اہل ایمان کیلئے حقائق و بصائر موجود ہیں۔
(جاثیہ۔3)
دولت یقین سے مالامال اقوام کیلئے خلق انسانی وحیوانی میں آیات الہیہ
موجود ہیں (جاثیہ 4) |