شاہمدان کا اک چراغ اور بجھا

آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے سیکرٹری جنرل،وزیر اعظم آزاد کشمیر کے سابق مشیر تحریک آزادی کشمیر کے بزرگ رہنما پیر سید ضیاءالدین اندرابی ؒ کے فرزند سید بشیر احمد اندرابی طویل علالت کے بعد منگل(3اپریل) کو دوپہر دو بجے اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔سید بشیر احمد اندرابی مرحوم کے سوگوار خاندان میں ان کی اہلیہ،دو نوجوان بیٹے زین اندرابی، اویس اندرابی اور ایک بیٹی شامل ہیں۔

سید بشیر احمد اندرابی مسلسل کئی سال سے مسلم کانفرنس کے سیکرٹری جنرل تھے اور گزشتہ دور حکومت میں وزیر اعظم آزاد کشمیر کے مشیر رہے۔ان کے خاندان کے بزرگ سید سعید احمد اندرابی ؒ حضرت شاہمدان سید علی ہمدانی ؒ(جو ان کے ماموں تھے)کے ہمراہ سات سو سال قبل کشمیر آئے تھے ۔ حضرت شاہمدان نے سید سعید احمد اندرابی ؒ کوکشمیر میں ہی رہنے کا حکم دیا اور خود ایران چلے گئے۔سید سعید احمد اندرابی پیر سید ضیاءالدین اندرابی ؒ کے مورث اعلی ہیں۔کشمیر میں اس خاندان سادات اندرابی کا تبلیغ اسلام کے حوالے سے نہایت اہم کردار ہے۔ پیر سید ضیاءالدین اندرابی ؒ کا شمار ریاست جموں و کشمیر کی اولین سیاسی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے بانیوں میں ہوتا ہے جس کا قیام 1932ءکو سرینگر میں عمل میں آیا۔ پیر سید ضیاءالدین اندرابی مسلم کانفرنس کی پہلی 22رکنی ورکنگ کمیٹی کے ممبر تھے۔پیر سید ضیاءالدین اندرابی ؒمسلم کانفرنس کے قیام کے بعد ہونے والے ریاستی اسمبلی کے ا لیکشن میں بھاری اکثریت سے ممبر اسمبلی منتخب ہوئے۔23مارچ 1940ءمیں لاہور میں مسلم لیگ کے تاریخ ساز اجتماع ،جس میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی، میں پیر سید ضیاءالدین اندرابی ؒ ریاست جموں و کشمیر کے چار رکنی وفد کے سربراہ تھے۔ 1946ءمیں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے کشمیر کا دورے کے موقع پر مسلم کانفرنس نے قاضی گنڈ کے مقام پر اسقبالیہ جلسہ کیا جس میں پیر سید ضیاءالدین اندرابی ؒ نے ریاستی عوام کی طرف سے قائد اعظم ؒ کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا۔1947ءکی جنگ آزادی کشمیر میں حریت پسندوں کے کمانڈر میجر خورشید انور نے پیر سید ضیاءالدین اندرابی سے رابطہ کیا جس پر ان کی طرف سے حریت پسندوں کو خوراک اور افرادی قوت مہیا کی گئی۔پیر سید ضیاءالدین اندرابی کا وتر ہیل بڈگام میں واقع گھر حریت پسندوں کے ہیڈ کواٹر کے طور پر کام کرتا رہا۔پیر سید ضیاءالدین اندرابی جنگ کشمیر کے دوران ہی ہجرت کر کے آزاد کشمیر آ گئے اس وقت آزاد کشمیر میں صدر سردار ابراہیم کی حکومت تھی۔پیر سید ضیاءالدین اندرابی ؒ کا شمار قائد کشمیر چودھری غلام عباس ؒ کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ ہجرت کے بعد پیر سید ضیاءالدین اندرابی ؒ نے مسلم کانفرنس کی تنظیم نو شروع کی۔1952ءمیں میر پور میں ہونے والے کنونشن میں پیر سید ضیاءالدین اندرابی ؒ کو مسلم کانفرنس کا صدر منتخب کیا گیا۔پیر سید ضیاءالدین اندرابی ؒ آزاد کشمیر حکومت کے قائمقام صدر بھی رہے۔ سید بشیر احمد اندرابی مرحوم ایک سفید پوش شخص تھے اور انہوں نے کبھی مال و دولت بنانے پر توجہ نہیں دی۔

سید بشیر اندرابی سے میری پہلی ملاقات مسلم کانفرنس کے فیض آباد دفتر میں ہوئی جہاں وہ خواجہ محمد امین مختار صاحب سے ملنے آتے تھے۔انہی دنوں وہ سعودی عرب سے واپس آئے تھے۔اندرابی صاحب مسلم کانفرنس کے دفتر کے بعد خواجہ عبدالصمد وانی صاحب سے ملنے ”کشیر “ کے دفتر آتے۔یہ دن ان سے میرے ابتدائی تعارف کے تھے۔وانی صاحب اور امین مختار صاحب سے سید بشیر ا حمدا ندرابی کے والد گرامی پیر سید ضیاءالدین اندرابی مرحوم اور ان کے خاندان کی تحریک آزادی کشمیر اور مسلم کانفرنس کے لئے گراں قدر خدمات سے آگاہی ہوئی۔ راولپنڈی شہر میں ان کا پرانا گھر کشمیری سیاست کا ایک مرکز ہوتا تھا۔خواجہ محمد امین مختار(وفات1997ئ( اور خواجہ عبدالصمد وانی کی وفات(2001ئ) تک میرا سید بشیر احمد اندرابی سے بزرگوں کے ایک عزیز دوست کی طرح میل ملاپ رہا۔والد گرامی خواجہ عبدالصمد وانی صاحب کی وفات کے بعد میرے دوست احباب کے حلقے میں بزرگوں کی تعداد زیادہ ہو گئی اور ان میں سید بشیر احمد اندرابی نمایاں تھے۔

اندرابی صاحب اور میرے درمیان ایسا تعلق ترویج پاتا گیا کہ ایک دوسرے سے باقاعدہ ملاقاتیں ہوتیں،اپنے خیالات،سیاسی ،ملکی اور کشمیر کے حالات و واقعات پر تبادلہ خیال کئے بغیر چین نہ آتا تھا۔وہ مسلم کانفرنس کے مرکزی سیکرٹری جنرل بنے تو میں مسلم کانفرنس کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھا،یوں سیاسی ’ورکنگ‘ بھی دوستی کے ساتھ چلتی رہی۔بشیر اندرابی صاحب کو میں اپنا بزرگ اور دوست کہتا تھا اور ہمارے درمیان ایسا قریبی اعتماد پر مبنی تعلق پیدا ہوا کہ اہم اور حساس ترین باتیں بھی ہم آسانی سے ایک دوسرے سے ‘شیئر‘ کرتے تھے۔اندارابی صاحب کے ساتھ میں نے کئی سفر بھی کئے جن میں نئی دہلی اور سرینگر کا دورہ یادگار تھا۔

ایک مرتبہ ہم نے مظفر آباد جانا تھا۔میں گھر پہ اندرابی صاحب کا انتظار کر رہا تھا کہ اتنے میں گاڑی کے ہارن کی آواز آئی،باہر نکل کر دیکھا تو اندرابی صاحب مجھے جلدی سے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کر رہے تھے۔میں نے کار میں بیٹھ کر اندرابی صاحب سے ہم کلام ہونے کی کوشش کی تو انہوں نے اشارے سے مجھے خاموش رہنے کو کہا۔چند منٹ بعد انہوں نے اپنی دعا مکمل کی اور مسکراتے ہوئے کہا ، ’ہاں اب بات کرو‘، اور ہماری باتیں شروع ہو گئیں۔میں یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ اندرابی صاحب نہایت تیز رفتاری اور لاپرواہی سے کار چلا رہے تھے،چھوٹی سڑک سے بڑی سڑک عبور کرتے ہوئے بھی بغیر دیکھے تیزی رفتاری سے گزر جاتے۔اسلام آباد کے سیکٹر آئی ایٹ پہنچنے تک میرا کافی خون خشک ہو چکا تھا۔میں نے اندرابی صاحب سے عرض کی کہ گاڑی کی ڈرائیونگ مظفر آباد تک مجھے دے دیں،اندرابی صاحب نے پھر مسکراتے ہوئے کہا کہ ” میں عشروں سے گاڑی چلا رہا ہوں ،ڈرائیونگ کا ماسٹر ہوں“۔میرے اصرار کے باوجود انہوں نے مجھے گاڑی کی ڈرائیونگ نہیں دی اور خود مظفر آباد تک کار چلا تے رہے۔پہاڑی علاقے میں ایک ہی سڑک ہونے کہ وجہ سے ان کی ڈرائیونگ میدانی علاقے جتنی خطرناک نہیں تھی لیکن میرا خون پھر بھی خشک ہوتا رہا۔مظفر آباد پہنچ کر گاڑی رکی تو میں نے اندرابی صاحب کو متوجہ کر کے کہا ” اندرابی صاحب آپ جانتے ہیں کہ میں پیری والا آدمی نہیں ہوں لیکن آپ کو میں اپنا پیر تسلیم کرتا ہوں“۔میری سوچ اور خیالات سے واقف اندرابی صاحب فخریہ انداز میں مسکرانے لگے کہ آخر پیروں کی نظر کام کر گئی۔میں نے پیری تسلیم کرنے کی توجہہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اندرابی صاحب آپ نے راولپنڈی سے مظفر آباد تک کئی بار ایکسیڈنٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن آپ نے سفر سے پہلے جو دعائیں پڑھی تھیں یہ انہی دعاﺅں کا اثر ہے کہ ہم بخیریت مظفر آباد پہنچ گئے ہیں، اسی لئے میں آج سے میں آپ کو اپنا پیر تسلیم کرتا ہوں۔ اسی طرح ایک مرتبہ عنایت اللہ شاہ رعنا راجوروی مرحوم اور اندرابی صاحب کے ساتھ میر پور کا سفر کیا۔اس دلچسپ سفر میں ایسے ایسے تاریخی انکشافات ہوئے کہ پہچان کے کئی پردے اٹھ گئے۔

اندرابی صاحب اکثر ”کشیر “ کے دفتر آتے ،تبادلہ خیال ہوتا،دل کی بھڑاس نکالی جاتی،اس دوران اندرابی صاحب اپنی نماز بھی ادا کرتے۔ ایسے موقع پر اندرابی صاحب مجھے اکثر کہتے کہ” اطہر یار نماز پڑھا کرو،شعور رکھنے والے پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالی کا شکر ادا کرے“۔اور میں ہنستے ہوئے اندرابی صاحب سے یہی کہتا کہ ” میر ا پیر ابھی زندہ ہے ۔“

اندرابی صاحب کی علالت کی اطلاع ملنے پر ان کے گھر گیا،مختلف موضوعات پر تفصیلی گفتگو ہوئی،انہوں نے کئی ذاتی معاملات پر بھی بات کی۔یہ میری ان سے اس لحاظ سے آخری ملاقات تھی کہ اس کے بعد انہیں دیکھا تو ضرور لیکن بات چیت ممکن نہ تھی۔ اندرابی صاحب سے ہسپتال ملنے گیا،وہ دیکھتے،سمجھتے تھے لیکن ایک آدھ جملے سے زیادہ بات نہیں کرسکتے تھے۔میں نے اندرابی صاحب سے کہا کہ آپ کیا یہاں آ کر لیٹ گئے ہیں،جلدی سے صحت یاب ہو کر گھر آئیں،ابھی تو ہم نے آپ سے’ وازوان‘ کھانا ہے۔ اس پر اندرابی صاحب بند آنکھوں کے ساتھ مسکرانے لگے۔چند دنوں کے بعد بھابھی کا فون آیا کہ اندرابی صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے مجھ سے صرف ایک جملے میں اپنی بات کہی،وہ بات کیا تھی ،مہاجرت کا بھرپور احساس تھا،اپنائیت کا دعویٰ تھا۔اس آخری بات کے دو دن بعد سید بشیر احمد اندرابی انتقال کر گئے۔کہتے ہیں کہ انسان کو موت کا خوف لاحق رہتا ہے۔میرے خیال میں جب دستور زمانہ کے مطابق انسان کے اپنے پیارے اس دنیا سے رخصت ہوتے جاتے ہیں تو ان سے محبت،تعلق کا احساس انسان سے موت کا خوف دور کر دیتا ہے۔ آزاد کشمیر اور پاکستان میں بھی سید بشیر احمد اندرابی کا خاندان معتبر و موثر ہے۔لیکن اس کے باوجود یہ احساس حاوی رہا کہ کشمیری کس طرح آزاد کشمیر،پاکستان میں تمام عمر گزارنے کے بعد مرتے دم تک مہاجرت کا قرض اتارتے رہتے ہیں۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698947 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More