یوگی بابا کے چشم کشا پر وچن
سےنین سکھ کی آنکھیں کھل چکی تھیں ۔اس نا بینا گاندھی جی کے بندر نے جب
اپنے آس پاس نظر دوڑا کر دیکھا تو اس کا سارا سکھ چین غارت ہو گیا ۔اس نے
سوچا گاندھی جی کے دیس میں یہ کیا ہورہا ہے ۔پہلے تو گاندھی جی کی تصویروں
والےچندسکوں کے عوض ایوان ِ زیریں کے انتخابات میں غریب رائے دہندگان کو
خریدا جاتا تھا اب ایوانِ بالا کے انتخابات میں عوام کے نمائندوں کی نیلامی
ہو رہی ہے اور سرِ عام ان کا ایمان کروڑوں روپیوں میں بک رہا ہے ۔ان روپیوں
پر بھی گاندھی جی کی مسکراتی ہوئی تصویر چہک رہی ہے ۔ اس منظر کو دیکھ کر
نین سکھ کے نین بھیگ گئے اس کے آنسوؤں کو دیکھ کر نوٹ پر بنی گاندھی جی کی
تصویر بھی مرجھا گئی ۔ ان مناظر کو دیکھنے کے بعد نین سکھ کی سمجھ میں یہ
بھی آ گیا کہ ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا میں بنیادی فرق کیا ہے ۔ جس
ایوان کی رکنیت کیلئے غریب عوام رائے دیتے ہیں اسے ایوانِ زیریں ہی ہونا
چاہیے اور جس میں منتخب ہونے والے ارکان کو عوام کے نمائندے یعنی بڑے لوگ
اونچی قیمتوں کے عوض ووٹ دیتے ہوں اس کا ایوانِ بالا کہلانا حق بجانب ہے ۔
غمزدہ اور مایوس نین سکھ اپنے ساتھیوں مونی بابا اور تان سین کی جانب متوجہ
ہوا اور ان سےسوال کیا یہ کیا ہورہا ہے ؟ تم لوگ یہ سب بڑے آرام سےدیکھ
رہے ہو تم کو اس پر نہ کوئی حیرت ہے اور نہ پر یشانی ؟ گونگےمونی بابا تو
خیر مون برت رکھے ہوئے تھے اس لئے وہ اپنے ہاتھ منہ پر رکھے بدستور بیٹھے
رہے لیکن بہرےتان سین نے نین سکھ کے لبوں کی حرکات سے اندازہ لگا لیا کہ یہ
کیا پوچھ رہا ہے اور بولا ۔ دیکھو نین سکھ یہ سب تم پہلی بار اور چانک دیکھ
رہے ہو اس لئے تہیں حیرت بھی ہے اور پریشانی بھی ۔ ہم ان مناظر کو جستہ
جستہ برسوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ہم تو اب اس کے عادی ہو گئے ہیں بلکہ اس پر
راضی ہو گئے ہیں ۔ اب تو یہ حالت ہے کہ اگر اس کے علاوہ کچھ اور ہونے لگے
تو ہمیں نہ صرف حیرت بلکہ پریشانی بھی ہوگی ۔
تان سین کا یہی وہ نادانستہ جواب تھا جس نے نین سکھ کو اس قدر قنوطیت کا
شکار کردیا تھا کہ اس نے گاندھی ٹوپی کواپنے سر سے اتار کر کھڑکی سے باہر
اچھال دی تھی اور خود بھی کود خودکشی کر لی تھی ۔ نین سکھ کی جائے وفات پر
ماروتی مندر کی تعمیر کا کام زور و شور سے جاری و ساری تھا ۔ پڑوس کی زمین
ہتھیانے کا خواب دیکھنے والے بلڈر کا دیرینہ خواب شر مندۂ تعبیر ہوا چاہتا
تھا ۔ اس نے چند پجاریوں کو کام پر لگا کر ہنومان چالیسا کا پاٹھ شروع کروا
دیا ۔عوام کا مجمع صبح شام لگنے لگا تھا ۔ ہر روز لاؤڈ اسیکر پرہنومان جی
کے بھجن بجتے رہتے تھے اور پون پتر ہنومان کی جئے کے نعروں کی آڑ میں سیا
رام کالونی کی تعمیر کا کام زور وشور سے جاری تھا ۔ویسے ابھی تک بلدیہ سے
اس کے نقشوں کی توثیق اور دیگر اجازت نامے حاصل نہیں ہوئے تھے لیکن چونکہ
مندر اور کالونی کا سنگِ بنیاد ریاست کے وزیر اعلیٰ نے اپنے دستِ مبارک سے
رکھا تھا اس لئے کسی سرکاری افسر کی یہ مجال نہیں تھی کہ اس تعمیر میں کوئی
رخنہ کھڑا کرنے کی جرأت کرے ۔
عوام کا اس کام حصہ بس اس قدر تھا کہ صبح کام پر جاتے ہوئے برکت کی توقع
میں ماروتی کی مورتی کے سامنے جھک کر پرنام کر جاتے اور شام میں اپنی آتما
کی شانتی کیلئےمندر کے صحن میں آ کر بیٹھ جاتے۔ کچھ دیر بھجن کیرتن کرنے
کے بعد ایک دوسرے سے گپ شپ کرتے اور پھر گھرجاکر سوجاتے ۔روز بروز عوام کی
بڑھتی ہوئی آستھا کے پیشِ نظر کائیاں پجاریوں نے مورتی کے پاس ایک خوبصورت
سی دان پیٹی بھی نصب کروادی تھی جس سے ان کی اوپر کی آمدنی کا بندوبست
ہوگیا تھا ۔روز بروز کی بڑھتی گرانی کے چلتے سنت مہنت اسے جائز اور ضروری
سمجھتے تھے ۔ اس کے اندر پولس کا ہفتہ باندھ دیا گیا تھا تاکہ انتظامیہ کا
اعتماد بحال رہے اور آگے چل کر کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ سنیچر کی شام سب سے
زیا دہ دکشنا جمع ہوتی تھی ۔ اتوار کی صبح اس کا حساب کتاب ہوتا اور پیر کی
صبح محلے کے اندر رہنے والا حولداراپنے تھانے کا حصہ وصول کرکے اپنے ساتھ
لے جاتا اور اسےتھانیدار چر نوں میں ارپن کر دیاکرتا۔
اس پونیہ کاریہ میں جنتا کا ایک اور یوگ دان یہ تھا کہ جب وہ کسی اور
ہنومان مندر میں جاتے تو وہاں سے ایک آدھ بندر پکڑ کر اپنے ساتھ اس مندر
کیلئے لے آتے ۔اس طرح مندر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ایک وانر سینا کے نرمان
کا کام بھی نہایت فطری انداز میں ہو رہا تھا ۔مختلف مقامات سے آنے والے یہ
بھانت بھانت کے بندر اور گاندھی جی کے دو کھدر پوش بندروں کے درمیان ایک
نمایاں فرق تھا ۔ انسانوں کے ساتھ رہتے رہتے گاندھی جی کے ان نام نہاد مہذب
بندروں نے لکھنا پڑھنا اور بولنا سیکھ لیا تھا ۔وہ اپنی قوم کے دیگر بندروں
کو اپنے سے حقیر سمجھنے لگے تھے اور انہیں منہ نہ لگاتے تھے لیکن اس بیچ
تان سین کو اپنی تنہائی کا شدید سے شدید تر احساس ہونے لگا ۔جب تک نین سکھ
زندہ تھا وہ اس کی جھک جھک بک بک کو سنتا بھی تھا اور جواب بھی دیتا تھا ۔
گوکہ تان سین نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے اوپر بہرہ پن طاری کئے
ہوئے تھا ۔وہ دوسروں کی آواز سننے سے قاصر تھا اس کے باوجود اس کولوگوں کا
اس کی بات کو سننا اور اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرنا بہت بھلا معلوم ہوتا
تھا ۔ویسے وہ ان کے لبوں کی حرکات اور چہرے کے تاثرات سے بہت کچھ قیاس
آرائی کر لیا کرتا جو بڑی حد تک صحیح ہوتی تھی۔لیکن مونی بابا کا معاملہ
یہ تھا کہ وہ سنتے تو سب کچھ تھے مگر کچھ بولتے نہ تھے ۔نہ ان کے ہونٹ ہلتے
اور نہ چہرہ بولتا کسی عظیم فلسفی کی مانند شب و روز نہ جانے کس جہان میں
کھوئے رہتے تھے۔
تان سین کو ایسا لگتا تھا گویا نین سکھ کے غم میں انہوں نے بھی اس جگ سے
ناطہ تو ڑ کر سنیاس لے لیا ہے۔کبھی کبھار موڈ میں آتے تو اپنے کمپیوٹر پر
ایک آدھ جملہ لکھ کر تان سین کے سامنے اپنے دل کی بات رکھ دیتے ۔ ایک دن
تان سین نے دیکھا کہ مونی با با چہرے سے بہت خوش نظر آرہے ہیں تو وہ پھدک
کر ان کے قریب ہو گیا سوچا اپنی سمسیہ( مسائل )بتانے کا یہ اچھا موقع ہے نہ
جانے پھر کبھی یہ بڑے میاں موڈ میں آئیں یا نہ آئیں یا اسی گمبھیر(اداس)
مدرامیں پرلوک سدھار جائیں ۔ تان سین بولا مونی بابا کیا بات ہے ؟ آج آپ
بڑے خوش نظر آرہے ہیں ؟
مونی بابا مسکرائے اور اپنے آئی پیڈ پر لکھا جی ہاں تمہارا اندازہ درست ہے
آج واقعی میں خوش ہوں
اگر ایسا ہے تو اس کی وجہ ؟ کیا انٹر نیٹ پرکوئی خاص چیز پڑھنے کیلئے مل
گئی ؟
مونی بابا نے تائید میں سر ہلا کر لکھا یہی سمجھ لو
اچھا کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ کیا پڑھ رہے تھے ؟
کیوں نہیں ؟مونی بابا کی انگلیاں آئی پیڈ پر کھیل رہی تھیں ۔ میں دراصل
کلیاتِ اقبال پڑھ رہا تھا
تان سین کی سمجھ کے مطابق علامہ اقبال نہایت سنجیدہ شاعر تھے ۔ وہ خود بھی
ملت کے حال پر روتے تھے اور سامعین کو بھی اپنی شاعری سنا کر رلاتے تھے
لیکن یہ مونی بابا بھی عجیب آدمی ہے کہ ان کی شاعری پڑھ کر خوش ہو رہا ہے
۔ وہ بولا میں نے تو سنا ہے علامہ اقبال نہایت سنجیدہ انسان تھے ۔ شاید کسی
اور شاعر نے اپنا مزاحیہ کلام مقبولیت حاصل کرنے کی خاطر اقبال کے نام سے
ویب سائٹ پر ڈال دیا ہو اور آپ اسے علامہ کا کلام سمجھ کر محظوظ ہو رہے
ہوں۔
مونی بابا کو تان سین کے اس احمقانہ فقرے پر غصہ آ گیا اس لئے کہ اس میں
ان کا تمسخر اڑا یا گیا تھا ۔ انہوں نے فونٹ کا رنگ سیاہ سے بدل کر سرخ کیا
اور اب لکھنے لگے ۔تمہارا دماغ خراب ہے ۔ تم جیسا کوئی چور شاعر اپنی
مقبولیت کو بڑھانے کیلئے علامہ اقبال کی شاعری کا سرقہ تو کر سکتا ہے لیکن
اگر وہ اپنا کلام ان کے نام سے شائع کرے تو لوگوں کو پتہ ہی کیسے چلے گا کہ
یہ اس کا کلام ہے ؟
تان سین کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا وہ بولا جی ہاں لیکن علامہ اقبال کا
کلام چرانا اس قدر آسان بھی نہیں ۔ ایک تو ان کے اشعار بے حد مشہور ہیں
دوسرے ان کا آہنگ خود اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ یہ شعر ان کے سوا کسی
اور کا اور ہو ہی نہیں سکتا ۔
مونی بابا مسکرائے اور لکھا جب تم یہ جانتے ہو کہ علامہ اقبال کے اشعار خود
گواہی دیتے ہیں کہ ان کا خالق کون ہے تو مجھ سے یہ توقع کیوں کر کرتے ہو کہ
میں کسی اور کا کلام ان کے نام پر پڑھ رہا ہوں ۔
جی ہاں وہ میری غلطی تھی میں معذرت چاہتا ہوں دراصل آپ کو خوش دیکھ کر
مجھے مغالطہ ہو گیا تھا
مونی بابا نے لکھا اقبال ایک فطری شاعر تھا اس کے یہاں حسبِ ضرورت ظرافت
بھی موجود ہے کیا تم نے ان کا ظریفانہ کلام نہیں پڑھا ۔
تان سین نے سوچا گفتگو کسی اور رخ پر جارہی ہے اس لئے اسے سنبھالنا ضروری
ہے ورنہ اس کا اپنا مسئلہ دھرا کا دھرا کادھرا رہ جائیگا اور ملتِ اسلامیہ
نیز عالم انسانیت کے مسائل زیرِ بحث آجائیں گے۔وہ بولا دیکھئے مونی بابا
ظریفانہ کلام تو پھر کبھی آپ کے آئی پیڈ پر پڑھ لیں گے فی الحال آپ میرے
مسئلہ کا حل بتلائیے
تمہارا مسئلہ؟ تمہارا کیا مسئلہ ہے؟ تم تو بندر ہو انسان نہیں؟ مسائل تو
انسانوں کے ہوتے ہیں ؟
تان سین حالانکہ بندر تھا اس کےباوجود اسے مونی بابا کے منہ سے اپنے لئے
بندر کا لفظ پسند نہیں آیا لیکن اس نے درگذر کرکے بات آگے بڑھائی اور
بولا آپ کی بات درست ہے بابا ۔ جب تک ہم بندروں کے درمیان ایک آزاد اور
فطری معاشرے میں رہتے تھے ہمارے مسائل نہیں تھے لیکن پھر گاندھی جی کی نظرِ
انتخاب ہم پر پڑی ہم لوگ انسانوں کے ساتھ رہنے بسنے لگے ان کی مانند بولنے
سننے لگے اور انہیں کی طرح سوچنے سمجھنے بھی لگے اس لئے اب ان کے سارے
مسائل ہمارے اپنے مسائل بن گئے ہیں ۔
مونی بابا اپنے آئی پیڈ پر مسکراتا چہرے والا کارٹون لائے اور لکھا کیا
بات ہے تان سین آج تم باتیں تو بہت اونچی کہہ رہے ہو کیا پیڑ کسی اونچی
ٹہنی کے پھل کھا کر آرہے ہو یا پرساد میں کسی ہنومان کے بھکت نے تمہیں
بادام پستہ اور چلغوزہ سے بنی کوئی مٹھائی کھلا دی ہے ۔
تان سین بولا گولی مارئیے بادام اور چلغوزے کو یہ تو آپ جیسے عالم فاضل
فلسفی کی صحبت کا فیضان ہے
یہ سن کر مونی بابا کا دل باغ باغ ہو گیا انہوں نے کسی ماہر طبیب کی مانند
لکھنا شروع کیا اچھا اب یہ چکنی چپڑی باتیں چھوڑو اور اپنا مسئلہ بیان کرو
۔
میرا مسئلہ ؟ تان سین چونک کر بولا ہاں ہاں میرا مسئلہ ۔دراصل آجکل میں
بہت پریشان ہوں ۔نین سکھ کی موت کے بعد دل اس دنیا سے اچاٹ ہو گیا ہے۔
تنہائی کا شدید احساس نےمیرے وجود کو اچک لیا ہےگویا کہ زندگی بالکل ہی بے
رنگ ہو کر رہ گئی ہے
مونی بابا نے لکھا ہووووں!!!تمہاری اس مشکل کا حل بھی حکیم الامت نے سجھایا
ہے
میری مشکل کا حل ہے ۔ بھلا ان کو میری اس مشکل کا پتہ کیسے چل گیا ؟
مونی بابا پھر مسکرائے اور لکھا یہ اگرتمہارے اکیلے کا مسئلہ ہوتا تو انہیں
یقیناً اس کا علم نہیں ہوتا لیکن یہ تو ایک عام مسئلہ ہے جو ہر دور میں
انسانوں کے ساتھ رہا ہے ۔اس لئے علامہ اقبال کا اس سے واقف ہونا فطرت کے
عین موافق ہے ۔
تان سین کے تجسس میں اضافہ ہو رہا تھا ہو رہا تھا وہ بولا تو ٹھیک ہے آپ
انہیں کا تجویز کردہ نسخہ بتلا دیجئے
مونی بابا نے ڈاؤن لوڈ کی ہوئی کلیات کو کھولا اور اس پر تلاش والی کھڑکی
کوہ کھول کر ‘‘زن’’ ٹائپ کردیا ۔ پھر کیا تھا کمپیوٹر نے ازخود وہ تمام
اشعارتلاش کرنے شروع کر دئیے جن میں لفظ ‘ زن’ کا استعمال ہوا تھا اور چند
سیکنڈ کے اندر یہ مصرع پردے پر جھلک رہا تھا ‘وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات
میں رنگ ’
تان سین سوچ رہا تھا کہ اس کیلئے کوئی مشورہ ہو گا یہ تو ایک آفاقی حقیقت
کا بیان تھا جس کا بظاہر اس سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ وہ بولا مونی بابا آپ
سے میں اس عقیدت کے ساتھ استفسار کر رہا ہوں اور آپ میرا مذاق اڑا رہے ہیں
۔یہ تو ایک ایسی بات ہے جس سے ہرکس و ناکس واقف ہے لیکن اس میں میرے مسئلے
کا کوئی حل کہاں ہے ؟
مونی بابا نے لکھا حل تو ہے لیکن اس کیلئے عقل کا تھوڑا سا استعمال ضروری
ہے ۔
کیا مطلب ؟
مطلب یہ کہ بقول تان سین اس کی زندگی بے رنگ ہوگئی ہے ٹھیک ہے ؟
بالکل ٹھیک
اور اس کی اپنی زندگی ہی اس کی کل کائنات ہے ؟ درست ہے یا نہیں؟
جی ہاں یہ بھی درست ہے
اب اقبال کا کہنا یہ ہے کائنات میں رنگ وجودِ زن سے ہے گویا اگر زن
غیرموجود ہو تو کائنات بے رنگ ہو جاتی ہے ۔ یہ بات سمجھ میں آئی ۔ اب ان
سب کو جوڑ کر اپنا حل تلاش کرلو ۔
جی ہاں اب میری سمجھ میں یہ منطق آگئی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میری
زندگی وہ رنگ آئیگا کہا ں سے ؟
وہ دیکھو مندر کے سامنے پیڑ پر اور چھجے پر ،نیچے صحن میں اور اوپر دیوار
پر نہ جانے کتنے رنگ اچھل کود رہے ہیں ۔ جاؤ اور ان میں سے کسی کو اپنی
زندگی میں لے آؤ ۔
ان میں سے ؟ آپ کیسی باتیں کرتے ہیں بابا ۔ ہم نے ان کے ساتھ ایک خاص
فاصلہ بنایا ہوا ہے ۔ہم ان سے نہ ملتے جلتے بھی نہیں۔ ایسے میں بھلا ان میں
سے کوئی ہمارے ساتھ کیسے آسکتا ہے ؟
مونی بابا نے اسفہاسمیہ انداز میں تان سین کی جانب دیکھا اور اپنے آئی پیڈ
پر لکھا ۔ وہ ہماری اپنی برادری کے لوگ ہیں کیا انہوں نے تمہیں ملنے جلنے
سے منع کیا ہے ؟
نہیں ایسی بات تو نہیں ہے ۔ یہ تو ہمارا اپنا فیصلہ ہے جو ہم نے اپنے آپ
کو ان سے دور کر رکھا ہے ۔ ان کی جانب سے تو کوئی ایسا اشارہ نہیں ملا ۔ وہ
سب آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بند ہیں صرف ہم سے نہیں ملتے ۔
تم کی سوچتے ہو وہ ہم سے کیوں نہیں گھلتےملتے؟
شاید اس لئے کہ ہم خود ان سے دور رہتے ہیں ۔
اگر تم اپنا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہو تان سین تو تمہیں اس مشکل کو آسان
کرنا پڑے گا ان کے ساتھ جاکر گھلنا ملنا پڑے گا ۔ ممکن ہے ایسا کرنے سے
تمہاری تنہائی کسی قدر کم ہو جائے نیز اگر ۰۰۰۰۰۰۰۰
میں سمجھ گیا تان سین بولا ممکن ہے میری زندگی رنگین بھی ہو جائے ۔
جی ہا ں تان سین ۔ ہمت کر کے آگے بڑھو مجھے یقین ہے کہ کامیابی تمہارا قدم
چومے گی ۔ یہ لکھنے کے بعد مونی بابا آئی پیڈ کے مانیٹر پر علامہ اقبال کا
ایک اور شعر لے آئے ؎
یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتحِ عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی
شمشیریں
|