عدالتِ عظمیٰ نے
بالآخر26اپریل2012ءکوقومی مفاہمتی آرڈیننس ( این آر او) عمل درآمد کیس
میں،عدالتی احکام کی عدم تعمیل پروزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کو توہینِ
عدالت کی سزا دے دی۔یہ کیس 16جنوری سے 26اپریل2012ءتک 7رکنی بنچ کے زیرِ
سماعت رہا۔ اس کیس میں تین بار وزیر اعظم خود پیش ہوئے۔ عدالتی فیصلے کے
بعد وزیر اعظم اور ان کی جماعت کے ردِعمل نے جہاں ملک کوسیاسی بحران سے
دوچارکردیا ہے، وہیں وزیراعظم کی موجودہ پوزیشن پر بھی کئی سوالات کھڑے
کردیے ہیں۔
وزیراعظم اور ان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ ان پر نااہلی کا اطلاق نہیں ہوا
،اس کا انحصار اب اسپیکر قومی اسمبلی پر ہے۔ جب کہ مسلم لیگ( ن) سمیت دیگر
سیاسی و مذہبی جماعتوں اور ماہرینِ قانون کا دعویٰ ہے کہ عدالتی فیصلے کے
نتیجے میں، سزا کے بعد وزیراعظم ازخود نااہل ہوچکے ہیں ۔اوراب ان کے لیے
وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پرمتمکن رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ ان کے موجودہ تمام
اقدام غیر قانونی، غیر آئینی اورغیر اخلاقی ہیں۔اس حوالے سے مختلف سیاسی
ومذہبی جماعتوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کا اعلان بھی کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن)
نے تو26اپریل کوہی قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی احتجاجی مہم کا آغاز بھی
کردیا، جب کہ 27اپریل کو مسلم لیگ( ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے
پریس کانفرنس کے ذریعے وزیرِاعظم کے خلاف باقاعدہ طبلِ جنگ بھی بجا تے ہوئے
لانگ مارچ کا بھی اعلان کیاجب کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی
حکومت کے خلاف سونامی مارچ کا اعلان کرچکے ہیں۔ اسی طرح کا ردعمل جماعت ِاسلامی
اور دیگر سیاسی جماعتوں کابھی سامنے آیاہے۔
بیشتر قانونی ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وزیراعظم پر نااہلی کا اطلاق
ہوچکا ہے ،تاہم بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس پر عمل اسپیکر اور الیکشن
کمیشن کے ذریعے ہوگا۔ سپریم کورٹ اپنے فیصلے سے اسپیکر قومی اسمبلی اور
الیکشن کمیشن کو آگاہ کرے گی۔ بعدازاں اسپیکر 30 دن کے اندر ریفرنس بھیجنے
کا پابند ہے،اگراس نے ایسانہ کیا تو 31 ویں روزیہ معاملہ ازخود الیکشن
کمیشن کی طرف منتقل ہوجائے گا۔(27اپریل کو قومی اسمبلی میں وزیر اعظم یوسف
رضاگیلانی کا اشارہ بھی غالباً اسی جانب تھاکہ ”اسپیکر صاحبہ! ہمیں نااہل
آپ ہی کرسکتی ہیں“)جس کے بعد الیکشن کمیشن کو 90 دن کے اندر فیصلہ کرنا ہے۔
پیپلزپارٹی اور ان کے حامیوں کی بات کو درست تسلیم کیا جائے تو پیپلز پارٹی
اور وزیراعظم کے پاس کم از کم 30 دن ہیں، کیوں کہ الیکشن کمیشن کا سربراہ
حاضر سروس جج ہے جس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے کہ وزیراعظم کی اہلیت یا
نااہلیت کا معاملہ الیکشن کمیشن میں 90 دن تک لٹکا کر رکھا جائے گا ۔ امکان
یہ ہے کہ موجودہ قائم مقام چیف الیکشن کمیشن کی موجودگی میں اس معاملے کو
دنوں میں ہی نمٹادیا جائے گا۔ تاہم پیپلز پارٹی مستقل چیف الیکشن کمیشن کا
تقرر کرکے تاخیری حربہ استعمال کرنے کی کوشش کرسکتی ہے، مگر نئے چیف الیکشن
کمیشن کی تقرری کے لیے اپوزیشن کے اعتماد کا حصول ضروری ہے اور موجودہ صورت
حال میں حزبِ مخالف اور حکومت کے مابین اس قسم کا اتفاق نا ممکن نہیں تو
مشکل ضرورہے ۔اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی باہمی
مشاورت سے بننے والا چیف الیکشن کمیشن، حکومت کی مرضی کے مطابق وزیراعظم کی
اہلیت اور نااہلیت کے معاملے کو 90 دن تک لٹکائے رکھے گا؟
قانونی ماہرین کی اکثریت کا کہنا ہے کہ وزیراعظم پہلے ہی نااہل ہوچکے ہیں
اوراب ان کا ہر عمل غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے ۔ کوئی بھی
شخص وزیراعظم کے موجودہ اقدام کو عدالت میں چیلنج کرسکتا ہے۔جس کے بعد
وزیراعظم کی اہلیت کا معاملہ ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ پہنچ جائے گا ۔کیوں
کہ سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 63(1) G کا ذکر تو
کیا ہے لیکن اس پر کوئی واضح فیصلہ موجود نہیں، جس سے پیپلز پارٹی اور اس
کے حامی بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایسی صورت میں کوئی بھی شخص سپریم کورٹ
میں جا کر استدعا کرسکتا ہے کہ وزیراعظم کی نااہلیت کے معاملے پر پیدا ہونے
والے ابہام کو دور کیا جائے ۔اوریوں سپریم کورٹ کو اپنے تفصیلی فیصلے میں
ان تمام ابہامات کا واضح جواب دینا ہو گا۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ اب پاکستان
میں سیاسی بحران پیدا ہوچکا ہے اور موجودہ حکمرانوں کے جانے کی الٹی گنتی
شروع ہوچکی ہے ۔
مسلم لیگ( ن) اور اتحادی جماعتوں کو چار سال میں پہلی مرتبہ ایسا موقع ملا
ہے کہ وہ ایوانوں سے باہر آنے کا اعلان کرکے اس بحران کو مزید سنگین بنائیں
اور حکومت کا دھڑن تختہ کریں، تاہم انہیں اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ سخت
چپقلش کی صورت میں تیسری قوت فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ کچھ مبصرین کا یہ کہنا ہے
کہ فوج ماضی میں دیے جانے والے زخموں کا بدلہ چکانے کے لیے موقع کی تلاش
میں ہے اور شایدیہ سب سے اچھا موقع ہو،کیوں کہ گزشتہ چار سال سے حکمرانوں
نے عدالتی احکام کو جس طرح روند اہے، اس کی مثال نہیں ملتی ۔ حکومت نے
عدالتی فیصلوں کو نہ صرف مانانہیںبلکہ ان کی تضحیک بھی کی ۔ وزیراعظم نے
بھی علانیہ طور پر اپنے آپ کو مجرم قرار دلوایا۔ انہوں نے عدالتی احکام کے
مقابلے میں صدر زرداری سے اپنی وفاداری اور سوئس بینکوں میں موجود صدر
زرداری کے مبینہ 6 کروڑ ڈالر کو بچا نے کو ترجیح دی۔ یہ تو تاریخ ثابت کرے
گی کہ وزیراعظم کی یہ وفاداری کس حدتک درست تھی اور مستقبل میں انہیں اس کا
کیا صلہ ملے گا؟ جب تک وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اقتدار سے چمٹے رہیں گے،
ملک کے اقتداراور نظام پرایک سوالیہ نشان لگارہے گا۔اس دوران کیے جانے والے
تمام اقدام بھی مشکوک قرار پائیں گے۔ کیوں کہ وزیراعظم کی اہلیت کے حوالے
سے ہر جانب سے سنجیدہ سوال اٹھ رہے ہیں، دوسری جانب پیپلز پارٹی نے عدالتی
فیصلوں کی تضحیک کا سلسلہ مزید تیز کردیا ہے۔ اس حوالے سے مختلف راہ نماﺅں
کے بیانات ،پریس کانفرنس اور احتجاج واضح ثبوت ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پیپلز
پارٹی نے فوج کی طرح اب عدلیہ کے صبر سے بھی ناجائز فائدہ اٹھانے کا فیصلہ
کرلیا ہے،جوانتہائی خطرناک ہوگا ۔کیوں کہ موجودہ عدلیہ عوامی جدوجہد کے
نتیجے میں بحال ہوئی ہے ،اگر اس عدلیہ کی اس طرح حکم عدولی کی گئی تو پھر
آنے والا وقت انتہائی مشکل ہوگا۔
اگر سیاسی قیادت نے سنجیدگی سے فیصلے نہ کیے تو بعید نہیں کہ کوئی شخص
عدالت جا کر پیپلز پارٹی کے جرائم کی چارج شیٹ وصول کرلے اور عدالت بھی
اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے آئین کے مطابق دیگر اقدام کرنے پر مجبور
ہوجائے۔ ایسی صورت میں فوج امید کی کرن بن جائے گی اور چیف آف آرمی اسٹاف
اشفاق پرویز کیانی کو ملکی مفاد مدنظر رکھتے ہوئے کوئی قدم اٹھانا پڑے گا۔
اس مشکل مرحلے میں اگرسیاست دانوں نے سمجھ سے کام نہ لیا تو تاریخ انہیں
معاف نہیں کرے گی۔ 27 اپریل کو قومی اسمبلی میں وزیراعظم نے بڑی گرجدار
آواز میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انہوں نے بہت بڑی فتح اور کامیابی
حاصل کرلی ہے ،حالاں کہ پاکستان کے ماتھے پر یہ سزا ایک بدنام داغ ہے۔ شاید
وزیراعظم کو اپنے تمام اتحادیوں اور پارٹی ا رکان پریقین اوراطمینان ہوگا،
لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ سارے اتحادی ہر مشکل مرحلے میں وزیراعظم کے
ساتھ کھڑے رہیں گے ؟ وزیراعظم کی کوشش یہی ہے کہ وہ متنازعہ حیثیت میں ہی
120 دن گزاریں اور اس دوران پانچواں بجٹ پیش کریں۔ بجٹ کے حوالے سے بھی
ملنے والی اطلاعات انتہائی تشویش ناک ہیں۔ پیپلز پارٹی پانچویں سال کو
عوامی ریلیف کا سال کا قرار دے کر، ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہ عوام کی حقیقی
ترجمان ہے تاکہ آئندہ الیکشن میں اسے خاطرخواہ فائدہ حاصل ہو۔ حقیقت یہ ہے
کہ پیپلز پارٹی کے چار سالوں کا شمار تاریخ کے بدترین برسوں میں ہوتا ہے۔
ملک میں ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے۔ کرپشن عروج پرہے، جس کا اعتراف خود
پیپلز پارٹی کے وزرا اور ارکان اسمبلی کرتے رہتے ہیں۔
عدالت نے پیپلز پارٹی اور وزیراعظم کے سیاسی شہید بننے کی خواہش پوری نہ
ہونے دی ۔پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ عدالت وزیراعظم کو کئی ہفتے یا کئی
ماہ کی سزا دے گی اور اس کو بنیاد بنا کر ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا
جائے گا ،لیکن عدالت نے سنجیدگی اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیپلز
پارٹی کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملادیا ۔ یہ بات طے ہے کہ وزیراعظم کے
خلاف فیصلے کے بعد حکومت کی پوزیشن انتہائی متنازع ہوچکی ہے اس کا بہترین
حل وزیراعظم کا استعفاہے ۔
وزیراعظم کو مجرم قرار دیے جانے کے بعد ،مسلم لیگ (ن )کی جانب سے لانگ مارچ
کی دھمکی اور پیپلزپارٹی سندھ کے صدر قائم علی شاہ کی جانب سے لاہور تک
مارچ کی دھمکی ،دراصل سیاسی بحران میں اضافے کا واضح اشارہ ہے اور آئندہ
چند روز میں اس میں مزید شدت آئیگی ،جس کا نتیجہ کسی بڑے تصادم کی شکل میں
بھی نکل سکتا ہے۔ تاہم موجودہ صورت حال میں پیپلزپارٹی کی خواہش یہی ہوگی
کہ وہ وزیراعظم کی سیاسی شہادت کے بعد ،نئے انتخابات کا اعلان کرے جو ستمبر
یا اکتوبر میں متوقع ہوں گے۔اس کے لیے پیپلزپارٹی ماحول کا باریک بینی سے
جائزہ لے گی اور ماحول مناسب ہونے کی صورت میں از خود انتخابات کا اعلان
کرے گی۔ بصورت دیگر پیپلزپارٹی کی یہ خواہش ہوگی کہ مارچ2013ءتک معاملے کو
اسی طرح چلایا جائے اور اس دوران موجودہ وزیراعظم کی نااہلی کے بعد، نیا
وزیراعظم منتخب کروایا جائے۔ تاہم ایسی صورت میں پیپلزپارٹی کو اتحادیوں کی
جانب سے کڑی شرائط کا سامنا کرناہوگا، جو پیپلزپارٹی کے لیے آئندہ انتخابات
میں مشکلات کا سبب بنے گا۔عدلیہ نے وزیراعظم کو ملزم ثابت کرنے تقریباً
4سال لگائے اور ملزم سے مجرم بننے میں 102 دن لگے ہیں ،جبکہ مجرم سے نااہلی
تک کے سفر میں بظاہر زیادہ سے زیادہ120 دن ہیں، لیکن اگر کسی نے وزیراعظم
کی موجودہ پوزیشن کو عدالت میں چیلنج کیا تو بعید نہیں کہ یہ مدت مزید
مختصر ہوجائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ قوم کے مبینہ قائدین اس بدترین سیاسی
بحران سے ملک کو کیسے بچاتے ہیں؟ |