جب سے مسلمان خلافت عثمانیہ کی
نعمت سے محروم ہوئے،ان پرمعدودے چندحکمرانوں کے اکثرایسے ضمیرفروش حکمران
اوربادشاہ مسلط ہوتے رہے،جوہرچڑھتے سورج کوسلام کرتے ہوئے غیروں کے لیے
استعمال ہوتے اوراپنوں استحصال کرتے رہے۔اب بھی یہی صورت حال ہے اورمسلمان
حکومتیں عرصہ اقتدارمیں اضافے اورڈالروں کے عوض بڑی آسانی سے امریکہ کے
مفادات کے لیے کام کرتی اوراسے اس کے توسیع پسندانہ مذموم عزائم کی تکمیل
کے لیے ہرقسم کی کو یہ سہولت فراہم کرتی ہیں۔ان حکومتوں اورحکمرانوں کو
امریکی چاکری کے بدلے میں چند سال مزیددولت اکٹھی کرنے کے لیے مل جاتے ہیں
اور پھر وہ یہ دولت اپنے آنے والی سات نسلوں کے حوالے کر جاتے ہیں۔یہ اور
بات ہے کہ امریکہ اتنا لحاظ، پاس بھی نہیں کرتا کہ اپنے غلاموں کی پردہ
پوشی کر لے۔ سچ بھری دنیا میں منہ پر دے مارتا ہے۔ بھری بزم میں راز کی
باتیں اگل دیتا ہے۔ اپنا کام نکال کر ان حکمرانوں کو گولی یا سولی کی خوراک
بنا دیتاہے اور اپنے ان ''شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار''قسم کے دوستوں کو دو
گز زمین بھی کوئے یار میں لینے نہیں دیتا۔ شاہ ایران کی کہانی سامنے ہے!
ہنری کسنجرنے سچ کہاتھا: امریکہ کی دوستی اسکی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے۔
وائس اف امریکہ اور جرمن ٹائمز کے خصوصی شماروں میں شائع ہونے والے فیچرز
میں دنیا بھر کے تجزیاتی افلاطونوں، جنگی ماہرین ومحققین اور اسکالرز کی
اکثریت کے اس تجزئیے اور سچ کی تصدیق کی گئی ہے کہ 9/11 کا تعلق القاعدہ
یامسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ یہ بش کی آئل مافیا کے صہیونی اماموں اور
رزیلوں کا کارنامہ ہے، جو اقوام مسلم کے معدنی وسائل کی ڈکیٹی کی پلاننگ
کرچکے تھے۔مغربی اخبارات میں شائع ہونے والے متن سے یہ سچ برامد ہوتا ہے کہ
یہ کاروائی اسرائیلی ایجنٹوں کا مکروہ کارنامہ ہے۔
9/11کے واقعات کامقصد امریکہ کے استعماری مقاصد کی تکمیل کے لیے زمین
ہموارکرنا تھا،جن میں وسط ایشیا کی ریاستوں کے تیل اور گیس کے راستوں کو
اپنے کنٹرول میں لینا، پاکستان کی معیشت تباہ کرنا،پاکستان کو غیر مستحکم
کرنا، پاکستان میں غربت بے روزگاری اور مہنگائی کو فروغ دینا،پاکستان کا
جغرافیائی نقشہ تبدیل کرنے کی کوشش کرنا،پاکستان کے عوام اور افواج پاکستان
کے درمیان عدم اعتمادکی فضا پیدا کرنا، خطے میں بھارت کی بالادستی قائم
کرنا،پاکستان کو دنیا میں دہشت گرد ملک کی حیثیت سے اور اسلام کو دہشت گرد
مذہب کی حیثیت سے پیش کرنا شامل ہیں۔
9/11کے فوراًبعد ایک کال پر ڈھیر ہو کر پاکستان کو تباہ کن فیصلے کی بھینٹ
چڑھا دیاگیا۔ایک آمرمطلق کے فیصلے پراشرافیہ کی طرف سے کوئی صدائے احتجاج
تک بلندنہ ہوئی۔قوم کوکہاگیااس فیصلے کے بعدڈالروں کاسیلاب آئے گا،دودھ
اورشہدکی نہریں بہیں گی،خوش حالی کادوردورہ ہوگا۔ہماری اشرافیہ ،جو بزنس
کمیونٹی ،بیوروکریسی، وڈیروں،جو دولت لوٹنے ولوں، ٹیکس چوروں،قرضے معاف
کرانے وا لوںپرمشتمل ہے،اس نے یہ سوچ کرکہ اگر امریکہ سے اس جنگ کے لیے
پیسے آنا شروع ہوجاتے ہیں تو ہمیں بھی ٹیکسوں میں مراعات ملیں گی اورہم سے
کوئی حساب نہیںلیاجائے گا،اس غلط فیصلے پرچپ سادھ لی۔ستم ظریفی دیکھیے کہ
منتخب حکومت نے بھی آمرمطلق کی پالیسیوں کو نہ صرف جاری رکھا،بلکہ امریکہ
کی نمک حلالی میں اس سے بھی کہیں آگے بڑھ گئے۔
امریکی دانش ورنوم چومسکی نے درست کہا تھا: امریکہ نے پاکستان کی اشرافیہ
کو خرید لیا ہے۔یوں غیروں کی جنگ ہم نے اپنے ملک میں درآمدکرلی۔ یہ پاکستان
کی تاریخ کا بد ترین فیصلہ تھا ،جس نے ہمیں تباہی، بربادی، کشت و خون، اللہ
تعالیٰ کے غضب،غربت و مسکنت کی ایسی دلدل میں دھکیل دیا،جس سے نکلنے کے
بظاہرکوئی آثارنظرنہیں آرہے ہیں۔
ہماراملک اس سے قبل خودکش حملوں کی اصطلاح سے نابلدتھا،اب ان حملوں کی
آماجگاہ بن گیا۔
ہم کسی داخلی انتشاراورعلیحدگی کی تحریک کاشکارنہیں تھے،اب جس طرف دیکھیے
علیحدگی کی تحریکیں اورنہ ختم ہونے والاداخلی انتشارنظرآتاہے۔
ہم ڈرون طیاروں اورحملوں سے ناواقف تھے، امریکی تھنک ٹینک نیو امریکن
فاونڈیشن کے مطابق 18جون2004میں پاکستان میں جنوبی وزیرستان کے وانا کے
مقام پر پہلا امریکی ڈرون حملہ کیا گیا ،جس میں نیک محمد سمیت چار عسکریت
پسند شہید ہوئے۔ لندن کے تھنک ٹینک بیورو انوسٹی گیٹو جرنلزم کے مطابق
امریکی صدر اوباما کے منصب صدارت پر براجمان ہونے کے بعد پاکستان میں
اوسطاً ہر چار دن کے بعد ڈرون حملہ کیا گیا۔اب یہ عالم ہے کہ میڈیارپورٹوں
کے مطابق پاکستان میں اب تک 309امریکی ڈرونز حملوں میں 3ہزارست زائدلوگ
شہیدہوچکے ہیں۔ اوبامادور میں 257ڈرونز حملے کئے گئے۔2004سے2007کے
دوران9ڈرونز حملوں میں109افراد،2008میں34ڈرونز حملوں میں296 افراد،2010میں
132ڈرونز حملوں میں938افراد جاںبحق ہوئے ۔2010تک پاکستان میں228ڈرونز حملے
کیے گئے جس میں2052افراد جاںبحق ہوئے۔صرف 2011میں76حملے ہوئے،جن میں 175بچے
جاں بحق ہوئے۔ صرف دو قبائلی ایجنسیوں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں 250سے
زائد حملے کیے گئے۔ موجودہ حکومت سے قبل صرف 11ڈرون حملے ہوئے جن میں
132افراد جاںبحق ہوئے، جب کہ اس کے بعدڈرونز حملوں میں 2454افراد جاںبحق
ہوئے۔
یہ کون تھے ،جن کایوں بے دردی سے خون بہایاگیا؟ان میں سے اکثراس پاک وطن کے
امن پسندمعصوم شہری تھے۔یہ صرف ہمارادعویٰ نہیں ،بلکہ امریکہ خودبھی
بارہااس بات کااعتراف کرچکاہے۔اس قدرنقصان کے باوجود،ہم ڈرون گرانے کی
صلاحیت سے مالامال ہوکربھی اس کوگراناتودرکنارالٹاڈرون ٹیکنالوجی مانگ کر
اپنے جھنڈے تلے زرداری صاحب نے کارروائیاں کرنے کی منت سماجت کی ہے۔ معاف
کر دیجیے زرداری صاحب،اس سبزہلالی پرچم کو جو آپ سب کے ہاتھوں سبز سے سرخ
ہو چکا،مزیدسرخ نہ کیجیے۔
اس سے قبل پاکستانی قوم، حکومت اور فوج پرطالبان، القاعدہ یا اس کے کسی
گروپ کی جانب سے حملے نہیں ہورہے تھے،امریکہ نے ہمیں آپس میںاس ہوشیاری سے
دست وگریبان کردیاکہ خودہی قاتل اورخودہی مقتول والی صورت حال ہے۔ایرک میسی
نے اپنے مقالے بعنوان'' مستقبل کا ابھرتا پاکستان ''میں لکھا ہے کہ
پاکستان40 ہزر پاکستانیوں کی ہلاکت اور50 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرچکا
ہے۔جاںبحق شدگان میں5 ہزار سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔8ہزار معذور ہوئے۔
جس مسلمان کی جان ومال ،عزت وآبروکواللہ کے آخری نبی ۖ نے خانہ کعبہ سے بڑھ
کرقابل حرمت قراردیاہے،ہم نے محض ڈالروں کے لالچ میں انہیں چوہے بلی کاکھیل
کھیلتے ہوئے پکڑپکڑکرخونی قاتل کے حوالے کردیا۔
یہ پاکستانی ایجنسیاں ہی تھیں،جنہوں نے امریکی خواہش کے مطابق ان مسلمان
مجاہدین کا پیچھا کیا،انہیں گرفتار کیا اور ا ن کو امریکا کے حوالے بھی
کیا۔حالانکہ ان میں سے کوئی بھی پاکستان کو مطلوب نہیں تھااور نہ ہی انہوں
نے یہاں کوئی جرم کیا تھا۔مجاہدین کورکھیے ایک طرف،قوم کی عفت مآب بیٹی
حافظہ قرآن کیمسٹری کی سائنسدان محترمہ عافیہ صدیقی کاکیاقصورتھا،جسے ہم نے
امریکہ کے حوالے کیا،آج میری یہ عزت مآب بہن ہماری اجتماعی بے حسی کاخمیازہ
86سالہ قیدکی صورت میں بھگت رہی اورکینسرجیسے موذی مرض کاشکارہوچکی ہے۔سابق
آمرتوٹھہراہی ضمیرفروش،دخترمشرق کی قبرپراپنی ساسی دکان چمکانے
اوراختیارواقتدارکے مزے لوٹنے والے عوامی نمائندگی کے دعوے دارحکمرانوں نے
کیاکیا؟آج نیٹوسپلائی بحالی کے لیے ناک رگڑنے پرآمادہ امریکہ سے قوم کی اس
محتر م بیٹی کوکیوں نہیں مانگاجاتا؟کیاہم میں صلیب کے پجاریوں جتنی بھی
قومی حمیت نہیں،جنہوں نے اپنے ایک شہری کے لیے،جوبین الاقوامی قاتل درندہ
تھا،تمام اصول بالائے طاق رکھ دیے اورہمارے سرکواپنے پیروں تلے روندکراسے
لے گئے تھے۔بے حسی کاکوئی حدسے گزرنادیکھے!
اس سے قبل ملک کاکوئی شہری یوں دن دھاڑے لاپتانہیں ہوجاتاتھا،مگراب جوحالت
ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔عیاں راچہ بیاں۔
اب آئیے!ذرایہ دیکھیں کہ کیاواقعی امریکہ کی دوستی سے ڈالروں کاہن برسنے
لگاہے؟
امریکی کانگریس کی دستاویز کے مطابق نیویارک میں ہونے والے 9/11کے حملوں کے
بعد اسلام آباد نے سویلین امداد کی مدمیں 6ارب ڈالر وصول کیے، جبکہ اوبامہ
انتظامیہ نے تازہ ترین سالانہ بجٹ میں فوجی امداد ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر
اور سو ملین امداد کی مد میں ایک ارب40کروڑ ڈالر تجویز کی ہے۔ اس طرح نائن
الیون کے بعد پاکستان کو ملنے والی امداد20ارب 70کروڑ سے زائد بنتی ہے۔
معروف ماہرمعاشیات ودانش ور ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کاکہناہے:
امریکہ نے جو نائن الیون کے بعد جنگیں لڑی ہیں، اس میں امریکہ کے اخراجات
ایک ہزار اڑتالیس ارب ڈالر ہیں اور ہمارے نقصانات 56ارب ڈالر ہیں جس کا
ہمیں امریکہ نے ڈیڑھ فیصد بھی نہیں دیا ۔ اس سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے
گی۔
لیجیے!یہ ہے وہ ڈالروں کی برسات،جس کانتیجہ یہ ہے کہ دنیا کی پانچویں بڑی
جوہری طاقت جوکسی بھی استعماری قوت وطاقت کا غرورتوڑنے اوراس کی رگوں میں
دوڑنے والے خون کوخشک کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی تھی، آج ایک طرف ڈرون جیسے
پتنگے کے سامنے بے بس ہے،تودوسری طرف قوم کا سارا بجٹ ہضم کر کے گھاس کھانے
پر مجبور کر دینے کے باوجود فضائیہ اور عسکری قوت کا ہدف اور بھی اپنے ہی
غریب ترین علاقوں کے طول و عرض ہیں۔یہ امریکہ جیسے خونی قاتل سے رشتہ غلامی
استوارکرنے کانتیجہ ہے کہ ملک کے شمال میں آگ لگی ہوئی ہے،ملک کارقبے کے
لحاظ سے سب سے بڑاصوبہ بلوچستان ''تنگ آمدبجنگ آمد''کی پوزیشن پرآچکاہے،ملک
کامعاشی حب کراچی ٹارگٹ کلنگ کے عفریت کے منہ میں اوربھتہ خوروں کے رحم
وکرم پرتوتھاہی،اب آپریشن کے نام پرپھریہاں کے باسی ''نوٹرننگ
پوائنٹ''پرلاکھڑے کردیے گئے ہیں۔وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کہتی ہے: آج ایک
مرتبہ پھر پاکستان 9/11کی طرح فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے ۔
افغانستان کی دلدل میں پھنسا امریکہ تھک ہار گیا ہے، اس کو وہ اہداف حاصل
نہیں ہوئے جو اس نے افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کے حوالے سے
مقرر کیے تھے،جس کاانتقام اب وہ پاکستان کوعدم استحکام کاشکارکرکے
لیناچاہتاہے اورہمارے حکمران ہیں کہ اب بھی ''یس سر''سے آگے کچھ سوچنے کے
لیے تیارنظرنہیں آتے۔انہیں تو بس اس بات سے غرض ہے کہ جو قلمدان ملا ہوا ہے
یہ پکا رہے۔ آخرقوم کب تک امریکی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہے گی؟ ہم کب
تک امریکہ کے سامنے کشگول لٹکاتے رہیں گے؟ قرضوں کا شکنجہ کب تک ہماری
گردنیں جکڑتا رہے گا؟ ہم کب تک ڈرون کی ظلمت سہتے رہیں گے؟
ہماری بیوکریسی اورحکومت کوجلدیابدیریہ اعتراف کرناپڑے گا کہ امریکہ
پاکستان سمیت عالم اسلام کا دشمن ہے۔ یہ پاکستان کی جنگ نہیں،بلکہ وہ
امریکی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اس اتش گیر جنگی
جہنم سے جلد از جلد باہر نکلے۔ورنہ یہی جہنم کہیںسب کچھ بھسم کرکے نہ رکھ
دے ۔
اٹھووگرنہ حشرنہیں ہوگاپھرکبھی
دیکھوزمانہ چال قیامت کی چل گیا |