دستاویز کا ادبی رسائل و جرائد نمبر - اک ولولہ نو کی طرح

جناب عزیز نبیل کی زیر ادارت دستاویز(دوحہ/دہلی) کا "اردو کے اہم ادبی رسائل و جرائد نمبر-2011 ۔2012 " شائع ہوگیا ہے ۔750 صفحات پر مشتمل سالانہ عالمی اردو ادب کے سلسلے کی اس اہم ترین کڑی کو محض ایک ادبی مجلہ کہنا درست نہ ہوگا، گزشتہ ایک سو دس برس پر مشتمل اردو زبان کے ادبی رسائل و جرائد کا احاطہ کرتی یہ ایک تاریخی دستاویز ہے ۔ اس سے قبل سال 2011 میں دستاویز کا پہلا مجلہ شائع ہوا تھا۔

بقول شخصے اتنا ضخیم پرچہ نکالنا اپنے آپ پر پرچہ دینے کے مترادف ہے!
 

image

مذکورہ شمارے میں اردو کے اہم جرائد سے منتخب مضامین شامل کیے گیے ہیں۔ آغاز شیخ عبدالقادر کے مخزن کے پہلے شمارے سے ہوا ہے جو 1930 میں منظر عام پر آیا تھا جبکہ شب خون کے جون 1966میں شائع ہونے والے اولین شمارے پر اختتام کیا گیا ہے۔ زیر نظر تحریر کی مدد سے اس پرچے کی ایک ہلکی سی جھلک ہی دکھانا ممکن ہے۔ دوحہ قطر میں بیٹھ کر یہ جناتی کام کیسے کیا گیا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ پاک و ہند میں رابطوں کو متحرک کیے بغیر یہ کام ناممکن تھا، گمان ہے کہ اس کام کے لیے نیک نیت اشخاص پر مبنی ایک گروہ نے اپنا آپ مدیر اعلی کو سونپ دیا ہوگا، مختلف کتب خانوں میں جاکر جرائد کے نایاب نسخے حاصل کیے ہوں گے اور ان کی نقل بنوا کر سائل کو روانہ کیا ہوگا۔عام آدمی سے اس کی امید رکھنا عبث ہے، یہ تو دیوانوں کے کرنے کا کام ہے۔ اردو کے تمام اہم ادبی جرائد و رسائل کے سرورق کے عکس بھی مجلے میں شامل کیے گئے ہیں۔ دستاویز کے اس شمارے میں پاک و ہند کے جن مشاہیر ادب کی تخلیقات کا انتخاب کیا گیا ہے ان میں علامہ اقبال، داغ، سیماب اکبر آبادی، استاد اختر انصاری اکبر آبادی، خواجہ حسن نظامی، حالی، شاد عظیم آبادی، راشد الخیری، وحشت، یھانہ، نیاز فتحپوری، اکبر، حسرت، جوش، فانی، اختر شیرانی، مجاز، اخترالایمان، منٹو، عصمت چغتائی، قرة العین حیدر، ماہر القادری، فیض، فراق، ناصر کاظمی، سردار جعفری، میرا جی، مجروح، محی الدین قادری زور، غیاث احمد گدی، قدرت اللہ شہاب، احتشام حسین، احمد ندیم قاسمی اور وزیر آغا شامل ہیں۔

پرچے کے اولین صفحے پر موضوع کی مناسبت سے حفیظ میرٹھی کا یہ شعر اپنی بہار دکھا تا نظر آتا ہے:
اف یہ جادہ کہ جسے دیکھ کے جی ڈرتا ہے
کیا مسافر تھے جو اس راہ گزر سے گزرے
 

image

زیر موضوع مجلے میں اردو کے جن رسائل و جرائد سے نثر و شاعری پر مبنی انتخاب شامل کیا گیا ہے ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:

مخزن۔ لاہور / دہلی اجرائ: اپریل 1930
زمانہ ۔ کانپور اجرائ: فروری 1930
عصمت ۔ دہلی/کراچی قاجرائ: جون 1908
الناظر۔لکھنو اجرائ: 1909
علی گڑھ میگزین اجرائ: 1920
ہمایوں۔ لاہور اجرائ: جنوری 1921
نگار ۔ بھوپال/ لکھنو/ کراچی اجرائ: اپریل 1903
نیرنگ خیال۔لاہور/ راولپنڈی اجرائ: جون 1924
ادبی دنیا ۔لاہور اجرائ: مئی 1929
ساقی۔دہلی / کراچی اجرائ: جنوری 1930
شاعر۔آگرہ/ ممبئی اجرائ: فروری 1930
ادب لطیف۔لاہور اجرائ: مارچ 1935
ایشائ۔میرٹھ /ممبئی اجرائ: اگست 1935
سب رس۔حیدرآباد دکن اجرائ: جنوری 1938
آج کل۔دہلی اجرائ: نومبر 1942
افکار۔بھوپال/کراچی اجرائ: ا پریل 1945
سویرا۔لاہور اجرائ: جنوری 1947
نقوش۔لاہور اجرائ: مارچ 1948
ماہ نو۔کراچی اجرائ: 1948
شاہراہ۔ دہلی اجرائ: 1949
تحریک ۔دہلی اجرائ: مارچ 1953
نیا دور۔لکھنو اجرائ: اپریل 1955
سوغات۔بنگلور اجرائ: 1959
فنون۔لاہور اجرائ: 1963
سیب۔کراچی اجرائ: ستمبر 1964
اوراق۔لاہور اجرائ: جنوری 1966
شب خون۔الہ آباد اجرائ: جون 1966
 

image

الہ آباد یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی صدر ڈاکٹر زیب النساءنے اپنے مضمون میں جن پاکستانی جرائد کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے ان میں آئندہ ، ادبیات، دنیا زاد، آج، اجرائ، اسالیب، الحمرائ، تخلیق، چہارسو، بادبان، سمبل، مکالمہ، روشنائی، سویرا، ارتقائ، ماہ نو، قومی زبان، جریدہ، تسطیر، خیال، نقاط، ادب لطیف، فنون، نیرنگ خیال، نگار، اردو نامہ، بیلاگ، تجدید نو، ادب دوست، معاصر، انشائ، کاغذی پیرہن، سفید چھڑی، الاقربا، عطاءاور اجمال شامل ہیں۔

دکن سے تعلق رکھنے والے میرے کرم فرما جناب اعجاز عبید اردو کی برقی کتابیں کے تحت ایک دنیا بسائے بیٹھے جہاں موجود کتابیں ” متن۔ کاپی لیفٹ۔ حوالے کے ساتھ نقل کرنے کی مکمل اجازت ہے۔“ کی معصومانہ سی شرط کے ساتھ دستیاب رہتی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اس شرط کو اکثریت نظر انداز کرجاتی ہے۔ اعجاز عبید نے اپنے مضمون ” آن لائن ادبی رسائل و جرائد“ میں انٹرنیٹ پر دستیاب ادبی جرائد ، بلاگز اور مختلف ویب اوراق کا جائزہ پیش کیا ہے۔ مذکورہ مضمون میں آن لائن جرائد کو مختلف زمروں میں نہایت موزوں طریقے سے تقسیم کیا گیا ہے یعنی وہ جرائد جو کلیتا ادبی ہیں، وہ جو رنگا رنگ نوعیت کے ہیں لیکن جن میں ادب کا گوشہ بھی موجود رہتا ہے، وہ جرائد جو پرنٹ اور انٹرنیٹ دونوں پر موجود ہیں اور وہ جرائد جو محض انٹرنیٹ ہی پر موجود ہیں۔ ان جرائد میں شامل نام یہ ہیں۔ سمت، دیدہ ور، شعر و سخن، کائنات، تخلیق نو، ادب لطیف، جدید ادب، دستاویز، اثبات، اردو کیمپس، کسوٹی جدید، نیا ورق، اسالیب، دستک، تحریر نو، مضراب، الا قربا ،، بزم سہارا، گلدستہ، سنگت، اردو دنیا، فکر و تحقیق، وسیلہ، سب رس، سائبان، حیات، اردو امکانات۔
 

image

محی الدین قادری نے اپنے اہم مضمون ” اردو کے علمی و ادبی رسائل“ میں اردو زبان میں شائع ہونے والے جریدوں کی تاریخ بیان کی ہے اور ان رسائل کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ ان کے مطابق پہلے دور کا آغاز 1850 میں اخبار خلائق، خیر خواہ ہند، محب ہند، نور علی نور، تحفتہ الحدائق، تعلیم الخلائق، زبدة الاخبار، سراج ا لاخبار،سید الاخبار، مظہر الاخبار اور اعظم الاخبار سے ہوا تھا۔

دستاویز کے اس شمارے میں برصغیر کے معاصر ادبی رسائل کے مدیران سے انٹرویو بھی لیے گئے ہیں جن میں یکساں نوعیت کے سوالات پوچھے گئے ہیں۔ مدیران میں ماہنامہ شاعر ممبئی کے افتخار امام صدیقی، ماہنامہ آج کل دہلی کے ڈاکٹر ابرار رحمانی، ماہنامہ کتاب نما دہلی کے ڈاکٹر خالد محمود، ایوان اردو دہلی کے انیس اعظمی، سہ ماہی آج کراچی کے اجمل کمال، پرواز وسفیر اردو کے سید معراج جامی، رنگ دھنبا جھار کھنڈ کے مشتاق صدف، کسوٹی جدید کے انور شمیم، عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کے ارشد خالد، جدید ادب جرمنی کے حیدر قریشی، اور سہ ماہی اثبات ممبئی کے اشعر نجمی شامل ہیں ۔ مختلف مدیروں نے ’ کیا کسی ادبی رسالے کا مدیر ہونے کے لیے شاعر یا ادیب ہونا ضروری ہے؟ “ اور ” کیا آپ کو اپنے رسالے کے زیادہ تر نسخے اعزازی طور پر روانہ کرنے پڑتے ہیں“ جیسے دلچسپ سوالات کے جوابات بھی دلچسپ اور مختلف النوع دیے ہیں۔
 

image

دستاویز کے آخر میں چوبیس صفحات پر مشتمل ” اردو کے اہم ادبی رسائل و جرائد کا اشاریہ“ مرتب کرکے ایک نہایت اہم کام سرانجام دیا گیا ہے۔ یہ اشاریہ 600 ادبی رسائل و جرائد پر مشتمل ہے۔ اشاریے میں شامل نام رسالہ، مقام اشاعت، وقفہ اشاعت، جاری یا موقوف ، سن اجرائ، مدیر اول اور موجودہ مدیر/آخری مدیر جیسی نایاب معلومات کو یکجا کردیا ہے ۔

دستاویز کے مدیر اعلٰی اپنے اداریے میں کہتے ہیں ” ہم نے گزشتہ شمارے میں وعدہ کیا تھا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ ہر شمارہ ایک مختلف دستاویز ہو، اپنی مثال آپ ہو، ہم اپنی کوشش میں کہاں تک کامیاب ہو سکے ہیں ، یہ فیصلہ اب آپ کے ہاتھوںمیں ہے۔“

مدیر محترم کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جہاں اردو زبان کا مستقبل کچھ غیریقینی سا ہے، اردو زبان سے محبت اور وابستگی و پابستگی کی تمام منزلیں تو آپ طے کرگئے ہیں، گمان ہے کہ اس دوران شاید آپ اور آپ کے آشفتہ سر رفقاءنے اردو کی محبت میں ’ وہ قرض بھی اتار ڈالے ہوں جو واجب بھی نہیں تھے ‘۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اس کے عوض جو ’دام‘ آپ کو اردو سے محبت کرنے والے قاری کی جانب سے ملیں گے، ان کا کوئی مول ہوگا نہیں۔ ۔۔۔فیصلہ تو کب کا ہوچکا، راقم کے یہ چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ شاید پہلا رد عمل کہلائیں کہ پرچہ کل ہی موصول ہوا ہے، دنیا بھر سے ستائش کا آنا باقی ہے، خلوص نیت پر قبولیت کی مہر ثبت ہوتی ابھی سے نظر آرہی ہے۔
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300441 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.