پختونوں کے بارے میں الطاف حسین کا مدلل نظریہ

متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف بڑی شد ومد سے پروپیگنڈا کیا جاتا رہا کہ الطاف حسین پختون قو م کے شدید مخالف اور کراچی سے پختونوں کی بیدخلی چاہتے ہیں۔عام لوگ جو حقیقت سے نا آشنا تھے وہ اس پروپیگنڈے کا بری طرح شکار ہوجاتے اور حقیقت کو تلاش کرنے کے بجائے فرسودہ مفروضات پر اپنے شکوک کی عمارت کو تعمیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوجاتے تھے ۔ راقم الحروف ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی حالات زندگی کا مطالعہ کر رہا تھا، کتاب "سفرزندگی، ایم کیو ایم کی کہانی الطاف حسین کی زبانی "میں اپنی سیاسی اور تحریکی جدوجہد کا سہل انداز میں تذکرہ کرتے ہوئے الطاف حسین کہتے ہیں کہ "ہماری تحریک کےخلاف استحصالی طبقہ نے اور ان مخصوص سیاسی و مذہبی جماعتوں نے جن کی ساکھ ایم کیو ایم کی وجہ سے ختم ہوگئی ہے یہ پروپیگنڈا کیا ہے کہ ہم سندھ میں رہنے والے پنجابیوں اورپختونوں کے خلاف ہیں ۔ہماری قرارداد مقاصد میں یہ بات موجود ہے کہ جو شخص سندھ میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہے(خواہ وہ پنجابی ہو ، خواہ پختون ہو) جو کماتا ہو یہیں خرچ کرتا ہو اس کو بھی ہم مقامی کی تعریف میں شامل کرتے ہیں اور اس کا بھی سندھ پر اتنا ہی حق ہے جتنا کسی سندھی یا مہاجر کا ہے۔

الطاف حسین مزید کہتے ہیں کہ "یہ بات نہیں ہے کہ ہم صرف سندھیوں اور مہاجروں کی بات کر رہے ہیں بلکہ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ سندھ میں رہنے والے پنجابی اور پختون جو اپنے خاندان کے ساتھ یہیں رہتے ہیں یہی کماتے ہیں یہیں کھاتے ہیں، جن کا اس دھرتی سے مستقبل وابستہ ہے ، جنہوں نے اپنا مستقبل اسی سر زمین سے وابستہ کیا ہوا ہے ۔ ان کا اس پر وہی حق ہے جو سندھیوں اور مہاجروں کا ہے۔اس ضمن میں اپنے ان پنجابی، پختون بھائیوں سے جنھوں نے سندھ کی سر زمین کو اپنا بنا لیا ہے ، ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ اب چونکہ آپ سندھ میں رہتے ہیں اس لئے اپنا رشتہ سندھ سے جوڑیں اور سندھ کا جو استحصال کیا جارہا ہے ۔ سندھ کے ساتھ جو ناانصافیاں کیں جا رہیں ہیں ان پر آپ سندھ کے نمائندہ کی حیثیت سے آواز بلند کریں، نہ کہ آپ اپنا رشتہ پنجاب یا سرحدسے جوڑیں اور وہاں کے مفادات کو سندھ کے مفادات پر ترجیح دیں۔بہت سے ایسے لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم سرحدمیں جاکر یہ بات بتائیں گے ، ہم پنجاب جاکر وہ بات بتائیں گے۔ آخر کیوں ؟ آپ سندھ میں ہیں ، تو آپ کو کیا ضرورت ہے کہ پنجاب یا سرحدجا کر اپنا مسئلہ پیش کریں۔ اگر آپ کو یہاں کوئی شکایت درپیش ہے تو آپ یہاں کے مقامی لوگوں سے ہی مل کر بات کریں کیونکہ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ کو سندھ میں رہنا ہے اور آپ نے سندھ ہی سے اپنا رشتہ استوار کر لیا ہے تو پھر سندھ کے معاملات میں دوسروں کی مداخلت کو دعوت دینا سندھ کی حیثیت کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔الطاف حسین نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ "ساتھ ہی ساتھ میں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ ہم مہاجروں اور سندھیوں کے لئے جن حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں انہی حقوق کا مطالبہ سندھ میں آباد ایسے پنجابی اور پختونوں بھائیوں کےلئے بھی کر رہے ہیں جن کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔جب سندھیوں اور مہاجروں کوتمام حقوق ملیں گے تو ان لوگوں کے لئے بھی کریں گے۔

یہی وہ اصل وجوہات ہیں جیسے نام نہاد قوم پرست اٹھانوے فیصد محروم طبقوں سے پوشیدہ رکھ کر نفرتوں کی فصیل کو قائم کرنا چاہتے ہیں۔میں جب ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر اینس احمد قائم خانی کی سرگذشت "میرا قائد"کتاب کے ایک ایک ورق کو الٹتا تو میرے چہرے کا رنگ بدل جاتااور جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے کہ استحصالی قوتوں کے ظلم و ستم کو برداشت کے تصور کرنا ہی بڑے حوصلے کاکام ہے، سیف ہاﺅس ، اڈیالہ جیل اور سی آئی اے سینٹر میں انسانیت سوز تشدد،جسم کے نازک حصوں کو جلانااور بغیر مقدمات چلائے سرکاری ٹارچر سیلوں میں سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے خلاف غداری کے لئے مجبور کرنے کے واقعات کو پڑھتے ہوئے دل مسوس سا ہوجاتا ہے کہ آفرین ہے ایسے نظریاتی کارکنان پر جنھیں ان کے مقصد سے ہر طرح کا ظلم ، لالچ نہیں ہٹا سکی۔جب ''میراقائد"کو پڑھ رہا تھا تو ایسا الگ رہا تھا کہ جیسے کسی زمانہ جاہلیت کی روایات کا ذکر یا کسی دیو مالائی داستان کا ذکر ہو رہا ہے۔پوری کتاب میں ظلم و ستم کے تذکرے میں عزم اور حوصلے اور اس روحانی قوت کو محسوس کیا نظریاتی طور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے شب و روز فکری نشستوں سے اپنے رفقاءکو مضبوط کیا تھا۔ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رکن سلیم شہزاد کی تصنیف کردہ کتاب "لندن میں الطاف حسین کے شب وروز"کو پڑھنے کے بعد بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جس تحریک کا قائد اس قدر متحرک،ملنسار اور سادہ نشین ہو اور اس کے رفقا ءاس قدر نامساعد حالات کے باوجود اس قدر ثابت قدم ہیں تو یہ اس تربیت کا ہی نتیجہ ہے جس کی وجہ سے کروڑوں انسان اپنے قائد سے والہانہ وار عقیدت رکھتے ہیں۔جس نے الطاف حسین کو دیکھنا ہو تو وہ "لندن میں الطاف حسین کے شب وروز" اور جنھیں ان کے تربیت یافتہ ساتھیوں کی عمل زندگی کو سمجھنا ہو نائن زیرو میں سادگی کی اس تصویر کو دیکھ لیں جس کے لبوں پر ہر وقت مسکان رہتی ہے لیکن تحریکی زندگی کی رونگٹے کھڑی کردینے والی روائیداد "میراقائد"کی تحریری صورت میں موجود ہے۔

ان حوالے جات کا بنیادی مقصد سندھ میں رہنے والے تمام قومیتوں بالخصوص پنجابی او پختونوں کو یہ باور کرانا ہے کہ ایم کیو ایم کسی مخصوص قوم کے خلاف وجود میں نہیں آئی تھی کہ مفادپر ست عناصر کیجانب سے پروپیگنڈوں کا شکار ہو کر ہم قومیتوں کے درمیان نفرتوں کو بڑھاتے رہیں اور دو فیصد حکمران طبقہ جو صرف جاگیرداروں، وڈیروں ، سرداروں، صنعتکاروں اور خوانین پر مشتمل ہے اور ملک کی اٹھانوے فیصد محروم عوام کو اپنا غلام بنانے میں مصروف ہیں۔کیا ہم نہیں جانتے کہ ہم جنھیں اپنے ووٹوں سے منتخب کرتے ہیں تو ان سے اپنے مسائل کے حل کےلئے بھکاریوں کے طرح ان کے شاہی محلات کے باہر گھنٹوں گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں اور صرف چند سیکنڈ کی ملاقات کے لئے سفارشیں ، رشوتیں اور منت سماجت کرتے رہتے ہیں۔ ایک چھوٹی سے ملاقات کےلئے پولیس اور سیکورٹی گارڈز کے ڈنڈے اور ان نام نہاد لیڈروں کے چمچوں کی گالیاں سنتے ہیں کیا آپ کے قیمتی ووٹ سے منتخب ہونے والے کا سلوک غریب ووٹر کے ساتھ ایسی سلوک کا متقاضی ہے۔

جبکہ ہم کسی ایسے شخص کی بات کا اعتبار کیونکر کرسکتے ہیں جو سر پر رکھتا تو قرآن ہو لیکن اپنے فقے اور مذہب کو بدبو دار کہتا ہو۔منافقت اور جھوٹ کی تمام تر عمارتیں سچائی کے سامنے ہیچ ہیں اور کوئی ایسا نظریہ جو کسی قوم کو دیوار سے لگانا چاہتا ہو کبھی دیرپا اور مستقل کامیاب نہیں ہوسکتا۔

سندھ میں رہنے والے پختونوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ان کے کندھے پر بندوق رکھ ذاتی مفادات وہ حاصل کر رہے ہیں جن کا کراچی، حیدرآباد اور سندھ سمیت پورے پاکستان میں ذاتی سرمایہ موجود نہیں ہے۔ان کے کاروبار، سعودیہ ، امارات ،دبئی ، ملائیشا ، لندن امریکہ اور دیگر ممالک میں ہیں، جن کے بچے اور اہل خانہ بیرون ملک محفوظ اور پر آسائش زندگی گزار رہے ہیں۔ جو دنیا کے سامنے اپنا پاکستانی پاسپورٹ تو رکھتے ہیں کہ فلاں سال کے بعد کبھی ملائیشا یا امریکہ نہیں گیا لیکن عوام سے اس پاسپورٹ کو مخفی رکھتے ہیں کہ ان کے پاس غیر ملکی شہریت کا پاسپورٹ بھی ہے جس میں ان کے آنے جانے کی تمام تفاصیل موجود ہیں۔پختون عوام کو ٹھنڈے دل سے یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ جب ان کی کئی نسلیں سندھ میں آباد ہیں تو ان کے مفاد بھی ایسی زمیں سے وابستہ ہیں۔کراچی میں روزگار کے لئے آنے والوں کی حیثیت صرف رزق کے متلاشی اور مہمان کی ہے جو اس زمیں پر حق ملکیت کا دعویدار نہیں بن سکتا ۔جب وہ اس زمین پر حق ملکیت کا حق ہی نہیں رکھتا تو پھر اسٹیپلشمنٹ کی جانب سے تنخواہ دار ایسے نام نہاد قوم پرستوں کے آلہ کار کیوں بنتے ہیں جنھیں کسی قوم سے تو کیا اپنی ہم زبان ونسل سے بھی کوئی واسطہ نہیں بلکہ بے گناہ انسانوں کو جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں انسانیت سوز ظلم کا شکار بنا کر اپنے مفادات کو تحفظ دیتے ہیں۔پختون، پنجابی سمیت تمام قومیتوں کو یہ فیصلہ کرنا ناگزیر ہے کہ ہمیں ان دو فیصداستحصالی گروہ سے نجات حاصل کرنی ہے۔

ہمیں ایم کیو ایم کی تمام جدوجہد کو حقیقت پسندی سے دیکھنے کی ضرورت ہے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لاکھوں انسان جس کے گرویدہ ہوں اور اس کے ایک اشارے پر جان نچھاور کرنے کےلئے تیار رہتے ہوں ، جن کے فکری نظریاتی ساتھیوں کو سالوں سال کی استعماری اور ریاستی طاقت دبانے میں ناکام رہی ہو جس کا صبر و تحمل مثالی ہو اور جو خود ایک عام انسان اور کارکن سے بڑھ کر شب وروز غریب عوام کے حقوق کےلئے مصروف ہو ، جس کے نزدیک دن اور رات کا تصور ختم ہوچکا ہو ایسے کیا ضرورت ہے کہ وہ ایک ایسی قوم کے خلاف سرگرم ہو جنھیں صرف اپنے روزگار اور اولاد کے مستقبل کی فکر ہو۔ایم کیو ایم کے کارکنان کو ہزاروں کی تعداد میں ہلاک، زخمی اور لاپتہ کرنے والے سب جانتے ہیں کہ پختون نہیں ہیں تو پھر پختونوں کو اپنے مقاصد کےلئے کیوں یہ نام نہاد لیڈرستعمال کر رہے ہیں ،ضرورت اس بات کی ہے ہم ان لوگوں کا محاسبہ کریں اور ایم کیو ایم کی قوت کو مزید مضبوط کریں کیونکہ ملک کی یہی واحد جماعت ہے جو غریب اور مظلوم اٹھانوے فیصد طبقے کی نمائندگی کرتی ہے جہاں امیر ، غریب کی تفریق نہیں ہے بلکہ اس کی قدر ومنزلت زیادہ ہے جو انسانیت اور بلا امتیاز خدمت پر یقین رکھتا ہو۔ایم کیو ایم پختون ، پنجابی یا کسی بھی قوم کی مخالف کیونکر ہوسکتی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ ان کی قوت ہی مظلوم عوام ہے ۔ ہمیں اس بات کو سوچنا ہوگااور اپنی صفوں میں ایسے لوگوں کو تلاش کرنا ہوگا جو اپنی قوم کا درد اپنے دل میں رکھتے ہوں۔کراچی و حیدرآباد میں اگر ہم خود کو مقامی سمجھتے ہیں تو پھر اپنا سرمایہ اپنے وسائل سب کچھ ایسی دھرتی پر ہی خرچ کرنا ہونگے۔ اگر ہماری سوچ یہ رہی کہ ہمیں واپس اپنے آبائی علاقوں میں جانا ہے تو پھر ہمیں ان قوم پرستوں کا آلہ کار بننے سے گریز کرنا چاہیے جن کا مفاد کراچی تو کیا پاکستان کے ساتھ نہیں ہے۔ ہم اس دھرتی کے باسی ہیں ۔ ہم یہاں کے مقامی ہیں ۔ زبانیں سمجھ اور اظہار کےلئے ہوتی ہیں لاکھوں کی تعداد میں ایسے پختون بھی ہیں جو اپنے ماحول کی وجہ سے پشتو نہیں بول پاتے تو کیا وہ پختوں نہیں کہلائے جائیں گے اس لئے اگر ہمیں سندھی نہیں آتی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سندھ کے رہنے والے سندھی نہیں۔سندھ کے مقامی سندھی تھے اور سندھی ہی رہیں گے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 263377 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.