گزشتہ دنوں آزاد جموں و کشمیر
کونسل اور آزاد جموں و کشمیر احتساب بیورو کے درمیان تنازعہ کی کہانی
اخبارات کی زینت بنی۔احتساب بیورو نے کشمیر کونسل کے جاری آئی ٹی/کمپیوٹرائیزیشن
پراجیکٹ میں خرد برد کی شکایات پر کشمیر کونسل سیکرٹریٹ سے متعلقہ ریکارڈ
طلب کیا ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق کشمیر کونسل نے یہ کہتے ہوئے متعلقہ
ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار کر دیا کہ کونسل آزاد جموں و کشمیر احتساب
بیوروکے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔اس حیران کن موقف کے بارے میں تحقیق سے
معلوم ہوتا ہے کہ سال2001ءمیں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی نے پاکستان میں
قائم نیب کی طرز پر احتساب بیورو کا ادارہ قائم کرنے کے لئے قانون نافذ
کیاجس کے تحت عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کو بھی کرپشن میں ملوث ہونے پر
قابل مواخذہ قرار دیا گیااوران میں کونسل کے ممبران بھی شامل قرار پائے ۔یوں
سردار اختر ربانی کے خلاف بحیثیت ممبر کشمیر کونسل سرکاری رقومات میںمبینہ
خرد بردکے الزامات کا ریفرینس مرتب کیا گیا تھا اور غالبا ً اس سلسلے میں
ان کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی تھی۔ اختر ربانی نے اس کے خلاف آزاد
جموں و کشمیر ہائیکورٹ میں رٹ دائر کرتے ہوئے یہ عذر اٹھایا کہ آزاد جموں و
کشمیر قانون ساز اسمبلی آزاد جموں و کشمیر کونسل کے ملازمین اور ممبران کے
خلاف قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی۔
آزاد جموں و کشمیر کونسل نے 2005ءمیں آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی
کے منظور کردہ احتساب ایکٹ کو من و عن اختیاریعنی adapt کر لیا ،یوں آزاد
جموں و کشمیر احتساب بیورو کو کشمیر کونسل کے ممبران اور ملازمین کے خلاف
بھی کاروائی کا اختیار حاصل ہو گیا۔اب احتساب بیورو کے ساتھ تنازعہ پر
کونسل سیکرٹریٹ کا موقف ہے کہ کونسل کی طرف سے جب 2005ءمیں احتساب ایکٹ
کوadaptکیا گیا تھا اس وقت چیئرمین احتساب بیورو کی تقرری کے لئے چیئرمین
کشمیر کونسل(وزیر اعظم پاکستان)کی مشاورت سے صدرآزاد جموں وکشمیر کو احتساب
بیورو کے چیئرمین کی تقرری کا اختیار تھا۔لیکن بعد ازاں آزاد کشمیر قانون
ساز اسمبلی نے اس قانون میں بوجوہ ترمیم کرتے ہوئے چیئرمین کشمیر کونسل
(وزیر اعظم پاکستان)سے مشاورت کی شق کو اس وجہ سے ختم کر دیا کہ آزاد جموں
و کشمیر قانون ساز اسمبلی وزیر اعظم پاکستان کو کسی کام کی انجام دہی پر
پابند نہیں کر سکتی۔اب کونسل اس وجہ سے احتساب بیورو کو مطلوبہ ریکارڈ
فراہم نہیں کر رہی کہ موجودہ چیئرمین احتساب بیورو کی تقرری کے لئے چیئرمین
کونسل( وزیر اعظم پاکستان) کی مشاورت شامل نہ ہے لہذا چیئرمین بیوروکونسل
کی حد تک اختیارات استعمال نہیں کر سکتے اور کونسل انہیں اپنے لئے چیئرمین
احتساب بیورو تسلیم نہیں کرتی۔واضح رہے کہ 2010ءمیں احتساب ایکٹ میں ترامیم
اور یکے بعد دیگرے احتساب بیورو کے دو چیئرمین وزیر اعظم پاکستان کی مشاورت
کے بغیر صدر ریاست آزاد جموں و کشمیر کی منظوری سے تعینات ہوئے لیکن کشمیر
کونسل کی طرف سے نہ تو چیئرمین احتساب بیورو کی تقرری پر کوئی اعتراض کیا
گیا اور نہ ہی کشمیر کونسل نے ان ترامیم کے بارے میں آزاد کشمیر حکومت کو
اپنے کسی اعتراض سے آگاہ کیا۔واضح رہے کہ صدر آزاد کشمیر کشمیر کونسل کا
وائس چیئرمین بھی ہے۔
حقیقت حال یہ ہے کہ آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین 1974ءکی دفعہ 31کے تحت
آزاد کشمیر اسمبلی اور کشمیر کونسل بطور مقننہ صرف اور صرف آزاد کشمیر کی
علاقائی حدود اور باشندگان ریاست جموں و کشمیرجہاں کہیں بھی سکونت پذیر
ہوں،کے بارے میں قانون سازی کر سکتی ہے۔ تاہم آزاد جموں و کشمیر کی مقننہ(
اسمبلی و کونسل)حکومت پاکستان کے حوالے کئے گئے چارموضوعات
(دفاع،سلامتی،کرنسی،امور خارجہ و بیرونی تجارت)کے حوالے سے کوئی قانون سازی
نہیں کر سکتی،آزاد کشمیرکی مقننہ کو ان چار موضوعات پر قانون سازی کا
اختیار حاصل نہیں ہے۔ اسی تناظر میں گزشتہ سالوں کے دوران آزاد جموں و
کشمیر سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں میں اس کی وضاحت سے تشریح کی گئی ہے جن
میں ”جبیر ہوٹل بنام کشمیر کونسل“ اور” نفیس بیکرز بنام کشمیر کونسل“شامل
ہیں۔آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے ان فیصلوں میں بنیادی بات یہ ہے کہ آزاد جموں
و کشمیر کی مقننہ(قانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل)پاکستان کے کسی ادارے
کے دائرہ کار کو آزاد کشمیر کی حدود تک نہیں بڑھا سکتی۔اس آئینی تشریح کے
باوجود آزاد جموں و کشمیر کونسل نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے اپنے
ملازمین کی بھرتی کے لئے اس کا قانون چند تبدیلیوں کے ساتھadaptکیا کہ
فیڈرل پبلک سروس کمیشن آزاد جموں و کشمیرکونسل کی حد تک آزاد کشمیر کا
ادارہ تصور ہو گا اور کونسل کے ملازمین کی بھرتی کرے گا ۔البتہ اس کے فیصلہ
جات،اقدامات،احکامات سے متاثرہ شخص آزاد کشمیرہائیکورٹ میں عدالتی چارہ
جوئی کر سکتا ہے اور اسی طرح آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ میں اپیل کی
گنجائش موجود ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی منفرد قانون سازی ہے جس کے تحت ایک
وفاقی ادارہ کو پاکستان کے آئینی اور لیگل فریم ورک سے باہر کسی عدالتی
نظام میں قابل مواخذہ قرار دیا گیا ہے جبکہ خود کونسل سیکرٹریٹ وزیر اعظم
پاکستان کی سربراہی میں کام کرنے کے باوجود پاکستان کی پارلیمنٹ یا عدالتی
نظام کے سامنے اپنی جوابدہی نہ ہونے پر تسلسل کے ساتھ مصر دکھائی دیتی ہے ۔
اس کے علاوہ کشمیر کونسل نے قانون سازی کرتے ہوئےPTA(پاکستان ٹیلی
کیمیونیکیشن اتھارٹی) پیمرا اور پرائیویٹ پاور انویسمنٹ بورڈ کو آزاد کشمیر
میں اپنا ایجنٹ ڈیکلیئر کر رکھا ہے جن کی جوابدہی کا معاملہ حل طلب ہے ۔
دیکھنا یہ ہے کہ آزاد کشمیر کی مخصوص آئینی حیثیت کے پیش نظر مذکورہ بالا
قانون سازی کیا آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین اور عدالتی فیصلہ جات کی
کھلی خلاف ورزی نہیں؟جہاں تک احتساب بیورو کی جانب سے ریکارڈ طلب کرنے اور
ٹیکس سے ہونے والی آمدن کے مصرف کے بارے میں چھان بین کا تعلق ہے اس حوالہ
سے ہماری محتاط رائے ہے کہ لوگوں سے ٹیکس کی آمدن سے ہونے والے اخراجات کے
درست یا غلط ہونے کے بارے میں ریاستی باشندگان کے جائز حقوق کا تحفظ بہر
طور مقدم ہونا چاہئے ۔آزاد جموں و کشمیر کونسل کو کسی بھی ادارہ کے سامنے
کسی ٹیکس دہندہ شہری کی شکایت کو اطمینان بخش تحقیقات سے یکسو کرنے میں کسی
طور رکاوٹ نہیں بننا چاہیئے، خواہ احتساب بیورو ہو یا کوئی اور ریاستی
ادارہ ۔کونسل سیکرٹریٹ کو انکم ٹیکس کی آمدن کے بارے میں جوابدہی کے لئے
تیار رہنا چاہئے ۔اس مقصد کے لئے باشندگان ریاست کو اس بات پر بھی کوئی
اعتراض نہیں کہ کونسل سیکرٹریٹ آزاد کشمیر کے وسائل کی چھان بین کے لئے
پاکستان کے ادارہ نیب کا دائرہ کار کونسل کے امور تک بڑھایا جائے مگر
احتسابی عمل سے گریز اور استثناء کی راہیں تلاش کرنا کسی طور بھی مناسب و
جائز دکھائی نہیں دیتا۔حیران کن امر یہ ہے کہ حکومت آزاد کشمیر کی جانب سے
تاحال اس بارے میں کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا۔اگر احتسابی اداروں کے
ساتھ ریاستی مقدم ادارے اسی طرح کا کھیل کھیلتے رہے تو کسی سرکاری ملازم کی
کرپشن ،خرد برد اور پکڑ دھکڑ تک محدود کاروائی کی صورتحال زیادہ دیر تک
قائم نہیں رہ سکے گی۔
آزاد کشمیر کے عبوری آئین1974ءمیں یہ عجیب و غریب جمہوری پارلیمانی دستور
ہے کہ جس میں عوام کے براہ راست منتخب نمائندگان کی اسمبلی کو نہایت محدود
بلکہ روزمرہ معاملات پر بھی قانون سازی کا اختیارحاصل نہیں ہے۔تقریبا52ایسے
اہم موضوعات ہیں جن پر قانون سازی کا اختیارآزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی
کے بجائے آزاد جموں و کشمیر کونسل کو حاصل ہیں۔ان میں ٹورازم،بجلی،پاپولیشن
ویلفیئر،تعلیمی نصاب،انکم ٹیکس،کسٹم ڈیوٹی جیسے اہم اور بالعموم منتخب
حکومت کے دائرہ کار میں آنے والے معاملات شامل ہیں۔آئین کے تحت آزاد کشمیر
حکومت کو آزاد کشمیر کی علاقائی حدود کی حد تک ایگزیکٹیو اتھارٹی دی گئی ہے
لیکن عملا 1975-76ءکے دوران آزاد کشمیر اسمبلی میں کی گئی آئینی ترامیم کے
مطابق کشمیر کونسل کو اپنے معاملات کی حد تک ایگزیکٹیو اتھارٹی دی گئی
ہے۔طرفہ تماشہ ہے کہ کونسل سیکرٹریٹ مستقل ریاستی حدود سے باہر اسلام آباد
میں قائم ہے۔کروڑوں روپے اور آزاد کشمیر سے جمع شدہ ٹیکس کی 20فیصد آمدن کی
بڑی رقوم سے نہ صرف سرکاری دفاتر کی عمارات تعمیر کی جارہی ہیں بلکہ کونسل
کے ملازمین کے لئے اسلام آباد میں ہی رہائش گاہوں کی تعمیرکے منصوبہ جات
بھی جاری ہیں۔
یہ بات بھی نہایت افسوسناک ہے کہ کشمیر کونسل اور اس کے ماتحت اداروں میں
کشمیر کے ریاستی باشندوں کے بجائے آل پاکستان کی بنیاد پر ملازمین کی بھرتی
جاری ہے۔کشمیر کونسل میں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ بلوچ وزیر آتا ہے تو
کونسل میں بڑی تعداد میں بلوچ ملازمین بھرتی ہوتے ہیں ،سندھی،پنجابی ،پٹھان
منسٹر لگتا ہے تو اپنے ہی علاقے،صوبے سے بھرتیاں ہوتی ہیں۔یوں آزاد جموں و
کشمیر کونسل میں ہر صوبے کے ہر قبیلے ،برادری کے ملازمین تو بڑی تعداد میں
نظر آتے ہیں لیکن اُس ریاست کشمیر کا کوئی باشندہ نظر نہیں آتا جس کے حقوق
کے نام پر تمام ”میلے “ سجائے گئے ہیں۔یوں یہ صورتحال نمایاں اور حاوی ہے
کہ کشمیریوں اور ان کے حقوق کے نام پر ’خود کھانے پینے‘ کو ہی کشمیریوں سے
ہمدردی اور کشمیریوں پر توجہ قرار دیا جاتا ہے۔کشمیر کونسل میں سوائے آزاد
کشمیر کے ایک دو مستعار الخدمت ملازمین کے علاوہ کوئی کشمیری باشندہ دیکھنے
کو بھی نہیں ملتا۔ کشمیر کونسل میں ملازمین کی بھرتی کا یہ طریقہ کار اور
صورتحال کلیتاً آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے ۔
یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ آئین کے مطابق آزاد جموں و کشمیر کونسل میں آزاد
کشمیر کے6ممبر ،صدر آزاد کشمیر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر جبکہ 5ممبر
پارلیمنٹ،وزیر اعظم پاکستان اور وزیر امور کشمیرشامل ہیں۔وزیر امور کشمیر
کونسل کا انتظامی سربراہ ہے۔کشمیر کونسل نہ آزادکشمیراسمبلی کواورنہ ہی
پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے۔کشمیر کونسل میں اپوزیشن کا تصور ہی موجود نہیں
کیونکہ اکثریتی پارٹی کے ممبر ہی زیادہ ہوتے ہیں۔کونسل میں طرز نمائندگی
کوسینٹ کے مماثل بھی قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اس کی ہیت ترکیبی میں
ایسا کوئی تصور موجود ہے۔کونسل میں قانون سازی وہ کر رہے ہیں جن کی نہ تو
کوئی جوابدہی ہے اور نہ ہی ریاستی باشندے ہیں۔
ریاست کشمیر کی سول سوسائٹی کشمیر کونسل کے انتظامی اختیارات کو ختم کرتے
ہوئے آزاد کشمیر حکومت کو با اختیار بنانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔اس تمام
صورتحال کو دیکھتے ہوئے بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آزاد کشمیر،ریاستی
باشندوں کو کسی’ بیک ورڈ‘ علاقے کے کمتر، مجبور و بے کس افراد کی طرح ’ڈیل‘
کیا جا رہا ہے۔یہ صورتحال پاکستان کی اس حیثیت کو بھی نقصان پہنچاتی ہے جو
اقوا م متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کو مقامی
عوامی امنگوں کے مطابق پاکستان کے زیر انتظا م قرار دیتا ہے ۔دیکھنا یہ ہے
کہ مملکت پاکستان کے وسیع تر مفادات مقدم ہیں یا ہٹ دھرمی،بے لگامی کی
چودھراہٹ سجائے رکھنا اور بد کرداری کے عریاں نظارے پیش کرنے والوں کو تحفظ
دینا زیادہ ضروری ہے۔ |