برطانوی وزارت داخلہ نے سائیبر کرائم کے حوالے سے یورپی یونین کی حکمت عملی
اپنائی ہے جس کے تحت پولیس کو اختیار ہو گا کہ وہ لوگوں کے کمپیوٹرز کو ہیک
کریں۔
اس حکمت عملی کے خلاف خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حکومت پولیس کو احتیارات دے
رہی ہے کہ وہ کمپیوٹر کو بغیر کسی عدالتی وارنٹ کے ہیک کر سکیں۔
تاہم برطانوی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے معاہدے سے پولیس کے
اختیارات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور اس معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں
ہے۔
یورپی یونین کونسل کا یہ معاہدہ سائیبر کرائم کی روک تھام کے حوالے سے اقدامات
کی نشاندہی کرتا ہے اور دیگر ممالک کو بھی ترغیب دیتا ہے کہ کمپیوٹر ہیک کیے
جائیں اگر ملک کا قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔
برطانوی وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ کونسل اس معاہدے کے بارے میں
کہتے ہیں کہ ’نئی حکمت عملی پولیس اور نجی اداروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ
وہ کمپیوٹر کو ہیک کریں۔‘
وزارت داخلہ نے بیان میں کہا ’برطانیہ نے سائیبر کرائم پر قابو پانے کے لیے
یورپی یونین کی حکمت عملی پر حامی بھر لی ہے لیکن موجودہ برطانوی قوانین اپنی
جگہ ہیں۔‘
واضح رہے کہ برطانوی پولیس موجودہ قانون کے تحت بھی محدود حد پر کمپیوٹر ہیک
کرتی ہے۔ برطانوی پولیس ریگولیشن آف انویسٹیگیٹری پاورز دو ہزار کے تحت لوگوں
کے کمپیوٹر ہیک کر سکتی ہے۔
پولیس چیف آفیسرز کی ایسوسی ایشن کے ترجمان نے دی ٹائمز اخبار کو بتایا کہ
پولیس ابھی بھی لوگوں کے کمپیوٹر ہیک کر رہی ہے اور پچھلے سال ایک سو چورانوے
کمپیوٹر ہیک کیے جن میں لوگوں کے گھروں اور دفاتر کے کمپیوٹر ہیک کیے گئے۔
لندن سکول آف اکنامکس کے پروفیسر پیٹر سومر کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں اس
معاہدے کی وجہ سے ہیکنگ میں اضافہ نہیں ہو گا۔
’کافی عرصے سے ہیکنگ کے لیے جدید آلات دستیاب ہیں لیکن ان کا استعمال میں اضافہ
نہیں ہو گا۔‘
زیادہ تر کمپیوٹرز میں فائر وال اور وائرس سے بچاؤ کے سافٹ ویئر ہوتے ہیں جو
ہیکنگ کو روکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہیکنگ سے لی گئی معلومات کو عدالت
میں استعمال کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ان معلومات میں کوئی
ردو بدل نہیں کیا گیا۔ |