سر زمین بے آئین

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی تمہید میں لکھا گیا ہے کہ چونکہ اﷲتبارک وتعالیٰ ہی پوری کائینات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار واقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہو گا وہ ایک مقدس اما نت ہو گا۔چونکہ پاکستان کے جمہور کی منشاء ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب کر دہ نمائیندوں کے ذریعے استعمال کرے جس میں جمہوریت ، آذادی ، مساوات ، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے اس کی تشریح کی ہے پوری طرح عمل کیا جائے۔آگے چل کر لکھا گیا ہے کہ اس آئین کی رو سے مملکت خداداد پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ عمل میں اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق جسطرح قرآن پاک اور سنت رسولﷺ میں تعین کیا گیا ہے ترتیب دے سکیں۔ دستور میں اقلیتوں کے حقوق کا بھی تعین کیا گیا اور انھیں اپنے اپنے عقیدے اور ثقافت کے مطابق زندگی گزارنے کی آذادی دی گئی ہے۔ یہ تمہید دراصل دستور کا چہرہ اور اسکے پہلے حصے کا ابتدا ئیہ اسکا سہرا ہے۔دستور کے اس حصے میں پاکستان کی جغرافیائی حدود کا تعین کیا گیا ہے ۔ اس حصے میں استحصال کے خاتمے اور افراد کے قانونی حق کو تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں مملکت انکے تحفظ کو یقینی بنائے گئی ۔دوسرے حصے میں بنیادی حقوق کی بات کی گئی ہے جو کسی بھی دستور کا بنیادی اور لازمی جز ہوتا ہے ۔ اگر دستور پاکستان پر نظر ڈالی جائے تو ہر شق بے مثال ہے جس کے نفاذ سے ملک امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے ۔ کسی بھی فرد کا معاشی ، سیاسی ، قانونی اور اخلاقی استحصال نہیں ہو سکتا اور ملک جنت کا نمونہ پیش کر سکتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا بہت سی سہو لیا ت ، مراعات اور اصلاحات کسی کا غذ پر لکھ دینے سے کسی معاشرے میں تبدیلی ممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں چونکہ آئین یادستور نہ تو گلے میں ڈالنے والا تعویز ہے جس کی برکت سے جن بھوت، وبائیں اور بلائیں ٹل سکتی ہیں اور نہ ہی کوئی نسخہ کیمیاء ہے جس کے حلق سے اترتے ہی بھوک پیاس ، غربت ، بیماری اور جاہلیت ختم ہوسکتی ہے۔دستور یا آئین عوامی خواہشات کا مظہر بھی نہیں ہو سکتا چونکہ عوام یا جمہور کو اس بات کا شعور ہی نہیں ہوتا کہ وہ ملکرشق وار کسی دستور کا مطالعہ کر کے یا اپنی رائے شامل کر کے اس کے نفاذکا حصہ بنیں۔یہ کہنا بھی درست نہیں کہ جمہور نے اپنا آئینی حق اپنے منتخب نمائیندوں کو دیکر انہیں ایک دستور ی دستاویز مرتب کرنے کا اختیار دیا تاکہ وہ ان کی فلاح ،اصلاح اور تحفظ کے لیے ایک دستور ی راہ متعین کریں جسے قانونی حیثیت حاصل ہو۔ملکی عدلیہ اس دستور کی روشنی میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کر ے اور عوام الناس کو بلا تفریق و تقسیم بغیر کسی معاوضے کے یکساں اور جلد انصاف فراہم کرے ۔ اس کے ساتھ ہی حکومت وقت اور انتظامیہ ہر عدالتی فیصلے پر عمل کرے تاکہ جمہور میں بے چینی نہ پھیلے اور انہیں اس بات کا احساس ہو کہ ان کے حقوق کا تحفظ ایک قانون اور قائدے کے مطابق یقینی اور اٹل ہے۔

کسی بھی معاشرے میں یہ ممکن نہیں کہ جمہور ایک سچے ، ایماندار،سلجھے ہوئے اور باشعور فرد کا انتخاب کرکے اسے اپنی ضرورت کا ضامن بنائیں کہ وہ اسمبلی میں بیٹھ کر صرف اور صرف عوام کے حقوق کی بات کرے اور ہر لمحہ آئین میں تحریر حقوق کے احترام اوراصلاحات کا محافظ ہو۔ اگر ہم پاکستان میں آئین کی پاسداری اور عوامی حقوق کی بات کریں تویہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ آئین عوام کو دھوکہ دینے اورعوامی نمائیندگی عوام کے حقوق کا استحصال کرنے کا بہانہ ہے۔ جو کچھ آئین کی کتاب میں لکھا ہے وہ واقعی درست اور مقدس ہے مگر اس تحریر کی آڑ میں کھیلا جانے والا کھیل سراسر دھوکہ ہے۔ آئین کے چہرے پر لکھا گیا ہے کہ اصل حاکمیت اﷲکی ہے۔ اﷲکا فرمان ہے کہ ساری مخلوق کا وہ ربّ ہے اور پھر اپنی مقدس کتاب قرآن کریم کے ذریعے ہمیں وارننگ دیتا ہے کہ خبردار تکبر میری چادر ہے اسے مت کھینچنا۔ پھر حکم دیتا ہے کہ تم سے پہلے کئی اقوام اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ ملاوٹ کرتی تھیں ، دھوکے اور فریب کو اپنی عقلمند ی سمجھتی تھیں،دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ان کی فطرت میں تھا، وہ مخلوق پر ظلم ڈھاتی تھیں ، غریبوں اور امیروں کے لیے الگ الگ قوانین بنا رکھے تھے اور سزا و جزاء کے نظام الگ الگ تھے۔ جب ان کا ظلم و جبر انتہا کو پہنچ گیا تو انہیں خبر بھی نہ ہوئی کہ وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔

قرآن پاک کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہم نے آئین نہ صرف جمہور کو دھوکہ دینے کی دستاویزبنا رکھا ہے بلکہ جس ربّ کی حاکمیت کو اس کے ابتدائیے میں تسلیم کر رکھا ہے اس کے حکم اور حاکمیت سے بھی منکر ہیں ۔ اگر عوامی نمائیندگی کی بات کریں تو ہمارے ملک میں اس کی بھی کئی اقسام ہیں۔ پہلی قسم ان جا گیرداروں، وڈیروں، سمگلروں، لٹیروں،چوروں، خود ساختہ اور انگریزوں کے سندیافتہ پیروں اور گدی نشینوں کی ہے ۔ دوسری قسم سالہاسال جبر کا ہتھیار استعمال کرنیوالے ججوں، جرنیلوں اور ریٹائیرڈ بیورکریسی کی ہے جو پہلی قسم کی خدمت کے صلے میں سینٹ کے ممبر یا مشیر بنکر عوامی نمائیندگی کی آڑمیں تا دم مرگ عوام کو دھوکہ دیتے اوراستحصال کرتے ہیں۔ تیسری قسم پہلی دو اقسام کی بیگمات ، بیٹیوں اور ہمنوا وہم خیال خواتین کی ہے جو خواتین کی مخصوص نشستوں پر جلوہ افروز ہو کر ان کروڑوں خواتین کی نمائیندگی کا حق ادا کرتی ہیں جو ان کے گھروں، کھیتوں، فیکٹریوں اور ملوں میں کام کرتی ہیں۔ اسمبلی اورسینٹ کی ممبر خواتین جتنی رقم اپنے میک اپ اور میڈاپ پر خرچ کرتی ہیں ایک عام پاکستانی عورت اتنی رقم اپنے لباس، رہائش، خوراک اور بچوں کی تعلیم پر خرچ نہیں کرتی۔سیاسی بزنس سے وابستہ خواتین جتنا خرچہ اپنے روزانہ میک اپ پر کرتی ہیں اس سے آدھی رقم ایک عام پاکستانی خاتون کو مہانا اخراجات کے لیے بھی میسر نہیں ہوتی ۔ کتنی بڑی منافقت اور دغا بازی ہے کہ اعلیٰ اشرافیہ اور لوٹ مارکرنے والے گھرانوں کی خواتین اپنے عیش و آرام کے لیے قومی خزانے سے کروڑوں بے سہارا اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والی خواتین کی نمائیندگی کی آڑمیں ہرسال اربوں روپے ہتھیالیتی ہیں اور یہ سب کچھ آئین پاکستان میں درج شقوں کے عین مطابق ہوتا ہے۔آئین میں کئیں درج نہیں کہ خواتین کی نمائیندگی وہی خاتون کرے گی جسکا تعلق معاشرے کی عام خواتین سے ہو اور وہ ان کے دکھ دردکا احساس رکھتی ہو۔ایسا آئین جو بیان کردہ طبقات کی سہولت کے لیے بنایا گیاہو وہ کسی بھی صورت عوامی امنگوں کا ترجمان نہیں ہو سکتااور نہ ہی ایسا دستور بنانے والے عوامی نمائیندگی کا حق ادا کر سکتے ہیں ۔ پاکستان میں جھرلوانتخابات اورفرشتوں کے ووٹ جیسی اصطلاحات موجود ہیں اوران ہی دوطریقوں کے استعمال سے اسمبلیاں بنتی ہیں۔آذادکشمیر میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں کائرہ پلان اور وٹوفارمولہ جیسی اصطلاحات بھی سامنے آئیں جن کی مدد سے پیپلزپارٹی کے مالکان نے ذیادہ بولی دینے والوں کو ذیادہ ووٹ اور مرضی کی وزارت دیکر جمہوریت اور آئین کے چہرے پر بدنماداغ لگایا۔پاکستان اور ملحقہ آذادکشمیر میں الیکشن کمیشن کبھی آذاد و خودمختار نہیں ہوتا۔الیکشن کمیشن ان افراد پر مشتمل ہوتا ہے جو بیان کردہ طبقات کو اسمبلیوں تک پہنچانے کی سہولت فراہم کرتے ہیں اور کمیشن کے سامنے پیش کردہ مقدمات کو جان بوجھ کر لٹکائے رکھتے ہیں اور اپنا فرض وفاداری نبھاتے ہیں۔ پاکستان اور آذاد کشمیر میں الیکشن کمیشن منظور نظر افراد پر مشتمل ہوتا ہے جن سے شفاف الیکشن کی توقع رکھنا خود فہمی کے مترادف ہے۔
اگر الیکشن کمیشن دیانتدار ، ایماندار اور بے لوث فیصلے کرنیوالے افراد پر مشتمل ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ کر پٹ، بددیانت، ظالم اور معاشرتی برائیوں کے مرتکب افراد اسمبلیوں تک پہنچ جائیں۔ وہ لوگ جنھیں جیلوں میں ہونا چاہیے وہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں اور آئین میں اپنی سہولیات کے لیے مزید ترامیم کر کے اپنے اقتدار کو دوام بخشتے ہیں۔

جنرل مشرف کے جبری اقتدار کے بعد زرداری حکومت نے جسطرح آئین پاکستان اور عدلیہ کا مذاق اڑایا اس سے ثابت ہے کہ پاکستان سرزمین بے آئین ہے۔ جس آئین کی پولیس کے سپاہی اور انتظامیہ کے کلرک سے لیکر ملک کے صدر اور وزیر اعظم تک پرواہ نہیں کرتے اس آئین کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فر ق نہیں پڑتا ۔ جس ملک میں انصاف ملتا نہیں بلکہ بکتا ہو اور آئین اور قانون مظلوم ، محکوم اور مجبورلوگوں کی آواز دبانے کا شکنجہ ہو اسے کسی بھی صورت ایک آئینی اور جمہوری مملکت نہیں کہا جا سکتا۔

جس ملک کا حال زرداری ، گیلانی ،رحمان ملک ، شجاعت حسین ، اسفندیارولی، نواز شریف اور الطاف حسین جیسے دانشور سیاستدانوں کے ہاتھوں میں ہو اور مستقبل بلاول، مونس الہی ، موسیٰ گیلانی اور حمزہ شہباز جیسے کھلنڈروں سے وابستہ ہو وہاں جمہوریت، مساوات، رواداری، عدل عمرانی، اسلامی تعلیمات اور بنیادی حقوق کی بات کرنا دکھاوے اور منافقت کے سواکچھ نہیں۔

جس ملک کا صدر کرپٹ، بد دیانت اور صدارت کی کر سی اپنی کر پشن کی کمائی بچانے کے لیے بطور ڈھال استعمال کر تا ہوایسے ملک میں آئین و قانون کی کیا قدر ہو سکتی ہے۔ جس ملک کا وزیر اعظم کر پٹ مافیا کا سر غنہ ہو اور اسکا خاندان سرسے لیکر پا ؤں تک کر پشن کی دلدل میں دھنسا ہو وہ ملک جمہوری کیسے ہو سکتا ہے۔ جس ملک کی عدلیہ کے فیصلوں کا صدر اوروزیر اعظم سے لیکر اسمبلیوں کے ممبر تک تمسخر اڑاتے ہوں اس ملک کے آئین کی کیا وقعت ہو سکتی ہے۔ جس آئین کی آڑ میں چور ، ڈاکو، سمگلر، بلیک میلر، خود ساختہ ولّی ،مخدوم اور انگریز کے خدمتگارجاگیردار عوام کا استحصال کرنے کا حق رکھتے ہو ں وہ آئین عوام کی خواہشات کا آئینہ دار کیسے ہو سکتا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کو فخر ہے کہ 1973ء کا آئین ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی تخلیق ہے مگر دیکھنا یہ بھی ہے کہ اس خالق نے چند یوم کے اندر اپنی تخلیق میں ذاتی سہولت کے لیے بہت سی ترامیم کر ڈالیں جو آگے چلکر اس آئین سے روگردانی کا موجب بنیں ۔ اگر بھٹو آئین سے مخلص ہوتے تونہ صرف ان کا اقتدار باقی رہتا بلکہ ملک ایک آئین کے ہوتے ہو ئے غیر آئینی طریقوں سے چلانے کا رجحان بھی پروان نہ چڑھتا۔ بھٹو کے بعد ضیاالحق اور پرویز مشرف کے ادوار میں آئین موخر رہا اور درمیانی عرصہ میں نوازشریف اور بنیظیرنے بھی اپنی اپنی پارٹی کو آئین پر ترجیح دیکر ڈکٹیٹروں کے بنائے ہوئے قوانین اوراصولوں کو اپنایا۔

مشرف نے اپنے اقتدار اور لوٹ مار کو تحفظ دینے کے لیے روشن خیالی کا ڈرامہ رچایاتو پاکستان کی سیاسی جنتااور اعلیٰ اشرافیہ اس کی حمایت میں کھڑی ہوگئی ۔ پھر امریکہ اور اتحادی آئے تو مشرف ان کے سامنے بچھ گیااور قومی غیرت و حمیت کی رہی سہی کسر بھی نکل گئی۔ مشرف چونکہ فوجی ڈکٹیٹر تھا اور کھل کر ملک کا سودا نہیں کر سکتا تھا اسلیے امریکہ اور اتحادیوں نے این آراو کی آڑ میں اقتدار مشرف سے لیکر اسے جمہوریت کا غلاف پہنایا اور زرداری کے حوالے کر دیا ۔زرداری کو اقتدار منتقل کرنے سے پہلے فوج کو اسکا ضامن ٹھرایا اور اس بات کی بھی گارنٹی دی گئی کہ حالات چاہے کیسے بھی ہوں ،زرداری ٹولہ ملک اور قوم کی تقدیر سے جسطرح چاہے کھیلے فوج مداخلت نہیں کرے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ این آر او کے ضامن جنرل کیانی کو مزید تین سال کے لیے فوج کی کمان سونپی گئی جن کی موجودگی میں امریکہ نے سلالہ چیک پوسٹ پر پاکستانی فوجیوں کا قتل عام کیا جبکہ اس قتل عام سے پہلے صدرزرداری اپنے سفیر حقانی کے ذریعے امریکہ کو فوج پر دباؤ ڈالنے کا عندیہ دے چکے تھے ۔زرداری حکومت میں جہاں بہت سی انوکھی باتیں سامنے آئیں وہاں میموگیٹ سکینڈل بھی ایک انوکھی چیزہے کہ ایک نام نہاد جمہوری ملک کی حکومت جو ایک آئین کی پاسداری کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے امریکہ کو اپنے سفیر کے ذریعے اپنی ہی فوج کے خلاف ایکشن کی دعوت بھی دیتی ہے اور آئین کی شق 6خاموش ہے۔

فوج کی بے بسی دیکھئے کہ فوج کا سربراہ پوری تحقیق کے بعد کہ میموگیٹ ایک حقیقت ہے اور حقانی نے حکومت وقت کے کہنے پر امریکہ کو فوج پر دباؤ ڈالنے کی دعوت دی ہے، وہ اپنا مقدمہ سپریم کورٹ میں لیجاتا ہے مگر شنوائی نہیں ہوتی۔حقانی کو ملک کا وزیراعظم اورصدر تحفظ فراہم کرتے ہیں ، وہ وزیراعظم ہاؤس میں چھپتاہے اور پھر امریکہ جاکر نہ صرف واپسی سے بلکہ ثبوت دینے سے بھی انکار کر دیتا ہے اور فوج کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔

این آراو کے لبادے میں لپٹی جمہوریت کے اثرات سے فوج ، عوام اور عدالتیں یکساں فیض یاب ہو رہے ہیں۔زرداری ٹولے نے رینٹل پاور پراجیکٹ کی آڑمیں اربوں روپے کمائے اور کسی شخص کو دو سیکنڈکی بھی سزانہ ہوئی۔اے این پی نے کرپٹ حکومت میں حصہ ڈالا اور ریلوے کو جی بھر کر لوٹا۔ زرداری کے دوستوں نے پی آئی اے اور سٹیل مل پر ہاتھ صاف کیا اور وزیراعظم نے جو اپنے آپ کو سید، پیر اور مخدوم کہتا ہے نے حاجیوں سے لیکر ہر محکمے کو اپنے فرنٹ مینوں، دوستوں اور کمیشن مافیاکے ذریعے لوٹا۔عدالت سے سزایافتہ ہوا تو زرداری کے سامنے سرخرو ہو گیا اور پارٹی اور اتحادی جماعتوں نے مبارک باد یوں کا غلغلہ مچایا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کئیں۔جس ملک کی فوج ، عدلیہ اور عوام بیرونی قوتوں کی مسلط کردہ جمہوریت کے کرپٹ،غیر قانونی اور غیر آئینی ہتھکنڈوں کے سامنے بے بس ہو وہاں آئین ، جمہوریت اور بنیادی حقوق کی بات بھی محض ایک تمسخر ہے ۔ بیان کردہ حقائق کی روشنی میں ، میں فوج ، عدلیہ اور پاکستان کے بے بس اور مجبور عوام سے سوال کرتا ہوں کی کیا پا کستان سرزمین بے آئین نہیں ہے۔ اگر ملک میں ایک آئین ہے تو اس کے ثمرات سے صرف سیاستدان ، نوکر شاہی اور آئین سے انحراف کر نیوالے افراد ہی کیوں فیض یاب ہوتے ہیں ۔اگر پاکستان سرزمین بے آئین نہیں تو این آراو کے ہتھیاروں سے لیس ایک کرپٹ مافیا ملک پرحکمران کیوں ہے۔ کیا سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کرنے اور کروانے والوں کو بھی این آراو کا تحفظ حاصل ہے اوروہ کون سے عوامل ہیں کہ جن کی بناء پر حکومت امریکہ کو اپنی ہی فوج پر حملہ آور ہونے کی دعوت دے رہی ہے ۔ اگر ملک کسی دستور کے تحت چل رہا ہے توفوج اور عدالتوں کی تضحیک کیوں ہورہی ہے اور آئین کی شق 6ان سب کاروائیوں پر کیوں خاموش ہے؟
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 71253 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More