حکمران بتائیں 24پاکستانی
فوجیوں کے خون کے ایک ایک قطرے کی کیاقیمت لگی ہے...؟
کبھی کبھی قوموں پر اپنے دوستوں اور دشمنوں کی جانب سے ایسے بھی آزمائشی
لمحات نازل ہوجایاکرتے ہیں کہ جن سے ملی یکجہتی اور اتحاد ویگانگت کا مظاہر
ہ کرتے ہوئے قوم کے ہر فرد کو اپنی بقاءوسالمیت کے خاطر ایسے فیصلے کرنے
ہوتے ہیں جن پر قائم رہ کر وہ اپنی بقا اور سالمیت پر قائم رہتی ہیں اور آج
بھی دنیاکی تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ جن قوموں نے آزمائشی لمحات کا
مقابلہ باہمی اتحادویگانگت اور ملی یکجہتی کے جذبے کے ساتھ کیاتو وہی قومیں
امر ہوگئیں ہیں اوردوسری طرف کچھ ایسی بھی قومیں گزریں ہیں جو خود پر نازل
ہونے والے آزمائشی لمحات میں متززل ہوئیں اور ٹولیوں اور گروپو ں میں بٹ کر
اپنے اندر انتشار اور افتراق میں تقسیم ہوگئیں تواُنہوں نے ہی شدید نقصان
اُٹھایااور بالآخر اپنے انجام کو پہنچ کر صفحہ ہستی سے بھی مٹ گئیںاِن دنوں
ایسی ہی کیفیت سے ہماری قوم بھی گزررہی ہے اَب دیکھنا ہے اِس کا کیا ہوگا
..؟
اِس میں کوئی شک نہیں کہ 26نومبر 2011کی شب جب افغانستان کی جانب سے
پاکستان کے قبائلی علاقے مہمندایجنسی میں پاک فوج کی سلالہ چیک پوسٹ پر
امریکی و اتحادی فوجیوں کے ہیلی کاپٹروں کی اندھادھندفائرنگ کے نتیجے میں
24پاکستانی فوجی جوانوں کی شہادت کاواقعہ پیش آیا تو ساری پاکستانی قوم
بشمول ہمارے موجودہ حکمران، سیاستدان اور اعلی فوجی قیادت لرز اٹھی تھی
اورسب نے امریکی انتظامیہ سمیت نیٹوافواج کے سربراہان سے بھی اپنا پرزور
احتجاج ریکارڈکرایاتھابات یہیں ختم نہیں ہوگئی تھی بلکہ دورِ آمرجنرل (ر)
پرویزمشرف کے بعد شاید پہلی با ر ہی ہمارے حکمرانوں نے اپنی قوم کے ساتھ مل
کر اِس کی خواہش کے مطابق اپنی بقاو سالمیت کے خاطر ایک فیصلہ یہ بھی
کردیاکہ پاکستانی زمینی راستوں سے افغانستان میں نیٹوافواج کے لئے ہر قسم
کی نقل وحمل سمیت اِن کے سازوسامان کی ترسیل پر بھی فی الفور بندعائد کردی
جائے اور پھر دنیا نے دیکھاکہ ساری پاکستانی قوم نے اپنے غم وغصے کا اظہار
اپنے اِس فیصلے کو عملی جامہ پہناکرکر دیااور آج جب ہم یہ سطور رقم کررہے
ہیں تو اِس پابندی کولگے 170دن گزرچکے ہیں۔
اگرچہ اِس کے بعد دہشت گردِ اعظم امریکا کو افغانستان میں اپنے عزائم کی
تکمیل میں بے شمار رکاوٹیں اور پریشانیاں درپیش آئیں اور اِس سارے عرصے کے
دوران امریکا بہادرکو ڈیڑھ ارب کے اضافی اخراجات کابھی نقصان اُٹھاناپڑاہے
اِس حوالے سے پاک امریکا جنگی مبصرین اور تبصرہ نگاروں کا خام خیال یہ ہے
کہ اِس عرصے کے دوران معاشی طور پر پڑنے والے اضافی اخراجات کی وجہ سے بڑی
حد تک امریکا کی کمر ٹوٹ گئی اور افغانستان میں پیمپرز پہن کر لڑنے والی
نیٹو کی افواج کو بھی پریشانیوں کا منہ دیکھنا پڑا کیوں کہ امریکی اور
اتحادی افواج افغانستان جیسے دنیا کے خطر ناک ترین محاذ ِ جنگ میں بغیر
پیمپرز پہنے لڑ ہی نہیں سکتی ہے اِس بات سے امریکی اور اتحادی افواج کے
سربراہان بھی خوب واقف ہیں اِس لئے افغانستان میں اپنی کامیاب کا خواب
دیکھنے والی امریکی اور اتحادی افواج کے سربراہان کی کوشش یہ رہی ہے کہ جلد
ازجلد پاکستانی زمینی راستوں کے ذریعے اِ ن کی افواج کے لئے سازوسامان کی
فراہمی کھولی جائے اور یہی وجہ ہے کہ اِنہوں نے نیٹو سپلائی کی بحالی کے
لئے پہلے اپنے سربراہِ مملکت پر دباؤ بڑھایا اور پھر اِن کے ذریعے پاکستان
پر ایساشدید ترین دباؤ ڈالا کہ پاکستانی حکمران ، سیاستدان اور اعلی فوجی
قیادت کے دلوں میں افغانستان میں پھنسی امریکی اور اتحادی افواج کے ساتھ
ہمدردی کا جذبہ بیدار ہوگیااور اِنہوں نے اپنے زمینی راستوں سے جنگی
سازوسامان کے ساتھ ساتھ نیٹوافواج کے لئے خصوصی طور پر پیمپرز کی ترسیل
سمیت دیگر سازوسامان کے لئے نیٹوسپلائی کی بحالی کا اعلان کردیااگر
پاکستانی حکمران ایسے وقت میں یہ فیصلہ نہیں کرتے توپھر نیٹوسپلائی کی بندی
کے حوالے سے جیسے جیسے وقت گزرتاجاتا ویسے ویسے امریکا کا صبر کا پیمانہ
بھی لبریز ہوتاجاتااور یہ اپنی دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں
فرنٹ لائین کا کردار اداکرنے والے پاکستان کی قربانیوں کو فراموش کردیتا
اور اِس کی دوستی کو گڑھے میں دفن کرکے اِ س پر معاشی و اقتصادی اور سیاسی
و اخلاقی پابندیاں لگااِس کا حقہ پانی بندکردیتاتوپھر کیا ہوتایہ کیا واقعی
ہماری باہمت قوم کے لئے کوئی امتحان ہوتا ..؟اِدھر گزشتہ دنوں اِس کے اِن
ارادوں اور عزائم کو بھانپتے ہوئے ہمارے انتہائی محب وطن اور اپنے اقتدار
اور جہوریت کو بچانے والے حکمران ، سیاستدان اور ملک کی دیگر اہم اشخاص
سرجوڑ کر بیٹھیں اور اِس نتیجے پر فورََا پہنچیں کہ اَب امریکا کی ناراضگی
ہم سے زیادہ دن تک دیکھی نہیں جاسکتی ہے اور اگر یہ ناراض ہوگیااور اِس نے
اگر ایسی ویسی کوئی پابندی ہم پر لگادی تو پھر ہم کیا کریں گے...؟اور ہم
کدھر جائیں گے...؟ اگر اِس کو خوش نہ کیا تو ہمارے سارے خواب چکناچور
ہوجائیں گے...اور ہم کہیں کے بھی نہیں رہیں گے... ؟اوراِ س سے قطع نظریہ کہ
امریکا نے اپنی غلطی کی ہم سے آج تک معافی نہیں مانگی توکیا ہوامگرپھر بھی
چلوچلو جلدی کرو اور جس قدر جلد ممکن ہوسکے امریکا اور نیٹوافواج کو خوش
کرنے کے لئے 15مئی سے 20مئی تک کی کوئی بھی تاریخ دے کراِس کو یہ
باورکرادوکہ نیٹوسپلائی کی بارات اِن تاریخوں میں سے کسی بھی تاریخ میں
افغانستان کے لئے روانہ کردی جائے گی اور پھر پاکستانی زمینی راستوں کے
ذریعے افغانستان میں بلاکسی تعطل کے نیٹوسپلائی کی بارات کی شکل میں سلسلہ
جاری رہے گااور نیٹوافواج کو پیمپرز کی سپلائی بھی جاری رہی گی اِس پس منظر
میں اَب دیکھنایہ ہے کہ اِس سارے عمل میں کون جیتااور کون ہاراہے ...؟اور
کیا ہم نے 170دن تک نیٹوسپلائی پر پابندی لگاکر اپنی بقاءوسا لمیت کا
امریکیوں سے احترام کرالیاہے ...؟اوریا اَب نیٹو کی بحالی کا پروگرام بناکر
اپنی بقاو سا لمیت کا سوداکرڈالاہے.؟اور کیا ہمارے حکمران یہ بتاسکیں گے کہ
اُنہوں نے اپنے 24فوجی جوانوں کے خون کے ایک ایک قطرے کی کیا قیمت وصول کی
ہے.؟(ختم شد) |