سیاسی پیشن گوئیوں کے پیامبر
تجزیہ نگاروں نے موجودہ سال کو انتخابی میلے کا سال قرار دیا ہے۔ حالیہ
مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنی پانچ سالہ طبعی عمر کے 4 سال مکمل کرچکی ہیں
یوں قرائن سے یہ حقیقت الم نشرح ہے کہ یہ سال سیاسی انتظامی اور جمہوری
تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ پچھلی 3 دہائیوں کی طرح حسب سابق دو بڑی
پارٹیوں مسلم لیگ نوازppp اور انکے اتحادیوں کے مابین ہوگا تاہم اب تیسری
پولیٹکل قوت بھی لنگر کسوٹ کر بے خطر آتش نمرود میں کود چکی ہے۔ تیسری قوت
عمران خان کی سالاری میں ن اور پی پی پی کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی۔ صحافت کے
بقراط اور الیکٹرانک میڈیا کے افلاطون عمران کی قیادت میں انقلاب کی نویدیں
دے رہے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہpti کے لاہور اور کراچی کے جلسوں میں لاکھوں
لوگوں کی شرکت نے pppاور ن لیگ کو لال جھنڈی دکھا دی ہے۔ سابق اور موجودہ
پارلیمان کے درجنوں سیاسی گورگن و قداور سیاسی رہنماوں کیpti میں دھڑا
دھڑشمولیت نے ہلچل مچارکھی ہے۔ انٹرنیٹ کی دلدادہ نیو برانڈ پاکستانی نسل
لڑکے اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اکثریت عمران خان کو اپنا کھیون ہار
تسلیم کرکے تبدیلی کے لئے انقلاب لانے کی متمنی ہے۔ اسلام اباد لاہور کراچی
پشاور کوئٹہ کی طرح جنوبی پنجاب کی دور دراز تحصیل کوٹ ادو ڈسٹرکٹ مظفرگڑھ
میں بھی سیاسی ڈیروں پر دھیرے دھیرے سیاسی رونقیں بحال ہورہی ہیں۔ کوٹ ادو
پچھلے تین سالوں سے مایوسی نراسیت اور رنج و الم کی دلدل میں ڈوبا ہوا ہے.
قحط الرجال کے اس سیاہ دور میں اللہ کے بندے خال خال ہی پیدا ہوتے ہیں یہ
وہ دیوقامت رہبر اور رہنما ہوتے ہیں جو حسبن اللہ و نعم الوکیل میرے لئے
فقط تیرا اللہ کانام ہی کافی ہے کو ایمان کا منشور غریب طبقوں مزدوروں اور
کسانوں کی عوامی حمایت سے جاگیرداروں کے درباروں میں موسی کی پیروکاری اور
صداقت دیانت داری زہد و تقوی شجاعت و دلیری کے بل بوتے پر ایک طرف سیاسی
فرعونیت کو پاش پاش کردیتے ہیں تو دوسری طرف اپنے بنجر و بے اب و گیاہ
علاقے کی شادابی جہالت کے خاتمے اور انسانی بنیادی حقوق کی بازیابی کے لئے
وہ اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنے سے ہچکچاتے نہیں۔ کوٹ ادو کی سیاسی
میوزیکل کرسی پر کھر گروپ عباس قریشی گروپ موجودہ ایم پی اے احمد یار ہنجرا
گروپ اور گورمانی خاندان کے مہاراج گودے وڈیرے ہی جلوہ گر ہوتے رہے ہیں
مگر1988 میں شیخ عمر کے کڑیل نوجوان محسن علی قریشی نے سیاسی اکھاڑے میں
شرکت کی۔ اس نے جاگیرداریت کے خلاف صدائے باغیانہ لگائی۔نوے کی دہائی میں
اس نے دو صوبائی الیکشن میں حصہ لیا مگر کامیابی کا مندر ابھی دور تھا۔25
سالہ دور سیاست میں آمریت زدہ اور خزاں رسیدہ لوگ اسکے لشکر میں گاہے بگاہے
شامل ہوتے رہے۔ عوامی لشکر نے2002 میں سابق گورنر پنجاب مصطفی کھر اور ضلعی
ناظم سلطان ہنجرا کے داماد ملک قاسم کو شکست دی۔ گودہ شاہی کے بت پاش پاش
کر ڈالے۔ محسن علی کی شریک حیات خالدہ محسن علی سینیٹر قومی نشستna 176 پر
mna منتخب ہو گئیں کیونکہ محسن قریشی گریجوئیٹ نہ تھے۔کوٹ ادو کی صوبائی
سیٹ ق کے احمد یار نے جیت لی تھی۔2008 میں محسن قریشی نے بہ نفس نفیس قومی
نشست na 176 پر کھر گروپ کے طاہر میلادی ن لیگ کے سابق ممبر قومی اسمبلی
عباس قریشی کے امریکہ پلٹ فرزند امجد عباس قریشی اور کیو لیگ کے ملک قاسم
کو شکست دیکر مرد میدان بننے کا اعزاز حاصل کیا۔وہ ایک سال تک اقتدار کی
راہدریوں میں گھومتا رہا۔قیام پاکستان سے علاقائی عوام کے دو متفقہ پراجیکٹ
ایسے تھے جو پنجاب کے کوتوال مصطفی کھر اور ضلع ناظم سلطان ہنجرا ہزاروں
وعدوں کے باوجود پورے کرنے میں ناکام رہے۔ دو منصوبے ملتان پشاور اسلام
اباد کو لنک کرنے کی خاطر ہیڈ محمد والہ کی تعمیر اور اہم تجارتی مرکز چوک
منڈا میں سوئی گیس کی سپلائی تھے۔ محسن قریشی نے پہلے تین مہینوں میں ہیڈ
محمد والہ کی تعمیر کے لئے سات ارب جبکہ چوک منڈا کی گیس کے25 کروڑ کے فنڈز
حاصل کئے۔ ہیڈ محمد والہ مکمل ہوچکا ہے۔جدید سائنسی انداز کے اس پل نے
ملتان اور کوٹ ادو کا سفر ایک گھنٹہ کردیا۔چوک منڈا شہر میں سوئی گیس پہنچ
چکی ہے۔ عوام کیلئے اسلام آباد اور کوٹ ادو کے مابین محسن قریشی سینڈ وچ بن
گیا۔بے پناہ عوامی مصروفیات اور حکومتی فرائض کی خاطر انکے دماغ پر اثر
ڈالہ اور شومئی قسمت انکے دماغ کی شریان پھٹ گئی۔ حالانکہ ڈاکٹر بیانگ دپل
اسی مرض کی تشخیص کرکے تین ماہ کے ریسٹ کی ہدایت کی مگر وہ عوامی کیمیونٹی
سے دور نہ رہ سکا۔ فروری2009 کا سورج اپنے ساتھ ضلع مظفرگڑھ کی21 لاکھ
آبادی پر قہر برسانے اور رنج و الم کی یورش کرنے کے لئے طلوع ہوا۔ 176 na
کی اٹھ لاکھ ابادی کے دلوں پر راج کرنے والا پولیٹیکل رہنما ممبر قومی
اسمبلی محسن علی جی ایم ریلوے کے ہمراہ ریلوے پھاٹک کا افتتاح کر رہے تھے
کہ دماغ کی شریان پھٹ گئی حالانکہ پندرہ منٹ قبل کوٹ ادو کے ماہر ترین
ڈاکٹر نے مذکورہ ایم این اے کو سختی سے افتتاحی تقریب میں جانے سے روکا مگر
عوامی عقیدت اپنی زندگی پر اولیت حاصل کرگئی۔ محسن علی قریشی پمز ہسپتال
میں مسلسل 3سال سے زیر علاج ہیں۔ کوٹ ادو کے گھروں میں چار اپریل 1979 میں
لوگوں نے بھٹو کی پھانسی کے دکھ میں چولہے روشن نہیں کئے گئے۔ یہ منظر
دوبارہ21 جنوری2009 میں دوبارہ دیکھا گیا جونہی عوام کے محبوب اور ہر
دلعزیز رہنما محسن قریشی کی برین ہیمبرج کی بدنصیب خبر پھیلی۔ کیا یہ سچ
نہیں کہ یورپین ہسپتال پاکستان سے بہت آگے ہیں۔جیالوں کا کہنا ہے کہ حکومت
شائد اپنے ضلعی صدر پی پی پی اورmna کو مرنے کی خاطر پمز میں پابند سلاسل
کر چکی ہے۔ اگر بلاول بھٹو یا موسٰی گیلانی ایسی تکالیف میں گرفتار ہوتے تو
کیا انہیں خصوصی طیارے میں لندن امریکہ نہ بھیج دیا جاتا؟ چھ لاکھ ووٹر
پرائم منسٹر وزیر صحت اور صدر مملکت سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتی ہے کہ لاکھوں
پرستاروں کے مقبول ترین رہنما محسن قریشی کو فوری طور پر امریکہ بھیج دیا
جائے ورنہ وہ اپنا ووٹ بنک کھو بیٹھے گی۔ علیل mna کے جانشین شبیر علی
ڈاکٹر والد کی نشست سنبھال لی ہے۔ صدر مملکت زرداری نے محسن قریشی کی بیوی
خالدہ محسن علی قریشی کو ایک ماہ قبل ہونے والے سینیٹ کے الیکشن میں نہ صرف
PPPٹکٹ الاٹ کی بلکہ بلامقابلہ کامیاب کروایا۔ سینیٹر منتخب ہونے کے بعد
پارٹی کی صفوں اورعوامی مایوسیوں میں کمی ہوئی۔اگلے الیکشن میںna 176 پر
کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ پی پی پی کے ٹکٹ پر قومی حلقہ سے ڈاکٹر شبیر علی
قریشی پی پی پی ن لیگ ملک قاسم یا امجدعباس قریشی میں سے نواز شریف نے جسکی
گال پر تھپکی دی وہی ٹکٹ کا معرکہ سر کر لے گا۔ اطلاعات کے مطابق اگر ن لیگ
نے امجد قریشی کو سبز باغ دکھانے کی کوشش کی تو وہ تحریک انصاف کا دامن
تھام کر قسمت ازمائی کریں گے۔ ایم کیو ایم تحریک انصاف کے امیدوار بھی
میدان میں ہونگے مگر اصل معرکہ شبیر علی قریشی پی پی پی اور ہنجرا گروپ کے
مابین ہوگا۔ڈاکٹر شبیر علی قریشی نے چار سو چکوک و بستیوں میں بجلی مہیا
کروائی جہاں کبھی اندھیرے ہی اندھیرے تھے اج وہاں روشنیوں کا نور برستا
ہے۔پی پی پی نے کوٹ ادو شہر کو45 کلومیٹر کی سوئی گیس مہیا کی ہے۔20 ہزار
مسکین یتیم عورتوں اور بیواﺅں کو ہر ماہ بینظر انکم سپورٹ سکیم سے دوہزار
ماہانہ امداد دی جارہی ہے۔ وزیراعظم گیلانی نے امداد لینے والی بیس ہزار
عورتوں کی تعداد کو چالیس ہزار کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ڈاکٹر شبیر علی کو میاں
محسن کی معصومیت اور مظلومیت کا خاصا ووٹ بنک ملے گا انکی کامیابی صرف والد
محسن قریشی کے نقش قدم پر چل کر ہی ممکن ہوسکتی ہے۔شبیر علی قریشی کا فرض
ہے کہ وہ اپنے والد کے ساتھیوں میاں رفیق قریشی پیر ماجد گیلانی روف عامر
غضنفر نیازی عباس جیالہ قاسم مغل غضنفر بخاری اور ایم پی اے چوک منڈا
نولاٹیہ صاحب مہر ارشاد سیال ملک شریف واجد قریشی کی مشاورت سے اخری بجٹ کو
استعمال کیا جائے۔ محسن علی قریشی اسٹیڈیم کی تعمیر کے لئے کم از کم پچاس
لاکھ کی گرانٹ جاری کی جائے۔ قاسم ہنجرا عباس قریشی اور شبیر علی میں سے
کون176 سے قومی اسمبلی کا معرکہ سر کریگا یہ تو انے والہ وقت بتائے گا مگر
ایک سچ تو یہ ہے ڈاکٹر شبیر علی قریشی مضبوط ترین امیدوار کے روپ میں موجود
ہیں۔ |