بسم اللہ الر حمن الرحیم
شام میں ایک بار پھر فسطائیت، ظلم اور جبر کا بازار گرم کر دیا گیا ہے اور
عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونک کر شامی صدر کوفی عنان کے امن
فارمولے اور فائر بندی معاہدے کی مسلسل دھجیاں بکھیر رہا ہے جس پر سعودی
حکام بھی یہ کہنے پر مجبور ہو ئے کہ ”کوفی عنان کے امن پلان پر اعتماد کا
رنگ تیزی سے زائل ہو رہا ہے“ ۔ 12اپریل 2012ءسے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے
مشترکہ نمائندہ کوفی عنان کی کوششوں سے شام میں ایک امن فارمولا لاگو کیا
گیا ہے جس کے مطابق بشار کی فورسز اور باغی ایک دوسرے کے خلاف کوئی
کارروائی نہیں کریں گے، یاد رہے کہ بشار الاسد اور اس کے ساتھی عالمی
برادری کو مسلسل یہ باور کرا نا چاہ رہے ہیں کہ باغی تحریک چند گنے چنے
افراد پر مشتمل ہے اور یہ لوگ ملک بھر میں سیکیورٹی فورسز پر حملے کر رہے
ہیں جب کہ فوج محض اپنے دفاع کی خاطر ان کے خلاف جوابی کارروائیوں میں
مصروف ہے ، بشار الاسد نے کوفی عنان سے کہا ،اگر شامی آزاد فوج کے یہ باغی
فوج پر حملے نہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ فوج ان کے خلاف طاقت کا استعمال
کرے۔ باوجود اس کے کہ اس بات میں ذرہ برابربھی سچائی اور حقیقت نہیں ، پھر
بھی عالمی برادری اور عرب لیگ کے نمائندہ کوفی عنان نے شام میں بارہ اپریل
سے ایک امن فارمولا پر عملد ر آمدکروانے کی ٹھانی ہے اور اس کے ساتھ ہی
176افراد پرمشتمل ایک مبصر وفد کو شام کے طول وعر ض میں چھوڑ دیا گیا ہے ،عالمی
مبصرین کے اس وفد کا مشن یہ ہے کہ ملک بھر میں باغی عوام کے جلسے ، جلوسوں
اور بشار الاسد کی فورسز پر کڑی نظر رکھیں گے اور اس بات کا جائزہ لیا جائے
گا کہ فریقین کہاں تک اس امن منصوبے پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
لیکن سچ تو یہ ہے کہ بشار حامی فوجیوں نے اس سیز فائر معاہدے پر ایک دن بھی
عمل نہیں کیا، حکومتی فورسز کی طرف سے پرتشدد کارروائیوں میں کوئی کمی نہیں
آئی اور پہلے سے بڑھ کر عوام کے خلاف طاقت کا استعمال جاری ہے ، آج اس امن
فارمولے اور فائربندی معاہدے کو نافذ ہوئے ایک ماہ سے زائدکا عرصہ گزر رہا
ہے جب کہ شام کے گلی کوچوں میں مظلوم مسلمانوں کا خون پہلے سے بھی زیادہ
وحشت اور درندگی کے ساتھ بہایا جا رہا ہے ، یوں تو بارہ اپریل سے اب تک
روزانہ کی بنیاد پر وہاں کے عوام کو تہہ تیغ کیا جا رہا ہے تاہم بشار فورسز
نے سب سے بڑی اور بھیانک کارروائی دس مئی 2012کو شام کے ایک مغربی شہر ہما
میں کی ہے جس نے عالمی مبصر وفد کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ عالمی میڈیا کی
رپورٹ کے مطابق ہما شہر سے چند کلو میٹر دور ایک سنی اکثریتی گاﺅں کو رات
کے وقت بشار کی فوجوں نے گھیرے میں لے کر اس پر اندھادھند شیلنگ کی ہے اور
بعد ازاں فوجیوں نے گھر گھر تلاشی کے دوران تیس کے قریب لوگوں کو موت کے
گھاٹ اتار دیا ہے ، مرنے والوں میں چار خواتین بھی شامل ہیں ، اس قتل و
غارت کے بعد بشار کے فوجیوں نے ڈیڑھ درجن کے قریب گھروں کو نذر آتش کر ڈالا
، اس کارروائی کے متعلق مبصرین کا کہنا ہے کہ اس گاﺅں کو شامی صدر کے خلاف
احتجاجی تحریک میں مرکز کی اہمیت حاصل تھی اورجن چار خواتین کو فوجیوں نے
قتل کیا انہوں نے اس باغی تحریک میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا تھا ، اس
کے علاوہ دمشق ، دمیر اور ورعا شہر میں بھی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے
شہریوں کے قتل عام میں شدت در آئی ہے ، ایک اورنیوز ایجنسی نے بھی خبر دی
کہ سولہ مئی کو ایک دور دراز گاﺅں ڈومہ میں جیٹ طیاروں نے بمباری کر کے کئی
مکانات کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ہے تاہم جانی نقصانات کی مصدقہ اطلاعات
ابھی تک سامنے نہیں آسکیں ، سولہ مئی کو ادلب شہر میں ایک جنازے پر فوج نے
فائرنگ کر دی جس سے بیس لوگ مارے گئے،سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس
تنظیم نے یہ خبر دی کہ حمص کے علاقے الرستن میں شامی فورسز نے گزشتہ کئی
دنوں سے کارروائی شروع کر رکھی ہے جس میں اب تک پچاس سے زائد لوگ مارے گئے
ہیں ۔ یوں بنظر غائروہاں کے حالات دیکھے جائیںتو شام میں اقوام متحدہ اور
عرب لیگ کے امن فارمولے اور فائر بند ی کا معاہدہ اپنی موت آپ مر رہا ہے
اور عالمی مبصر وفد ، میڈیا رپورٹس کے مطابق شام کی اندرونی صورتحال بدستور
کشیدہ ہے ، ان حالات کو دیکھتے ہوئے برسلز میں یورپین وزرائے خارجہ کے اجلا
س میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کوفی عنان کی یہ امن کوششیں ناکام ہو گئیں
تو شام ایک نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی کی زد میں آجائے گا ، اسی تناظر میں
سعودی عرب ، قطر اور اردن نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا کہ عرب لیگ اور
اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کوفی عنان کا امن قائم کرنے کا یہ منصوبہ
ناکامی سے دوچار ہونے کے قریب ہے کیونکہ بشار الاسد اور اس کی فورسز ببانگ
دہل فائربندی کے اس معاہدے کو سبوتاژکرنے میں مگن ہیں اور شام بھرمیں عوام
کے خلاف لاٹھی اور گولی کی زبان میں بات کی جا رہی ہے ، خود شام کے ان
حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوفی عنان کہتے ہیں کہ بشار الاسد خانہ جنگی
کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مبصروفد کے سربرا ہ نے کہا ہے کہ وہ شام کی صورتحال پر
بہت دل گرفتہ ہیںکیونکہ بشار الاسد اور اس کے ساتھی عالمی قوانین کی کھلم
کھلا خلاف ورزی کر تے ہوئے اپنے مخالفین کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں
اور شامی صدر کی سیکیورٹی فورسز سنی اکثریتی آباد ی میں ظلم کا بازار گرم
کیے ہوئے ہیں۔عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل کہتے ہیں اگر شامی صدر فی الفور
اقتدار سے الگ نہ ہوئے تو ملک ایک طویل اور نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی کی
لپیٹ میں چلا جائے گا ۔ شامی صدر کے حکم پر اس کی سیکیورٹی فورسز ایک سال
میں ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک بیس ہزار کے قریب احتجاجی شہریوں کے
خون سے ہاتھ رنگ چکی ہیں ، ڈکٹیٹر اسد کے حکم پر احتجاجی آبادیوں کو گھیرے
میں لے کر وہاں خون کی ندیاں بہائی جا رہی ہیں اور مساجد و مدارس کو بلڈوز
کیا جار ہا ہے ، ان عوامی مظاہروں کو ایک سال ہونے کوا ٓرہا ہے مگر شامی
حکومت کی فرعونیت ، بے حمیتی دیکھیے کہ وہ پوری دنیا کے احتجاج کو ٹھکرا کر
بڑی دیدہ دلیری سے وہاں کی اکثریتی سنی آبادی کے خلاف طرح طرح کے ہتھکنڈے
استعمال کیے ہوئے ہے ، سنی اکثریتی آبادی ، حمص، ادلب ، ورعا ، ہما شہر اور
دمشق کے مضافاتی علاقے اس کے قہر اور ظلم کا نشانہ بنے ہوئے ہیںاور ایسا لگ
رہا ہے کہ بارہ اپریل سے نافذ العمل کوفی عنان کا یہ امن فارمولا اور سیز
فائر معاہدہ مدت قلیل میں ہی اپنی موت آپ مرنے جا رہا ہے اور اقوام متحدہ
نے عرب لیگ کواندھیرے میں رکھ کر وہاں کے عوام کو بہر حال ایک اقلیتی اور
متعصب گروہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔ |