ضابطہ اخلاق یا ضابطہ فساد

پاکستان کے تقریباً تمام علاقے اس وقت بدترین سیاسی، انتظامی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہیں اورغیر یقینی کی وجہ سے عوام کو یہ معلوم نہیں کہ کب کیا ہوگا۔ اس غیر یقینی صورت حال نے ملک کو ہر حوالے سے تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیا ہے۔ کہیں انتظامیہ اور عدلیہ متصادم نظر آتے ہیں تو کہیں سیاسی قوتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے تمام جائز وناجائز حربے استعمال کررہی ہیں۔ بدانتظامی اور کرپشن کے ضمن میں پاکستان پہلے ہی بدنام تھا، مگر اب توحکم عدولیوں کی بھی انتہا ہوچکی ہے۔
ایک طرف عدلیہ حکم عدولی پر وزیراعظم کو مجرم ٹھہراتی ہے تو دوسری طرف پارلیمانی ادارے ان کی حمایت میں عدلیہ کے مدمقابل اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس کی واضح مثال حال ہی میں پارلیمنٹ، سندھ اسمبلی اور گلگت بلتستان کی مبینہ اسمبلی کی قراردادیں ہیں۔ اگرچہ قانونی اور آئینی طور پر یہ قراردادیں عدالتی فیصلے پر اثر انداز نہیں ہوسکتیںتاہم ان کا مقصد وزیراعظم کو اخلاقی حمایت فراہم کرنا ہے ۔اخلاق کی بات کی جائے تو سزا سے قبل ہی وزیراعظم کو اخلاقاً اپنے عہدے سے مستعفی ہوجانا چاہیے تھا ،مگر وہ مجرم ٹھہرنے کے بعد بھی نہ صرف میں نہ مانوں کی پالیسی پر گامزن بلکہ اس سلسلے کی نئی راہوں کی تلاش میں ہیں۔ جس ملک کے وزیراعظم کا عدالتی فیصلوں کے حوالے سے یہ رویہ ہو وہاں عوام سے اخلاقیات، قانون، مثبت روایات اور رواداری کی امید رکھناخود فریبی ہی ہو سکتی ہے۔

کچھ اسی طرح کی صورت حال کا سامنا آج کل پاکستان کے پانچویں غیر قانونی اور غیر آئینی مبینہ صوبے گلگت بلتستان کو ہے۔ جہاں وقت کے حکمران عوام کو بااختیار بنانے کے نام پر خطے کی محرومیوں میں اضافے کے لیے کوشاں رہے ” لڑاﺅ اور حکومت کرو“ کی پالیسی کے تحت مختلف مکاتب فکر، قبائل اور ریجنز کو متصادم لا کھڑا کیا۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں 1970ءتک یہ خطہ ریجنز کے اختلافات میں الجھا ہوا نظر آتا ہے۔مگر بعد میں ان کی جگہ مذہبی اختلافات نے لی جس کی وجہ سے خطے میں مذہبی تقسیم در تقسیم کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ جاری ہے ،جس کا نتیجہ مختلف سانحات کی شکل میں سامنے آیا اور اب تک ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔مگر مقامی مذہبی وسیاسی قیادت نے پھر بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے تیار نہیں،قیادتوں پر فائز لوگ دانستہ یا غیر دانستہ استعمال ہوتے رہے ، اب نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ مقامی دانشور اور میڈیا بھی اقلیت اور اکثریت کی اصطلاحات استعمال کر نے پر مجبور ہیں جو پاکستان میں مذہبی بنیاد پر صرف غیر مسلموں کے مختص ہے۔پاکستان کی ہر حکومت نے حقوق کے نام پر عوام کے ساتھ فراڈ کیا،ادارے بنائے مگر اختیار نہیں دیا،عوامی نمایندوں کی زبانیں بھی مرعات کے ستو پیکر خاموش ہوگئیں ،اگر کسی دل جلے نے آواز اٹھائی تو وہ نہ صرف غدار ٹھرا بلکہ نشان عبرت بنادیا گیااور باقی دل جلے خاموش ہونے پر مجبور ہوئے ،تاہم ان مشکل حالات میں بھی کچھ نے نیک نامی کمائی ۔1999ءمیں بننے والی کونسل بھی ماضی کی طرح بے اختیار تھی مگر اس نے منافرت کے خاتمے کے لیے مناسب اقدام کیے اور یہی وجہ ہے کہ عوام فدامحمد ناشاد اور حاجی صاحب خان کو آج بھی اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔
2005ءمیں عمل اور ردعمل کے بعد حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے اس کے باوجود بیشتر عوامی نمایندوں نے اسلام آباد میں پناہ لینے کی بجائے گلگت میں موجود رہ کرمثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کی ۔پہلے جرگہ بنانے اور بعدازاں امن معاہدہ2005ءکرانے میں کامیاب ہوئے ملک مسکین ،حافظ حفیظ الرحمان ،جعفر شاہ ،کلب علی ،غلام محمد اور دیگر کے مثالی کردار کو آج بھی سراہا جارہا ہے ۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے 2009ءغیر آئینی اور غیر قانونی پیکیج دیا عوام نے شدید تحفظات کے باوجود اس لیے نرمی اختیار کی کہ شاید اس سے مذہبی منافرت کا جن قابو میں آئے مگر انہیں کیا خبر کہ اگے جاکر یہی پیکیج نئے فسادات اور منافرت کی وجہ بنے گا تاہم دانشمندوں نے پہلے ہی اس کی نشاندہی کی تھی کہ یہ خوشی نہ صرف عارضی بلکہ طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگی جس کو دیوانے کی بھڑ کہا گیا اور یہ امید رکھی گئی کہ 2009ءکے عام انتخابات سے صورت حال میں بہتری آئے گی اور عوام ووٹ کا استعمال مذہب پرستی، مسلک پرستی، مفاد پرستی کی بجائے اہلیت کی بنیاد پر کریں گے۔ مگر ایسا نہیں ہوا کیوں کہ مذہبی عنصر کو بالعموم تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور بالخصوص پیپلز پارٹی نے بہت خوفناک انداز میں استعمال کیا۔جس کا اثر مخصوص نشستوں ، کونسل کے ارکان اور وزیراعلیٰ کے انتخاب، وزراءاور مشیروں کی تقرری میں بھی نظر آیا۔
اقتدار کے زعم میں سید مہدی شاہ نے اپنی ناتجربہ کاری اور اپنے آپ کو”شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار“ ثابت کرنے کے چکر میں بالآخر قوم کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کردیا۔ شاہ صاحب نے اپنے آپ کو گلگت بلتستان کے بجائے عملاً کسی ایک مکتب فکر اور پیپلز پارٹی کے وزیراعلیٰ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جس سے مزید الجھنیں پیدا ہوئیں اور دیگر مکاتب فکر یا سیاسی قوتوںنے اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کیااور یہی عمل خطے میں شدید مذہبی منافرت کا سبب بنا ۔ سانحہ کوہستان کے بعد بھی اگر حکمران سنجیدگی کا مظاہرہ کر کے سازش کے اسباب تلاش کرتے تو حالات اس حد تک خراب نہ ہوتے ۔ سید مہدی شاہ نے اس عبدالرحمن ملک پر اعتبار کیا جن کی ”سچایوں “کا چرچے زبان زد عام ہیں اورمختلف قائدین” ملک صاحب“ کے اتحادی ہوتے ہوئے بھی ان پر اعتبار کے لیے تیار نہیں۔

مقامی سیاسی،مذہبی اورسماجی قوتوں نے بھی سازش کو بے نقاب کرنے کی بجائے وفاق کی خوشامد کے لیے خطے کو قربانی کا بکرا بنادیااور نتیجہ 3 اپریل 2012ءکو خوفناک سانحات کی شکل میں سامنے آیا۔ جانی و مالی نقصانات کے علاوہ تقریباً ایک ماہ تک دارالحکومت میں کرفیو رہا ،”آج کے امن کے داعی“ ”لاڑکانہ چلو اور اسلام آباد میں ہی رہو“کی پالیسی پر گامزن تھے ۔مئی سے ستمبر تک کو گلگت بلتستان میں سیاحت کا سیزن کہا جاتا ہے جس سے ہزاروں خاندانوں کے نان و شبینہ کا تعلق ہے مگر اب کی بار حالات کی خرابی کی وجہ سے نہ صرف غیر ملکی وملکی سیاح بلکہ مقامی افراد بھی سفر کرنے سے گریزاں ہیں، کیوں کہ علاقے ،شہر ،بازار،سڑکیں،گلی محلے اور سیاحتی مقامات غیر محفوظ اور نو گو ایریا بن چکے ہیں۔

مقامی عوامی نمائندے کئی چہروں کے ساتھ مناسب حل کی بجائے ، مسلکی وذاتی عناد کی بناپر”حل نما تباہی کے منصوبے “پر گامزن ہیں جس کو 15نکاتی ضابطہ اخلاق کانام دیا جارہا ہے۔ مبینہ مساجد کمیٹیوں اور کابینہ وکونسل کے بعض ارکان کی مشاورت سے تیار کیے جانے والے ضابطہ اخلاق کا کمال یہ ہے کہ اس کا اطلاق 20 لاکھ عوام پر کرنے کی بجائے صرف دو آئمہ مساجد پر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ضابطہ اخلاق کی تمام شقوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ مرتب کرنے والوں نے دانستہ یا غیر دانستہ نفرت کی آگ پر پٹرول چھڑکنے کی کوشش کی ہے۔ ضابطہ اخلاق کے ابتدائی چار نکات تو صرف علمی ،نظریاتی اورفقہی ہیں مگر انہی پر زیادہ توجہ مبذول کی گئی ہے ۔حالانکہ یہاں پر ایک دوسرے کو مسلمان یا کافر ثابت کرنے کی کوشش کی بجائے ”اپنا نظریہ چھوڑو نہیں دوسرے کے نظریہ کو چھیڑو نہیں “ کو شامل کرنے اور اس سوچ پر عمل کے لیے سخت اقدام کا ذکر ہونا چائے تھا،مگر مرتبین نے یہاں بھی مصالحت کار کی بجائے مفتی اور مجتہد بننے کی کوشش کی ہے۔ ضابطہ نمبر 10 کے علاوہ باقی تمام نکات کا اطلاق صرف دو آئمہ ان کی مساجد یا ان کے نائبین پر ہوگا۔اگر تقدم ،تاخراور تسلسل کو دیکھا جائے تو ضابطہ نمبر 10 بھی دو آئمہ ان کی مساجد یا ان کے نائبین کے لیے ہی ہے۔

ضابطہ اخلاق کے عنوان،15 نکات اور وضاحت کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں مذہبی قائدین قوم کے رہنما نہیںبلکہ رہزن ہیں۔ خطے میں ہونے والے تمام جرائم کے ذمہ دار یہی دونوں ہیں۔ یہاں تک ثابت( ضابطہ نمبر 10) کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ناشائستہ، غیر اخلاقی اور غیر اسلامی موبائل پیغامات کا اجراءبھی انہی کی وجہ سے ہے اور انہوں نے اپنی اپنی ریاست بنا رکھی ہے ۔انہی کی نگرانی اور ہدایت پر دونوں مکاتب فکر کے جرائم پیشہ افرادجرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔

کیا قوم ضابطے اخلاق کے مرتبین سے یہ پوچھنے میں حق بجانب نہیں کہ گلگت میں بم دھماکے ،کوہستان و چلاس میں قتل وغارت، نگر میں قتل واغواء، دیامر میں گاڑیوں کی تلاشی اور نو گوایریا کے ذمہ دار صرف قاضی نثاراحمد اور آغاراحت الحسینی ہیں؟ اگر واقعی یہ ذمہ دار ہیں تو سزا دینے کی بجائے حکمران اور انتظامیہ ان کو پروٹوکول کیوں دے رہی ہے؟ انہیں سلام کیوں پیش کیا جارہا ہے ؟ان کی منت سماجت کیوں کی جاتی ہے؟اگر یہ اتنے بڑے مجرم دونوں مساجد کی مناروں میں کھڑا کرکے سزا کیوں نہیں دی جاتی ؟انہیں نشان عبرت کیوں نہیں بنایا جاتا؟کیا منافرت کی باتیںصرف مساجد میں عیدین اور جمعہ کے خطبات ہوتی ہیں ؟کیاسیرت کے جلسوں،ماتمی جلوس اور دیگر تقریبات میں ایسا نہیں ہوتا ہے؟ کیا خطے کے دیگر آئمہ ، خطبائ،ذاکرین ، سیاست دانوں، سماجی رہنما ﺅں ، صحافیوں،تاجروں ،سرکاری ملازمین اور عوامی نمایندوں میں سے کسی کا کوئی کردار نہیں؟۔ سچ تو یہ ہے کہ معاملہ صرف دو آئمہ کا نہیں بلکہ خطے کا ہر فردمتعصب اور بالواسطہ ےا بلاواسطہ ان جرائم میں شریک ہے ۔ کچھ دانستہ ،کچھ غیر دانستہ اوربعض کو مجبوری نے متعصب بنادیا ہے ،اسی طرح میر جعفر اور میر صادق کی بھی کمی نہیں ہے۔دو آئمہ یا مساجد کا نام لیکر باقیوں کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اب رہی سہی کسر نام نہادمفتی اور مجتہدین 15 نکاتی ضابطہ اخلاق کے ذریعے نکالنے کوشش کر رہے ہیں ۔

ضابطہ اخلاق کی حتمی منظوری سے قبل ہی مفتیوں، مجتہدین ( حکمرانوں ،سیاستدانوں ،عوامی نمایندوں) اور انتظامیہ نے اس کو میڈیا کی زینت بنادیا، اور اس عمل نے دونوں مکاتب کی نجی محفلوں یا مذہبی تقریبات کے موضوعات کو بھی گلی، محلے اور بازار کی بحث و مباحثہ میں بدل دیا اور اب عوام کون کافر اور کون مسلمان کی بحث کرنے پر مجبور ہیں۔ جب علمی ،فقہی اور نظریاتی بحث اس نہج پر ہو تومقامی حالات پر اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے اس فیصلہ قارئین خود ہی کریں۔اسی لیے ہمارا مﺅقف ہے کہ مرتبین نے عوامی نمایندے کی بجائے مفتی یا پھر مجتہد کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔شاید یہی وجہ ہے یہ 15نکاتی مسودہ ضابطہ اخلاق کم فتویٰ یا اجتہاد زیادہ محسوس ہورہا ہے ، 15نکاتی مسودہ ضابطہ اخلاق مقامی اخبارات روز نامہ صدائے گلگت کی 12 مئی ،روز نامہ K2کی 17 مئی اورروز نامہ بادشمال کی 18مئی 2012ءکی اشاعت میں بطور سرکاری اشتہار شائع کیا گیا جو قارئین کے مطالعے کے لیے انہی اخبارات کی ویب سائٹس پر موجود ہے۔ قارئین شق نمبر 1 سے 4 پرغور کرکے خود یہ فیصلہ کریں کہ مرتبین کے حوالے سے ہمارا موقف درست ہے یاغلط۔ ضابطہ نمبر 1 سے 4 تک کا کلی تعلق صرف علمی اور نظریاتی بحث سے ہے۔ اب ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ان شقوں کی شمولیت نیک نیتی ہے یا بدنیتی ؟یاپھرذاتیات کا عمل دخل! مگر اتنا ضرور ہے کہ مرتبین نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا ہے ۔ مساجد بورڈ ہو یا وزارتی کمیٹی ،اسمبلی ہو یا کونسل کسی کو اس طرح کی قانون سازی کا کوئی اختیار اور استحقاق حاصل نہیں۔

مستقبل میں اس کے کیا منفی اثرات مرتب ہونگے جدیددارالافتاءوالاجتہاد(گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی اور گلگت بلتستان کونسل)سمیت شاید بہت سوں کو اس کا ادراک نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب خطہ منافرت کی آگ میں جل رہا ہے۔ اسمبلی کے 21 ویں اجلاس میں خطے کے مسائل کے حل پر بات کرنے کی بجائے وزیراعظم سے اظہار یکجہتی کی قرارداد منظور کی جاتی ہے اور ایوان میں جو شخص عوامی مسائل کی بات کرتا ہے اسے غدار اور دیگر سنگین الزامات سے نواز کر کم از کم ایک سیشن کے لیے ایوان سے بے دخل کیا جاتا ہے۔ نواز خان ناجی نے وزیراعظم کے حوالے سے پیش ہونے والی قرارداد کی کاپی پھاڑ کرکوئی جرم نہیں کیا۔یہ صرف احتجاج تھاجوان کا قانونی حق ہے(جس کا مظاہرہ پاکستان کی اسمبلیوں روز ہوتا ہے) لیکن جنہوں نے ایوان میں غلیظ گالیاں دیں ان کے بارے میں اسپیکر اور حکمران خاموش کیوں ہیں۔ اسپیکروزیر بیگ کی غیر جانب داری کا یہ عالم کہ” کاغذ پھاڑنے والے کو ایوان کے ایک سیشن سے بے دخل کیا، جب کہ گالیاں دینے والوں کے بارے میں خاموشی اختیار کی“۔ میڈیا اس بدتہذیبی کو ریکارڈ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ڈپٹی اسپیکر دھمکیوں پر اتر آ ئے ہیں۔صاحبو! اتنی زیادہ وفاداری اور عقیدت ظاہر کرنے کی ضروت نہیں ،ذرا بابر اعوان کے انجام پر بھی غور کریں ۔ قوم پرست رہنماءنواز خان ناجی کے نظریات،سیاسی خیالات اور طریقہ جدوجہد سے اختلاف اپنی جگہ مگرجدیددارالافتاءوالاجتہاد(گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی ) میں انہوں نے پوری قوم کے حقیقی مﺅقف کی نمائندگی کی ہے، اس لیے ان کو تنہا سمجھنا غلط فہمی ہے۔ خطے کے حالات کے ضمن میں بعض ارکان کونسل یہ الزام لگا رہے ہیں کہ” غیر ملکی ادارے لوگوں کو پیسے دے کر استعمال کر رہے ہیں “۔ مولانا عطاءاللہ شہاب صاحب ِثبوت ہیں تو ملوث عناثر کوبے نقاب کرنے میں تاخیر کیوں؟۔ جس حیثیت میں انکشاف کیا ہے کم از کم اسی حیثیت میں ہی مجرموں کے نام ظاہر کریں ۔رہی بات مسائل کے حل کی تو خطے میں مستقل امن کے لیے پوری قوم کو ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھ کر ہر ظلم کے خلاف اٹھنا پڑیگااور مفتی اور مجتہدین بننے کی بجائے مصالحت کار بنکرکام کرنا ہوگااسی میں پوری قوم کی بقا ہے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 106894 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.