پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو
ختم کرنے کےلئے بڑے داﺅ پیچ اور حربے استعمال کئے گئے لیکن صدرِ پاکستان
آصف علی زرداری کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے کہ اس نے کسی نہ کسی طرح سے بچاﺅ
کی راہیں ڈھونڈ کر جمہوری نظام کو پٹری سے اترنے سے بچائے رکھا۔ کبھی میمو
گیٹ کا ہوا کھڑا کیا گیا، کبھی ایبٹ آباد کمیشن کی کاروائی سے حکومت پر دباﺅ
ڈالنے کی کوششیں کی گئیں اور کبھی نیٹو سپلائی لائن کو احتجاجی سیاست کا
روپ دیا گیا تاکہ حکو مت دباﺅ میں آکر نئے انتخابات کا اعلان کر دے لیکن
اپوزیشن کسی بھی ایشو پر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہ کرسکی۔ پی پی پی
کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے اعلانات اور گو زرداری گو کے نعرے بھی اسی
تنا ظر میں تھے لیکن آصف علی زرداری کی بہت حکمتِ عملی کے سامنے مخا لفین
کے دانت کھٹے ہو گئے اور مخالفین آصف علی زرداری کو ایوانِ صدر سے نکالنے
میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ وزیرِ اعظم سید یو سف رضا گیلانی کے بیٹے موسی
گیلانی کو ا ادویات کے ایک مقدمے میں پھانسنے کی کو ششیں کی گئیں اور میڈیا
نے اس خفیہ ایجنڈے پر جس طرح اسٹیبلشمنٹ کی آواز میں آواز ملائی وہ بھی سب
کے سامنے ہے ۔ اس سارے شور و غوغا کا واحد مقصد سید یو سف رضا گیلانی کی
شہرت کو داغدار کرنا تھا اور انھیں عوام کی نظروں سے گرانا تھا تا کہ عدالت
اگر وزیرِ اعظم سید یو سف رضا گیلانی کو اپیل کے بعد بھی سزا سنانے کا عمل
دہراتی ہے تو ان کی اخلاقی پوزیشن اتنی کمزور کر دی جائے کہ عوام ان کی
حمائت میں اپنے جذبات کا ا ظہار نہ کر سکیں لیکن قومی اسمبلی، سندھ اسمبلی
، بلوچستان اسمبلی ،گلگت بلتستان اسمبلی اور کشمیر اسمبلی میں وزیرِ اعظم
سید یو سف رضا گیلانی کی حما ئت میں قرار دادوں کی منظوری اور عوامی جلسے
جلوسوں نے ساری صورتِ حال کو بالکل نیا رخ دے دیا ہے۔ عوام کے کھلے احتجاج
کے بعد حکومت اعتماد محسوس کر رہی ہے اور اسے اس بات کا ا طمنان ہے کہ اسے
عوام کی پشت پناہی حاصل ہے۔ تو ہینِ عدالت کے قانون کی آڑ میں پاکستان
پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کرنے کی جو سازشیں ہو رہی ہیں وہ دھیرے دھیرے دم
توڑتی جا رہی ہیں کیونکہ عوام کسی بھی جمہوری حکومت کو عدالتی کاروائی سے
ختم کرنے کی حمائت نہیں کر رہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے
سپریم کورٹ پر حملہ کر کے اسکی اینٹ سے اینٹ بجا نے کی کوشش کی تھی اوراس
کے چیف جسٹس سجاد حسین شاہ کی زندگی کا چراغ گل کرنے کی کوشش کی تھی وہ تو
سرِ عام دھندناتے پھر رہے ہیں اور کوئی ان سے حساب مانگنے والا نہیں ہے جب
کہ وزیرِ اعظم سید یو سف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دینے کا ڈول ڈال دیا
گیا ہے حالانکہ وزیرِ اعظم سید یو سف رضا گیلانی نے ہی ججز کی بحالی کا
کارنامہ سر انجام دیا تھا اور ان آہنی سلاخوں کو ہٹانے کا حکم صا در فرمایا
تھا جس کے پیچھے ججز محصور تھے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ پر
دن دہاڑے حملہ ہوا تھا اور اس وقت کے چیف جسٹس کو اپنے چیمبر میں چھپ کر
اپنی جان بچانی پڑی تھی ۔ اس واقعے کی پوری ویڈیو کیسٹ بھی موجود ہے جس میں
میاں شہاز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی ساری قیادت نظر آتی ہے ۔ یہ ممکن نہیں
کہ یہ حملہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے علم کے بغیر رو بہ عمل ہو گیا ہو۔مسلم
لیگ کی ساری قیادت اس میں ملوث تھی لیکن ان کو بالکل کھلا چھوڑ دیا گیا اور
اس مقدمے میں دو تین غیر اہم افراد کو سزا سنا کر اس مقدمے کو بند کر دیا
گیا۔ خدا را اس مقدمے کے اصلی کرداروں کو بے نقاب کر کے انھیں سزا دیجئے تا
کہ انصاف کا بول با لا ہو سکے۔ یہی ہیں وہ لوگ جو توہینِ عدالت کے اصلی
مجرم ہیں اور جنھوں نے عدالت کی واقعی توہین کی ہے ۔ سید یوسف رضا گیلا نی
تو آئین کی ایک شق کے تحفظ کی وجہ سے توہینِ عدالت کے الزام میں دھر لئے
گئے ہیں حا لانکہ عدالتوں میں تین دفعہ حاضر ہو کر انھوں نے احترمِ عدالت
کی جو تا ریخ رقم کی ہے تاریخِ پاکستان میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انصاف کے
تقاضے پوری کئے جانے ضروری ہیں ورنہ عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہو ں گئے
کہ عدلیہ صرف پی پی پی کی گردن دبوچنے میں ماہر ہے۔
عدلیہ آئین کی من پسند تشریح کرکے اپنے جانبدار فیصلوں کی وجہ سے دن بدن
اپنی ساکھ کھوتی جا رہی ہے لہذا ضروری ہے کہ اس طرح کے باجرات فیصلے کئے
جائیں تا کہ عوام کو یقین ہو جائے کہ عدالت کی نظر میں سارے برابر ہیں۔
عوام ابھی تک یہی سوچ رہے ہیں کہ میاں برادران ہمیشہ عدالتوں سے خصوصی
ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ اب اس بات کا فیصلہ ہو جانا
ضروری ہے کہ عدالتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو تحفط دینے کےلئے ہیں یا کسی
وقت اس جماعت کے قائدین کا بھی احتساب عمل میں آئے گا؟ اس بات کا فیصلہ ہو
جانا بہت ضروری ہے کہ موجودہ عدلیہ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خلاف کتنے
مقدمات سنے اور ان میں سے کتنے مقدمات کا فیصلہ ان کے خلاف آیا اور کتنے
مقدمات میں انھیں غیر ضروری ریلیف دیا گیا۔ میاں شہباز شریف کی وزارتِ اعلی
آج تک عدا لت کے حکمِ امتناعی پر قائم ہے اور یہ اس زمانے کی بات ہے جب
میاں شہباز شریف آئینی طور پر تیسری دفعہ وزارتِ اعلی کا حلف نہیں اٹھا
سکتے تھے۔ ان کی نااہلی یقینی تھی لیکن حکمِ امتناعی سے ان کی وزارتِ اعلی
بچ گئی۔ اب اگر وہ نا اہل بھی قرار پا جائیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا
کیونکہ وہ ضمنی انتخاب کے ذریعے دوبارہ وزیرِ اعلی منتخب ہو سکتے ہیں لیکن
اس وقت یہ صورتِ حال نہیں تھی کیونکہ اس وقت جنرل پرویز مشرف کی آئینی
ترمیم کی وجہ سے تیسری بار کی رکاوٹ موجود تھی ۔ اس وقت کی صورتِ حال کا آج
کی بدلی ہو ئی صورتِ حال کے ساتھ موازنہ کرنا مناسب نہیں ہے۔اس وقت اگر
شہباز شریف نا اہل قرار پاتے تو پھر پی پی پی بھی ایک نئی حکمتِ عملی
اختیار کر سکتی تھی اور ان کی حکمتِ عملی کی بدولت پنجاب کی حکومت سے بھی
میاں برادران فارغ ہو جاتے اور ان کی سیاست دھیرے دھیرے کمزور ہو تی جاتی
اور تحفظ دینے والے بھی قدرے محتاط ہو جاتے۔ عمران خان نے پہلے ہی میاں
برادران کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں لہذا اقتدار سے بے دخلی کے بعد میاں
برادران کا کوئی بھی پرسانِ حال نہ ہو تا لیکن اس مقدمے کو جان بوجھ کر
التوا میں ڈال دیا گیا تا کہ ا یسی کوئی صورتِ حال پیدا ہی نہ ہو سکے جس سے
مسلم لیگ (ن) کو نقصان اٹھانے کا احتمال ہو اور پنجاب اس کے ہاتھ سے نکل
جانے کا خطرہ موجود ہو۔سچ کہا تھا کسی نے کہ جو چاہے آپ کا کا حسنِ کرشمہ
ساز کرے۔
وزیرِ اعظم سید یو سف رضا گیلانی کا قصور یہ ہے کہ انھوں نے آئین کی دفعہ
248 کے تحت صدرِ مملکت کو ملنے والے استثناءکی بات کی ہے اور برملا کہا ہے
کہ آ ئین کے آرٹیکل 248 کی موجودگی میں صدر ِ ِ پاکستان کے خلاف کسی قسم کی
قانونی کاروائی نہیں ہو سکتی ۔ ان کایہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ جہاں مخالفین
نے اتنے سال صبر کیا ہے وہاں ایک سال کا اور صبر کر لیں ۔ جب آصف علی
زرداری صدرِ پاکستان نہیں رہیں گئے تو میں ان کے خلاف خط لکھ دو ں گا لیکن
جب تک آصف علی زرداری صدرِ پاکستان ہیں ان کے خلاف خط نہیں لکھا جا سکتا۔
انھوں نے کہا کہ مخالفین اپنی حکومت میں گیارہ سالوں تک انھیں اذیتیں دینے
کے باوجود بھی ان پر کو ئی الزام ثابت نہیں کر سکے تو پھر اب وہ کون سا تیر
مار لیں گئے کیونکہ اب تو آصف علی زرداری پاکستان کے صدر ہیں اور ان پر
تشدد کرنا اب مخالفین کے بس میں نہیں ہے۔ جب مخالفین کی اپنی حکومت میں ان
پر تشدد اور اذ یتیں بھی ناکام ہو گئیں ہیں تو پھر پی پی پی کی حکومت میں
ان کی کوششوں پر برگ و بار کیسے لگ سکتا ہے لہذ ا انھیں میرا مشورہ ہے کہ
وہ اس وقت تک انتظار کر لیں جب آصف علی زرداری صدرِ پاکستان کے منصب سے ہٹ
جا ئیں گئے تو مجھے خط لکھنے میں کو عار نہیں ہو گی۔ وزیرِ اعظم سید یو سف
رضا گیلانی کا موقف درست ہے اور انھو ں نے آئین کا تحفظ کر کے ایک صحت مند
روائیت کی بنیاد رکھی ہے۔ انھوں نے جو کچھ کیا ہے اس سے انکی ذات کا تو
کوئی فائدہ نہیں تھا بلکہ انھیں اتنا سخت موقف اختیار کرنے پر وزارتِ عظمی
سے بھی ہا تھ دھونے پڑ سکتے ہیں ان کی حکومت ختم ہو سکتی ہے اور وہ اسمبلی
کا ممبر منتخب ہو نے کی ا ہلیت سے بھی محرم ہو سکتے ہیں لیکن انھوں نے آئین
کی سر بلندی کےلئے ان تمام خطرات کو مول لے کر سچے جمہوریت پرست ہو نے کا
جو ثبوت دیا ہے اسے عوام انتہائی قدر کی نظر سے دیکھ رہے ہیں جس کی گواہ وہ
قراردادیں ہیں جو مختلف اسمبلیوں نے ان کے حق میں منظور کر کے عوامی رائے
کا اظہار کیا ہے۔
سید یوسف رضا گیلانی کو جیلوں کی سختیوں اور زندانوں کی صعوبتوں سے ڈرانا
ممکن نہیں ہے کیونکہ وزیرِ اعظم سید یو سف رضا گیلانی کو یہ اعز ا ز حاصل
ہے کہ انھوں نے اس سے قبل بھی پانچ سالوں تک جیلوں کی سختیوں کو جھیلا ہوا
ہے لہذا انھیں گیڈر بھبکیوں سے خوف زدہ نہیں کیا جا سکتا۔ جنرل پر ویز مشرف
کا نام سنتے ہی بہت سے سیاستدان ملک سے فرار ہو گئے تھے اور بہت سوں نے
جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں پر بیعت کرنے میں عافیت سمجھی تھی لیکن وزیرِ
اعظم سید یو سف رضا گیلانی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ جنرل پرویز مشرف کی
آمریت کے سامنے بڑ ے عزم اورحوصلے کے ساتھ ڈٹ گئے تھے جو کہ بڑی جراتوں کا
متقاضی تھا۔ اہم بات یہ ہے۔ جب بڑے بڑے جغادری سیاست دان مارشل لاءکی گود
میں بیٹھے ہوئے تھے اس وقت وزیرِ اعظم سید یو سف رضا گیلانی نے حق کا پر چم
بلند کر کے آئین و قانون سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیا تھا لہذا یہ کیسے
ممکن ہے کہ وزیرِ اعظم سید یو سف رضا گیلانی آئین و قانون کا باغی ہو ۔وہ
آج بھی آئین و قانون کا محا اتنا ہی محافظ ہے جتنا کل تھا۔وہ آئین کی حفاظت
کی خاطر کل بھی ڈت گیا تھا اور آ ئین کی حفاظت کی خاطر آج بھی ڈتا ہوا ہے ۔
موجودہ عدلیہ کے احترام کے باوجود اس کا عدلیہ کے سامنے اپنے موقف کی خاطر
ڈٹ جانا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ پارلیمنٹ کی بالا دستی کو ہر حال میں
یقینی بنانا چاہتا ہے۔اس کی جرات کا اس بات سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ
اس نے اسٹیبلشمنٹ کی اند ھی قوت کے سامنے سر نگوں ہو نے کی بجائے جیل جانے
کو ترجیح دی اور اپنی قیا د ت سے وفاﺅں کا نیا باب رقم کیا۔اس کا یہ اعلان
کے وہ بے وفائی کی بجائے جیل جانا پسند کریں گئے پاکستانی عوام کی امنگوں
کا ترجما ن ہے کیونکہ عوام ہمیشہ جی داروں، بہادروں اور دل والوں کو پسند
کرتے ہیں۔بقولِ مرزا غالب
وفا داری بشر طِ استواری اصل ایماں ہے۔۔ مرے بت خانے میں تو گاڑو کعبے میں
برہمن کو |