موجودہ حکومت نے جس طریقے سے
پاکستانی عوام پر مہنگائی ،لوڈ شیڈنگ،بجلی ،تیل اور دیگر اشیائے ضرورت کی
قیمتوں میں بے تحا شہ اضافہ کی صورت میں بار بار بم گر ائے ہیں اور عوام
اسے بر داشت کرتے آ رہے ہیں ۔اسے دیکھ کر مجھے ایک پرانی کہا نی یا د آ رہی
ہے۔ آپ بھی ملا حظہ فر ما ئیں ۔
پرانے وقتو ں کی بات ہے، کسی ملک میں ایک بادشاہ رہتا تھا، ڈٹ کر کھاتا
تھا۔ملکی دولت کو بے دریغ لٹا تا تھا،آ خر اس کی نا عا قبت اند یشی اور عیا
شی کی وجہ سے ملک ما لیا تی بحران کا شکار ہو گیا۔با دشاہ نے بنکوں اور ما
لیا تی اداروں سے قر ضہ بھی لیا۔لیکن ملک کی حالت نہ سد ھری۔ اس نے اس صورت
حال سے نمٹنے کے لئے وزیروں، مشیروں کا اجلاس بلایا او ر اس مسئلہ کو سامنے
رکھ دیا۔ اس کا بینہ میں ایک سمجھدار وزیر بھی تھا، اس نے بادشاہ کو یہ
مشورہ دیا کہ ظل سبحانی ! آ پ ملک سے با ہر جانے والے ہر شخص پر دو رو پیہ
ٹیکس لگا دیں ، انشاللہ خزانے کی کمی پوری ہو جائیگی۔بادشاہ کو تجویز پسند
آئی اور عوام پر یہ نیا ٹیکس اگلے روز سے لاگو ہو گیا۔لو گوں نے بڑے آسانی
کے ساتھ یہ ظلم بر داشت کر لیا۔ کچھ عرصہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا مگر کرپٹ
وزیروں اور خود اس کی کرپشن اور عیا شیوں کی وجہ سے ملک دوبارہ معاشی بحران
کا شکار ہوا۔بادشاہ سلامت نے دوبارہ کابینہ کی میٹنگ طلب کی۔مشیر سر جو ڑ
کر بیٹھے تو اس مشیر نے پھر با دشاہ کو یہ مشورہ دیا کی اس مر تبہ ملک کے
اندر آنے والو ں پر بھی دو روپیہ ٹیکس لگا دیں ،بادشاہ نے اس تجویز کو ما
ننے سے انکار کر دیا کہ اس طرح عوام بہت نا راض ہو جا ئیں گے۔لیکن وزیر
نےاپنی بات پر اصرار کیا اور کہا ، میں اس ملک کے لو گو ں کی نفسیات سے
واقف ہوں ،میں دعوے سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ لوگ اس پر کوئی رد عمل ظا ہر
نہیں کر ینگے۔ بادشاہ نے بات مان لی اور ملک میں آ نے والوں پر بھی ٹیکس
لگا دیا۔نتا ئج بڑے حیرت انگیز نکلے، کسی جگہ سے کسی رد عمل کا اظہا ر نہیں
ہواکچھ عرصہ تک ملک کی مالی حالت درست رہی لیکن بہت جلد ملک کی معاشی حالت
دو با رہ بگڑ گئی۔اب با دشاہ سلامت دلیر ہو گئے تھے انہو ں نے ٹیکسوں کی
بھر مار کر دی،مہنگا ئی اتنی بڑھ گئی کہ لوگو ں کو سانس لینا مشکل ہو
گیا۔لو گ آ پس میں اس نا روا سلوک پر چہ مگو ئیاں کرنے لگے تو با دشاہ
سلامت نے اس دانا وزیر کو طلب کر کے پو چھاکہ،،عوام اس ظلم کے خلاف بغا وت
تو نہیں کرینگے؟ اس سمجھدار وزیر نے کہا، حضور، ان لوگوں میں پلٹ کر جھپٹنے
کا حو صلہ ہی نہیں ہے یہ وہ گدھے ہیں جن کی پشت پر اگر ایک من کی بجا ئے
چار من وزن لاد دیا جائے تو یہ سہا ر لیں گے،ان کی ٹا نگیں ٹوٹ جا ئینگی
مگر یہ بو جھ اٹھانے سے انکار نہیں کر ینگے۔بادشاہ نے وزیر کو کہا ،یار
کہیں مروا نہ دینا،،وزیر نے جواب دیا،بادشاہ سلامت،فکر نہ کر یں،بس آپ ایک
اور آ رڈر جاری کر دیں، خزانے پر بڑا مثبت اثر پڑے گا۔ با دشاہ نے کہا ،ہا
ں ہاں ،بتا ﺅ،کیا کریں ۔ وزیر نے کہا ، حکم صادر فرمائیں کہ کل سے جو بھی
شخص بازار سے سودا سلف خرید نے جا ئیگا۔وہ بیس رو پیہ ٹیکس دے گا اور ساتھ
ہی اس کو دو دو چھتر بھی لگا ئے جائینگے۔ یہ سن کر با دشاہ نے کہا ،نہیں
نہیں، یہ ظلم رعا یا بر داشت نہیں کریگی، بغا وت ہو جائیگی۔مگر دانا وزیر
اپنی تجو یز پر بضد رہا۔ آ خر بادشاہ نے اس کی تجو یز مان لی اور فو ری طور
پر حکم جا ری فرمایا کہ کل سے عوام ٹیکس کے ساتھ ساتھ چھتر کھا نے کے لئے
گھر سے تیار ہو کر نکلیں۔اگلے روز با دشاہ کے حکم کے مطا بق ہر گلی، ہر با
زار اور ہر چو را ہے پر سرکاری اہل کا روں نے عوام کو کا نوں سے پکڑ کر
چھتر ما رنے شروع کر دئیے۔ ایک روز با دشاہ شہر کے دو رے پر نکلا تو دیکھا
کہ ہر شہری کی پشت لہو لہا ن ہو چکی ہے۔ با دشاہ نے سو چا ،کہ چھتر بازی کا
یہ سلسلہ اگر بند نہ ہوا تو عوام اٹھ کھڑے ہونگے، بغاوت ہو جا ئیگی۔شا ہی
محل واپس پہنچا تو دانا وزیر کو بلا کر کہا کہ وہ چھتر ما رنے کی سزا کو فو
ری طور پر واپس لینے کا ا علان کرنا چا ہتا ہے ۔ سمجھدار وزیر ہاتھ با ندھ
کر کھڑا ہوگیا اور با ا عتماد لہجے میں بولا،،با دشاہ سلامت ! آپ چھتر ما
رنے کا حکم وا پس لینا چاہتے ہیں تو بے شک لے لیں مگر کسی قاعدے قا نون کے
تحت واپس لیں۔با دشاہ نے قا عدہ قانو ن پو چھا تو مشیر بو لا،، حضور ! آ پ
ایک کھلی کچہری میں لوگو ں کو جمع کریں ، پھر ان سے پو چھیں ، کسی کو تکلیف
تو نہیں؟ یا کسی کا کو ئی مطالبہ تو نہیں ؟ لو گ لا زمی طور پر چھتربازی کی
شکا ئت کرینگے۔اس وقت پھر آپ سزا کے خا تمے کا ا علان فرما دیں۔
بادشاہ کو یہ تجویز پسند آئی۔اگلے روز ایک کھلی کچہری منعقد کروائی گئی۔جس
میں بے شما ر لو گ شریک ہو ئے۔با دشاہ نے وزیر کے تجویز کے مطا بق سوال پو
چھنے شروع کر دئیے لیکن عوام سر جھکا کر بیٹھے رہے۔ بادشاہ نے محسوس کیا کہ
شاید لو گ ما رے خوف کے بول نہیں رہے سو بادشاہ سلامت نے لو گو ں کو جان کی
اما ن دیتے ہو ئے جب لو گو ں کو اپنے مسا ئل بتانے پر اصرار کیا تو مجمع سے
ایک لا غر اور کمزور شخص اٹھا اور با دشاہ کو مخا طب ہو کر بو لا، ظل الہی
! عوام کا ایک دیر ینہ مطا لبہ ہے اگر آپ کرم فر ما لیں تو ہم سکھ کا سانس
لے سکتے ہیں،، بادشاہ نے خوش ہو کر سوچا۔اب فریا دی چھتر با زی کی سزا معاف
کر نے کو کہے گا۔ لہذا خوش ہو کر با دشاہ بو لا، بو لو بولو، آج تمھارا ہر
مطا لبہ مان لیا جا ئیگا۔ فریادی نے سانس بھرا اور ہا تھ جوڑ کر بولا ، ظِل
سبحانی ! حکو مت نے چِھتر ما رنے کے لئے بہت کم لوگ رکھے ہیں، مہر بانی کر
کے ان کی تعداد بڑھا ئی جائے،کیو نکہ ہمیں اپنی باری کے انتظا ر کے لئے بڑی
دیر تک لا ئنو ں میں کھڑا رہنا پڑتا ہے،،۔۔۔
قارئین کرام! اس کہا نی کا مقصد یہ ہے کہ اگلی باری پھر زرداری کی اگر ہو
گئی( جس کے لئے اتحا دی جما عتو ں کے ساتھ ابھی سے ساز باز ہو رہی ہے) تو
پھر پا کستانی عوام صرف مہنگائی، لو ڈ شیڈنگ اور بے روزگاری جیسے عذاب ہی
کے لئے نہیں بلکہ چِھتر کھانے کے لئے بھی تیا ر رہے کیو نکہ بقول حکیم ا لا
مت ،، ہے جرم ضعیفی مر گِ مفا جات،، |