سیاسی تبدیلی اور عوامی انقلاب

وہی قومیں زندہ کہلاتی ہیں جن میں اپنے جینے کی امنگ بیدار ہو ، زندہ قومیں حالات سے گھبرایا نہیں کرتیں، وہ اپنے حقوق اور انصاف کیلئے ظلم کے سامنے آہنی دیوار بن کر باطل کو پاش پاش کردیتی ہیں۔ پاکستان میں سیاستدانوں نے قوم پرستوں کی پشت پناہی کرنا شروع کردی اور اپنے عزائم کو حاصل کرنے کیلئے آگ و خون میں عوام کو دھونسے کی کوشش کررہے ہیں ، یہ نہیں جانتے کہ ان کے ان افعال پر کس قدر خوفناک بھونچال امنڈ پڑیگا اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو خون نا حق مین مبتلا ءدکھائی دیگا۔ عوام میں آپس میں نفرتوں کی آگ کو بیدار کرکے ملکی سلامتی کو براہ راست نا تلافی نقصان سے دوچار کرنا چاہتے ہیں ۔ موجودہ حالات قوم پرستی کی جانب بڑھ رہے ہیں اور یہی حال رہا تو پاکستان بھر میں لسانی فسادات کا طوفان امنڈ آئے گا ، یہ طوفان اُن سیاستدانوں کے محلات کو بھی لے ڈوبے گا۔ لا تعداد اموات کے بعد بیرون ممالک کی طاقتیں اس سرزمین پاک پر اپنے پنجے گاڑ لیں گی اور یوں یہ تمام قومیں ان کے حکم کے تابع ایک غلامی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں گی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نوازشریف یہ دو پارٹیاں ہمیشہ اپنے اقتدار میں ایسے سیاسی شطرنج کھیل کھلتی ہیں کہ صرف غریب عوام بے قیمت اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ حیرت و تعجب کی بات تو یہ ہے کہ نواز شریف کئی سالوں سے مکہ و مدینہ کی پاک سرزمین میں رہتے ہوئے بھی گندگی و غلیظ سیاست سے باز نہ آئے اور صدر و وزیر اعظم کے کردار اس کا قابل نہیں کہ انہیں ان منصب پر عائد کیا جاتا کیونکہ ان کے دور حکومت میں جس قدر عوام کا جینا محال ہوگیا ہے وہ پاکستان کی پوری تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ قوم پرستوں نے آج تک اپنی قوم کو کچھ نہیں دیا بلکہ اپنی قوم کو مغلوب کرنے کی کوشش کی گئیں اور ان پر مظالم ڈھائے گئے۔

یہ قوم پرست لیڈر اُس وقت کہاں گئے تھے جب پاکستان کی آزادی سے پہلے انگریز وں نے ان کی قوموں کو غلام بنایا تھا ۔ اُ س وقت یہ قوم پرست لیڈران انگریزوں کی دلالی اور خوش آمدی میں پیش پیش تھے اور اپنی ہی قوم سے غداری کرکے انگریزوں سے انعامات و القابات وصول کرتے نظر آتے ہیں ان میں بیشتر کو سر کا خطاب بھی ملا تھا ۔انگریز افسران کی جوتیاں سیدھی کرنے والے غلاموں کی کئی اولادیں قوم پرست لیڈر بن گئیں ہیں کیونکہ نہ تو انہیں اسلام سے محبت ہے اور نہ پاکستان سے اخلاص۔!!دوسری جانب اے این پی کا ماضی بھی کسی تاریخ سے ڈھکاچھپا نہیں، خود قائد اعظم نے خان ولی خان کے اعمال کی وجہ سے پسند نہیں کیا، خان ولی خان کبھی بھی پاکستان کے حق میں نہیں تھے؟؟ ادھر عمران خان جو پاکستان کی قسمت بدلنے کے دعوﺅں سے تھکتے نہیں وہ اپنے ماضی کو بہت جلد بھول جاتے ہیں اب بھی ان کے اطوار زندگی ایسے نہیں کہ یقین سے کہ سکیں کہ یہ غریب پرور ہونگے۔ اسکینڈلوں کی لا متناہی فہرست ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے بھی کوئی خاطر خواہ مثبت اقدام نہیں کیئے انہیں چاہیئے تھا کہ یہ مہاجروں کے بنیادی حقوق پر اٹک جاتے اور کسی بھی قسم کی کمپرومائز نہیں کرتے ، انھوں نے ہمیشہ ہر پارٹی سے تعاون کیا اور ان کی صحیح غلط سب کو تسلیم کیا کہ شائد ملکی حالات سنبھل جائیں یہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی ۔ میانہ روی کیلئے ضروری ہے کہ دوسری جانب بھی عقل و شعور رکھتے ہوں جو جاہلیت میں اس قدر گمراہ ہوچکے ہوں کہ جنھیں اپنے ہی بھائی بہنوں کو نا حق خون کرکے تسکین ملے وہ سوائے اللہ کے عذاب کے حقدار ہیں۔ موجودہ پاکستان کا سیاسی دائرہ کار جس جانب بڑھ رہا ہے وہ صوبوں کی تقسیم ہے، پنجاب اپنے صوبوں کی تقسیم قطعی پسند نہیں کرتا ہے اسی بابت یہ سندھ میں ایسے گروہوں کو تلاش کرکے سندھ بھر میں آگ و خون کا تماشہ کھڑا کرنا چاہتا ہے ۔ سندھ کے قوم پرست یہ بھول گئے کہ زمین اللہ کی دین ہے اور اس کی تقسیم بھی منظور خدا سے ممکن ہوگی ورنہ کوئی کتنا چاہے کچھ نہیں کرسکتا!! بہتر ہے کہ صوبوں کی تقسیم کو ایوانوں میں دلائل دیکر اس پر بات کی جائے۔ وہ سیاستدان ہی نہیں جو ایوان کو چھوڑ کر سڑکوں ، بازاروں اور عوامی ڈھال سے اپنے بات منوانے کی کوشش کرے اور اس پر عوام ہی کا شدید نقصان بھی کرے لا محالہ جب سیاستدان ایوان سے باہر اپنی تقاریر اور بیان بازی سے ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلیں گے تو یقینا دوسری جانب سے بھی جواب سنگین ملے گا۔ سیاست دانوں نے عوام میں انتشار پھیلانے کیلئے قوم پرستوں کو گود لینا شروع کردیا ہے اور انہیں نئے خواب دکھا کر اپنے مذموم عزائم پورے کرناچاہتے ہیں ۔ گلگت بلتستان کو صوبہ کا درجہ دیا پھر فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا بنایا تو ہزارہ کے اضلاع نے کیا قصور کیا انھیں بھی صوبے کا درجہ دینا چاہئے اسی طرح جنوبی پنجاب کو بھی صوبہ بنانا چاہیئے پھر بلوچستان میں بڑے گروپوں میں بھی صوبے تقسیم کرکے ترقیاتی کام پر پابند کرنا چایئے اسی طرح سندھ میں بھی دو صوبوں کا عمل ہونا چاہیے۔ ہجرت سے آئے ہوئے مہاجرین کی دو نسلیں یہاں آباد ہیں یہ افغانستانیوں کو برداشت کرسکتے ہیں مگر جن کے آباﺅ اجداد نے پاکستان کے وجود کو پانے کیلئے ہر قسم کی قربانی دی انہیں کس طرح نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں مزید صوبے وقت کی ضرورت ہیں اورصوبوں کی تقسیم ہی پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی ضمانت ہیں ۔بحیثیت صحافی میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو دیگر صوبوں میں منقسم کرنے کیلئے بیرونی طاقتوں کی مداخلت سے پہلے ہی آپس میں ایوان میں بیٹھ کر تحمل مزاجی، حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوموں کے انصاف کو مدنظر رکھ کر دیگر صوبوں کا اعلان کیا جائے بغیر کسی خون خرابے کے۔ اگر اب بھی بڑی سیاسی پارٹیوں کے حکمرانوں اور لیڈران نے ضد و انا پر اکڑے رہے اور اپنی ذات کی خاطر قوموں کے درمیان خون ریزیاں کرنے کی کوشش کی گئیں تو یاد رکھئے ان کی نسلوں کو بھی تاریخ نہیں بخشے گی۔ ان حالات میں چیف جسٹس اور فوج کے اعلیٰ حکام سیاستدانوں کو تحمل مزاج پر رہنے پر تائید کریں بصورت انجام بھانک نظر آئیں گے صرف اور صرف نقصان !!کیونکہ اگر عوام سیاستدانوں کے مسلسل ہٹ دھرمی دیکھیں گی تو یقینا عوام کا انقلابی سیلاب امنڈ آئے گا جس میں خون کی بارش اور نہریں بہیں گئی۔بہتر ہے کہ پنجاب، خیبر پختوخوا، سندھ اور بلوچستان کو مزید نقصان سے دوچار ہونا پڑے تمام پارٹیوں کے سربراہاں پاکستان کی سلامتی و خوشحالی کیئے ایک دوسرے کے حقوق کو جانتے ہوئے انہیں منقسم کرلیں۔ اللہ ہم سب کو ہدایت بخشے ۔۔۔آمین!!
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 246040 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.