ہند پاک ویزا میں راحت کے آثار

ہند اور پاکستان دو ایسے پڑوسی ملک ہیں جو 14اگست 1947تک مشترک تھے۔ تقسیم ملک کے نتیجہ میں بہت سے افراد نے مجبوراً نقل مکانی کی اور بہت سے بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنا دیس چھوڑ کرپردیس میں جابسے۔ چنانچہ بہت سے خاندان بٹ گئے۔ نقل وطن کرنے والے بہت سے افراد تو اس دنیا سے رخصت ہوئے مگر اب بھی کچھ معمر افرادایسے بچے ہیں جن کی حسرت ہے کہ جن گلی کوچوں میں انکا بچپن گزراتھا اور جہاں ان کے بزرگوں کی ہڈیاں دفن ہیں، ایک مرتبہ اور دیکھ لیں۔گزشتہ چھ دہائیوں سے تعلقات کی کشیدگی، سیاسی مصالح اور سیکیورٹی کے اندیشوں کی بدولت ، جن میں بعض حقیقی بھی رہے ہیں، عوام کی خواہشات اور جذبات کو نظر انداز کیا جاتا رہا ۔ چنانچہ نامعقول حد تک سخت شرائط وجہ سے ویزا کا حصول میں دشواریاں دونوں ملکوں کے درمیان سفر کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی رہیں۔ عالمی سرد جنگ کے خاتمہ اور عالم کاری کی نئی فضا میں علاقائی تعاون کے تقاضوں نے دونوں طرف کے سیاسی مفکرین کو اس بات پر آمادہ کیاکہ دشمنی اور بے اعتمادی کے ماحول کوختم کیا جائے اور باہم اعتماد و تعاون کی راہ کھول کر مسائل کو حل کیا جائے۔یہ اعتراف کیا جانا چاہئے کہ اس سمت پہلا قدم اٹھانے کا سہرہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے سر ہے۔ ان کے سفر لاہور(19فروری 1999) نے بد اعتمادی کے گھنے اندھیرے میں کا ایک چھوٹا سا جھروکہ کھولا جو بعد کے بعض انتہائی ناخوشگوار واقعات کے باوجود روشنی کی رمق دیتا رہا۔ اس اسپرٹ کو نئی توانائی کے ساتھ وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے پوری مستعدی اور کامیابی سے آگے بڑھایا ۔ تاریخ کا دھارا بدلنے میں پاکستان سے بھی تعاون ملا۔ چنانچہ خدا خدا کرکے برف پگھلنا شروع ہوئی ہے اورگزشتہ چند برسوں میں بعض اقدامات کی بدولت تعلقات میں کچھ سازگاری آرہی ہے ۔

عرصہ سے ضرورت محسوس ہورہی تھی کہ تعلقات کی استواری کےلئے دوطرفہ آمد و رفت کو آسان کیا جائے ،ویزا کی شرطوں کونرم کیا جائے۔ اب خبر یہ ہے کہ دونوں ممالک مخصوص زمروں میں ویزا شرائط کو نرم کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں، جن کو توقع ہے کہ 24و25مئی کو اسلام آباد میں ہند کے داخلہ سیکریٹری آر کے سنگھ اور ان کے پاکستانی ہم منصب کے ایم صدیق اکبر کے درمیان مذاکرات میں آخری شکل دےدی جائیگی اور جولائی کے تیسرے ہفتہ میں ہند کے وزیربرائے خارجی امور ایس ایم کرشنا اور پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھرکے درمیان ملاقات کے دوران ان کو منظوری مل جائیگی۔ بہت تاخیر سے اٹھائے جانے والے اس چھوٹے سے قدم کا یقینا خیر مقدم کیا جائیگا ،مگر ان کا سرسری جائزہ یہ سمجھے کےلئے کافی ہے یہ اصلاحات ناکافی ہیں اور ویزا کے حصول میں ان سے وہ عمومی سہولت پیدا نہیں ہوگی،جو خوشگوار ہمسائیگی کےلئے مطلوب ہے۔

بزرگوں کےلئے رعایت
مجوزہ سہولتوں میں سب سے اہم یہ ہے کہ 65سال سے زیادہ عمر کے بزرگوں اور 12سال سے کم عمر کے بچوں کو پیشگی ویزا کی ضرورت نہیں ہوگی، بلکہ چیک پوسٹ پر ہی ویزا جاری کردیا جائیگا۔ ان کےلئے پولیس میںاندراج اور حاضری کی بھی ضرورت نہیںہوگی۔ لیکن یہ سہولت صرف اٹاری واگہہ چیک پوسٹ پر ہی دستیاب ہوگی۔ ہوائی جہاز، تھار ایکسپریس یا سمجھوتہ ایکسپریس سے سفر کی خواہش مند مسافروںکو یہ سہولت حاصل نہیںہوگی۔ یہ بات تو سمجھ میں آسکنے والی ہے کہ ریل مسافروں کو چیک پوسٹ پر ویزا جاری کرنے کےلئے وزارت خارجہ کی جانب سے کچھ نئے انتظامات درکار ہونگے ،مگر ہوائی سفر کرنے والوں کو اس محروم رکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔ بین اقوامی ہوائی اڈوں پر اراﺅل Arrival پر ویزا جاری کرنے کا نظام پہلے ہی موجود ہے۔ چنانچہ اس زمرے کے ہوائی مسافروں کو یہ سہولت دی جانی چاہئے۔ علاوہ ازیں خواتین کے معاملے میںعمر کی حد 65سال سے گھٹا کر 60سال کی جانی چاہئے۔

شہروں کی تعداد میں اضافہ
خبر یہ بھی ہے کہ ویزا میں زیادہ سے زیادہ تین شہروں کی موجودہ حد کو بڑھا کر پانچ کردیا جائیگا مگر مناسب ہوگا کہ معمر افراد کو اس قید سے آزادکیا جائے۔ بہت سے بزرگوں کو تو شاید دوبارہ سفر کا موقع بھی نہ ملے، اس لئے ان کو یہ اجازت ملنی چاہئے کہ وہ ملک کے طول وعرض میں جس بارگاہ پر بھی سرِ نیاز خم کرنے کے آرزو مند ہوںیاجہاں بھی جانا چاہیں،ہو آئیں۔ بیمار، کمزور اور معذور بزرگوں کے ساتھ ایک ہمراہی کو بھی غیر مشروط ویزا دینے پر غور ہونا چاہئے۔ انسانی ہمدردی کے ذیل میں اٹھائے گئے ایسے اقدام کے دورس اثرات مرتب ہونگے۔

علاوہ ازیں بہت سے شہر ایسے ہیں جن کے بغل میں نئے شہر آباد ہوگئے ہیںجن کو” ٹون سٹیز “ کہا جاتاہے، ویزا میں یہ رعایت ہونی چاہئے کہ ایک شہر کے ویزہ سے اس کے ٹون سٹی میں بھی جاسکے۔پرانے شہروں کے بہت سے خاندان جگہ کی قلت کی وجہ سے نواحی بستیوں میں رہائش پذیر ہیں۔ اگرچہ نام ان کے الگ الگ ہیں مگر اصلاً وہ ایک ہی ہیں۔ اس لئے ان کو ایک ہی شہر شمار کیا جانا چاہئے۔ اس کی ایک اہم مثال دہلی ، نوئیڈا اور گوڑگاﺅں کی ہے جو تین الگ الگ ریاستوں میں واقع ہونے کے باوجود ٹون سٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔

گروپ ویزا
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ سیاحوں کو گروپ کی شکل میں ویزا دیا جائیگا۔ جس سے مذہبی سیاحت کو بھی فروغ ملے گااور گروپ کی شکل میںزائرین بھی ایک سفر میںکئی مقامات پر حاضری دے سکیں گے۔ لیکن مذہبی جذبہ سے سفر کے شائقین کےلئے اس سہولت کو مزید آسان کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ایسے معتقدین کی بڑی تعداد ہے جن کے تئیں اعراس میں شرکت اور بزرگوں کے مزارات پر حاضری کی بڑی اہمیت ہے۔ اس لئے ان مقاصد کےلئے آنے کے خواہشمند افرادیا خاندانوں کو آزادانہ سفر کی اجازت کے ساتھ ویزا دینا مناسب ہوگا۔اس رعایت سے ہندستان کے سکھ بھائیوں اور پاکستان کے ہندو بھائیوں کو بھی اپنے مذہبی جذبات کی آسودگی کےلئے مقدس مقامات کی یاترا کا موقع ملے گا جو بڑے گروپ کے بجائے دو ، دو یا تین ،تین کے گروپ میں زیارت کے خواہشمند ہوں۔

اسٹوڈنٹس ویزا
علاج ومعالجہ کے لئے ویزا کی جوسہولت دی جارہی ہے ،اس کی افادیت سب کو تسلیم ہے۔ اب ”اسٹوڈنٹس ویزا“ پر بھی توجہ دی جانی چاہئے ۔ دنیا بھر میں یہ ویزا عام ہے۔ اس کی وجہ سے تعلیم کا شعبہ ایک انڈسٹری بن گیا ہے۔چنانچہ غیرملکی طلباءکی بدولت ہی آسٹریلیا اور امریکا وغیرہ میں بہت سے تعلیمی ادارے پھل پھول رہے ہیںاور دنیا بھر کے ذہین نوجوانوں کی خدمات اٹھانے کا ان ممالک کو موقع بھی مل رہا ہے جوان کی ترقی میں کلیدی رول ادا کررہے ہیں۔کھلے پن یا لبریلائزیشن کے اس دور میں ہندستان اور پاکستان اس دوڑ میں پیچھے کیوں رہیں؟ چنانچہ مناسب ہوگا یہ دونوں ممالک بھی اس جانب قد م بڑھائیں اورمختصر مدتی ٹیچرس اسٹوڈنٹس گروپ ویزاسے ا س کا آغاز کریں۔ نومبر 2005میں ڈھاکہ میںمنعقدہ سارک کانفرنس میں ایک سارک بین اقوامی یونیورسٹی کے منصوبہ کو منظوری دی گئی تھی۔سنہ 2010 میں اس میں داخلوں کا بھی اعلان ہوچکا ہے۔ مگر آٹھ سال گزر جانے کے باوجود اس یونیورسٹی کی بھر پور صورت گری کے آثار معدوم ہیں۔اس کی ایک وجہ ” اسٹوڈنٹ ویزا“کا نظام نہ ہونا ہے۔ دونوں ممالک کے محققین اور طلباءکوایک دوسرے کی یونیورسٹیوں، لائبریریوں اور اہل علم سے استفادہ حاصل کرنے کےلئے مناسب شرائط پر ”اسٹوڈنٹس ویزا“پر ترجیحی بنیاد پر غور ہونا چاہئے۔ہندستان میںسرکاری اور غیر سرکاری زمرے میں بے شمار کالج، انسٹی ٹیوٹ اور یونیورسٹیاں ایسی ہیں جن سے پاکستانی طلباءاستفادہ حاصل کرنا پسند کریں گے۔اس لئے منتخب اداروں میں ان کوداخلے کی سہولت اور ان کی اسناد کو منظوری ملنی چاہئے۔اسی طرح منتخب شعبوں میںہندستانی طلباءاور اساتذہ بھی پاکستانی اداروں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ٹیچرس کا تبادلہ اور ڈیپوٹیشن پر تقرری کے امکانات پر بھی غور کرنا چاہئے۔ اس طرح کے تبادلوں سے فکری ہم آہنگی کو تقویت حاصل ہوگی۔

چھوٹے تاجروں کےلئے ویزا
تجارت پیشہ لوگوں کو طویل مدتی کثیر داخلہ ویزا جاری کئے جانے کی تجویز ہے۔ مگر اس کا فائدہ صرف بڑے بڑے تاجر اور صنعت کار ہی اٹھا سکیں گے۔ چھوٹے تاجروںاور صنعت کاروںکو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے، جو انفرادی طور سے یا چند افراد مل کر لاہور یا امرتسر کی مارکیٹ سے دو چار لاکھ روپیہ کا مال اٹھا سکتے ہیں۔ ایسے دوکانداروںکوسرحد پر ہی چند روزہ ویزا دیا جانا چاہئے۔ ایک متبادل یہ ہے کہ سرحد سے متصل ایسے بازار قائم کئے جائیں جو داخلے کےلئے محفوظ ہوں۔ ہندستان اور بنگلہ دیش نے اپنی سرحدوں پر ایسے روائتی بازاروں کا چھوٹے پیمانے پر احیاءکیا ہے۔ اس تجربہ کو زیادہ بڑے پیمانے پر ہند پاک سرحد پر بھی برتا جائے تو خوردہ تاجروں کو اس سے بہت فائدہ ہوگا۔ جدید بایومیٹرک آلات کی بدولت آنے جانے والوں کی شناخت میں کوئی دشواری نہیں آئیگی۔

منقسم ازواج کےلئے خوشخبری
مجوزہ ویزا اصولوں میں ایک بڑی راحت ان ازواج کےلئے ہے جن میں میاں بیوی کی شہریت الگ الگ ہے۔ ایسے افراد کو دو ، دو سال کا ویزا جاری کرنے کی تجویز ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس ویزا پر وہ چاہیں تو ایک سے زیادہ بار سفر کرسکتے ہیں ۔ ایک اور اہم سہولت یہ متوقع ہے کہ آدمی ایک راستہ سے داخل ہوکر دوسر ے راستے سے واپس جاسکے گا۔ موجودہ ضابطہ کے تحت آنے اور جانے کا سفر ایک ہی چیک پوسٹ سے کرنے کی پابندی ہے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے اس دور میں یہ مشکل نہیں کہ مسافر ایک راستے سے داخل ہو اور دوسرے سے واپس جائے ، کیونکہ اس کا اندراج کہیں سے بھی ممکن ہے۔ اس سہولت سے بڑی آسانی ہوگی۔ مثلاً آپ اٹاری چیک پوسٹ سے سڑک کے راستے لاہور جا سکتے ہیں اورکراچی سے ہوائی جہاز سے ممبئی واپس آسکتے ہیں۔

بحری سفر
ابھی تک ان دونوں ممالک کے درمیان سفر ہوائی جہاز، ریل یا سڑک کے راستے ہی ممکن ہے۔ تقسیم وطن سے پہلے کراچی اور ممبئی کے درمیان بہت بڑی تعداد میںلوگ بحری راستہ سے سفر اور تجارت کرتے تھے۔ اب بھی ہند سے سری لنکا اور مالدیپ کےلئے بحری راستہ کھلا ہے جو بہت مقبول اور کم خرچ ہے۔یورپی ممالک میں تو بحری سفر عام ہے۔ چنانچہ پاکستان سے ہند کے مغربی ساحل کے کئی شہروں کے درمیان بحری راستوںکوسیاحت ، تجارت اور زیارت وغیرہ کے لئے کھولا جانا چاہئے ۔

ٹرانزٹ ویزا
خبر یہ بھی ہے کہ ٹرانزٹ ویزا کی تجویز بھی ہے۔ یہ ایک اہم تجویز ہے جس سے پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، ایران کا سفر آسان اور کفائتی ہوجائیگا۔ ہمیں امید کرنی چاہئے ٹرانزٹ ویزا کے ساتھ مال تجارت کےلئے راہداری کی سہولت سارک ممالک میں فری ٹریڈ زون کی منظور شدہ تجویز کو عملی جامہ پہنانے میں بڑا قدام ہوگی

توقعات اور مشکلات
حال ہی میں جب صدر آصف علی زرداری دہلی آئے تو چاہتے تھے کہ بہت سارے اقدامات جلدی سے ہوجائیں مگر وزیر اعظم ہند نے معقول بات کہی،’آپ جوان ہیں، میری عمر کی رعایت کیجئے ، میں قدم بقدم ہی آگے چل سکونگا“ ۔ شاید اسی نظریہ کے تحت ہند نے پہلے مرحلے میں چند محتاط اقدامات پر اتفاق کیا ہے۔ لیکن کوشش یہ ہونی چاہئے کہ طے شدہ اقدامات پر فراخدلی کے ساتھ عمل درآمد ہو اور ان میں افسرشاہی کی منفی سوچ رخنہ انداز نہ ہو۔ دونوںطرف کے انتہا پسند عناصر اور خصوصا ان شدت پسند عناصر کو بھی قابو میںرکھنے کی ضرورت ہوگی جو نہیں چاہتے کہ دونوں ممالک کے عوام خوشگوارتعلقات سے فائدہ اٹھا ئیں۔ گزشتہ ہفتہ (17مئی) کو ہی یہ خبر آئی تھی کہ پاکستان کی ایک شدت پسند تنظیم نے واگہہ اٹاری انٹگریٹڈ چیک پوسٹ کا نشانہ بنانے کی دھمکی د ی ہے۔ اس چیک پوسٹ کا افتتاح ابھی پچھلے ماہ 13اپریل کو ہوا ہے اور اس کے ذریعہ دوطرفہ مال تجارت کی درآمد برآمد شروع ہی ہوئی ہے۔ابھی اس نظام نے رفتار بھی نہیں پکڑی کی دھمکی آگئی۔ ہرچند کہ پاکستان اور ہندستان دونوں نے اس دھمکی کے پیش نظر سیکیورٹی کا بندوبست سخت کردیا اور امید کی جانی چاہئے کہ انتشار پسند عناصر کو کامیاب نہیںہونے دیا جائے گا مگر یہ تو ہے کہ سیکورٹی کے نام پر سختی سے رفتار کار سست ہوجاتی ہے اور بدعنوان عملے کو ناگہانی پریشان کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ہردم کھٹکا لگا رہتا ہے کہ نجانے کب کیا ہوجائے؟ مگر ساتھ ہی اس حقیقت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ 60برس سے بگڑے ماحول کو ہموار کرنے اور ہر ایک کج فکر کو راہ پر لانے میں دشواریاں بھی آئیں گیں اور وقت بھی لگے گا۔ لیکن اگر دونوںممالک کے قائدین کا ارادہ پختہ ہے تویقین رکھنا چاہئے کہ منزل کے نشاں روشن تر ہوتے چلے جائیں گے اور عنقریب سارک ممالک کے درمیان سفر اور تجارت کا وہ ماحول ہوگا جو یورپی خطہ میں بن گیا ہے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163154 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.