آبادی کے حساب سے عرب دنیا کی سب
سے بڑی مسلم ریاست مصر میں 25 جنوری 2011ءکے عوامی انقلاب کے نتیجے میں
حسنی مبارک کی معزولی کے بعد یہ پہلے آزاد صدارتی انتخاب کا پہلا مرحلہ 24
مئی کواختتام پذیر ہو گیاہے۔ 13 امیدوار میدان میں ہیں تاہم اصل مقابلہ
پانچ امیدواروں کے مابین ہوگا ۔ مصر کے 9کروڑ شہریوں میں سے مجموعی طور پر
23 اور 24 مئی کو 5 کروڑ سے زائد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کیا ۔صدارتی
الیکشن کمیشن کے طے شدہ شیڈول کے مطابق ووٹوں کی گنتی کا عمل 26 مئی کو
مکمل ہو گا اور پہلے مرحلے کے نتائج کا باضابطہ اعلان 29مئی کو کیا جائے
گا۔اگر کوئی امیدوار پہلے مرحلے میں50 فی صد سے زیادہ ووٹ نہ لے سکا تو پھر
سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دوامیدواروں کے درمیان 16 اور 17 جون 2012ءکو
دوبارہ مقابلہ ہوگا جبکہ تارکین وطن کے لیے دوسرے مرحلے کی پولنگ 3 اور9
جون2012ءکے درمیان ہوگی اور 21 جون2012ءکو انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان
کیا جائے گا۔
2011ءکے پارلیمانی انتخاب میں اسلام پسندوں کی بھرپور کامیابی کے بعد
صدارتی انتخاب انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں اور غیر
مسلموں کی نظریں انتخابات پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ مصر میں کئی دہائیوں کے
بعد پہلی مرتبہ اسلام پسندوں کو کھل کر انتخابی عمل میں حصہ لینے کا موقع
ملا ہے۔ پارلیمانی انتخاب میں اخوان المسلمین اور سلفی جماعت النور پارٹی
کو بھرپور کامیاب ہوئی ۔ موجودہ صدارتی انتخاب میں بھی اصل مقابلہ اسلام
پسندوں اور سیکولر عناصر کے درمیان ہے۔ اخوان المسلمین نے ابتدائی طور پر
اپنے مرشد عام خیرات الشاطر کو امیدوار نامزد کیا تاہم وہ الیکشن کمیشن کی
شرائط پر پورے نہ ہونے پرانتخابی عمل سے باہر ہوگئے۔جس کے بعد الاخوان
المسلمون نے اپنے سیاسی شعبے” آزادی وانصاف پارٹی“ کے سربراہ ڈاکٹر محمد
مرسی کو امیدوار نامزد کیا۔
صدارتی انتخابات میں امیدواروں کی تعداد 13ہے لیکن ان میں پانچ امیدواروں
میں مصر کی تاریخی اور قدیمی مذہبی تحریک الاخوان المسلمون کے سیاسی شعبے”
آزادی وانصاف پارٹی“ کے سربراہ محمد مرسی،الاخوان المسلمون کے سابق رہنما
اور آزاد امیدوار عبدالمنعم ابوالفتح، عرب لیگ کے سابق سیکرٹری اور مصر کے
سابق وزیر خارجہ امر موسیٰ ، مصری فضائیہ کے سابق سربراہ اور حسنی مبارک کے
آخری وزیر اعظم احمد شفیق اورنصیری کرما پارٹی کے بانی حمدین صباحی کے
درمیان اصل مقابلہ متوقع ہے دیگر امیدواروں میں مذہبی اسکالر محمد سلیم
اواہ، ممتاز جج ہشام البسطویسی ،بائیں بازو کے سرگرم رہنما خالد علی اور
دیگر شامل ہیں۔ مصر کے صدارتی الیکشن میں ایک تہائی خاموش ووٹرز ہیں اور
وہی آخری وقت میں اہم ہوں گے۔ الاخوان المسلمون کے امیدوار کے لیے
عبدالمنعم ابوالفتح کی موجودگی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ الاخوان المسلمون
کے ساتھ برسوں وابستہ رہنے کے بعد سن 2011 میں انہوں نے تنظیم سے قطع تعلق
کر لیا تھا۔ انہیں مصر کے سخت گیر مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد النور کی
حمایت بھی حاصل ہے۔تاہم اب سلفیوں کی اکثریت بھی عبدالمنعم ابوالفتح کے
بجائے ڈاکٹر محمد مرسی کی حمایت کررہی ہے کیونکہ ان خاتون ترجمان نے حال ہی
میں شرعی نقاب کو دقیانوسی قرار دیا تھا جس کی وجہ سے مصر کے اسلام پسند
شدید ناراض ہیں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ احمد شفیق کو درپردہ فوجی کونسل کی
حمایت حاصل ہے جبکہ سیکولر جماعتیں حمدین صباحی کی حمایت کررہی ہیں۔
مصر میں سیکولر عناصر مختلف جائزوں کے ذریعے احمد شفیق اور عمروموسیٰ کے
درمیان اصل مقابلہ قرار دے رہے تھے تاہم یہ تمام جائزے اس وقت غلط ثابت
ہوئے جب مصر کے دنیا کے 33 ممالک میں موجود ووٹرز کی حق رائے دہی کے نتائج
کا اعلان ہوا جن کے مطابق الاخوان المسلمون کے امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی کو
106252، عبدالمنعم ابوالفتوح کو77499 اور حمدین صباحی کو 44727 ووٹ ملے
جبکہ عمرو موسیٰ چوتھے اور احمد شفیق پانچویں نمبر پر رہے۔ بیرون ملک کے
نتائج حیران کن بھی ہیں کیونکہ خدشہ کیا جا رہا تھا کہ بیرون ملک الا خوان
کی زیادہ حمایت نہیں ہوگی ۔مبصرین کے مطابق الاخوان المسلمون نے منظم انداز
میں اپنی انتخابی مہم چلائی اور دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی انتخابی انسانی
زنجیر بناکر ریکارڈ بھی قائم کیا۔ 16مئی2012ءکواخوان المسلمون کے کارکنوں
اور رہنماﺅں نے 760 کلومیٹر طویل انسانی زنجیر بنائی جس کا مقصد یہ ثابت
کرنا تھا کہ یہ تنظیم متحد، منظم اور مضبوط نیٹ ورک رکھتی ہے۔
الا خوان المسلمون اور اس کے سیاسی شعبے ”آزادی اور انصاف پارٹی“(ایف جے
پی) کے کارکنان نے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اور ڈاکٹر ڈاکٹر
محمد مرسی کے پوسٹر لیے دارالحکومت قاہرہ سے اسوان تک 760طویل انسانی زنجیر
بنائی۔اس انسانی قطار میں شریک پیروجوان ، مرد وخواتین اور بچوں نے ڈاکٹر
محمد مرسی کی تصاویر والی ٹوپیاں اور ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں اور ہاتھوں میں
پوسٹر پکڑ رکھے تھے جن پر لکھا تھا: ''محمد مرسی۔۔۔ مصر کے صدر''۔ اخوان کے
صدارتی امیدوار کے حق میں انسانی زنجیر بنانے کا اہتمام ان کی مہم کی جانب
سے کیا گیا تھا اور اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ مصر میں اس جماعت کا
ایک مضبوط نیٹ ورک موجود ہے۔آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر محمد مرسی اپنی
جماعت کے عشروں پرانے مضبوط اور منظم نیٹ ورک کی بدولت کامیاب ہونگے۔بعض
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح اخوان کی آزادی اور انصاف پارٹی
نے گذشتہ سال نومبر میں منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں رائے عامہ کے جائزوں
میں کی گئی پیشین گوئیوں کے برعکس برتری حاصل کی تھی ،اسی طرح اب اس کے
امیدوار صدارتی انتخاب میں بھی حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔
تاہم بعض قوتیں الاخوان المسلمون کو صدارتی انتخاب میں باہر رکھنے کےلئے
کوشاں ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر زبردستی اخوان المسلمون کو صدارتی
انتخاب میں ناکام ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا نتیجہ ایک خون ریز جنگ
کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ 13 میں سے محمد مرصی واحد امیدوار ہیں جنہوں نے
اپنے انتخابی منشور میں مصر کو مکمل اسلامی ریاست بنانے کا عزم کیا ہے۔ مصر
میں آنے والی یہ تبدیلی پوری دنیا کے مسلمانوں کے حوالے سے انتہائی اہمیت
کی حامل ہے۔ امید ہے کہ پارلیمانی انتخاب کی طرح مصر کی عوام ایک مرتہ پھر
صدارتی انتخاب میں سیکولر اور اسلام مخالف قوتوں کو شکست سے دوچار کریں گے۔
یاد رہے کہ مصر کے آئین کے مطابق تمام اختیارات کا اصل منبع قصر صدارت ہے
اس لئے الاخوان المسلمون کےلئے اس منزل کا حصول اپنی جدوجہد کے حوالے سے
انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ |