ہر ذی شعور اور سمجھنے والے
داناںشخص کے لئے یہ معاملہ پریشانی کا باعث ہے کہ جینا مشکل سے مشکل تر
ہوتا چلا جا رہا ہے، اس کی ایک خاص وجہ آئے دن ضروری اشیاءکی قیمتوں میں
اضافے کا رجحان جوکسی طرح قابومیں نہیں آ رہا ہے۔ملک میں بڑھتی ہوئی
مہنگائی نے تمام طبقات کی کمر توڑ رکھی ہے۔ بنیادی چیزوں کی قیمتیں آسمان
سے باتیں کر رہی ہیں اور ہماری حکومتوں سے نہ تو کوئی سوال کرنے والا ہے
اور نہ ہی اقتدار کے مزے لوٹنے والے لیڈروں کو اس کا ذرہ برابر بھی ملال
ہے۔اور ہمیشہ عالمی کساد بازاری پر اس مہنگائی کا نزلہ گرا دیا جاتا ہے کہ
وہاں ایسا ہے تو یہاں بھی ہے۔ تنخواہوں میں اضافہ تو دیکھنے میں نہیں آرہا
ہے اور مہنگائی کا عفریت ان سب کو نگلنے کیلئے تیار ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ
حکومتی عہدیدارانوں نے غریب عوام کو کوئی الہ دین کا چراغ دے رکھا ہے کہ
تنخواہ رائی کے برابر اور مہنگائی پہاڑ کے برابر....کوئی کرے تو کیا کرے....
صرف کھانے پینے کی اشیاءکی طرف ہی دیکھ لیں تو آپ پریشان ہو جائیں گے کہ یہ
کیا اندھیر نگری ہے۔ شاید اسی لیئے تو یہ محاورہ مشہور ہے کہ ” اندھیر نگری
چوپٹ راج“
پیٹرول کو ہی لے لیں تواس کی قیمت تین ہندسوں کوبھی پار کر چکی ہے۔ اور
ظاہر ہے کہ جب پیٹرول ، ڈیزل پر قیمت بڑھانے کا اطلاق ہوگا تو ہر سطح پر
مہنگائی بڑھے گی۔ آج دودھ کراچی میں 70روپئے سے 75روپئے کلو اور دہی
100روپئے کلو فروخت ہو رہا ہے۔ اس سخت ترین گرمی کے موسم میں انڈے کی فی
عدد قیمت 7روپئے ہے۔ جبکہ عموماً گرمیوں میں انڈوں کی قمیت کم ہوا کرتی ہے۔
اگرہندوستان سے ہی موازنہ کیا جائے تو آج ہی کے ان کے ایک اخبار میں انڈوں
کی فی عدد قیمت 2/50روپئے لکھا ہے۔ اور ہمارے یہاں 7روپئے کا مل رہا
ہے۔باقی چیزوں کی پھر کیا ہی بات....یہاں تو حال یہ ہے کہ جو چیزیں لوگوں
کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں اب بحالتِ مجبوری لوگ اس کا خیال اپنے دل
سے نکال کر پھینک دینا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ہمارے یہاں ہر وقت مالیاتی بحران
کا رونا رویا جاتا ہے مگر کیا یہ مالیاتی بحران کی ذمہ دار عوام الناس ہے،
اس کے مکمل ذمہ داری تو حکمران پر عائد ہوتی ہے جو اپنے اخراجات میں کمی
نہیں کرتی۔
ہمارے یہاں” پاکستان“ بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ میں کیسے ترقی کروں۔
18کروڑ عوام، 96منسٹراور ایک منسٹر کے سال کا خرچ 16کروڑ۔ 16 x 96 = 15عرب
36کروڑ، ایک اندازے کے مطابق ہر منسٹر کو 50,000یونٹ بجلی فری اس طرح
سالانہ فری یونٹ: 50000 x 12 = 600000لاکھ فری یونٹ پر منسٹر، اسی طرح اور
بہت سے لوازمات ہیں جن کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے اور غریب اپنے بچوں
سمیت مہنگائی کی عفریت کا شکار ہے۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر و قیمت
مسلسل ڈاﺅن ہی ہو رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان رسہ کشی ، سیاسی بلیک
میلنگ، چھوٹی جماعتوں کا بڑی جماعتوں کو جھکا لینا اور ان کو اپنی مرضی
منوا لینے پر مجبور کر لینا، حکومت کے اندر تال میل کا فقدان، اور حد تو یہ
کہ وزارتوں کے اندر باہمی اختلافات، صوبوں اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے
باغیانہ تیور کا اظہار و استعمال، مرکز کی من مانی اور اہم فیصلوں کو
صوبائی حکومتوں سے مشاورت کے بغیر کر لینا، ریاستی اداروں کے درمیان رشتوں
میں تلخی کا پیدا ہونا اور اس کا برقرار رہنا اور اسی طرح کے بے شمار امور
و مسائل کی وجہ سے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ حکومت کی گرفت ڈھیلی پڑ
رہی ہے۔
بجٹ سیشن جیسے جیسے قریب آ رہا ہے اخباری بیانوں اور سیاسی گلیاروں کی ہلچل
سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ موجودہ حکومت بجٹ میں گریڈ 1سے 16تک کے
ملازمین کو خاطر خواہ ریلیف فراہم کرے گی۔ مگر یہاں تو جو روزآنہ کے
اخباروں میں اشاعت ہو رہی ہیں وہ ایسے ہی ہے جیسے غریب کو کم اور امیر کو
زیادہ فائدے ملیں۔ کسی قسم کی بنیادی ضرورتوں کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔
پانی جو نسلِ انسانی کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے وہی ہی دستیاب نہیں
ہے۔ اور گرمیوں کا موسم آتے ہی بیشتر علاقوں کو پانی کی فراہمی منقطع ہو
جاتی ہے اور یہ صرف کراچی میں ہی نہیں پورے ملک میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔سارے
مفادات جن کا تعلق غریب اور غریب ملازمین سے ہے اسے سرد خانے کی نظر نہ کیا
جائے بلکہ اس پر فراخ دلی سے عمل کیا جائے۔ آنے والا بجٹ موجودہ حکمرانوں
کیلئے آئندہ کی راہ ہموار کرانے کا واحد ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیئے
بجٹ پیش کرنے سے پہلے اپنے مستقبل کا ضرور سوچیئے گا جناب!
ہندوستان جیسے ملک میں (جس ملک کو ہم اپنا ہم مذہب نہیں کہہ سکتے) اس ملک
میں بھی بلا سود بینکاری پر توجہ دی جا رہی ہے مگر ہم اسلامی ملک ہونے کے
باوجود سودی نظام پر بھروسہ کرتے ہیں ، اس کا ایک زندہ مثال جسے میں یہاں
ذکر کیئے دیتا ہوں۔ کہ ایک شخص HBFCسے مبلغ 500000لاکھ روپئے اپنے مکان
کیلئے لیتا ہے، جسے 18سالوں میں وصول کیا جانا ہے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا
کہ بغیر سود کے عوام الناس کو یہ سہولت میسر ہوتی۔ مگر ان 18سالوں میں صارف
کو 500000لینے پر 1800000روپئے واپس کرنے ہیں۔ بے چارہ گھر کا خرچہ چلائے،
لون کی ادائیگی کرے یا بچوں کی اسکول کی فیس ادا کرے۔ بجلی کا بل بھرے یا
گیس کا، پانی کا بل بھرے یا پراپرٹی ٹیکس کا....خدارا اس طرف بھی تھوڑا سا
نظرِ کرم کر لیں تاکہ غریب اپنے اور اپنے بچوں کے لیئے سائبان تو آسانی سے
حاصل کرے کیونکہ ایک مکان بنانے کے بعد بار بار تو یہ نا ممکن ہی ہوتا ہے۔
اور اسی مکان میں آئندہ کی آنے والی ان کی نسلیں آباد ہوتی ہیں۔
اسلامی کے ان اعلیٰ اصولوں میں سے ایک بلا سودی بینک کاری بھی شامل ہے جس
کا تجربہ دنیا کے کئی اہم مسلم ممالک میں کامیابی سے انجام دیا جا رہا ہے
خاص طور پر سعودی عرب، کویت، عرب امارات اور ملائشیا میں بھی یہ نظام تیزی
سے پھل پھول رہا ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی گزشتہ تین دہائیوں کے دوران
خدمتِ خلق کا جذبہ رکھنے والے بعض مسلم اداروں نے ملک کے مختلف حصوں میں
بلا سودی کاروبار چلا رہے ہیں۔
اسلام میں سود حرام ہے بلکہ یہاں تک حکم میں آیا ہے کہ ”سود لینے والا اور
سود دینے والا دونوں جہنمی ہے “یہ ہر مسلمان جانتا ہے مگر ہمارے یہاں سودی
کاروبار عروج پر ہے، بینکوں سے قرض لینا اور پھر اس کا ادا کر نا جوئے شیر
لانے کے برابر ہے۔ایک ملازم پیشہ شخص سے اس سلسلے میں کچھ باتیں سننے کو
ملی تو میں نے اس کی تہہ تک پہنچنے کی جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ ہمارے وطن
میں یہ کیسا اندھیر ہے۔ روداد کچھ یوں ہے کہ ایک سرکاری ملازم جو گریڈ 8کا
ملازم ہے اس نے اپنی گھریلو ضرورت کے پیشِ نظر ایک بینک سے ایک لاکھ روپئے
پانچ سال کی انسٹالمنٹ پر لیتا ہے اور اسے اس مد میں تقریباًدو لاکھ روپئے
واپس کرنے ہوتے ہیں جو کہ ایک مخصوص ماہانہ قسط کے ذریعے اس کو جمع کرنا
تھا۔ موصوف نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر یہ قسطیں پانچ سال میں ہر
مہینے کی دس تاریخ تک مقررہ برانچ میں جمع کرتا رہا۔ اور جب اس کے حساب سے
یہ رقم ادا کر دی گئی اور وہ کلیرنس سرٹیفیکیٹ لینے مقررہ بینک سے رجو ع
کرتا ہے تو وہاں سے کہا یہ جاتا ہے کہ آپ نے تین قسطیں 10تاریخ کے بعد جمع
کرائیں تھیں اس لیئے آپ پر مزید دس ہزار روپئے کا سود ( لیٹ پیمنٹ کے زمرے
میں ) ادا کرنا ہے۔ کئی درخواستیں جمع کرائی موصوف نے کہ یہ رقم منہا کر دی
جائے اور مجھے سرٹیفیکٹ جاری کیا جائے کیونکہ میں نے مطولبہ رقم دے دی ہے
صرف دو تین قسطیں چند دنوں کی تاخیر سے جمع کرائی تھیں اس کی اتنی بڑی سزا
اس مہنگائی کے دور میں مت دو، مگر یہاں غریب کی سنتا کون ہے ۔بقول موصوف کے
وہ اب بھی بینک کے چکر لگا رہا ہے مگر اسے ابھی تک کلیرنس نہیں دی گئی ہے۔
یہ ہے غریب کی حالتِ زار....
عام لوگوں کے مسائل تو برابر ہی بڑھتے جا رہے ہیں اور اس طبقے کی پریشانی
کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں، انسانی زندگی سے متعلق ہر چیز گراں ہوتی
جا رہی ہے، تعلیم، علاج و معالجہ، صحت عامہ، ہو یا ضروری اشیاءکا حصول ہو
ان میں سے کوئی بھی چیز آسانی سے دستیاب نہیں۔ جن چیزوں کو سہل ہونا چاہیئے
تھا ان کا حصول مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اور یہ کہنے میں، میں حق بجانب ہوں
کہ یہ تمام صورتحال حکومت کی عدم توجہ کے سبب ہے۔ اس طرح کے مسائل اگر کلی
طور پر حل نہ کیئے جائیں تو حالات خراب ہی ہوتے ہیں اور اگر ان کو جان بوجھ
کر نظر انداز کیا جائے تو یہ بڑا سنگین ناسور بن جاتا ہے۔ حکومت کے اس رویے
سے اپوزیشن پارٹیاں چراغ پا ہوئیں اور پہلی مرتبہ ایک پلیٹ فارم پر نمودار
ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔
برسرِ اقتدار طبقہ کو اس آخری بجٹ سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے اور فائدہ
جب ہی ہو سکے گا جب وہ غریب ملازمین اور غریب طبقہ کے لوگوں کی تنخواہوں،
فلاح و بہبود کیلئے اسٹیپ اٹھائیں۔ عوامی مفادات کے فیصلے کیئے جائیں،
مہنگائی پر کنٹرول کرنے کی پالیسیاں اپنائی جائیں، پیٹرول اور ڈیزل کی
قیمتیں دہائی (دو) حروف میں لائیں، اشیائے خوردنی کی قیمتوں پر لگام
دلوائیں، کسانوں کیلئے اچھے فیصلے کیئے جائیں، ملازم طبقہ خاص طور پر گریڈ
1سے 16کے ملازمین کی تنخواہوں میں اس عفریت نما مہنگائی کے تناسب سے اضافہ
کیا جائے ، مغربی طبقہ کو یہ باور کرایا جائے کہ پاکستان کا اپنا کلچر ہے ،
اپنی روایتیں ہیں اور اپنا بازار ہے فیصلے یہاں کے مزاج کے مطابق ہی کرنے
ہونگے۔ ایسے فیصلے کیئے جائیں کہ ملک کے ہر طبقے کو دو وقت کی روٹی میسر ہو
سکے۔ |