کیا سانحے کراچی کے غیور عوام کی زبو حالی کا مقدر بن گئے ہیں

 سندھ محبت ریلی اور مہاجرصوبہ تحریک ایک حقیقت یا مفروضہ ،سانحہ 22مئی

منگل 22مئی کو کراچی کے علاقے لیاری سے چیل چوک کے مقام سے مہاجر صوبہ تحریک کے خلاف جو"سندھ محبت ریلی"عوامی تحریک کے سربراہ ایازلطیف پلیچو، کراچی الائنس کے رہنما عذیر جان بلوچ ، ظفر بلوچ، مسلم لیگ (ن) کی مرکزی رہنماماروی میمن، جماعت اسلامی کے رہنما ڈاکٹر پرویز محمود، پنچابی پختون اتحاد کے چئیرمین ملک ایوب ، عبدالحئی بلوچ، صادق بلوچ، علی حسن چانڈیو،ظفرجھنڈیرکی قیادت میں نکالی گئی جیسے ہی یہ ریلی نیپئر روڈپر پان منڈی کے قریب پہنچی تو نامعلوم مسلح افراد نے ریلی کے شرکاءپر اندھادھندفائرنگ شروع کردی اطلاع ہے کہ ریلی پر فائرنگ کے نتیجے میں بھگڈرمچ گئی جس کے بعد آگ و خون کا ایک ایساسلسلہ شروع ہوگیاجس نے دیکھتے ہی دیکھتے دھوبی گھاٹ، گھاس منڈی، پان منڈی، نوالین، لی مارکیٹ، جونامارکیٹ سمیت اولڈسٹی ایرایا کے مختلف علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیااور کراچی کی سڑکوں، بازاروں، گلی اور محلوں میں موت کا رقص شروع ہوگیاجس سے 17افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوبیٹھے اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے کراچی کے بیشتر علاقے گونچ اٹھے جس سے شہر ِ کراچی میں معمولات زندگی بھی مفلوج ہوکررہ گیااور پورے شہرمیں ہوکا سناٹاچھاگیا ہر طرف وحشت کا راج قائم ہوااور شیطان کے چیلے موت کے فرشتے کا ہاتھ تھامے اپنی کارروائیوں سے شہرِ کراچی کے باسیوں کو موت کے منہ میں دھکیل کر اِس کا کام آسان کرتے رہے اور معصوم انسان ان سے ڈر سہم کر شام ڈھلے ہی اپنے اپنے گھروں میںدپک کر بیٹھ گئے ۔

اگرچہ 22مئی کو پیش آنے والے سانحہ کراچی کے پس منظر میں ہمیں ایسی بھی کوئی اتنی خاص وجہ تو دکھائی نہیں دیتی کہ کوئی ریلی اور کسی ایسے مقصدکے خلاف نکالی جاتی جس کی تحریک ابھی محض خام خیالی اور ایک جھوٹے سے طبقے کی اپنی سوچ ہے جبکہ ابھی اِس طبقے کی اِس سوچ کو ٹیبل ٹاک اور افہام وتفہیم کا موقع فراہم کرکے بھی ختم کیاجاسکتاہے اِسے ایشوبناکر کوئی ایسی ریلی نکالی جاتی اور اتنے معصوم افراد کو ہلاک و زخمی اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے کا ذریعہ بنادیاجاتااورپھر اِس کے بعد سب اپنے اپنے انداز سے اپنا اپناسیاسی قد اونچاکرنے کی کوششیں تیزکردیتے جیساکہ اَب سانحہ 22مئی کے بعد ہورہاہے ۔

اَب اِس پس منظر میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک حقیقی معنوں میں کسی منظم اور مستحکم جماعت یا گروپ کی جانب سے سندھ کی تقسیم یا مہاجر صوبہ تحریک کے حوالے سے کوئی بات واضح اور دوٹوک انداز سے سامنے نہیں آجاتی ہے کسی کو اِس سوچ اور فکر کو اہمیت دینے اور اِسے اپنی ریلیوں، جلوسوں اور جلسوں میں ذکرکرنے کی کوئی ضرورت نہیں جبکہ یہ ٹھیک ہے کہ سندھ کی سرزمین محبت اور بھائی چارگی باٹنے اور اخوت و درگزر کرنے کے حوالے کی اپنی ایک تاریخی اہمیت ضرور رکھتی ہے جس سے کسی کو کوئی انکار نہیں ہے اِس حوالے سے سندھ محبت ریلی نکالی جائے اور روز انہ نکالی جائے یہ ایک اچھااور قابلِ تعریف اقدام ہوگا تاکہ اہل پاکستان اور ساری دنیا کو یہ معلوم ہو جائے کہ سندھ دھرتی محبت کرنے والوں کی دھرتی ہے مگر 22مئی کو جوسندھ محبت ریلی نکالی گئی اِس کا اہتمام اتنا ضروری بھی نہیں تھا کہ محض کسی مفروضے اور سوچ کے خلاف سندھ محبت ریلی نکالی جاتی اورپھرجس کے نکلنے کے بعد کئی معصوم انسانی جانیں پل بھر میں لقمہ اجل بن جائیں اتنی قیمتی انسانی جانوں کی ہلاکت پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جنہوں نے اِس سندھ محبت ریلی کے شرکاءپر اپنی وحشیانہ کارروائیاںکی یقینا وہ پاکستان اور شہرِ کراچی کے دشمن ہیں جن کا سوچاسمجھا مقصد میرے شہرکو خون میںنہلانے اورکسی ملک دشمن آقاکے اشارے پر میرے شہرکراچی کے امن وسکون کو بربادکرنے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔

امر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ دہائی سے میرے شہر میں ہونے والی قتل و غارت گری سے ایسالگتاہے کہ جیسے کھات لگائے ملک دشمن عناصر میرے شہرِکراچی کے غیورعوام کی ہستی بستی، اخلاقی، سیاسی، تعلیمی، سماجی اور کاروباری زندگیوں کو زبوحالی کامقدر بنانے کے لئے ہر وقت متحرک رہتے ہیں اور اِنہیں جب بھی موقع ملتاہے تو ترنت یہ اپنے عزائم کی تکمیل کے خاطر میرے شہر قائد کو آگ و خون میں نہلادیتے ہیںابھی میرے شہرِکراچی کے عوام اپنے یہاں غیرمتوقع طورپر رونماہونے والے سانحات جن میں سانحہ نشترپارک ،سانحہ 9اپریل، سانحہ12مئی اور سانحہ یوم عاشورہ سمیت کئی چھوٹے چھوٹے سانحات کے غموں سے نکلنے اور اِن میں ملوث قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے بھی نہ پائے تھے کہ میرے شہرمیں 22مئی بروز منگل کو آناََ فاناََایک بار پھر ایک ایسا اندوہولناک اورپُرتشددسانحہ جو اپنے اندرآگ وخون کا منصوبہ لئے ہوئے تھا اہلیانِ کراچی پر قیامت بن کرگزرگیایہ سانحہ جتنی دیرمیرے شہرکراچی کے محبت باٹنے والے بھائیوں کے درمیان رہا آگ و خون کا کھیل ہوتارہا اوروہ جاتے جاتے اپنی آغوش میں تین خواتین سمیت 17معصوم اور نہتے افرادکی روحیں اِن سے چھین لے گیااور پولیس اہلکاراور صحافی سمیت 35کے قریب افراد کو زخمی کرکے اِن کے جسموں پر گولیوں کے ایسے نشانات چھوڑگیاجو اِن کی بقیہ زندگی تک اِس سانحہ کی یاد دلاتارہے گا اور اِسی کے ساتھ ہی اِس سانحہ نے مشتعل افراد کو بھی ایسی قوت عطاکردی جنہوں نے اِس کی تباہی کے منصوبے میں اپناہاتھ بٹایااور اِن مشتعل افراد نے اِس سانحہ کے آگ اور خون کے کھیل میں اپنابھرپور کردار یوں اداکیاکہ اِنہوں نے 15 سے زائدموٹرسائیکلیں،8کے قریب گاڑیوںاور8دکانوں سمیت 3گھروں کو بھی جلاڈالا ۔ مشتعل افراد نے اِس سانحہ کے اِس کھیل میں تباہی و بربادی کا اپنا رنگ بھرکر اِس کے عزائم کو تکمیل تک پہنچایادیا کراچی کی سڑکوں پرجس وقت مشتعل افراد اپنایہ آگ و خون کا کھیل ، کھیل رہے تھے اِن کے اِس کھیل کی وجہ سے امن پسند محب وطن کراچی کے شہریوں نے اپنی مارکیٹیں اور دفاتربندکردیئے اور آج 23مئی کوجب ہم یہ سطور تحریر کررہے ہیں اِس وقت تک میرے شہر کی اکثر مارکیٹیں ، بازار اور دفاتر بندہیں اور سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ کم اور غائب ہے اور بیشترعلاقوں میں ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں آگ و خون کا کھیل اور موت کا رقص جاری ہے ۔

اَب آخر میں ہم اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں ، سول اور اعلیٰ عسکری قیادت سمیت اپنے غیور عوام سے اِس موقع پر یہ مطالبہ ضرور کریں گے کہ خدارا میرے ملک اور بالخصوص میرے شہرِ قائد کراچی کو امن و سکون کا ایک عظیم گہوارہ بنانے کے لئے متحد ومنظم ہوکر اپنے اندر کوئی ایسی سوچ پیداکریں جس سے ہمیں اپنے اُن مقاصد کا حصو ل آسان سے آسان تر ہوجائے جن کے خاطر ہم نے اپنا یہ آزاد ملک حاصل کیاتھااور بالفرض اگر کوئی طبقہ کسی نئے صوبے کی بات کرتابھی ہے تو اِس کے اِس مطالبے کو غور سے پہلے سناجائے پھر انتہائی غور وفکرکے بعد بغیرکسی خون خرابے اور آگ و خون کا کھیل کھیلنے کے اِس کا مطالبہ پوراکردیاجائے تواِس میں کوئی حرج نہیںہے کیوں کہ ہم پاکستانی سب بھائی بھائی ہیں اور کیا کبھی لاٹھی مارنے سے بھی پانی علیحدہ ہواہے جو کوئی یہ سمجھتاہے کہ کسی نئے صوبے کے قیام سے کسی کی تقسیم ہوجائے گی یاکوئی علیحدہ ہوجائے گایا کسی کی حق تلفی ہوگی تو یہ اِس کی اپنی سوچ تو ہوسکتی ہے مگر اِس کوسب پر زبردستی مسلط نہیں کیاجاسکتاہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 972312 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.