ڈاکٹر فوزیہ چودھری
وطنِ عزیزپاکستان اپنی تاریخ کی بدترین لوڈشیڈنگ اور توانائی کے بحران سے
گزر رہا ہے قوموں کی تاریخ میں اِس طرح کے عروج وزوال تو آتے ہی رہتے ہیں
اور قومیں اپنی بہتر منصوبہ بندی اور جہدِمسلسل سے اِن مسائل پر قابو
پالیتی ہیںجو ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ وطنِ عزیز پاکستان
گزشتہ آٹھ نو برس سے انرجی کے بدترین بُحران سے گزر رہا ہے۔مگر ہماری بے
حسی کی حدیہ ہے کہ ہم واویلا تو خوب مچاتے ہیں لیکن عملی اقدامات کرنے سے
گریز کرتے ہیںاور ظاہر ہے کہ زبانی جمع خرچ کرنے سے تو مسائل حل نہیں ہوا
کرتے بلکہ اِس کے لیے عملی اقدامات اُٹھانا پڑتے ہیں۔
یہ تو ایک دنیا جانتی ہے کہ سب سے سستی بجلی حاصل کرنے کا ذریعہ پانی سے
بجلی حاصل کرنا ہی ہے لیکن بدقسمتی سے پچھلے تیس برس سے ہم نے کوئی بھی
چھوٹا یا بڑا ڈیم نہیں بنایا۔اِس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ بھارت نے
ہمارے دریاﺅں کا پانی ہی روک لیا ہے اور ہمارے دریا بنجر اور خشک ہو چکے
ہیں لے دے کے ایک دریا کابل ہی ہے جس پر کوئی ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے اُس کا
پانی بھی سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے ۔ اگر اِس دریا پر کالا باغ کے
مقام پر ڈیم بن جاتا تو ہم اِس سے سستی بجلی پیداکرنے کے سبب توانائی کے
شدید ترین بُحران سے بچ جاتے۔ مگر خُدا جانے ہماری جمہوری اور فوجی حکومتوں
کے آڑے کیا مصلحتیں آتی رہیں کہ قومی مفاد کے اِس عظیم ترین منصوبے پر
تاحال عمل درآمد نہ ہو سکا۔ کمیشن بنتے رہے ، سفارشات مرتب ہوتی رہیں اور
اِس کے ساتھ ساتھ داخل دفتر بھی ہوتی رہیںنہیں ہوا تو اِن پر عمل درآمد
نہیں ہو سکا۔ چار سال پہلے جب اے این پی موجودہ حکومت کے حلیف کے طور پر
سامنے آئی اور صوبہ سرحد میں اِس نے اپنی حکومت قائم کی تو سب سے پہلے
اِنہوں نے کالا باغ ڈیم کا منصوبہ نہ بنانے کی قرار داد منظور کی اور ایک
دوسرے کو باقاعدہ مبارک بادیں دی گئیں کہ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ہمیشہ کے
ختم کر دیا گیا ہے۔ قارئین کرام ذرا یہ بات نوٹ کر لیجیئے گا ۔ کہ قومی
مفاد کا اِتنا بڑا منصوبہ جس پر ملک کی معیشت اور لوگوں کی عام روزمرہ کی
ضروریات کا انحصار تھا اُس کے ہمیشہ کے لیے ختم کرنے پر ایک دوسرے کو مبارک
بادیں دی جارہی ہیں۔
سندھ طاس منصوبے کے چیئرمین بھارت کے خلاف مقدمہ لے کر بین الاقوامی عدالتِ
انصاف میں جاتے رہے کہ بھارت نے ہمارے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے ناجائز طور پر
ہمارے دریاﺅں کا پانی روکا ہوا ہے اور اِس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ
بھارت نے ہمارے مخصوص دریاﺅں پر ساٹھ سے زیادہ چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کیے ہیں
جس بھارت نے دریائے چناب اور دریائے جہلم کا 80فیصد اور دریا ئے سندھ کا
65فیصد پانی غیر قانونی طور رابطہ نہروں اور چھوٹے بڑے ڈیموں کے ذریعے اپنے
علاقوں لداخ، بنگلور اور راجھستان تک پہنچاکر اپنی بنجر زمینوں کو سیراب
کرلیا ہے۔ بھارت نے صرف دریائے سندھ پر ہی 14ڈیم بنالیے ہیں ۔ اِس میں
بھارت کا کیا قصورہے۔؟بھارت تو دشمن ہے وہ تو دشمنی ہی کرے گا اور ہمیں
نقصان پہنچانے کا موقع ہاتھ سے نہیں گنوائے گا۔ اس سے بڑا سیاسی اور قومی
المیہ اور کیا ہوگا کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے مگر بجلی سے محروم ہے جب
کہ پاکستان کا کلیم ہی یہی ہے کہ ہم نے ایٹمی طاقت پُر امن مقاصد کی خاطر
استعمال کرنے کے لیے حاصل کی ہے۔ ہم 35سے 40بلین ایکڑ فٹ پانی ہر سال سمندر
میں بے مقصدضائع کر رہے ہیں ۔ ہماری تاریخ کا بدترین سیلاب بھی ہماری
آنکھیں کھولنے میں ناکام رہا ہے اور ہم کالا باغ ڈیم کی افادیت سے آگاہ
نہیں ہوسکے۔میرے ذاتی خیال میں تو یہ سیلاب صرف ہمیں کالاباغ ڈیم کی اہمیت
واضح کرنے کے لیے ہی آیا تھا۔پس اے آنکھوں والو ہوسکے تو عبرت حاصل کرو۔یہ
الگ بات ہے کہ ہم نے جان بوجھ کر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور سبق سیکھنا
نہیں چاہتے۔ اِس بات کے بھی ناقابلِ تردید ثبوت ملے ہیں کہ وطنِ عزیزمیں
بھارتی لابی بہت مضبوط ہے اور وہ اربوں فنڈزلے کر نہ صرف یہ کہ کالاباغ ڈیم
نہیں سے دے رہی بلکہ توانائی حاصل کرنے کے کسی بھی منصوبے کو عملی جامہ
پہنانے سے پہلے ہی سبوتاژکر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ سندھ طاس منصوبے کے
چیئرمین جماعت علی شاہ بھی اِسی بھارتی لابی کے ممبر ثابت ہوئے جنہوں نے
پانی کا یہ مقدمہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں خلوص نیت سے پیش ہی
نہیںکیااور یوں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا۔
قارئین کرام!اِن تمام باتوں سے کیا ثابت ہورہا ہے کہ وطنِ عزیز پاکستان کو
جان بوجھ کر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تاریکیوں میں دھکیلا جارہا ہے اور ہر
اُس کوشش کو سپوتاژ کرنے کی دانستہ کوشش کی جاتی ہے جِس میں اِس بات کا
شائبہ تک بھی ہوتا ہے کہ اِس سے پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری ہو
سکتی ہیں ۔اِس سے کیا ثابت ہو تا ہے کہ دشمن ایک ایٹمی پاکستان سے خائف ہے
۔ وہ براہِ راست پاکستان پر حملہ کرکے اپنی شامتِ اعمال کو دعوتِ نہیں دینا
چاہتااور پھر وہ پاکستانی فوج کی ماہرانہ تربیت اور صلاحیت سے بھی اچھی طرح
واقف ہے ۔ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوںنے بھی روس جیسی طاقتوں کو ناکوں
چنے چبوائے ہوئے ہیں۔ اِس لیے دشمن اب ہماری ہی صفوں میں میر جعفر اور میر
صادق تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیاہے جو ڈالروں کی چمک کے آگے اپنی آنکھیں
خیرہ کرکے مادرِ وطن کی چادر تار تار کرنے پر راضی ہوگیے ہیں ۔ ایسے بے
ضمیر اورننگ قوم ہمیں ہر معاشرے میں ہی مل جائیں گے جنہیں آپ چند ٹکوں کی
خاطر بآسانی خرید سکتے ہیں اور اپنے مذموم مقاصد کی خاطر استعمال کرسکتے
ہیں۔
یقین مانیے کہ وطنِ عزیز پاکستان میں توانائی کے حالات اتنے خراب نہیں ہیں
جتنا اِنہیں گھمبیر بنا کر پیش کیا جارہا ہے سب کچھ وطنِ عزیز میں موجود ہے
لیکن اگر کمی ہے تو نیک نیتی اور خلوص کی، اپنی ترجیحات مقرر کرنے کی اور
منصوبہ بندی کرنے کی۔نئے منصوبے بنانے اور توانائی حاصل کرنے کے نئے نئے
وسائل تلاش کرنے کو اگر ایک طرف بھی کر دیا جائے تب بھی پاکستان کے پاس
اِسی پیپلزپارٹی کے خرید کردہ ایسے یونٹ موجود ہیں جو صحیح طور پر کام کرنے
کے قابل ہیں اور اگر اُنہیں پور ایندھن (فرنس آئل)فراہم کیا جائے تووہ کم
ازکم اتنی بجلی خواہ مہنگی ہی سہی پیدا کرنے کے قابل ہیں جو اِن جُھلسا
دینے والی گرمیوں میں عوام کا کچھ تو مداوا کر سکےں۔پیپلزپارٹی کے دوسرے
دور میں جب جناب آصف علی زرداری(مردِاول) اِن پاور پلانٹس کا سودا کررہے
تھے تو اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اِس کی بھرپور مخالفت کی تھی اور
حکومت پر زور دیاتھا کہ وہ یہ مہنگا سودا کرنے کی بجائے کالا باغ ڈیم اور
انرجی حاصل کرنے کے دیگر ذرائع پر توجہ دیں ۔ مگر اپوزیشن کے احتجاج کے
باوجود بھی حکومت نے کوئی اثر نہیں لیا اور یہ مہنگا ترین سودا کرکے قوم کے
گلے میں ڈال دیا ۔ قارئین اب پھر اُسی پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور آپ دیکھ
رہے ہیں کہ اُن کی ترجیحات میں کیا کیا شامل ہے اور اگر کچھ نہیں شامل تو
قوم کی اشد ترین ضرورت توانائی کا بحران دور کرنا ہی شامل نہیں ہے ۔قوم کا
ہر فرد دھائی دے رہا ہے اور انرجی پیداکرنے کے مختلف طریقے اور وسائل پر
روشنی ڈال رہا ہے ۔مگر مجا ل ہے کہ اتنا واویلامچنے کے باوجود بھی حکومتی
ارکان اِس سے کوئی اثر قبول کرتے ہوں۔ یہ دانستہ اور مجرمانہ غفلت اب قوم
کس کھاتے میںڈالے گی اور اِن کے مرتکب سیاستدانوں اور حکمرانوں کے ساتھ کیا
سلوک کرے گی اور تو اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں اے این پی کی حکومت کالا
باغ ڈیم کے سستے ترین اور وافر بجلی پیداکرنے کے منصوبے سے منہ موڑ کر پن
بجلی پیدا کرنے کے چھوٹے چھوٹے منصوبے شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے
جس سے 50میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی۔ حکومت کے ساڑھے چار برس گزرجانے کے بعد
ابھی صرف منصوبہ بندی ہی کی جارہی ہے یہیں سے آپ حکومت کی ترجیحات کا
اندازہ لگاسکتے ہیں اور اِس پر مستزاد یہ کہ اِس 50میگاواٹ بجلی سے وہ صوبے
کی معیشت کو بھی ترقی دے رہے ہیں اور لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی
پیدا کر رہے ہیں ۔ اِس سے بڑا دھوکہ اور مذا ق اور کیا ہوگاجو یہ حکمران
قوم سے کر رہے ہیں۔
قارئین! آج یہ ساری باتیں اِس لیے یا د آرہی ہیں کہ حکومت نے انرجی
پیداکرنے کے ایک اور سستے ترین ذریعے تھرکول گیسی فیکشن منصوبے کی مخالفت
کرتے ہوئے اِس کے فنڈز روک لیے ہیں تاکہ نہ ہو بانس اور نہ بجے بانسری
۔حکومت کی اِس حرکت سے یہ بات اب طشت ازبام ہو چکی ہے کہ حکومت غیر ملکی
اشارے پر اِس مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہو رہی ہے کیونکہ وطنِ عزیز کے خلاف جو
شیطانی اتحاد ثلاثہ دائرہ تنگ کر رہی ہے ہماری موجودہ حکومت اور اِس کے
اکثر اہل کار اُن کے ایجنٹ ہیں اور وہ وقت پڑنے پر وطنِ عزیز کے خلاف کوئی
بھی انتہائی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے۔ہمارے اِن حکمرانوں کے پیش
نظر یا تو اپنے اقتدار کو طول دیتا ہے یا پھر ڈالروں کی چمکار ہے یا پھر
اقتدار سے علیحدگی کے بعد جب روئے زمین پر اِن کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو گا
سیاسی پناہ حاصل کرنا ہے۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مندپاکستان کے وہ مایہ ناز سائنسدان ہیں جن کی شبانہ روزکا
وشوں سے وطنِ عزیز دنیا ساتویں ایٹمی طاقت کے طور پر سامنے آیا۔ پاکستان کے
یہ نامور فرزند ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے دستِ راست رہے ہیں اور حکومت نے
اِنہیں اِن کی خدمات کے صلے میں کئی ایک اعزازات سے بھی نوازا ہے جن میں
ستارہ امتیاز اور ہلالِ امتیاز شامل ہیں۔
ڈاکٹر موصوف نے کئی بار اپنی گفتگو میں اِس بات پر تائسف کا اظہار کیا ہے
کہ گیس، کوئلہ ، سورج کی توانائی اور پانی کے باوجود ملک میں بجلی کی کمی
کا ہونا بدقسمتی سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کالا باغ ڈیم کے نہ بننے سے ہم
سراسر خسارے میںجارہے ہیں ۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے تھرمیں زیرِ زمین کوئلے
کو باہر نکالے بغیر وہیںجلا کر گیس بنانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے جس سے یہ
گیس جل اُٹھی ہے اور اِس کا نیلگوں شعلہ کئی میل دور سے دیکھا جا رہا ہے ۔
اُنہوں نے منصوبے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتِ سندھ کوئلے کا
جو بلاک تجرباتی بنیادوں پر اِن کو دیا ہے اُس سے فی الحال سو میگاواٹ بجلی
پیدا کی جا سکتی ہے ۔ اگر حکومت اِس مد میں فنڈز مہیا کر دے تو گیس سے بجلی
بنانے والے انجن درآمد کرکے فوری طور پر بجلی کی پیدا وار شروع کی جا سکتی
ہے اور کوئلے کے موجودہ بلاک سے دس ہزار میگاواٹ بجلی آئندہ تیس سال تک
حاصل کی جا سکتی ہے ۔ ڈاکٹر موصوف کے بقول اِس طریقے سے پیدا کی گئی بجلی
کی کاسٹ چار روپے فی یونٹ اور اِس سے حاصل کیا جانے والا ڈیزل چالیس ڈالر
فی بیر ل پڑے گا۔ جس سے وطنِ عزیز کی انرجی کی ضروریات نہ صرف یہ کہ بسہولت
پوری ہوں گی بلکہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان اِسے برآمد کرنے کی پوزیشن میں بھی
ہو۔یہ اِتنا سستا اور قابلِ عمل منصوبہ ہے کہ کوئی بھی ذی عقل اور ذی شعور
اِس سے انکار کر ہی نہیں سکتا ۔ موجودہ حکومت جو فرنس آئل سے بجلی پیدا کر
رہی ہے وہ اٹھارہ سے بیس روپے فی یونٹ پڑ رہی ہے اور اِس پر مستزاد یہ کہ
حکومت آئے دن بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرتی جارہی ہے جو عوام کی پہنچ سے
بہت زیادہ بڑھ کر ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ اِس ملک دوست اور عوام دوست منصوبے کو بھی سرکاری سطح پر
سبوتاژ کرنے کی اپنی سی کوشش کی جارہی ہے ۔ کبھی بین الاقوامی کانفرنس میں
پلاننگ کمیشن کا ممبر سرِعام اِس بات کا برملا اعلان کرتا ہے کہ تھرکول
منصوبہ مکمل طور پر ایک ناکام منصوبہ ہے کیونکہ تھر میں زیزِزمین پانی کی
وجہ سے کوئلے سے گیس نہیں بن سکی اور زیزِ زمین گیس کا شعلہ صرف چند گھنٹے
جلنے کے بعد بُجھ گیا ہے۔ لہذا کوئلے کے اِن ذخائر سے بجلی بنانے کے لیے
اِسے کانوں سے باہر نکالنا پڑے گا۔لہذا حکومت نے اِس منصوبے کی مبینہ
ناکامی کے بعد اِس کے فنڈز روک لیے ہیں کیونکہ بقول اُس ممبر کے ایک ناکام
منصوبے پر مزید سرمایہ لگانا سراسرگھاٹے کا سودا ہے اور ملک اِس گھاٹے کے
سودے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ موصوف نے یہ بھی دعوٰی کیا ہے کہ زیز زمین
کوئلے سے بجلی بنانے کا یہ طریقہ آسٹریلیا میں بھی استعمال ہو رہا ہے اور
وہ اتنی کم مقدار میں بجلی پیدا کرتا ہے کہ آسٹریلیا نے بھی اِسے بند کرنے
کا منصوبہ بنا دیا ہے ۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے جو خود بھی پلاننگ کمیشن کے ممبر ہیں اُنہوں نے اِس
بات کا سختی سے تردید کی ہے کہ یہ منصوبہ ناکام ہوگیا ہے بلکہ اُن کے بقول
یہ منصوبہ نہایت کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔اور کمی ہے تو صرف فنڈز کی اگر
حکومت مطلوبہ فنڈز فراہم کردے تو بہت جلد یہ تجرباتی منصوبہ عملی شکل میں
آکر بجلی کی پیداوار شروع کر دے گا۔قارئین کرام!یقین مانیے کہ کچھ ایسے
نادیدہ ہاتھ ہیں جو وطنِ عزیز کو دانستہ اندھیروں میں دھکیلنے پر تلے ہوئے
ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ وطنِ عزیز اندھیروں سے نکل کر روشنی کی طرف سفر
کرے کیا ہم عوام کو آگے بڑھ کر ایسے ہاتھ کاٹ نہیں دینے چاہیں۔۔۔؟ یہ سوچنے
کا مقام ہے حکومت نے 200ارب کرایہ پر پاور پلانٹ حاصل کیے ہیں اور وہ بھی
سفید ہاتھی کی طرح ناکارہ پڑے ہوئے ہیں ظاہر ہے کہ پلانٹ تو آپ نے کرایہ پر
لے لیا لیکن اِسے چلانے کے لیے ایندھن چاہیے اور ایندھن پیسے اور پیسے
حکمرانوں کی جیبوں میں جائیں گے پاور پلانٹ میں نہیں۔حکومت ان رینٹل پاور
کا جو کرایہ دے رہی ہے وہی فنڈز اگر تھرکول منصوبے پر لگا دیے جائیں تو اِس
سے ہمارے بہت سے دلدر دور ہو سکتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے فارسی زبان
کا یہ شعر بہت ہی موزوں ہے۔
خفتہ اندر آشیاں و مطمئن بے آرزو
طائران ِ عصرحاضر بے خبراز جستجو
ہمارے حکمران اپنے آشیانوں کے اندر مطمین اور بے آرزو پڑے ہیں عصرِ حاضر کے
یہ پرندے کیا جانیں کہ جستجو کیا ہوتی ہے۔
میڈیا جو ہر وقت الرٹ اور بات اُچکنے کو تیار رہتا ہے اُسے بھی اپنی ذمہ
داری کا احساس کرتے ہوئے اِس تھرکول منصوبے کی بھرپور حمایت کرنا چاہیے
بلکہ اِس کے لیے باقاعدہ مہم چلانی چاہیے تاکہ حکومت کے بے حِس ایوانوں میں
اِس کی گونج سنائی دینے لگے ۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ الیکٹرونک میڈیا کا
جتنا استعمال کرتے ہیں اُس سے کوئی تعمیری کام لیں ایس ایم ایس اور ای میلز
کے ذریعے اِس منصوبے کی خوب تشہیر کریں تاکہ لوڈشیڈنگ سے تنگ آئے ہوئے عوام
تک یہ پیغام پہنچ جائے کہ پاکستان میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے بلکہ اگر کمی
ہے تو حکمرانوں کے خلوص نیت کی کمی ہے ۔ میں اپنے لو ڈشیڈنگ سے تنگ
پاکستانی عوام کی طرف سے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں
کہ آپ آگے بڑھیں ہم عوام آپ کے ساتھ ہیں آپ اپنا اکاﺅنٹ نمبر دیں ہم عوام
یقین مانیے کہ چند دنوں میں آپ کو مطلوبہ رقم فراہم کر دیں گے ہمیں اُمید
ہے کہ آپ پاکستانی قوم کو اندھیروں سے نکا ل کر روشنی کی طرف لے جائیں گے
اور قوم کو روشنی سے ثمرمند کریں گے۔ |