نیٹو سپلائی کی بحالی اور فوج

ڈاکٹر فوزیہ چودھری

ہمارے ہاں عام طور پر یہ تاثر پایا جاتاہے کہ اہم قومی معاملات میں فوج ہمیشہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرتی ہے اور حتمی فیصلہ کن کردار فوج کا ہی ہوتا ہے۔ بھلا جمہوری حکومتوں میں ایسا کہاں ہوتا ہے اور کیسے ہوسکتا ہے جہاں پارلیمنٹ بالادست ہوتی ہے اور تمام فیصلے مشاورت سے ہوتے ہیں دراصل پچھلے ایک آدھ سال میں وطنِ عزیز میں پے درپے قومی سلامتی کے حوالے سے ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں جنہوں نے تمام قوم کو بیحد حساس اور دکھی کر دیا ہے امریکی اور نیٹو طیارے متعدد بار پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزیاں کرتے رہے پھر آئے دن ڈرون حملے ہی کیا کم تھے کہ پچھلے سال پہلے ایبٹ آباد والا واقعہ پیش آیا جب امریکیوں نے کھلے عام وطنِ عزیزکی حدود میں گُھس کر پاکستان کی خودمختاری کو چیلنج کیا اور اُسامہ بن لادن کو مارنے کا دعوٰی کیا ۔پاکستان کے سیاسی،سماجی،عسکری اور عوامی حلقوں نے اِس پر شدید ردِعمل کا اظہار کیا اور ملک بھر میں اِس واقعے کی شدید مذمت کی گئی۔ابھی اِس واقعے کے زخم مندمل نہ ہوئے تھے کہ امریکی اور نیٹو طیاروں نے سلالہ چیک پوسٹ پر ہمارے علاقے میں گُھس کر بلااشتعال فائرنگ کردی جہاں فوجی جوان اپنی معمول کی ڈیوٹی پر مامورتھے جس سے چوبیس جوان اور چھے دوسرے افراد موقع پر ہی شہید ہو گئے اور اِن سے کئی زیادہ زخمی بھی ہوئے اِس واقعے نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا ۔پورے ملک میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔امریکی زیادتیاں تھیں کہ بڑھتی ہی جا رہی تھیں گویا یہ امریکہ کی طرف سے پیغام تھاکہ اُنہیں دہشت گردی کی اس جنگ میں دی گئی پاکستانی قربانیاں کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور یہ کہ پاکستان امریکی مفادات کی جنگ لڑتا رہے اگر اِس سلسلے میں اُس کی انا، خوداری، سالمیت،خودمختاری پر چوت بھی پڑتی ہے تو یہ امریکہ اور نیٹو کے کسی گنتی شمار میںنہیں ہیں۔امریکہ اور نیٹوفورسزکی ان بڑھتی ہوئی اشتعال انگیز کارروائیوں کے پیشِ نظر وفاقی کابینہ کا اعلیٰ سطحی اجلاس بُلایا گیا جس میں صدر ، وزیراعظم اور آرمی چیف بھی شامل ہوئے۔لہذا اِسی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیاکہ نیٹو سپلائی کا زمینی راستہ اُس وقت تک بند رکھا جائے گا جب تک کہ امریکہ اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے پاکستان سے معافی نہ مانگے اور اِس بات کی یقین دھانی نہ کرائے کہ وہ دوبارہ اِس طرح کے واقعات کا اعادہ نہیں کرے گا۔

نیٹو سپلائی کا یہ زمینی راستہ پہلی دفعہ بند نہیں کیا گیا بلکہ اِس سے پہلے بھی یہ راستہ دو ایک دفعہ بند ہوا ہے لیکن اُس بندی کی مدت بہت ہی کم تھی غالباََ ایک دفعہ بیس دن اور دوسری دفعہ کوئی چودہ دن اور وہ بھی پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی کے باعث احتجاجاََ کی گئی اور بعد ازاں سفارتی سطح پر بات چیت کے بعد یہ پابندی ہٹا دی گئی ۔اِس بار بھی امریکہ اور نیٹو کو یہی امید تھی کہ یہ پابندی بھی پچھلی پابندیوں کی طرح کچھ دن بعد ہٹالی جائے گی۔ لیکن اِس بار پاکستانی حکام واقعی سیریس ہوگئے امریکہ نے اپنے غرور اور گھمنڈ میں معافی مانگنے کو اپنی توہین جانااور پاکستانیوں کو اِس بات کا غصہ رہا کہ امریکہ کے لیے اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی ہماری قربانیاں صفر ہیں اور امریکہ کے نزدیک اِن کی کوئی حقیقت نہیں اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ اب وہ براہ ِ راست ہماری سرحدی چوکی پر حملہ کرکے ہمارے فوجی جوانوں کو شہید کردے۔اگرچہ اِس واقعے پر امریکہ نے کئی حیلے بہانے تراشے کہ اُنہوں نے طالبان سمجھ کر حملہ کیا تھا اور یہ کہ غلط انٹیلی جنس رپورٹ پر ایسا ہوا۔مگر وہ معافی مانگنے پر تاحال راضی نہیں ہوااور یہ وجہ ہے کہ نیٹو سپلائی کی بندی کے ایک سو بہتر سے زیادہ دن گزرجانے کے باوجود یہ ابھی تک بحال نہیں ہوئی۔اگرچہ اِس کے پیچھے امریکہ کا معاندانہ رویہ ہے لیکن عام لوگوں میں یہ امپریشن ہے کہ چونکہ اِس بار براہِ راست اِس بندی سے آرمی کے جوانوں کی شہادتیں وابستہ ہیں اِس لیے یہ پابندی آرمی نے لگائی ہے اور اُسی نے اتنے دن سے یہ پابندی ہٹانے نہیں دی۔حالانکہ صورتِ حال اِس کے برعکس ہے ۔ یہ پابندی صرف آرمی کی مرضی کی وجہ سے نہیں لگی بلکہ اِس پابندی لگانے میں آرمی کی مرضی شامل ضرور تھی ۔ جبکہ تمام حکومتی مشینری اِس بات پر راضی تھی کہ امریکہ کی اِس غیر اخلاقی اور غیرقانونی حرکت کا جواب سختی سے دیا جائے ۔اور آرمی بھی اِس میں شامل تھی لیکن اِس کا یہ مطلب نکالنا کہ پابندی ہی آرمی کی وجہ سے یا آرمی کے پریشر سے لگائی گئی ہے درست نہیں ہے۔ اسی طرح حکومت اگر اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے یہ پابندی ہٹا رہی ہے تو اِس میں آرمی کی مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے۔

دراصل ہم پاکستانی ایک جذباتی قوم ہیں اور کسی بھی بات یا مسئلے کے تمام پہلوﺅں پر نظر کیے بغیرہی ہم فیصلہ کر لیتے ہیں اور بعد میں سوچتے ہیں ۔پرویز مشرف نے بھی یہی کچھ کیا ۔ یکدم امریکہ کے دباﺅ میں آکر یہ فیصلہ تو کر لیا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن اِس ساتھ دینے کے لیے ہمیں کیا کچھ کرنا پڑے گایہ اُس وقت بالکل نہ سوچا اور رزلٹ آپ کے سامنے ہے ۔ حکومت نے اگر نیٹو سپلائی بند کی تھی تو اِس پر قائم رہناچاہیے تھا ۔یا سپلائی بند کرتے وقت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا کیونکہ یہ تو سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے راستے زمینی سپلائی افغانستان جنگ کا مین ذریعہ ہے اور اگر یہ ذریعہ مکمل طور پر یعنی زمینی اور فضائی بند کر دیا جائے تو امریکہ کے لیے زیادہ دیر افغانستان میں رکنا ممکن نہیں ہے اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی جنگ میں سپلائی لائن کی بحالی کی کیا اہمیت ہوتی ہے ۔ورنہ امریکہ اپنے ملک سے اتنی دور بیٹھ کر جنگ کس طرح کر سکتا ہے۔

قائداعظم محمد علی جناح کا ایک قول ہے کہ جب بھی کوئی مشکل فیصلہ کرو تو پہلے اِس پر سوبار سوچو اور غوروفکر کرو یعنی اِس کے تمام پہلوﺅں کا جائزہ لو اِس کے فوائد اور نقصانات پر نظر رکھولیکن اگر ایک بار فیصلہ کرو تو اِس پر پوری طرح ڈٹ جاﺅاور اپنے مﺅقف کا دفاع کرو۔ اِس قول کی روشنی میں حکومت کو چاہیے تھا کہ اگر اُنہوں نے نیٹو سپلائی بند کی تھی تو اپنے مﺅقف پر قائم رہتے ۔ اِس بات کا تو ہمیں پہلے ہی اندازہ تھا کہ سپلائی بند ہونے پر امریکہ واویلا مچائے گا۔پاکستان پر دباﺅ ڈالے گااور بقول حکومت کے ہم پر عالمی پابندیا ں بھی لگ سکتی ہیں ۔ یہ سب کچھ ٹھیک ہے اور ظاہر ہے کہ اصولوں پر ایسے ہی تو قائم نہیں رہا جا سکتا اِس کے لیے آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے ، تکالیف برداشت کرنا پڑتی ہیں اور بعض اوقات صلح حدیبیہ کی طرح نیچے لگ کر شرائط قبول کرنا پڑتی ہیں تب کہیں جا کر فتح مبین حاصل ہوتی ہے اور حق اور سچ کا بول بالا ہوتا ہے ۔ لیکن ایسے فیصلے کرنے کے لیے انسان کو مین آف کریکٹر ہونا چاہیے نہ کہ اپنی اغراض کا بندہ۔

حکومت نے نیٹو سپلائی کھولنے کے لیے ایک بارپھر جذباتی فیصلہ کیا ہے ۔اور کچھ نہیں تو کم ازکم پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی نے جو سفارشات مرتب کی تھیں اور جس پر پارلیمنٹ اور اپوزیشن نے اتفاق رائے کیا تھااُسی کے مطابق فیصلہ کرتے۔دراصل حکومت نے اپنے ساڑھے چارسالہ دور میں وہ کچھ نہیں کیا جو اُسے کرنا چاہیے تھا اور اُس نے اپنی ناکامیاں دیکھ کر گھٹنے ٹیک دیے ہیں ۔حکومت کے پاس کریڈٹ لینے کے لیے کوئی اچھی بات نہیں بچی تھی اپنی بُری گورنس کی وجہ سے خزانہ تو پہلے ہی خالی تھااور اوپر سے کرپشن لہذا حکومت کے پاس بجٹ پیش کرنے کو پیسہ نہیں تھا ۔نیٹو سپلائی کی بحالی سے کم ازکم حکومت کو کولیشن سپورٹ فنڈ اور کنٹینروںکا کرایہ ضرور وصول ہوجائے گاجس سے پیپلزپارٹی کی یہ حکومت اپنا آخری بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اِسی لیے وفاقی وزرائ، وزیر خارجہ ، وزیرخزانہ اور وزیردفاع کے منہ سوکھ رہے ہیں قوم کو یہ بتا بتا کر کہ نیٹو سپلائی کی بحالی میں پاکستان کا کتنا فائدہ ہے اور یہ کہ اگر یہ سپلائی بحال نہیں کی جائے گی تو پاکستان نیٹو ممالک جن کی تعداد اڑتالیس کے قریب ہے اُن کی مخالفت کا سامنا نہیں کر سکتا اور ہوسکتا ہے کہ پاکستان کو عالمی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے ۔شاید یہ حکومت کی مجبوری بھی ہو نیٹو سپلائی ہمیشہ بند نہیں رہ سکتی تھی۔ کبھی نہ کبھی اور کسی نہ کسی شرائط پر تو یہ کھلنا ہی تھی۔ ٹھیک ہے کھول دیتے لیکن کم ازکم پارلیمنٹ کا احترام تو قائم رہنے دیتے اور پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی نے نیٹو سپلائی بحال کرنے کے لیے جو چودہ نکاتی تجاویز پیش کی تھیں جن پر پارلیمنٹ اور اپوزیشن نے بھی اپنی حمایت کا اعلان کر دیا تھااِن پر تو امریکہ کو راضی کرتے لیکن ہمارے حکمرانوں کو شکاگو کانفرنس میں شرکت کے دعوت نامے اور سپلائی کی بحالی کی صورت میں ملنے والی رقم سے زیادہ دلچسپی تھی تاکہ وہ اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کر سکیں ۔شکاگو کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ تو مل چکا ہے اور صدر صاحب شکاگو پہنچ بھی گئے ہیں ۔ادھر نیٹو سپلائی کی بحالی کے تمام انتظامات مکمل ہیں بس اب صرف صدر پاکستان نے شکاگو میں اپنے خطاب کے دوران اِس کی بحالی کا اعلان کرنا ہے۔

اِس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری روایات اِس طرح مستحکم نہیں ہیں کہ جس طرح ہونی چاہیں اور اِسی لیے ہمارے ہاں فیصلہ سازی کا عمل بھی مضبوط نہیں ہے ظاہر ہے کہ جمہوری ادارے مضبوط ہوں گے توفیصلہ سازی کا عمل آگے بڑے گا اورجو فیصلے اِس پروسیس سے گزر کر آگے آئیں گے وہ مضبوط اور درست ہوں گے ۔شاید یہ چیز بھی ہمارے ہاں آتے آتے آجائے ۔اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور اہمیت کا خیال ہمارے دلوں میں گھر کر جائے۔

بین الاقوامی قانون کے مطابق اگر کوئی ملک خانہ جنگی کا شکار ہے تو اُس کا پڑوسی ملک اُس کو راستہ دینے کا پابند ہے اور اگر کسی ملک کی سرحد کسی ساحل سے نہیں ملتی تووہ بھی اِس بات کا حقدارہے کہ اُسے بھی راستہ دیا جائے2014ءکو اگر امریکہ اور نیٹو افواج افغانستان سے واپس جاتی ہیں تو اُن کو واپسی کا راستہ بھی چاہیے اور واپسی کا یہ راستہ پاکستان سے ہو کر گزرتا ہے۔ اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ اگر پاکستان نیٹو کے خلاف جاتا ہے تو لا محالہ امریکہ اور نیٹو جن کی نظر میں پہلے ہی پاکستان کی قربانیوں اور کوششوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے وہ پاکستان کو کارنر کرتے ہوئے افغانستان میں قیامِِ امن کی کوششوں کے لیے بھارت کو آگے لائیں گے جو کہ کسی صورت میں بھی پاکستان کو قابلِ قبول نہیں ہے کیونکہ افغانستان میں بھارت کی موجودگی پہلے بھی کوئی نیک شُگن نہیں ہے بھارت پاکستان سے اپنی ازلی دشمنی کے سبب کبھی بھی آرام سے نہیں بیٹھے گااور ملک میں بدامنی اور انارکی پھیلانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔ابھی بھی بھارت یہ سب کچھ کر رہا ہے لیکن پھر تو اور بھی کھلے عام یہ کرے گا اور وطنِ عزیزاپنی مشرقی اور مغربی سرحدوں کے درمیان اپنے ازلی دشمن سے نبرد آزمارہے گا۔

نیٹوسپلائی کی بحالی کا مسئلہ اپنی جگہ کہ یہ حکومت اور پارلیمنٹ کا مسئلہ ہے لیکن کچھ ملک دشمن عناصر کی طرف سے اِس مسئلے میں فوج کو خواہ مخواہ گھیسٹنے کا اشارہ مل رہا ہے ۔ اور حکومت کے حوالے سے تو یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ فوج نیٹو سپلائی کی بحالی کی غیرمشروط طورپر حامی ہے جہاں تک میر اخیال ہے اِس بات کی بُنیاد اُس سہ فریقی کمیشن کو بنایا جارہا ہے جس کا اجلاس 13مئی کو جی ایچ کیوراولپنڈی میں ہوا جس میں پاکستانی وفد کی قیادت جنرل کیانی ،نیٹو کی نمائندگی ایساف کمانڈر جنر ل ایلن اور افغانستان کی نمائندگی جنرل شیر محمد کریمی نے کی ۔ آئی ایس پی آر کے مطابق کمیشن کے اِس اجلاس میں پاکستانی سرحد پر آپریشن ،ٹیکنیکل سطح پر تعاون بڑھانے اور غیرارادی واقعات رونما ہونے سے روکنے کے لیے رابطے بہتر بنانے پر بات چیت ہوئی لیکن نیٹو سپلائی کا معاملہ اِس سہہ فریقی کمیشن کے ایجنڈے ہی میں شامل نہ تھا ۔اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ کچھ شرپسند عناصر ایسے ہیں جوفوج کو خواہ مخواہ سیاسی معاملات میں گھسیٹ رہے ہیں اور ایک افواہ یہ بھی گردش کرتی ہوئی سنی گئی ہے کہ جنرل کیانی نے کورکمانڈر کانفرنس بلا کر فوج کو نیٹو سپلائی کی بحالی کے سلسلے میں اعتماد میںلینے کی کوشش کی ہے جبکہ آئی ایس پی آر کے ترجمان کے مطابق ایسی کوئی کورکمانڈر کانفرنس سرے سے منعقد ہی نہیں ہوئی جہاں تک اِن افواہوں کا تعلق ہے تو یقینی طور پر یہ افواہیں ہی ہیں اِن میں کوئی صداقت موجود نہ ہے اور افواہیں ، افواہ سازوں کی ناتمام خواہشات ہی کی عکاسی کرتی ہیں ۔جہاں تک جنرل اشفاق پرویز کیانی کا تعلق ہے تو اُن کا ماضی کا ریکارڈ سیاسی اعتبار سے بالکل شفا ف ہے۔ اُنہوں نے چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ سنبھالتے ہی اِس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ فوج کو سیاست سے دور رکھیں گے اور اُن کے پانچ سالہ دور میں اِن کے مخالفین بھی اِن کے بارے میں انگلی نہیں اُٹھا سکتے کہ اُنہوں نے کبھی کوئی ایسے اقدامات کیے ہوںیا کوئی ایسا بیان دیا ہوجس سے یہ ظاہر ہوسکے کہ وہ سیاسی عزائم رکھتے ہیں ۔ نیٹو سپلائی کی بحالی کا مسئلہ بھی پارلیمنٹ میں ہے اور دفترِ خارجہ حکومت کی ایماءپر اِس مسئلے کو حل کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہی ہے اور ظاہر ہے کہ حکومتوں کے درمیان طے پاجانے والے دوطرفہ امور میں فوج کا کوئی رول نہیں ہوتا دونوں ملک اپنی خارجہ پالیسی کے مطابق اپنے ملک کے بہترین مفاد میں خود فیصلے کرتے ہیں۔ اگرچہ فوج کے متعلق لوگوں میں جو تائثر پایا جاتا ہے اُس کے اثرات ظاہر ضرور ہوتے ہیں اور فوج کے کردار کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں ابہام پیدا ہوتا ہے لیکن اِس ابہام کو دور کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ ہر ادارہ اپنی اپنی جگہ پر اپنے اپنے دائرہ اختیار کے اندر رہتے ہوئے کام کرے تو غلط فہمیاں خود بخود دور ہو جاتی ہیں ۔جنرل اشفاق پرویز کیانی تو متعدد بار اِس بات کا اعادہ کر چکے ہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی ظاہر کر چکے ہیں کہ فوج سیاست سے الگ ہے اور کوئی سیاسی عزائم نہیں رکھتی ۔ حالانکہ پی پی پی کی اِس موجودہ حکومت نے فوج کو اقتدار میں آنے کے کتنے سنہری مواقع فراہم کیے ہیں لیکن فوج نے کسی سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا ۔

نیٹو سپلائی کے حوالے سے شیریں رحمٰن جو کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر ہیں اُن کا ایک تازہ ترین بیان سامنے آیا ہے کہ پاکستان امریکہ سے معافی مانگنے اور ڈرون حملے کوختم کرنے کے مطالبے سے ابھی تک دستبردار نہیں ہوا اور صدر کی شکاگو کانفرنس میں شمولیت بھی نیٹو سپلائی کی بحالی کے ساتھ مشروط نہیں ہے ۔ اِس بیان سے بھی فوج کی اِس معاملے سے علیحدگی ظاہر ہوتی ہے -
Anwer Parveen
About the Author: Anwer Parveen Read More Articles by Anwer Parveen: 59 Articles with 39923 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.