یوم تکبیر 28 مئی کے حوالے سے خصوصی تحریر
ایٹمی پروگرام قومی افتخار اورملکی بقاء کی ضمانت ہے ۔ ۔ ۔ ۔
حقیقت یہ ہے کہ قوموں کی زندگی میں بعض لمحات اتنے منفرد،اہم اور تاریخی
ہوتے ہیں کہ اُن لمحوں کی اہمیت اور حیثیت کا مقابلہ کئی صدیاں بھی مل کر
نہیں کرسکتیں،یہ منفرد و قیمتی لمحات دراصل تاریخ کا وہ حساس موڑ ہوتے
ہیں،جہاں کوئی قوم اپنے لیے عزت و وقار اور غرور و تمکنت یا ذلت و رسوائی
اور غلامی و محکومی میں سے کسی ایک کا ایک راستے کا انتخاب کرتی ہے،بزدل،
ڈرپوک،ابن الوقت اور غلام ذہنیت کے لوگ اِن تاریخ ساز لمحات کی قدر و قیمت
نہیں جانتے اور نہ ہی اُن کے دل و دماغ کسی چیلنج کو قبول کرنے پر آمادہ
ہوتے ہیں،نتیجتاًایسی اقوام شاہراہ حیات پر دوسری اقوام سے پیچھے رہ جاتی
ہیں اور پھر اِن اقوام کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب یہ قومیں
ماضی کی گرد میں کھو کر قصہ پارینہ بن کر تاریخ کی بوسیدہ کتابوں کا حصہ بن
جاتی ہیں، لیکن اِس کے بر عکس جرات مند اوربہادر لوگ تاریخ کے ان نازک
لمحات میں ہوش مندی اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ایسے تاریخی فیصلے
کرتے ہیں،جو قومی زندگی کی بقاء،سلامتی و استحکام اور تحفظ کیلئے لازم و
ملزوم ہوتے ہیں،14اگست 1947ءکی یوم آزادی کے بعد 28مئی 1998ءکا دن اورسہ
پہر 3:20منٹ کا وقت پاکستان کی تاریخ کا وہ تاریخ ساز لمحہ ہے،جس کے احسا س
تفاخر نے پوری قوم اورعالم اسلام کے مسلمانوں کا سر غرور و سر فخر اور خوشی
و استنباط سے بلند کردیا،28مئی” یوم تکبیر“ پاکستان کی تاریخ کا وہ دن
ہے،جس دن پاکستان نے بلوچستان کے مقام” چاغی“ کے پہاڑی سلسلے ”راس کوہ“ میں
زیر زمین پانچ ایٹمی دھماکے کرکے عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں
ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز حاصل کیااور11مئی1998کو پوکھران میں 3اور 13مئی کو
2 ایٹمی دھماکوں کے بھارتی ایٹمی ایڈونچر کا دندان شکن جواب دے کر جنوب
مشرقی ایشیاءمیں ہندو بنیئے کے توسیع پسندانہ عزائم اور خطے میں جوہری
بالادستی کے بھارتی منصوبے کو بھی خاک میں ملا دیا،اِس تاریخ ساز موقع پر
اُس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے
قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ ” الحمدللہ ہم نے گزشہ دنوں کے بھارتی ایٹمی
دھماکوں کا حساب 6کا میاب ایٹمی دھماکوں سے چکا دیا ہے، اب ہم پر کوئی دشمن
شب خون مارنے کی جرات نہیں کرسکے گا،کامیاب ایٹمی دھماکوں سے پاکستان کو
دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل ہوگیا
اور ایٹمی تجربات نے ملت اسلامیہ پر پانچ صدیوں سے طار ی جمود توڑ کر اُس
کو خواب خرگوش سے بیدار کردیا،انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ایٹم بم ملت
اسلامیہ کی نہ صرف بلکہ اُس کے اتحاد کی علامت بھی ہے جو عہد رفتہ کی عظمت
کو واپس لانے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔“
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ 1947ءسے ہی پاکستان کے معرض وجود میں آنے
کے بعد بھارت پاکستان کا دشمن بن گیا اور وہ ہر قیمت پر پاکستان کو ختم
کرنے کے درپے رہا،دراصل یہود و ہنود یہ قطعاً نہیں چاہتے کہ کہ دنیا کے
نقشے پر واقع ایک چھوٹا سا اسلامی ملک پاکستان دنیا میں عزت و وقارکے ساتھ
زندہ رہے اور عالم اسلام کی قیادت کا فریضہ انجام دے ،چنانچہ وہ ہمیشہ ہی
مختلف حیلوں اور بہانوں سے پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے،بھارت کا
ایٹمی پروگرام ،امریکہ ،روس اور دیگر ایٹمی طاقتوں سے جوہری معاہدے، جدید
لڑاکا طیاروں اور،فوجی سازو سامان کا حصول اور اسلحہ کے انبار ،سب اسی
سلسلے کی کڑی ہیں، 1960ءکے عشرے میں جب یہ خبر یں آنی شروع ہوئیں کہ بھارت
بڑی تیزی سے جوہر ی تجربات کی سمت بڑھ رہا ہے ،اُس وقت کی ہماری سیاسی
قیادت جوہری اسلحہ کے میدان میں قدم رکھنے کے حوالے سے مخمصے کا شکار تھی
لیکن اُس وقت بھی ایوب کابینہ کے نوجوان وزیر ذوالفقار علی بھٹوکی دور
اندیش نگاہوں سے بھارت کا ایٹمی پروگرام اور مستقبل کے جارحانہ عزائم
پوشیدہ نہیں تھے،بھٹو بھارت کو مستقبل کی نیوکلیئر طاقت کے روپ میں دیکھ کر
پاکستان کیلئے خطرہ محسوس کررہے تھے اور اُن کی خواہش تھی کہ طاقت کے توازن
کو برابر کرنے کیلئے پاکستان کو بھی اپنا جوہری پروگرام شروع کرنا چاہیے،یہ
بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ اس مقصد کیلئے انہوں نے کابینہ میں یہ تجویز پیش
کی تھی کہ پاکستان کو جوہری اسلحہ کی تیاری کا پروگرام شروع کرنا
چاہئے،لیکن ایوب خان اور اُن کے امریکہ نواز وزیر خزانہ محمد شعیب اور
دیگروزیروں نے بھٹو کی اِس تجویز یکسر مسترد کردتے ہوئے جوہری صلاحیت کے
عدم حصول کا فیصلہ کیا،1963ءمیں جب صدر ایوب خان فرانس کے دورے پر گئے تو
وہاں فرانسیسی صدر چارلس ڈی گال نے پاکستان میں جوہری ری پراسسنگ پلانٹ کی
تعمیر کی پیش کش کی لیکن ایوب خان نے فرانس کی یہ پیشکش اُس وقت کے چیف آف
آرمی اسٹاف جنرل یحییٰ خان،سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام(قادیانی) اور
منصوبہ بندی کمیشن کے نائب چیئرمین مرزا مظفر احمدقادیانی المعروف ایم ایم
احمد ( جو کہ کسی طور بھی پاکستان کو ایک مسلم ایٹمی طاقت کے روپ میں نہیں
دیکھنا چاہتے تھے) کے مشورے پر ٹھکرا دی ،لیکن یہ قائد عوام ذوالفقار علی
بھٹو ہی تھے جنھوں نے 1971ء میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد باقی ماندہ
پاکستان کا اقتدار سنبھالا اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کےلئے 1973ءمیں
جوہری صلاحیت کے حصول کا باقاعدہ پروگرام شروع کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کا عزم تھا کہ ”ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور
بنائیں گے “ یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی کا کارنامہ تھا کہ جہاں ایک طرف انہوں
نے فرانسیسی حکومت کو جوہری ری پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر کی پرانی پیشکش کی
تجدید پر آمادہ کیا، وہیں انہوں نے پاکستان کے جوہری پروگرام کو درست سمت
میں گامزن کرنے کیلئے جوہری توانائی کمیشن کے سربراہ کی تبدیلی کے ساتھ
ساتھ سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام (قادیانی) کو بھی برطرف کر دیا اور ڈاکٹر
عبدالقدیر خان جو کہ اُس وقت ہالینڈ میں مقیم تھے کو پاکستان بلواکر
پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی ذمہ داریاں سونپیں،بھٹو جس تیزی سے پاکستان
کا جوہری پروگرام بڑھا رہے تھے وہ امریکہ اور صہیونی لابی کے نزدیک کسی طور
بھی قابل قبول اور قابل معافی جرم نہ تھا،چنانچہ 1976ءمیں امریکی وزیر
خارجہ ہنری کیسنجرنے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو دھمکی دی
کہ اگر تم نے ایٹمی ری پراسسنگ اور ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے منصوبہ پر
کام جاری رکھا تو ہم تمہیں مثال عبرت بنا دیں گے ،لیکن قائد عوام ذوالفقار
علی بھٹو نے کیسنجر کی اس دھمکی کے باوجودپاکستان کا ایٹمی پروگرام جاری
رکھا کیونکہ بھٹو کے نزدیک اُن کی جان سے زیادہ ملک و قوم کی سلامتی اور
بقاءزیادہ اہمیت کی حامل تھی جو پہلے ہی بھارتی ایٹمی پروگرام کی وجہ سے
شدید خطرے میں تھی،دوسری طرف بھٹو صاحب کے حکم پرعالمی شہرت یافتہ مایہ ناز
ایٹمی سائنسدان اور پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے با نی و معمارڈاکٹر
عبدالقدیر خان نے انتہائی نامساعد حالات میں پاکستان کے جوہری پروگرام کا
آغاز کیا،مشکل ترین حالات میں جوہری پروگرام کی تشکیل،تعمیر اور تکمیل کی
یہ داستان بھی اللہ تعالیٰ اوراُس کے حبیب کریم ﷺ ہی کے بے پایاں فضل و کرم
کا ثمر ہے، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زیر نگرانی 1976ءمیں پاکستان کے سائنس
دانوں نے کہوٹہ لیباٹری میں یورنیم کی افزودگی کا کام شروع کیا اور 1982ءتک
پاکستانی سائنسدان 90فیصد افزودگی کی صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے
تھے ،بالآخر وہ دن بھی آیا جب قومی و ملی جذبوں سے سرشار ڈاکٹر
عبدالقدیرخان اور اُن کی پوری ٹیم کی اپنی انتھک محنت نے 28مئی 1998ء کو
بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ کامیاب ایٹمی دھماکے کرکے نہ
صرف وطن عزیز کو ناقابل تسخیر قلعہ بنادیا بلکہ وہ قوم اور مسلح افواج کے
مورال کوبھی آسمان کی بلند یوں پرلے گئے اور پوری قوم کے اعصاب سے ہندو
بنیئے کے خوف کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کردیا،ڈاکٹر عبدالقدیر اور اُن کی
ٹیم کے اِس عظیم کارنامے کی بدولت آج 28مئی 1998ءکا دن پاکستان کی تاریخ
میں ”تحفظ نظریہ پاکستان اور تکمیل دفاع پاکستان کی تاریخ کا دن“ اور” یوم
تکبیر “کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
آج پاکستان کا جوہری پروگرام اور ایٹم بم جو کہ پورے عالم اسلام کا جوہری
پروگرام اور ایٹم بم ہے کے خلاف بھارت ،اسرائیل ، امریکہ اور اس کے حواری
سازشوں میں میں مصروف ہیں اوروہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے گرد گھیرا تنگ
کررہے ہیں،ان کی خواہش ہے کہ کسی طرح پاکستان کو جوہری صلاحیت سے محروم
کردیا جائے، آئے دن کوئی نہ کوئی فتنہ ساماں کہانی مغربی پریس کی زینت بنتی
رہتی ہے،بے سروپا شوشے اڑائے جاتے ہیں کہ پاکستان ایک غیر ذمہ دار ملک ہے
اور اس کے ایٹمی اثاثے کسی بھی وقت القاعدہ اور دوسرے انتہا پسند عناصر کے
ہاتھ لگ سکتے ہیں،سب سے زیادہ ستم ظریفی کی بات ہے کہ جو ممالک پاکستان کے
ایٹم بم پر ”اسلامی بم “ کی پھبتی کستے ہیں ، اِن کے نزدیک امریکہ برطانیہ
اور فرانس کے ایٹم بم ”عیسائی بم“ نہیں ہیں ،چین اور روس کے بم ”کمیونسٹ
بم“ نہیں ہیں، بھارت کا ایٹم بم ”ہندو بم “نہیں ہے اور نہ ہی اسرائیل کا
ایٹم بم ”یہودی بم“ہے ، اس کھلے تضاد اور دو عملی کی اصل وجہ یہ ہے کہ
پاکستان کی ایٹمی صلاحیت روز اول سے بھارت جیسے دشمنوں اور امریکہ جیسے نام
نہادوستوں کیلئے سوہان روح بنی رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان بار بار
امریکی پابندیوں اور مخالفانہ پروپیگنڈے کا شکار ہوا،جبکہ پاکستان کو دہشت
گردوں کی نرسری اور ناکام ریاست قرار دینے کے امریکی بیانات بھی اسی سلسلے
کی کڑی تھے تاکہ انتہا پسندوں کے قبضے کا شور مچا کر پاکستان کے ایٹمی
ہتھیاروں پر کنٹرول حاصل کیا جاسکے،ماضی میں ڈاکٹر عبدالقدیر کے خلاف الزام
تراشی بھی اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھی اور اسلام آباد پرطالبان کی چڑھائی
کا شور بھی اسی لئے مچایاگیا،دنیا کو یہ بھی تاثر دیا گیا کہ طالبان کی
نظریں ہمارے ایٹمی اثاثوں پر ہے،جبکہ حال ہی میں امریکی حکومت نے ایک خصوصی
فورس کی تشکیل اور پاک افغان سرحد پراُس کی تعیناتی بھی صرف اس مقصد کیلئے
کی ہے کہ وقت ضرورت پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا کنٹرول حاصل کیا جاسکے،
امریکہ اپنے علاقائی مفادات، اسلام مخالف عالمی ایجنڈے اور بھارت و اسرائیل
کیلئے خطرہ تصور کرتے ہوئے پاکستان اورایران سمیت کسی بھی اسلامی ریاست کو
ایٹمی صلاحیت کا حامل دیکھنا نہیں چاہتا، اس لئے وہ مختلف حیلوں بہانوں سے
ہمارے ایٹمی پروگرام کو کیپ یا ختم کرنے کے درپے ہے، لہٰذااس سے ہوشیار
رہنے کی ضرورت ہے، جبکہ دوسری طرف پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف امریکی
پراپیگنڈے سے متاثربعض نام نہاد دانشورجو یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ پاکستان
کو 1998ءمیں ایٹمی تجربات کی ضرورت نہیں تھی، امریکی مرعوبیت اور بھارت
نواز ی پر مبنی سوچ کے حامل یہ افراد بھول رہے ہیں کہ اگر خدانخواستہ
پاکستان ایٹمی قوت نہ ہوتا تو ممبئی دھماکوں کے بعد بھارت پاکستان پر حملہ
کرنے میں ایک دن کی تاخیر نہ کرتا، حقیقت یہ ہے کہ ہمارا میزائل اورایٹمی
پروگرام جو قومی افتخار اورملکی بقاءکی علامت بھی ہے،ہی پاکستان کے دفاع
استحکام اور سلامتی کا ضامن اور دشمن کے ناپاک و مذموم عزائم کی راہ میں سب
سے بڑی رکاوٹ ہے ،جس کی حفاظت اتحاد و یگانگت اور قومی یکجہتی سے ہی ممکن
ہے ۔ |