مہنگائی کے چَکّی میں پسنے والے
غریبوں کے ہونٹوں پر مُسکان سجانے کی بات آ جائے تو ہر وزیر کو ہم وزیر
خزانہ قرار دے سکتے ہیں کیونکہ ہنسانے والی باتوں کا خزانہ تو ہمارے ہر
وزیر کے پاس ہے! کل تک جو حقیقی منصب رحمٰن ملک کا تھا وہ اب تقریباً ہر
وزیر کو سونپ دیا گیا ہے۔ ہنسانے کی علیٰحدہ سے وزارت تو بنائی نہیں جاسکتی
تھی اِس لیے یہ ممکنہ وزارت تمام وزراءمیں تقسیم کردی گئی ہے! وفاقی وزیر
خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی اِس نئی ذمہ داری کا انکشاف کراچی میں
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے تحت فیڈریشن ہاؤس میں
پری بجٹ سیمنار سے خطاب میں ہوا۔ موصوف نے بجٹ کے حوالے سے جب اہل وطن کی
مشکلات کا جائزہ لیا تو چند نادر مشوروں سے بھی نواز دیا۔
فرانس کے انقلاب کے دنوں میں جب غریبوں کی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی تو ملکہ
میری انٹوئنیٹ نے شہر میں جاکر صورت حال کا جائزہ لیا۔ جب کِسی نے بتایا کہ
غریبوں کے پاس کھانے کو روٹی بھی نہیں تو ملکہ نے کمال سادگی سے فرمایا
”اگر روٹی میسر نہیں تو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے؟“
ملکہ کے دِل میں غریبوں کے لیے واقعی درد تھا تب ہی تو روٹی سے بلند درجے
کی چیز کھانے کا مشورہ دیا۔ ہمارا ملک بھی اِس وقت انقلابی کیفیت سے دوچار
ہے۔ ایسے میں کِسی کو تو ملکہ والا کردار ادا کرکے غریبوں کے لیے کچھ ارشاد
فرمانا تھا۔ وزیر خزانہ نے آگے بڑھ کر یہ کردار عمدگی سے ادا کردیا ہے۔
ملکہ میری انٹوئنیٹ کا مشورہ تو غریبوں کو مشکلات سے دوچار کرنے والا تھا
کہ روٹی میسر نہ ہو تو کیک یعنی معیار میں بلند تر چیز کی طرف لپکو۔ ملکہ
کے مشورے پر عمل کرنے والے ان گنت غریب انقلاب کی نذر ہوگئے ہوں گے مگر
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے فرانس کی ملکہ جیسی ہلاکت خیز سادگی نہیں دِکھائی
بلکہ غریبوں کو خاصے غریب پرور مشورے سے نوازا ہے۔ فرماتے ہیں ”اگر بکرے کا
گوشت مہنگا ہے تو غریبوں کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ اُن کا مسئلہ
ہے جو مٹن فرائی اور چانپ کھاتے ہیں۔“ یہ بیان پڑھ کر ہم تو ششدر رہ گئے۔
ہمیں حیرت اِس بات پر ہے کہ موجودہ وفاقی کابینہ میں اِس قدر حقیقت پسند
شخصیات بھی پائی جاتی ہیں! وزیر خزانہ نے اِس مشورے کی شکل میں ایک ایسا
اُصول بیان کیا ہے جو ہے تو فِطری مگر اب تک اقتصادیات کے ماہرین کی نظروں
سے پوشیدہ تھا۔ بے چارے کریں بھی کیا؟ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ جیسا دیدہ بینا
ہوتا تو دیکھ پاتے، ذہن رسا ہوتا تو سوچ پاتے! عبدالحفیظ شیخ نے بکرے کے
گوشت کی ہوش رُبا قیمت کے حوالے سے فکر مند نہ ہونے کا مشورہ دیکر غریبوں
کی ایک بڑی مشکل آسان کردی ہے۔ اِس نئے فارمولے کے تحت وہ ہر اُس چیز کے
بارے میں سوچنے کی زحمت سے بچ سکتے ہیں جو اُن کی دسترس میں نہ رہے!
یہ فارمولا (جو نظریے سے کسی طور کم نہیں!) غریبوں کو اِتنی آسانیاں دے
سکتا ہے کہ وہ سنبھالتے سنبھالتے بے حال ہو جائیں گے۔ اب اگر آٹا، دالیں،
چاول، تیل، گھی، دودھ اور (ظاہر ہے) دہی، انڈے، مکھن، ڈبل روٹی، سبزی، پھل
وغیرہ وغیرہ مہنگے ہوتے جائیں تو اِن کے نرخوں کے بارے میں سوچ سوچ کر
ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں۔ جو چیز آپ کی دسترس اور قوتِ خرید میں نہیں اُس
کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ اور جب آپ کو پریشانی سے
بچا ہی لیا گیا ہے تو مایوس ہونے اور خود کشی کے بارے میں سوچنے کا بھی
کوئی جواز نہیں رہا۔ لیجیے، غریبوں کے لیے زندگی کا سامان ہوگیا!
ویسے ہم آج تک سمجھ نہیں پائے کہ جب بھی کوئی غریب مہنگائی کا رونا روتا ہے
تو فوراً بکرے کے گوشت کی قیمت کو ہوش رُبا قرار دیکر واویلا کرنے لگتا ہے۔
بکری کو فارسی میں ”بُز“ کہتے ہیں۔ بکری کو ذرا سا ہُش کیجیے تو گھبراکر
بھاگ جاتی ہے۔ اِسی لیے ڈرپوک اِنسان کو بُزدِل یعنی بکری جیسے دِل والا
کہا جاتا ہے۔ اگر غریب اپنے اندر ہمت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو بکری یا بکرے
کا گوشت کھانے سے گریز کرنا ہوگا۔ وزیر خزانہ کے مشورے پر عمل کرنے کی صورت
میں غریب بُزدِلی پیدا کرنے والے گوشت کی طرف جانے کا سوچیں گے بھی نہیں۔
اگر یقین نہیں آتا تو شہر میں جگہ جگہ قائم عوامی دستر خوانوں پر نظر ڈالیے
کہ صدقے میں کٹنے والے بکروں کا گوشت کھا کھاکر کِس طرح غریبوں میں حالات
کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں، سوچ بھی ختم ہوچلی ہے! ایسے میں بہتر
یہی ہے کہ غریب سال کے سال عید الاضحٰی پر قربانی کے اصل بکرے کا گوشت
کھالیا کریں۔ سال میں ایک آدھ مرتبہ کھانے سے اُنہیں بکرے کے گوشت کی لذت
آخری حد تک محسوس ہوگی اور دِل میں گوشت کی اِس عظیم المرتبت قسم کا احترام
بھی برقرار رہے گا!
وزیر خزانہ شاید دیگر نکات بیان کرنے کی کوشش میں یاد نہیں رکھ پائے ورنہ
غریبوں کو یہ مشورہ ضرور دیتے کہ حالات سے لڑنے کے لیے خُرّانٹ قسم کی قوت
پیدا کرنا ہے تو بکرے کے بجائے بھینسے کا گوشت کھایا کریں!
غریبوں نے حکومت کو بہت پریشان کیا ہے، بلکہ ناک میں دَم کر رکھا ہے۔ آسمان
پر بادل خشک ہو جاتے ہیں مگر غریبوں کی آنکھیں خُشک نہیں ہوتیں، بات بات پر
آنسو بہتے ہی رہتے ہیں۔ بے چاری حکومت کا آدھا وقت تو غریبوں کے بارے میں
سوچنے اور اُن کی بہبود کے منصوبے بنانے میں صرف ہوتا ہے۔ اب آپ ہی سوچیے
کہ جب سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کا بڑا حصہ غریبوں پر ضائع ہو جائے گا تو
حکومت ملک کے لیے کیا کر پائے گی! مگر غریبوں کو اِس کی کیا پروا؟ اُنہیں
تو بس چھوٹی چھوٹی باتوں پر رونا آتا ہے۔ آلو، ٹماٹر اور پیاز مہنگی ہو
جائے تو لوگ ٹسوے بہانے لگتے ہیں۔ عالمی برادری میں کچھ کر دِکھانے کی تمنا
رکھنے والی حکومت کا سارا وقت آلو اور پیاز جیسی بے وقعت اور ناہنجار ناچیز
چیزوں کے دام کنٹرول کرنے میں ضائع ہو جاتا ہے! یہ چھوٹے چھوٹے مسائل لوگوں
کو خود حل کرنے چاہئیں یا بھول جانے چاہئیں۔ عام آدمی کو یہ بات کون
سمجھائے کہ حکومتیں اِن چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے نہیں ہوتیں۔ آلو، پیاز،
انڈے، ڈبل روٹی، دودھ اور مکھن کے نرخ کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی مشینری کو
استعمال کرنا ایسا ہی ہے جیسے توپ سے چڑیا کا شکار کیا جائے! چند ایک
حکومتیں ایسی ہیں جن کے دَم قدم سے سوئٹزر لینڈ جیسے امیر کبیر ممالک کا
بینکاری نظام پَھل پُھول رہا ہے۔ ہماری حکومت بھی، شالا نظر نہ لگے، اُن
حکومتوں میں شامل ہے اور ہم ہیں کہ اُسے شاہ دَولہ کا چوہا بنانے پر تُلے
ہیں، گھریلو بجٹ دُرست کرنے کے پست کام پر لگانا چاہتے ہیں! |