آج کل ہر سو شکاگو کانفرنس کی
دھوم مچی ہو ئی ہے اور ایسا ہونا بھی چائیے کیونکہ دنیا کے سارے ناخدا اس
کانفرنس میں شریک تھے اور اس دنیا کی نئی صوت گری کے بارے میں اس کانفرنس
نے بڑے اہم فیصلے کرنے تھے۔اس کانفرنس کایک نکاتی ایجنڈہ افغانستان کے
مسئلے کا حل تلاش کرنا تھا اوردنیا کی تمام ترقی یافتہ اقوام شکاگو کانفرنس
کے طلب کردہ اجلاس میں شریک تھیں تا کہ افغانستان کے مسئلے پر کوئی واضح
موقف اختیار کیا جائے اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی کا کوئی
ٹائم فر یم مقرر کر کے افغانستان میں دھشت گردی کا خاتمہ ممکن بنایا جا
سکے۔ان کی پہلی کوشش یہی تھی کہ ا فغا نستان میں امن و اما ن کی صورتِ حال
واپس لوٹ آئے ور افغانستان کے جسم سے رستا ہوا لہو کسی طرح سے بند کیاہو
جائے۔ پاکستان کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعو ت دی گئی تھی لیکن پاکستان نے
ابتدا میں اس دعوت نامے کا کوئی مثبت جواب نہ دیا ۔ پاکستان شروع شروع میں
گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھا وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ ا سے اس
کانفرنس میں حصہ لینا چائیے یا کہ نہیں لیکن پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی اور
پھر کابینہ کے فیصلے کے بعد پاکستان نے شکاگو کانفرنس میں شرکت کا حتمی
فیصلہ کرلیا۔صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اس کانفرنس میں اپنے مشیروں کے
ساتھ شریک ہوئے اور دنیا کے سامنے پاکستان کے موقف کو بڑی جرات کے ساتھ پیش
کیا۔انھوں نے شکاگو کانفرنس میں جو موقف اختیار کیا وہ پاکستانیوں کے دلوں
کی آواز اور قومی امنگوں کی آئینہ دارتھا۔ شکاگو کانفرنس سے قبل اسی مسئلے
پر بلائی گئی بون کانفرنس میں پاکستان نے شرکت نہیں کی تھی جس سے پاکستان
کے بارے میں عالمی برادری میں تنہا ہو نے کا تاثر ابھر رہا تھالہذا قیادت
کے اندر نئی سوچ نے جنم لیا کہ اس دفعہ ہمیں اپنی پرانی روش میں تبد یلی
کرنی ہو گی اور ا پنا موقف ہرفو رم پر پیش کرنا ہو گا تا کہ دنیا حقائق سے
روشناس ہو سکے اور پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کا صحیح ادراک کر
سکے۔بون کانفرنس میں پاکستان کی عدمِ شرکت سے دنیا کو ایک واضح پیغام دینا
مقصود تھا کہ پاکستان کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے کہ اسے جو حکم دیا جائے وہ
اسے بلا چون و چرا بجا لے آئے بلکہ پاکستان اپنی خودمختاری اور وقار پر ہر
قوت کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ رکھتا ہے اور اس کا اظہار بون کانفرنس میں
عدمِ شرکت سے ظاہر کیا گیا تھا۔ اس وقت کے حالات کے مطابق یہ ایک درست
اقدام تھا لیکن جمہوری دنیا میں ایک ہی چیز کو باربار نہیں دہریا جاتا۔
ماضی میں اگر بون کانفرنس میں عدمِ شرکت سے اپنی اہمیت کو اجا گر کیا جا نا
تھا تو اس دفعہ شکاگو کانفرنس میں شرکت کر کے اپنے موقف کو پیش کرنے کا
فیصلہ کیا گیا تھا جسے سب نے سراہا اور پھر صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے
جس انداز سے پاکستانی قوم کی قیادت کا حق ادا کیا اس نے سب کو حیران کر کے
رکھ دیا۔
میڈیا نے اس تصور کا بڑی شدو مد سے ڈھنڈورا پیٹا ہوا تھا کہ صدرِ پاکستان
آصف علی زرداری شکاگو کانفرنس میں شریک ہو کر نیٹو سپلائی کو کھول دینے کا
اعلان کر دیں گئے۔ان کی سوچ کے مطابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری شکا گو
کانفرنس میں صرف اسی لئے شریک ہو رہے تھے کہ وہ نیٹو سپلائی کو کھولنے کے
لئے اپنا کردار ادا کریں گئے۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری شکا گو کانفرنس
میں ضرور شریک ہو ئے لیکن ان سب لوگوں کو جو ان سے نیٹو سپلائی کی بحالی کی
امیدیں لگائے بیٹھے تھے انھیں بہت مایوسی ہو ئی ہو گی کیونکہ صدرِ پاکستان
آصف علی زرداری نے قومی وقار کو جس شاندار انداز سے پیش کیا میرے ان ناقدین
کو سخت دھچکہ لگا ہوگا ۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے دو ٹوک موقف سے
نیٹو ممالک بہت چیں بچیں ہوئے کیونکہ پاکستانی موقف سے ان کی خواہشات کی
تکمیل نہیں ہورہی تھی ۔انھیں جس بات کی توقع تھی وہ برح طرح سے پامال ہوئی
اور اپنی خواہشات کے بر نہ آنے سے وہ سیخ پا ہو گئے جس کا اظہار ان پریس
رپورٹوں سے متشرشح ہو تا ہے جسے مغربی مما لک کے مختلف اخبارات نے اپنے ہاں
دکھانے کی کوشش کی ہے۔ انھیں تو امید تھی کہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری
شکاگو میں آئیں گئے اور ان سے جو کچھ منوا نا ہو گا منوا لیا جائے گا لیکن
صدرِ پاکستان آصف علی زرداری ان سب کے لئے لوہے کا چنا ثابت ہوئے اور جسے
وہ تر نوالہ سمجھ کر ہضم کرنا چاہتے تھے وہ ان کی گلے کی ہڈی بن گیا۔میڈیا
نے اس مفروضے کو بہت اچھا لا کہ ایک ہاتھ سے چیک لیا جائے گا اور دوسرے
ہاتھ سے نیٹو سپلائی کی بحالی کا پروانہ تھمایا جائے گا لیکن شکاگو میں تو
ایساکچھ بھی نہیں ہوا۔نہ نیٹو سپلائی کھلی اور نہ ہی کوئی چیک حکومت کے
حوالے کیا گیا۔خود ساختہ ناقدین کے تیار کردہ ڈرامے کے سکرپٹ میں اس طرح کے
کردار کی کوئی جگہ نہیں رکھی گئی تھی جس میں نکار کی گنجائش موجود ہو لہذا
ان کے لئے اپنی پرانی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ صدرِ
پاکستان آصف علی زرداری نے اپنی سیاسی بصیرت سے سب کو مات دے دی ہے او ر
لکھے گئے سکرپٹ میں ایک نئے کردار کا اضافہ کر کے سب کو مبہوت کر دیا ہے۔۔
۔
دفاعِ پاکستان کونسل نے نیٹو سپلائی کے کھولے جانے کے خطرے کے پیش لا نگ
مارچ کی کال بھی دے رکھی ہے ۔ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔ بھان متی کا کنبہ
بھی اپنے آپے سے با ہر ہو رہا ہے۔ انتخابات میں جنھیں چار سیٹں بھی نہیں
ملتیں وہ بھی حکومت کو دباﺅ میں رکھنے کے لئے لانگ مارچ کی دھمکیاں دے رہے
ہیں ہیں حالانکہ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ ان کی حیثیت اور اوقات کچھ بھی
نہیں ہے ۔ ان کی اس طرح کی بڑھکیں حکومت پر دباﺅ بڑھانے کا ایک حربہ ہے یہ
الگ بات کہ حکومت ان کی بڑھکوں سے بخوبی واقف ہے لہذا وہ انھیں کسی بھی طرح
کی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہے۔اب مجھے نہیں معلوم کہ ان کے مجوزہ لانگ
مارچ کا کیا بنے گا کیونکہ نیٹو کی سپلائی کی بحا لی کا تو فیصلہ نہیں ہو
سکا۔ معاملا ت تو اسی جگہ ہیں جہاں پر چھ ماہ پہلے تھے لیکن مذ ہبی قیادت
کو تو اپنی دوکانداری چمکانی ہوتی ہے لہذا ان کے بارے میں کہنا مشکل ہے کہ
ان کا اگلا قدم کیا ہو گا کیونکہ ان کی لغت میں انارکی اور بد امنی کے
علاوہ کچھ بھی نہیں ہو تا۔ ہو نا تو یہ چائیے کہ صدرِ پاکستان آصف علی
زرداری جب وطن واپس آتے تو ساری سیاسی جماعتیں ان کا شاندار استقبال کرتیں
اور پاکستان کا اتنا شاندار موقف اختیار کرنے پر انھیں خراجِ تحسین پیش
کرتیں ۔انھیں عالمی برادری میں پر زور موقف اپنانے پر اعتماد عطا کرتیں کہ
انھوں نے پاکستانی وقار کو جس شاندار انداز میں اس کانفرنس میں اٹھا یا ہے
اس پر پوری قوم کو فخر ہے لیکن ہمارے ہاں تو ایسی کوئی روائیت نہیں ہے کہ
روشنی کو روشنی کہا جائے بلکہ ہمارے ہاں تو روشنی کو ظلمت اور ظلمت کو
روشنی کہنے کی ایک طویل داستان ہے۔ مخالفین کو ہر حال میں حکومت کی مخالفت
کرنی ہے اور اس کے موقف میں کیڑے نکالنے ہیں چاہے وہ جتنا بڑا معرکہ بھی سر
کر لے ناقدین کی آخری منزل مخا لفت برائے مخالفت ہی ہو تی ہے۔
یہ سچ ہے کہ صدرِ امریکہ بارک اوباما نے پاکستان کی اس جراتمندانہ موقف کو
پسند نہیں کیا۔ اس نے ایک موڑ پر صدرِ پاکستان آصف علی زرداری سے ملنے سے
انکار بھی کر دیا تھا ۔ ان کی شرط یہ تھی کہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری
پہلے نیٹو کی بحالی کا وعدہ کریں اس کے بعد ان سے ملاقات ہو سکتی ہے لیکن
صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے وعدہ نہ کرنے کے باوجود بھی یہ ملاقات ہو
ئی اور یہ انکی خاموش ڈپلومیسی کا کمال ہے کہ صدرِ امریکہ بارک اوباما کو
نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے ملاقات طے کرنی پڑی لیکن جو کچھ بارک اوباما چاہتے
تھے اس ملا قات سے انکی وہ خواہش بہرحال پوری نہ ہو سکی اور یوں نیٹو
سپلائی کی بحالی کا شکاگو کانفرنس میں اعلان ایک خواب بن کر رہ گیا۔صدرِ
پاکستان آصف علی زرداری کا موقف یہ تھا کہ نیٹو کو سلالہ چیک پوسٹ پر حملے
کی ذمہ داری قبول کرکے پاکستانی قوم سے اپنی اس غلطی کی معافی مانگنی چائیے
اور جب تک ایسا نہیں کیا جاتا نیٹو سپلائی کی بحالی ممکن نہیں ہے ۔صدرِ
پاکستان آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ میں یہاں پر پاکستانی پا رلیمنٹ اور
اس کی آواز کا نمائندہ ہوں اور وہی کچھ کہوں گا جس کا پارلیمنٹ نے
مجھے کہنے کا مجاز بنایا ہے۔ ہم ایک غیرت مند قوم ہیں اور غیرت مند قومیں
اپنی غیرت کا سودا سونے چاندی کے سکوں کے عوض نہیں کیا کرتیں۔ یہ سچ ہے کہ
ہمیں معاشی مشکلات ہیں ہمیں مالی بے ضا بطگیوں کا سامنا ہے لیکن ہم ایک با
غیرت قوم کی مانند یہ ساری تکالیف برداشت کر سکتے ہیں لیکن کسی غیر ملکی
قوت کے آگے سر نگوں نہیں ہو سکتے ۔ یہ سچ ہے کہ طاقت کی میزان اس وقت دنیا
کی کی ایک خاص قوم کے ہاتھ میں ہے لیکن ہم سپر پاور کے نہیں بلکہ اپنے
مفادات کے مطا بق فیصلے کرنے کے پابند ہیں۔ہم اقوامِ عالم کے شانہ بشانہ
قدم اٹھا نا چاہتے ہیں لیکن باہمی احترام اور خیر سگالی کی فضا میں۔۔۔۔
پاکستان کی ایک مخصوس لابی کی مشکل یہ ہے کہ انھوں نے صدرِ پاکستان آصف علی
زرداری کے بارے میں ایک خاص رائے قائم کر رکھی ہے جسکا اظہار وہ اکثر و
بیشتر اپنی تحریروں اور تقریروں میں کرتے رہتے ہیں۔ صدرِ پاکستان آصف علی
زرداری سے انکی مخاصمت کی داستان بہت پرانی ہے اور وہ اس مخا صمت کو اب بھی
سینے سے لگائے ہوئے ہیںلہذا وہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی کردار کشی
کےلئے کوئی دقیقہ فراموش نہیں کرتے۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کا حالیہ
دورہ امریکہ اور شکاگو کانفرنس میں انکی شرکت ناقدین کی تنقید کا نیا موضوع
ہے لیکن اس دفعہ بھی مخالفین کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے کیونکہ صدرِ پاکستا
ن آصف علی زرداری نے قوم کی امنگوں کی باجرات ترجمانی کر کے انھیں چاروں
شانے چت کر دیا ہے۔ مخالفین کو آج جس آصف علی زرداری سے واسطہ پڑا ہے یہ وہ
والا آصف علی زرداری نہیں ہے جس سے وہ ماضی میں آشنا تھے اور جسے
اسٹیبلشمنٹ کے باہمی گٹھ جوڑ سے تشدد اور اذیت کا نشانہ بنا لیا کرتے تھے
ہیں بلکہ یہ وہ آصف علی زرداری ہے جس میں تحمل، برداشت اور صبر نے انتقام
اور ضد کی جگہ لے رکھی ہے اور جس کے سینے میںسب کو ساتھ لے کر چلنے کی
خواہش مچل رہی ہے۔ پی پی پی کی حکومت سے بہت سے لوگوں کو بہت سی شکایات اور
تحفطات ہو سکتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ اس جماعت نے جس طرح امریکہ کے
سامنے ڈٹ جانے کی روائت قائم کی ہے اس سے قبل کوئی حکومت اتنی جرات سے
امریکہ کے سامنے کھڑی نہیں ہو سکی۔ چھ ماہ سے نیٹو سپلائی کو بند رکھنا اور
شمسی ائر بیس کو خالی کروانا کوئی معمولی معرکہ نہیں تھا اور پی پی پی کی
حکومت نے اس معرکے کو سر کیا ہے لہذا پوری قوم کو حکومت کے ساتھ سیسہ پلائی
ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہو جا نا چائیے تا کہ حکومت زیادہ جرات سے امریکی
عزائم کے سامنے ڈٹ سکے۔۔ |