بھوکی ننگی پاکستانی قوم
اورگورنرپنجاب کے صرف ایک عشائیہ پر32 لاکھ سے زائد کے اخراجات ....
کہاجاتاہے کہ اِن سے زیادہ قابلِ رحم غریب کوئی نہیں جو اِس وہم میں
مبتلارہتے ہیں کہ وہ غریب نہیں ہیں یعنی ایسے لوگ جو دنیا دکھاوے
اورامراءجیسا بننے کے لئے ھیراپھیری اورشارٹ کٹ طریقے سے دولت بٹورنے میں
لگے رہتے ہیں یہ اِ س حقیقت کے بر عکس وہ غریب لوگ ہوتے ہیں جو اِس خوش
فہمی میں مبتلارہتے ہیں کہ وہ غریب نہیں ہیں ایسے لوگ کسی زمانے کے فردہوں،
کوئی قوم یا ملک ہو اور یا پھرکسی بھی سلطنت کا کوئی حکمران ہی کیوں نہ ہو
وہ اپنے وسائل کے بروقت استعمال اور اِس کی قدر سے ناواقفیت کی بناپر غریب
ہی تصور کیاجائے گا یکدم ایسے ہی جیسے ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمران ہیں۔
یہ بات جو بھوک و افلاس کی چارد میں لپٹے 19کروڑ پاکستانیوں کے لئے
یقیناحیران اور پریشان کن ہوگی کہ اِن کے روٹی ، کپڑااور مکان کا نعرہ
لگانے اور ہر فورم پر عوام کے اول درجے کے ہمدرداور دوست کہلانے والے
وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اور اِن کی فیملی کے ہرچھوٹے بڑے ارکان سے متعلق
ہے جنہوں نے گزشتہ دور ہ لندن کے دوران لندن کے ہیرڈز سمیت دیگر بڑے اور
انتہائی مہنگے ترین شاپنگ اسٹورز سے لاکھوں پاؤنڈ کی شاپنگ کی اور اِسی طرح
ہمارے خود کو ہردلعزیز کہلانے میں فخرِ اعظم تصور کرنے والے وزیراعظم
سیدیوسف رضاگیلانی نے اپنے ملک اور غریب قوم کا وقار بلندکرنے کے خاطرلندن
میں اپنے لئے صرف 54ہزار پاؤنڈ(جو پاکستانی رقم میں 80لاکھ بنتے ہیں(میں
تین "سستے ترین"کوٹ خریدے اور وزیراعظم کے اہل خانہ نے جیولری، کپڑوں،جوتوں
اور قیمتی گھڑیوں کی خریداری پر کھلاٹلا لاکھوں پاؤنڈخرچ کئے وزیراعظم اور
اِن کی فیملی کی اِس شاپنگ کو لندن اور ہمارے ملک کے الیکٹرانک اور پرنٹ
میڈیانے کافی اہمیت دیتے ہوئے کچھ اِس قسم کے ریمارکس بھی دیئے کہ"وزیراعظم
یوسف رضاگیلانی جوہیں تو ایک غریب اور مفلوک الحال قوم کے وزیراعظم مگرخود
کو غریب ظاہر نہیں کرتے ہیں سوائے اُس وقت جب اِنہیں اپنا انکم ٹیکس
بچاناہوتو یہ خود کو غریب ظاہر کرتے ہیں اور دنیاکو یہ بارورکراتے رہتے ہیں
کہ یہ اتنے غریب ہیں کہ یہ اپنے لئے ذاتی گاڑی بھی نہیں خریدسکتے "مگر عام
طورپر یہ غریب کہلانااور غریب تصورکرنااپنے لئے گناہِ عظیم سمجھتے ہیں۔"
جی ہاں ..!قارئین حضرات ہمارے اِن ہی وزیراعظم نے اپنے لئے لندن کے معروف
اور مہنگے ترین شاپنگ اسٹورز سے صر ف تین کوٹ پاکستانی 80لاکھ روپے میں
خریدڈالے اوراُنہوں نے اِس طرح دنیاکو یہ بھی بتانے کی کوشش کر ڈالی کہ اگر
ہمارے ملک کی معاشی حالت ٹھیک ہوتی تو ہم اِس سے بھی زیادہ مالیت کے کئی
کوٹ خریدسکتے تھے۔
فی الحال ...اپنی غربت کے عالم میں گزارالائق یہ تین کوٹ بھی بہت ہیں جبکہ
وزیراعظم اور اِن کی فیملی کے ارکان کی مہنگی ترین " شاہی شاپنگ "سے متعلق
اپنے پرائے میڈیامیں آنے والی رپورٹوں کے مطابق ہمارے وزیراعظم اور اِن کے
اہل خانہ کی لاکھوں پونڈ کی شاپنگ نے اسٹورزکے عملے اور مالکان کو بھی حیرت
زدہ کردیااور وہ ششدر رہ کر یہ سمجھتے رہے کہ شایدیہ کوئی شاہی خاندان ہے
جو اِن کے یہاں خریداری کے لئے آیاہے اور جب اِنہیں یہ پتاچلاکہ نہیں یہ
کوئی شاہی خاندان نہیں ہے بلکہ 19کروڑ کی آبادی والے ملکِ پاکستان کے و ہ
وزیراعظم اور اِن کی ہاتھ کھلی فیملی کے ارکان ہیں جس ملک میں عوام روٹی کو
ترس رہے ہیں جہاں بجلی 24گھنٹے میں ایک یا دو گھنٹے کے لئے اپنی چمک دکھانے
اور اپنااحساس دلانے کے لئے آتی ہے اور پھر اگلے روز تک کے لئے غائب ہوجاتی
ہے جس کے بحران نے ساری قوم کو نفسیاتی مریض بنادیاہے اور جس ملک میں عوام
بغیرکفن کے قبرکی آغوش میں چلے جاتے ہیں یہ اُس ملک کے وزیراعظم اور اِن کی
فیملی ہے تو اِنہیںیقینا حیرانگی کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ضرور ہواہوگا۔
جب وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے آج سے لگ بھگ چارسال سے قبل وزارتِ عظمی کا
منصب سبھالاتھا اُس وقت ہماری سرزمینِ پاکستان میں ڈالر کی قدروقیمت
62.75روپے کی حدتک قید تھی اور ڈالر اِس قید سے نکلنے کی پوری کوشش میں
تھاکہ کب کوئی اِس کاکوئی ہمدردآئے اور اِسے اِس قید سے آزادی ملے اور
بالآخرایک روز اِس کی بھی سُن لی گئی اور اِس کے مسیحاکی شکل میں یوسف
رضاگیلانی کو ہمارے ملک کی وزارتِ عظمی سونپ دی گئی اور پھر اِس کے بعد
اِنہوںنے ڈالر کی آزادی کے لئے جو کچھ کیااِس سے کو ن واقف نہیں ہے یعنی یہ
کہ ہمارے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے اپنے چار سالہ دوراقتدار میں روپے کی
قدر جس طرح کم کی اور ڈالرکی قدر کو جو مقام اور منزلت عطاکی آج یہ بھی سب
کے سامنے ہے کہ اِنہوں نے روپے کاکیا حشر کردیاہے اِن کی غیردانشمندانہ
حکمت عملی کی وجہ سے ہماراروپیہ اتناگرگیاہے کہ یہ زمین کے بوسے لے رہاہے
اور ڈالر آسمان کی بلندیوں کو چھورہاہے آج ہماری سرزمین پر سوروپے کا ایک
ڈالر ہے اور روپیہ اپنی بے قدری پر آٹھ آٹھ آنسوبہارہاہے کسی کو کیا معلوم
تھا کہ وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اپنی حکمت و دانش سے اپنے روپے کی قدر
بڑھاتے اُلٹاانہوں نے اپنی ساری توانائی ڈالرکی قدر وقیمت کوبڑھانے اور اِس
میں چارچاند لگادیئے ہیں اور شاید اِنہیںخود بھی یہ پتہ نہیں تھاکہ یہ
ڈالرکی قدر یہاں تک بڑھانے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ اِس کے مقابلے میں
ہمارا روپیہ بے قدر ہوجائے گا۔
جبکہ اِدھر دوسری جانب ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن اور سرکاری وسائل کے
غلط استعمال پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے چیئرمین نیب نے اِس بات کا برملا
اعتراف کرلیاہے کہ ہمارے یہاں مختلف شعبوں میں لوٹ ماراور کرپشن کی وجہ سے
5ارب روپے کایومیہ نقصان ہورہاہے اِس صورتِ حال میں ملکی معیشت کیا خاک
ترقی کرے گی جب اُوپر ی سطح پر ہی سرکاری وسائل کو لوٹااور کھایاجارہاہو۔
اَب اِس منظر اور پس منظر میں ہم یہ سمجھتے ہیںکہ جب ہمارے یہاں سرکاری
افراد کے ہاتھوں سرکاری خزانے کا بیدریغ استعمال ہورہاہواور ہر سرکاری فرد
خود کو محب وطنی کے لبادے میں پکا اور سچاپاکستانی ظاہر کرکے اپنے مفادات
اور اپنی ذات کے لئے قومی خزانے سے دولت نکالنااور اِسے اپنی عیاشیوں کے
لئے خرچ کرنا اپنا حق سمجھتاہوتو ملک کے غریب اور مفلوک الحال عوام میں بے
چینی کا پیداہونااور اِنہیں کسی انقلاب کے لئے اٹھ کھڑاہونالازمی امر ہے
سمجھ نہیں آرہاہے کہ قوم اپنی حق تلفی اور لاچارگی پر اَب تک بیدار کیوں
نہیں ہوئی ہے کہیںایساتو نہیں کہ اِس نے خود کو اِس حالت میں ڈھال لیناکا
تہیہ کرلیاہواور اِس اُمید میں ہوکہ کبھی نہ کبھی اور کوئی نہ کوئی اِس کی
مددکے لئے باہر سے آئے گا اور اِ س پر رحم کھاکر اِس کو غربت اور لاچارگی
کے اندھے کنوئیں سے نکال باہر کرے گا توہم اِس سے یہ کہناچاہیں گے کہ اب وہ
دور گئے جب کوئی باہر سے آکر کسی کی مددکردیاکرتاتھا اَب جو کچھ بھی کرناہے
قوم کو خود اپنے لئے کرناہوگاورنہ غربت اورلاچارگی اِس کا مقدر بنی رہے گی
اور قوم اسی حالت میں مرجائے گی۔
ہم یہاں قوم کی بیداری اور اِن کے سوئے ہوئے جذبات کو اُٹھانے کے لئے
حکمرانوں اور سرکاری افراد کی ایک اور مثال پیش کررہے ہیںخبر یہ ہے کہ
گزشتہ دنوں گورنر پنجاب لطیف کھوسہ اور وفاقی وزیرتجارت مخدوم امین فہیم کی
ہدایت پر گورنرہاؤس میں ایک پروقار عشائیے کا اہتمام کیاگیاجس پر صرف
32لاکھ 15ہزار900روپے کی خطیر رقم خرچ کی گئی ایسے میں کہ جب قوم کا ایک
ایک فرد مہنگائی کی وجہ سے بھوک و افلاس کے اژدھے کی گرفت میں ہے اور قوم
کے90فیصدلوگوں کو دووقت کی روکھی سوکھی روٹی بھی نصیب نہیں ہے اِس حالت میں
قومی خزانے پر شیش ناگ کی طرح پھن پھیلائے بیٹھنے والے ہمارے حکمرانوں اور
سرکاری افسران نے قومی دولت پر اپناحق جمارکھاہے اور جب اِن کا جی چاہتاہے
یہ اِسے اپنے لئے استعمال کرلیتے ہیں اور ملک کے غریب اور لاغر عوام بھوکے
مرجاتے ہیں جن کا کسی کواحساس نہیں ہے ہمیں اِس موقع پر بشیرفاروق یاد آئے۔
غریب ِ شہر امیر و کبیر ہوجائے
الہٰی قوم مری بے نظیر ہوجائے
ضمیربیچ رہے ہیں جو مال وزر کے لئے
خدایا اِن کا بھی زندہ ضمیرہوجائے۔ |