سپریم کورٹ نے24مئی کو این آئی
سی ایل کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ”اب بادشاہ سلامت کا دور
نہیں رہا اب اقتدار عوام کی ملکیت ہے ، ججز نے سوال کیا کہ چور اچکوں کواس
لےئے عہدے دیئے جاتے ہیں کہ یہ حکومت کا استحقاق ہے“۔
قومی اخبارات میں سپریم کورٹ کی کارروائی کی یہ خبر فرنٹ پیج پر شہہ سرخیوں
کے ساتھ شائع ہوئی لیکن اس کے ساتھ ہی اسی روز جس خبر کو اخبارت نے ہیڈ
لائن بنایاوہ خبر کسی بادشاہ کی تو نہیں البتہ” ملکہ“ کے فیصلے کی تھی۔قومی
اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ مرزا نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف سپریم
کورٹ کے مختصر اور تفصیلی فیصلے اورمولوی اقبال حیدر ایڈوکیٹ کی جانب سے
وزیراعظم کی نااہلی کے لیئے بجھوائے گئے ریفرنس پر فیصلہ صادر کیا ہے اور
کہا ہے کہ کسی طور پر نااہلی کا ریفرینس الیکشن کمیشن کو نہیں بھجوایا جائے
گا۔
ان کے اس فیصلے پر بہت کچھ لکھا اور کہا جارہا ہے تبصروں اور تحریوں کا
سلسلہ بھی جاری ہے، یہ حقیقت ہے کہ ان کا یہ تفصیلی فیصلہ بادشاہوں کے دور
کی کسی ”بیوہ ملکہ“ کا لگتا ہے جو اپنے بادشاہ کی بے وقت موت پر کچھ بھی
سوچنے ،سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوکر اپنی من مانی کرتی ہے۔وطن عزیز میں
گذشتہ چار سالوں سے جوکچھ حکمرانوں کے ہاتھوں ہورہا ہے وہ بادشاہوں کا کھیل
نہیں تو اور کیا ہے؟ چلو مان لیتے ہیں کہ یہ بادشاہوں کا کھیل نہیں ہے تو
پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ ” بد معاشوں کی ہٹ دھرمی ہے “!۔جس کا جو بس
چلے وہ کیئے جارہا ہے عدالت کے احکامات پر عمل نہ کرنا تو اب ان کے لئے
کوئی بری بات ہی نہیںہے، غنڈے اس طرح کی حرکتیں نہیں تو اور کیا کرتے ہیں؟
جو اس ملک کے صدر ہیں اصل ”بادشاہ گیری یا دادا گری “ تو انہوں نے شروع کی
ہوئی ہے،ملک کے صدر بھی بن گئے اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کے عہدے سے
بھی دستبردار نہیں ہوئے۔
ان کے ساتھیوں اور ان کے مفاداتی حصہ داروں نے جمہوریت کی آڑ میںدستور کا
اس طرح مذاق اڑانے پر کوئی ردِعمل نہیں کیا، ظاہر ہے ،کرمنلز کے ٹولے میں
کیا کبھی کسی نے اپنے سردار کے خلاف آواز اٹھائی ہے؟
میں عام آدمی ہوں اور محب ِوطن بھی ،بھوکا رہ جاﺅں گا لیکن ملک کو نقصان
پہنچانے والے افراد کو بغیر کچھ کہے، بغیر مزاحمت کئے اور بغیر ردعمل کیئے
نہیں رہ سکتا ،صرف میں ہی نہیں اب تو لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ میری ہی طرح
سوچ رہے اور ملک کے لیئے فکر کررہے ہیں۔
ملک میں صرف مہنگائی ،بیروزگاری،بجلی اورگیس کی لوڈ شیدنگ ہی نہیں بلکہ وہ
سب کچھ چل رہا وہ نہ تو بادشاہوں کے دور میں ہواہے اور نہ ہی کسی ڈکٹیڑ شپ
اور جمہوریت میں ہوا اور نہ ہی سول مارشل لاءلگانے والے ذوالفیقار علی بھٹو
اور فوجی مارشل لاءنافظ کرنے والے ضیاءالحق کے دور میں ہوا بس یوں سمجھئے
جو کچھ اس وقت ملک میں ہورہا ہے وہ انوکھا اور مثالی ہورہا ہے جس کے نتیجے
میں ملک ،قوم اور جمہوریت بدنام ہورہی ہے، اور ان کا مذاق بن رہا
ہے۔جمہوریت کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ منتخب ہوگئے تو قوم کے ساتھ کچھ بھی
کرتے رہا جائے۔ اگر قوم سے اپنے رہنماوئں کو پہنچاننے میں غلطی ہوگئی ہے تو
اس کی سزا ملک اور قوم دونوں کو دی جائے ،عدالت کے فیصلوں کو تسلیم کرنے
اورسمجھنے کے بجائے ان پر بحث کی جائے اور لوگوں کو اپنے غلط فیصلے پر
نظرثانی کا موقع بھی نہ دیا جائے بلکہ اسے ملزم آصف زرداری اور مجرم یوسف
رضا گیلانی کے رحم و کرم پر چھوڑدیا جائے؟
ملک میں اگر کچھ سہی چل رہا ہے تو وہ عدلیہ اور اس کا نظام ۔ اس نظام پر
بھی کرپٹ عناصر غالب آنے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں۔اسپیکر قومی اسمبلی
فہمیدہ مرزا کی جانب سے مجرم وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف ریفرنس نہ
بھجوانے کا فیصلہ عدلیہ کے فیصلے پر غلبہ اوراسے نیچے دکھانے کی کوشش نہیں
تو اور کیا ہے ؟میری نظر میں عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرواکر اور
نہ کرکے حکومت توہین عدالت کی مرتکب ہورہی ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ حکومت اور اس کے ماتحت ادارے آخر کیا کررہے ہیں؟آرمی چیف
بھی کہہ چکے ہیں کہ ایسا نظام چاہئے جو اداروں میں تصادم کا باعث نہ ہواور
آئینی طور پر سب کو انصاف ملے، اس کا مطلب تو واضع تھا کہ وہ حکومتی
اقدامات سے مطمئین نہیں ہیں۔
لیکن لگتا ہے کہ حکومت اور اس کے اتحادی وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں جس کے نتیجے
میں ملک مےں مارشل لاءلگ جائے اور پھر الزام لگایا جائے کہ غیر جمہوری
قوتوں نے جمہوری نظام کو پٹٹری سے اتاردیا ہے۔جمہوری حکومت پر نظر ڈالیں تو
ایوان صدر سے لیکر ہر دفتر میں کوئی ایک شخص سانپ کی طرح پھن پھیلائے بیٹھا
ہے اور مخصوص اشاروں سے معاملات نمٹا رہاہے اسے اس بات سے کوئی غرص نہیں کہ
اس کے آس پاس کیا چل رہا ہے اور کون کیا کررہا ہے؟بس اسے اپنے مفادات سے
مطلب ہے۔
صدر زرداری تقریبا ہر پندرہ بیس دن بعد (اگر ملک میں رہیں تو)کراچی آتے ہیں
اور کراچی ہی نہیں پورے سندھ کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیںلیکن ان کے سامنے
وہ مسکین بوڑھا بیٹھا ہوتا ہے جو اگر نشے میں نہ ہو تب بھی صوبے اور کراچی
کی صورتحال کی وضاحت نہیں کرسکتا کیونکہ اس شخص کے پاس تو کسی ڈپٹی کمشنر
اور ایس پی کو ہٹانے تک کے اختیار نہیں ہیں جن صاحب کے پاس اختیار ہے وہ
تاحال خفیہ ہیں اور خفیہ ہاتھ کی طرح صوبے کے نظام ِحکومت پر مسلط ہیں اور
یہ ہی ہے ڈکٹیٹر شپ اور ڈکٹیٹرہےں۔کراچی اور نوابشاہ میں کیا ہوا کوئی اس
ان کو کوئی سروکار نہیں اور آنے والے دنوں میں جو خطرے کی بو آرہی ہے اس سے
بھی مسکین اور چالاک حکمرانوں کو کوئی غرض نہیں، نئے ایشوز پیدا ہوگئے ہیں
۔
نئے صوبوں کے قیام کے مطالبات پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے لوگوں نے بھی
کیئے اور نئے صوبوں کا قیام کسی بھی طور پر ناجائز نہیں ہے دنیا کے ممالک
میں نئے صوبوں اور ڈویژنوں کا قیام ترقی اور مسائل کے سدباب کا سبب رہا
پاکستان میں بھی نئے صوبے بننے چاہیئے لیکن لسانی بنیادوں پر صوبوں کا قیام
تعصب کو ہوا دیتا ہے سندھ ، پنجاب اور بلوچستان صوبے کی موجودگی میں
سرائیکی ، ہزارہ اور سندھ میں مہاجر صوبے کے قیام کے مطالبات نہ ناجائز ہے
اور نہ ہی انوکھی بات ہے بلکہ یہ ایک فطری ردِ عمل ہے۔لیکن صوبوں کے قیام
کی جدوجہد کو کسی طور پر بھی خونی نہیں ہونا چاہیئے اس طرح کی جدوجہد مکمل
طور پر پرامن رہنی چاہیئے ۔
سوال یہ بھی ہے کہ سندھ میں نئے صوبے کو قیام کو ”سندھ کی تقسیم “ سے کیوں
تعبیر کیا جارہا ہے؟ اگر نئے صوبے کے قیام سے کوئی صوبہ تقسیم ہوتا ہے تو
پنجاب میں سرائیکی اور پختونخواہ میںہزارہ صوبے کے مطالبات کے دوران اس طرح
کی باتیںکیوں نہیں کی گئیں کہ یہ پنجاب اور پختونخواہ کو بانٹنے یا تقسیم
کرنے کی سازش ہے؟
میرا خیال ہے کہ سندھ میں بھی پنجاب اور پختونخواہ کی طرح ایک نئے صوبے کی
ضرورت ہے ۔دکھ اس بات کا ہے کہ سندھ میں نئے صوبے کے قیام کی جدوجہدملک کے
اندر کسی نئے ملک کے قیام کی طرز پر ہورہی ہے اور اس پر ردِعمل بھی اسی طرح
کا کیا جارہا ہے؟ نیاصوبہ کسی بھی ملک میں پرامن جدوجہد کے ذریعے بن سکتا
ہے اور بنتا رہا ہے پھر سندھ میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا ،نئے صوبے کی
مخالفت کرنے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ پاکستان کے قیام کے بعد صوبوں کا
قیام عمل میں لایا گیا تھا تو کیا پاکستان جس وجہ سے یا جن کی وجہ سے قائم
ہوا ان کا بھی کوئی صوبہ بنا یا گیاتھا؟ اور اگر نہیں بنا یا گیاتھا تو اب
جب سرائیکی اور ہزارہ صوبے کے قیام پر کوئی واضع اعتراض نہیں ہے تو پھر
مہاجر صوبے کے قیام پر اعتراض کیوں ہے۔
بہرحال مہاجر صوبے کی بازگشت میںجمعہ 25 مئی کونوابشاہ میں کراچی سے اٹک
جانے والی بس پر فائرنگ کا واقعہ سندھ کی خطرناک صورتحال کی نشاندہی کرتا
ہے بے وقوف سے بےوقوف آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ کیا سازش تھی کہ نوابشاہ
میں یہ واقعہ رونماءہوا ، ابتدائی طور پر یہ افواءپھیلائی گئی کہ اردو
بولنے والوں کو نواب شاہ میں نشانہ بنایا گیا ہے،اس سازش کے پیچھے کون تھے
یہ معلوم کرنا پولیس اور دیگر تحقیقاتی اداروں کا کام ہے لیکن لگتا ایسا ہے
کہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت یہ گھناﺅنی کارروائی کی گئی تھی تاکہ کراچی
میں ایسی آگ لگے جو با آسانی نہ بجھ سکے اور مہاجر صوبہ کی آواز کو تقویت
پہنچے ساتھ ہی سندھیوں اورمہاجروں کے درمیان نفرت کی وہ آگ لگے جو 1987 تا
1990لگی رہی جس نے سینکڑوں افراد کو ہمیشہ کی نیند سلاچکی ہے۔ اس آگ کی تپش
سے اردو بولنے والے مہاجر اورسندھی واضع طور پر تقسیم ہوگئے جو اس سے قبل
کئی برسوں سے پیار و محبت سے رہ رہے تھے سندھیوں اور مہاجروں کی یہ چپقلش
بہت مشکل سے اور کئی سالوں کی جدوجہد کے بعد باالاخر ختم ہوگئی تھی لیکن
لسانی بنیادوں پر نئے یعنی کہ ہزارہ اور سرائیکی جیسے صوبے بنانے کے مطالبے
نے مہاجر صوبے کے نعرے اور مطالبے کی احیاءکردی اس نعرے کے پیچھے جو بھی
سیاسی پارٹی ہے اب تک کھل کر سامنے نہیں آئی اور شائد یہ ہی اس پارٹی کی
سیاست ہے ۔
مہاجر صوبے کی بازگشت میںنوابشاہ میں جو واقعہ رونماءہوا اس سے حساس اور
دیگر اداروں کی آنکھیں کھل جانی چاہئے کہ سندھ میں کیا ہونے والا ہے ؟متحدہ
قومی موومنٹ سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی مذمت کی اور اپنی تشویش کا
اظہار کیا ،لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا صدر مملکت آصف زرداری اپنے آبائی
علاقے کو خون سے رنگنے والوں اور پورے سندھ کے خلاف سازش کرنے والوں کا پتہ
چلاکر ان کو انجام تک پہنچاسکیں گے؟
یہ واقعہ کسی اور کو چیلنج کرتا ہو یا نہیں آصف زرداری کی اپنی حثییت کو
ضرور چیلنج کرتا ہے ۔ |