عالمی شہرت کے حامل نامور ادیب ،ماہر
تعلیم ،دانش ور ،نقاد ،شاعر اور ماہر فنون لطیفہ و لسانیات کنور اخلاق محمد
خان شہر یار 13۔فروری 2012کی شب علی گڑھ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔انھیں
پھیپھڑوں کے سرطان کا عارضہ لاحق تھا ۔16۔جون1936کو بریلی (اتر پردیش )سے
طلوع ہونے والے علم و ادب کے اس نیر تاباں نے پوری دنیا کو اپنے افکار کی
تابانیوں سے منور کردیا۔وہ حریت فکر و عمل کے ایسے مجاہد تھے جنھوں نے تمام
عمر ہوائے جور و ستم میں بھی امید اور حوصلے کی شمع فروزاں رکھی ۔ان کی
شاعری دلوں کو موم کر کے سنگلاخ چٹانوں اور پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا
لوہا منوا لیتی ہے۔ احبا ب ان کی باغ و بہار شخصیت کے گرویدہ تھے ۔وہ سراپا
شفقت و خلوص تھے ۔سب کے ساتھ بلا امتیاز بے لوث محبت ،اخلاص اور اخلاق سے
پیش آناان کا معمول تھا۔ان کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔پوری دنیا میں ان
کی وفات کی خبر سے لوگوں کو دلی صدمہ ہوا ۔ اللہ تعالی نے انھیں ایک مستحکم
شخصیت سے نوازا تھا ۔ دنیا کے تیزی سے بد لتے ہوئے حالات ، متنوع خیالات ،
رنگینی و رعنائی اور تغیر پذیر اقدار و روایات میں وہ جنریشن گیپ کا شکار
نہیں ہوئے بلکہ ایک حیران کن مطابقت کی صورت تلاش کرکے اپنے انداز فکر کو
نئے میلانات اور بدلتے ہوئے رجحانات سے ہم آہنگ کر کے ایک مستحسن کام کیا
ہے ۔علم و ادب اور فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے شہر یار کا نام
کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔انھوں نے بھارت کی اردو فلموں کے لیے جو گیت لکھے
وہ آج بھی دلوں کی دھڑکن سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں اور قلب و نظر کو مسخر کر
لیتے ہیں۔عوامی زندگی میں انھیں ان گیتوں کی وجہ سے بے پناہ محبتیں ،چاہتیں
،پذیرائیاں اور مقبولیت نصیب ہوئی ۔ان مقبول عام گیتوں کو ان کے عہد کے
ممتاز گلوکاروں نے گا کر ان کویادگار بنا دیا۔
فلم گامن (روانگی)کے لیے شہریار نے جو نغمے لکھے وہ اس قدر مقبول ہوئے کہ
اس فلم کے نغمات میں سے ایک کو بہترین قرار دیتے ہوئے اسے پلے بیک گلوکاری
کا اعلیٰ ترین ایوارڈ 1978میں دیا گیا۔اس نغمے میں شہریار نے جانگسل تنہائی
اور فرقت کے جا ن لیوا لمحات کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ اس قدر پر تاثیر ہے
کہ آنسو ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے ۔
آ پ کی یاد آتی رہی رات بھر
چشم نم مسکراتی رہی رات بھر
رات بھر درد کی شمع جلتی رہی
غم کی لو تھر تھر اتی رہی رات بھر
مظفر علی کی بنائی ہوئی یہ فلم شہر یارکی غزلوں کی بدولت کامیابی سے ہم
کنار ہوئی ۔شہر یار کو زبان و بیان اورابلاغ پر جو فنی مہارت حاصل تھی اس
کا ایک عالم معترف تھا ۔ اردو نثر میں انھوں نے اپنی پر تاثیر ،جذباتی
اوربر محل مکالمہ نگاری سے بھی فلمی دنیا میں خوب رنگ جمایا۔فنون لطیفہ کے
فروغ کے لیے انھوں نے جو بے مثال جدو جہد کی وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یادر
کھی جائے گی ۔ اردو زبان کی مشہور اور مقبول فلم گامن (Gaman)کا یہ امتیاز
ہے کہ اس میںشہریارکی سدا بہار شاعری پورے عروج پر ہے ۔ایک زیرک ،مستعد
،فعال ،حساس ،مخلص اور جذبہ ءانسانیت نوازی سے سرشار تخلیق کار کی حیثیت سے
انھوں نے جس دردمندی اور صداقت سے جذبات نگاری کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے
۔آج بھی ان کی یہ شاعری سن کر قاری پر عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔متعدد
سوالا ت اس کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں جو فکرو نظر کو مہمیز کر کے زندگی کی
حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتے ہیں ۔یہ شاعری اس قدر پر
تاثیر ہے کہ ہرعہد کی تخلیقی فعالیت میںاس کی مہک محسوس ہوتی رہے گی ۔
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہرمیں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے
تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو
تاحد نظر ایک بیابان سا کیوں ہے
کیا کوئی نئی بات نظر آئی ہے ہم میں
آئینہ ہمیں دیکھ کے حیران سا کیوں ہے
تنہائی کی اس کٹھن منزل کے بارے میں شہر یار نے جو سوال اٹھایا ہے اس کا
جواب منیر نیازی نے بڑی دردمندی سے دیا ہے ۔جدید اردو شاعری میں تنہائی کے
موضوع پر یہ ایک خیال افروز سوچ ہے جس میں فرد کی تنہائی کے بارے میں پورے
خلوص سے اپنے تجربات کو بیان کیا گیا ہے :
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اشک رواں کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
شام الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا
راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو
جب شہر یار کی دائمی جدائی خیال آتا ہے تو منیرنیازی کی یہ غزل سن کر
آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح بر سنے لگتی ہیں ۔پاکستانی ادبیات سے گہری
وابستگی رکھنے والے اس یگانہءروزگار فاضل نے پاکستان میں بھی اپنی تخلیقی
کامرانیوں سے دلوں کو مسخرکرلیاتھا ۔ان کی وفات ایک ایسا سانحہ ہے جس کے
باعث بزم ادب مدت تک سوگواررہے گی ۔
عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو
لفظی مرقع نگاری اور خوب صورت الفاظ کے انتخاب میں شہر یار نے جس حسن
انتخاب اور قرینے کا ثبوت دیا ، وہ ان کی انفردیت کی دلیل ہے ۔ان کی شاعری
میں سادہ سلیس اور عام فہم انداز میں جذبات نگاری کی جو شان دل ربائی ہے وہ
قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔1986میں بننے والی فلم انجمن کے لیے شہر یار
کا یہ نغمہ ان کی قدر ت کلام کا منہ بولتا ثبوت ہے :
ایسا نہیں کہ اس کو نہیں جانتے ہو تم
آنکھوں میں میری خواب کی صورت بسے ہو تم
دوری کی کوئی حد کوئی منزل نہیں ہے کیا
کیسے کہوں کہ یاد بہت آ رہے ہو تم
فنون لطیفہ کا ادب سے گہرا تعلق ہے ۔آرٹ ،فلم اورتھیئٹر کے ارتقا میں ادب
کا اہم کردار ہے ۔ اردو شاعری میں کیفی اعظمی،جانثار اختر، قتیل شفائی
،حبیب جالب ،منیر نیازی اور فیض احمد فیض کی طرح شہر یار کی متعد اردو
غزلیں فلمو ںکے لیے منتخب کی گئیں ان کے اسلوب اور الفاظ کے ساتھ ساتھ ان
کی ادائیگی کی بدولت انھیں عوامی سطح پر بے پناہ پذیرائی ملی ۔
1981میں جب مرزا ہادی رسوا کی شہرہءآفاق تصنیف ”امراﺅ جان ادا “ کو فلمایا
گیا تو اس کے بیش تر گیت شہر یار نے لکھے ۔اس کے بعد ان کی شہرت پوری دنیا
میں پھیل گئی۔اس یادگار فلم کی بے پناہ مقبولیت میں شہر یار کے گیتوں کا
بھی اہم حصہ ہے ۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ شہر یار کی نغمہ
نگاری کے سوتے خلوص ،درد مندی اور انسانی ہمدردی سے پھوٹتے ہیں ۔ ان کے
لکھے ہوئے نغموں میں غم خواری اور محبت کی فراوانی ہے ۔ سراپا نگاری میں
انھیں کمال حاصل ہے ۔اس سلسلے میں ان کی باریک بینی اور جزئیات نگاری
درجہءکمال کو پہنچ جاتی ہے ۔
ان آنکھوں کی مستی کے دیوانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں
اک تم ہی نہیںتنہا الفت میں میری رسوا
اس شہر میںتم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں
اس وقت بے اختیار ذہن میں صوفی غلام مصطفی ٰ تبسم کی یاد آگئی ۔انھوں نے
خارزار محبت میں قدم رکھنے والوں کو ملنے والی رسوائی اور جگ ہنسائی کے
متعلق بڑی معنی خیز بات کہی تھی ۔
سو بارچمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی
اسی فلم امراﺅ جان ادا کا یہ گیت تو ہر عہد کا مقبول ترین گیت رہے گا ۔اس
میں جذبات نگاری عروج پر ہے اور ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے شہر یار نے
نہ صرف زبان و بیان پر اپنی تخلیقی قدرت کا لوہا منوایا ہے بلکہ موقع اور
موضوع کی مناسبت سے اظہار اور ابلاغ کی منفرد صور ت بھی پیش کی ہے ۔انھوں
نے پر تاثیر اور مقبول عام نغموں کی تخلیق سے اپنے فن کی دھاک بٹھا دی ۔
دل چیز کیاہے آپ میری جان لیجیے
بس ایک بار میرا کہا مان لیجیے
ا س انجمن میں آپ کو آنا ہے بار بار
دیوار و در کو غور سے پہچان لیجیے
شہر یار کی زندگی میں بہت نشیب و فراز آ ئےمگر انھوں نے ہمیشہ نشیبوں سے بچ
کر فراز کی جانب سفر جاری رکھا ۔اتر پردیش کی تحصیل انولاان کا آبائی علاقہ
تھا ،یہیں ان کی آنول نال گڑی تھی ۔ان کے والد محکمہ پولیس میں ملازم تھے
۔پولیس کے ملازمیں کا ایک الگ سا مزاج بن جاتا ہے وہ اپنے احباب حتیٰ کہ
اپنے اہل خانہ اور اولاد پر بھی سخت نظم و ضبط کو نافذ کرنا اپنی ذمہ داری
سمجھتے ہیں ۔شہر یار کو بچپن ہی سے کھیل کود سے گہری دلچسپی تھی اور وہ
اتھلیٹ بننے کے آرزو مند تھے۔وہ خارجی ضبط کو سخت نا پسند کرتے اور حریت
فکر وعمل پر اصرار کرتے ۔اپنی ابتدائی تعلیم انولا میں مکمل کرنے کے بعد وہ
بلند شہرپہنچے اور یہاں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ۔اس کے بعد انھوں نے علی
گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم مکمل کی ۔ شہریار اور ان کے والد
میںعملی زندگی کے لائحہ عمل کے انتخاب اور شہر یار کے مستقبل کے عزائم کے
بارے میں شدید اختلاف رائے پیدا ہو گیا ۔ ان کے والد نے انھیں پولیس میں
شامل کرنے کی ٹھان رکھی تھی جب کہ شہر یار کو محکمہ پولیس کا کڑے نظم و ضبط
پر مبنی ماحول بالکل پسند نہ تھا ۔وہ ایک روشن خیال اور آزاد منش نوجوان
تھے ۔جب ان پر دباﺅ حد سے بڑھا تو انھوں نے کسی قسم کی محاذ آرائی کے بجائے
ناچار گھر کو چھوڑ کر باہر کی دنیا میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا ۔آزمائش
اور ابتلا کی اس گھڑی میں خلیل الرحمٰن کی دستگیری اور مشاورت نے خضر راہ
کا کام کیا۔دو وقت کی روٹی کے لیے کوئی نہ کوئی کام تو بہ ہر صورت انھیں
کرنا ہی تھا چنانچہ وہ کچھ عرصہ انجمن ترقیءاردو میں ادبی معاون کے طور پر
کام کرتے رہے۔اس عرصے میں انھوں نے اپنے والدین سے مسلسل رابطہ رکھا اور
انھیں اپنے مستقبل کے عزائم سے آگاہ بھی رکھا بالآخر وہ انھیںاپنا ہم نوا
بنانے میں کامیاب ہو گئے ۔اپنے والدین کی خوشنودی کے حصول کو وہ اپنی بہت
بڑی کامیابی قرار دیتے ۔اس کے بعد وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو کے
افسانوی ادب کی تدریس پر مامور ہوئے ۔اسی عظیم اور تاریخی جامعہ سے انھوں
نے بعد پی ایچ ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ملازمت کے
سلسلے میں ان کا قیام مستقل طو پر ہو گیا اور وہ ترقی کے مدارج طے کرتے
ہوئے اس یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے اور یہیں
سے 1996میں ریٹائر ہوئے۔ اس عرصے میں لاکھوں طلبا و طالبات اس سر چشمہءفیض
سے سیراب ہوئے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا زیادہ تر وقت تخلیق ادب میں گزرتا
۔عالمی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔فرانس کے نئے تنقیدی تصورات( جن میں
ساختیات ،پس ساختیات ،جدیدیت ، مابعد جدیدیت اور رد تشکیل شامل ہیں ) کا
انھوں نے بہ نظر غائر جائزہ لیا ۔ان مو ضوعات پر ان کے خیالات سن کر فکر و
نظر کے نئے دریچے و ا ہوتے چلے جاتے ۔
شہر یار نے اپنی زندگی فروغ علم و ادب کے لیے وقف کر رکھی تھی ۔نامور ادیب
مغنی تبسم کے ساتھ مل کر انھوں نے رجحان ساز ادبی مجلے ”شعر و حکمت “کی
حیدرآباد سے اشاعت کاآغاز کیا۔اس مجلے نے ارد وزبان و ادب کے فروغ میں اہم
کردار ادا کیا۔دنیا بھر کے ممتاز ادیبوں نے اس مجلے میں قلمی معاون کی
حیثیت سے اپنی شمولیت سے بزم ادب کو چار چاند لگا دئیے۔شعر و حکمت کو تحقیق
و تنقید کے ایک اہم اور بنیادی ماخذ کا درجہ دینے میں ان کی انتھک جدوجہد
شامل ہے ۔شہر یار نے علم و ادب ،فنون لطیفہ ،تہذیب و ثقافت اور زندگی کی
درخشاں اقدار و روایات کے فروغ کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کا
ہر سطح پر اعتراف کیا گیا ۔پوری دنیا میں انھیں عزت و احترام کی نگاہ سے
دیکھا جاتا تھا ۔ان کا شعری مجموعہ ”خواب کا دربند ہے “بہت مقبول ہوا ۔یہ
شعری مجموعہ 1987میں شائع ہوا ،اسی سال اس شعری مجموعے پر انھیں ساہتیہ
اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ان کی کامرانیوں کا سلسلہ جاری رہا ،2008میں
انھیں گیان پیٹھ ایوارڈ ملا ۔جو کہ بھارت کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے ۔وہ چوتھے
ادیب ہیں جنھیں یہ ایوارڈ اب تک ملا ہے ۔اس کے علاوہ انھیں فراق ایوارڈ اور
بہادر شاہ ظفر ایوارڈ بھی عطا کیے گئے ۔جو ان کے کمال فن کا اعتراف ہے
۔جدید اردو شاعری کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو تو شہر یار نے اپنی تخلیقی
فعالیت سے اردوادب کی ثروت میں جو اضافہ کیاہے وہ قابل قدر ہے ۔وہ تصدق
حسین خالد ،ن۔م راشد ،مجید امجد ،حفیظ ہو شیارپوری ،سید غلام بھیک نیرنگ
،حبیب جالب ،فیض احمد فیض ،احمد فراز ،احمد ندیم قاسمی ،ڈاکٹر وزیرآغا ،سید
جعفر طاہر اور محمدشیرافضل جعفری کے شعری تجربوں کو بہت مفید خیال کرتے تھے
۔شہریار کی اہم تصانیف حسب ذیل ہیں :
اسم اعظم (1965)،ساتواں در (1969)،ہجر کے موسم (1978)،خواب کے در
بندہیں(1987)
شہریار نے اپنی شاعری میں حقیقت نگاری کا اعلیٰ ترین معیار پیش کیا ہے ۔ان
کی شاعری تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کی مظہر ہے اس لیے اس کا مطالعہ کرتے
وقت تاریخی تناظر پر بھی نظر رکھنی چاہیے ۔یہ بات درست ہے کہ انھوں نے
بالعموم زندگی کے تضادات کو موضوع بنا کر حریت فکر کا علم بلند رکھنے کی
سعی کی ہے ۔وہ افراد اور معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں پر بہ یک وقت نگاہ
ڈالتے ہیں ۔اس عمل میں وہ تعمیری اور اصلاحی پہلو کو ہمیشہ پیش نظررکھتے
ہیں ۔حرف صداقت لکھنا ہمیشہ ان کا نصب العین رہا ۔ان کی شاعری کے موضوعات
آفاقی نوعیت کے ہیں جن کا جغرافیائی حدود سے کوئی تعلق نہیں ۔سارے جہاں کا
درد ان کے جگر میں سمٹ آیا ہے ۔ان کی شاعری میں قلبی ،روحانی اور وجدانی
کیفیات کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ایک حساس تخلیق کارکی حیثیت سے انھیں
زندگی کی وہ تمام درخشاں اقدار و روایات دل و جاں سے عزیز ہیں جو حق گوئی و
بے باکی ،عدل و انصاف ،خلوص و مروت ،ایثار اور دردمندی ،حسن فطرت اور حسن
وجمال کی اساس پر استوار ہیں ۔زندگی کے جملہ ارتعاشات اور نشیب و فراز پر
وہ اس سلیقے سے اظہار خیال کرتے ہیں کہ قاری چشم تصور سے وہ تمام مناظر
دیکھ لیتا ہے جن کی لفظی مر قع نگاری کی گئی ہے ۔اس طرح یہ شاعری ایک ایسے
جام جہاں نما کی شکل اختیار کرلیتی ہے جس میں تمام واقعات کی پر چھائیاں
قلب و نظر کو مسخر کر لیتی ہیں ۔ ان پر چھائیوں کو ایک علامت کے طور پر پیش
کیا گیا ہے ۔ جہاں یہ علامت بہ جائے خود گہری معنویت کی حامل ہے وہاں اس کی
مدد سے زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے ۔یہ پر
چھائیاں ایک ایسے نفسیاتی کل کے روپ میں جلو ہ گر ہیں جن کے معجز نما اثر
سے لا شعورکی جملہ حرکت و حرارت کو متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے ۔سائے
،ہیولے ،پر چھائیاں اور خواب یہ سب ایک علامت کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ان
علامات کی مدد سے تخلیق کار اپنے اشہب قلم کی جو لانیاں دکھاتا ہے ۔ایک لفظ
،ایک علامت یاایک رنگ کی مدد سے صد رنگی کی کیفیت پیدا کرنا شہر یار کے
کمال فن کی دلیل ہے ۔انھوں نے گلدستہءمعانی کو ایک خاص ڈھنگ سے مرتب کیا ہے
جو قلب و نظر کو مسخرکرلیتا ہے ۔ہوائے جو ر و ستم کے مسموم ماحول میں جب ہر
فرد کے چہرے پر ہوائیاں اڑتی ہیں تو خیال یار کی دلکش اور مسحور کن پر
چھائیاں گلاب کے پھولوں کے مانند نہاں خانہءدل کو معطر کردیتی ہیں ۔جدید
اردو شاعری میں تنہائی کا جو تصور ہے اس میںلفظ پر چھائیں کو شہریار نے
گنجینہ ءمعانی کا طلسم بنا دیا ہے ۔
اسی سبب سے تو پر چھائیں اپنے ساتھ نہیں
صعوبت سفر شوق سے نڈھال ہوئی
عمر کی لمبی مسافت ہر قدم کھلنے لگی
تیری پر چھائیں مرے ہمراہ کیوں چلنے لگی
پہلے تجھے دیکھا تھا پر چھائیں کی صورت میں
پھر جسم ترا میری رگ رگ میں اتر آیا
سناﺅں کیسے کہ سورج کی زد میں ہیں سب لوگ
جو حال رات کو پر چھائیوں کے گھر کا ہے
وہ ادھر اس طرف ذرا دیکھو
ایک پر چھائیں اوس سے تر ہے
یہاں سے گزرے ہیں گزریں گے ہم سے اہل وفا
یہ راستہ نہیں پر چھائیوں کے چلنے کا
اس دنیا کے سارے تعلق اور سہارے تجارتی نوعیت کے ہیں ،اس کے باوجود انسان
کی یہ فطرت ہے کہ وہ ما فوق الفطرت عناصر کی مو ہوم مدد کی امید پر توجہ مر
کو ز کر دیتا ہے ۔ اردو زبان کے ممتازشاعر اور نقاد رام ریاض(ریاض
احمدشگفتہ) نے کہا تھا :
اور سہارے تو دھرتی کے تجارتی ہیں
اپنی ٹانگیں اپنا بوجھ سہارتی ہیں
زندگی کی برق رفتاریوں نے انسان کو موہوم امیدوں کا رسیا بنا دیا ہے
۔سرابوں میں بھٹکنا اس کا پسندید ہ مشغلہ بن جاتا ہے شہر یار نے پورے خلوص
اور دردمندی کے ساتھ انسانیت کو درپیش مسائل کا حوالہ دیا ہے ۔شہر یار کا
یہ انداز فکر ایک مثبت ذہنی کیفیت کا آئینہ دار ہے ۔ان کے ہاں کبھی تو سوزو
ساز رومی کی کیفیت دلوں کو مرکز مہر و وفا کر تی ہے تو کہیں پیچ و تاب راز
ی کا ہنگامہ اس کارزار ہستی کی برق رفتاریوں اور ہوا و ہوس میں حد سے گزر
جانے والوں کے عواقب کی جانب متوجہ کرتا ہے ۔ایک طرف تو وہ قلبی وابستگی
،والہانہ محبت اور دلی لگاﺅکے واقعات کے بیان سے حسن پیدا کرتے ہیں تو
دوسری جانب معاشرتی زندگی میں لاگ کے جان لیوا گھاﺅ انھیں آزردہ کر دیتے
ہیں ۔زندگی کے یہی دو روپ ان کی قدرت کلام کے اعجاز سے ان کی شاعری کو دھنک
رنگ منظر نامے میںبدل دیتے ہیں ۔وہ سراپا شفقت و خلوص اور ہمدردی و ایثار
کے پیکر کی صورت میںسامنے آتے ہیں ۔جبر کا ہر انداز مسترد کر کے حریت ضمیر
سے جینے کے لیے اسوہءشبیر کو اپنانا ان کا شعری مسلک رہا ۔
شہر یار کی شاعری میں عصری آگہی کا جو عنصر ہے وہ تاریخ کے مسلسل عمل کا مر
ہون منت ہے ۔1947کے بعد اس علاقے میں جو جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہوئی ان
کی وجہ سے فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی ۔نئے تخلیقی احساس کو نمو ملی اور
جمود کا خاتمہ ہو گیا ۔ظلم و استبداد کی وہ بھیانک تاریک را ت جس نے نوے
سال تک اس علاقے کے بے بس عوام کی زندگی اجیرن کیے رکھی بالآخر اپنے اختتام
کو پہنچی ۔نو آبادیاتی دور کے فسطائی جبر کو بیخ و بن سے اکھاڑپھینکا گیا
اور سلطانیءجمہور کا دور آگیا۔اس کے بعد جس نئے فکری احساس نے جنم لیا اس
کے دور رس اثرات مرتب ہوئے ۔ایک ایسی تب و تاب جاودانہ پیدا ہوئی جس نے نہ
صرف فکر و نظر کو مہمیز کیا بلکہ امید کی تگ و تاز کو بھی بڑھایااور سوچ کی
پرواز کو نئے آفاق تک رسائی کا ولولہ نصیب ہوا۔شہر یار کی شاعری میں جذبات
،احساسات ،فکروخیال کے تنوع اور جدت و بو قلمونی کی جو شان دل ربائی موجود
ہے اس کے پس پردہ جو عوامل کر فرما ہیں ان میں نئے میلانات اور نئے
جغرافیائی حقائق کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔ان کی شاعری میں ہر لفظ
گنجینہءمعانی کا طلسم ہے ۔ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت ہے جس کی
چکا چوند سے قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے ۔شہریار کے ان منفرد شعری تجربات سے
اردو شاعری کی ثروت میں اضافہ ہوا۔ان کا اسلوب ان کی ذات ہے جو کہ ان کی
شاعری میں پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔ان کی حق گوئی ،خلوص ،درد
مندی ،استقامت اور انسانی ہمدردی کابلند ترین معیارجہاں ان کی شخصیت کی دل
کشی کی دلیل ہے وہاں ان اوصاف کی بدولت ان کی تخلیقات کو بھی ارفع معیار
نصیب ہو ا ہے ۔
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں معاشرتی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ مفاد پرست
استحصالی عناصر کی ریشہ دونیوں کے باعث رتیں بے ثمر ہو کر رہ گئی ہیں
۔انصاف کو بارہ پتھر کر دیا گیا ہے اور جلتے ہوئے روم کو دیکھ کر وقت کا
نیرو چین کی بانسری بجانے کا شغل جاری رکھے ہوئے ہے ۔زندگی کی بے اعتدالیوں
،کجیوں ،تضادات اور شقا وت آمیز نا انصافیوں سے شپرانہ چشم پوشی کو وتیرہ
بنا لیا گیا ہے ۔شہریار کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ یہ لرزہ خیز
اعصاب شکن صورت حال اس جانب متوجہ کرتی ہے کہ مجموعی اعتبار سے معاشرتی
زندگی پر بے حسی کا عفریت منڈلا رہا ہے ۔دنیا بھر کے مہذب ممالک میں ایسی
کیفیت کو ایک بہت برا شگون سمجھا جاتا ہے ۔اس کے مسموم اثرات سے فکری اور
شعوری روح کو ناقابل اندمال صدمات سے دو چارہونا پڑتا ہے ۔شہر یار نے اس
امر کی مقدور بھر کوشش کی ہے کہ فکر و خیال اور شعور کو ان حیات آفریں
اقدار سے منسلک کیا جائے جو زندگی کی تاب و تواں سے مزین ہوں اورجن کے معجز
نما اثر سے معاشرتی زندگی میں صحت و سلامتی، نفاست و پاکیزگی اورامن و آشتی
کی فضا پید ا ہو۔
انسانی زندگی میں خواب کا خیال سے معاملہ بھی عجب گل کھلاتا ہے۔شہر یار کے
تخلیقی عمل اور اس کے لا شعوری محرکات میں خوابوں کا بڑا حصہ ہے ۔ان کے کچھ
خواب تو زندگی کے حقائق کی شیرازہ بندی کی ایک صورت سا منے لاتے ہیںاور کچھ
خواب ایسے بھی ہیں جن سے عملی زندگی میں ہر شخص کا واسطہ پڑتا ہے ۔وہ
خوابوں کے وسیلے سے لاشعورکی حرکت و حرارت کو ایک منفرد جہت عطا کر کے فکر
و نظر کو مہمیز کرنے کی سعی میں اپنی خدادا صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں
۔در اصل وہ خوابوں کے رسیا نہیںبلکہ وہ لوگوں پر یہ واضح کر نا چاہتے ہیں
کہ خوابوں کی دنیا سے نکل کر یہ دیکھیں کہ اور بھی دکھ ہیں دنیا میں خوابوں
کے سوا ۔شہر یار کی زندگی کے واقعات کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہو تی ہے
کہ وہ آلام روزگار کے مسموم ماحول میں بھی دل کی کلی مر جھانے نہیں دیتے ہر
وقت کوئی نہ کوئی نیا غنچہ کھلا رہتا ہے اور اس طرح ایک فکر ی دبستان ہے جو
پورے گلستان کو اپنی عطر بیزی سے مسحور کردیتا ہے ۔خوابوںکے رسیا لوگوں کو
یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ زندگی جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں
کے مانند ہے ۔پیہم محنت اور جگر کاوی کے بغیر کسی جو ہر کے کھلنے کی توقع
رکھنا سرابوںمیں بھٹکنے کے مترادف ہے ۔یہ کار جہاں اس قدر دراز ہے کہ انسان
اس میں الجھ کر رہ جاتا ہے ۔یہ کاروان ہستی اس قدر تیز گام ہے کہ اس کے
ساتھ سر گرم سفر رہنا جان جوکھوں کا مر حلہ ہے ۔اس راہ میں سکون اور قیام
بے محل ہے ۔آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مظلوم ،بے بس اور قسمت
سے محروم لا چار انسانیت کے مسائل جامد و ساکت پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں کے
روبہ رو پیش کرنے پڑتے ہیں ۔صحر ا کی اذان اور درویش کی فغان پر کوئی کان
دھرنے والا نہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خوابوں کی دنیا سے نکل کر اس
حقیقت کا احساس و ادراک کریں کہ حیات جاوداں کا راز ستیز میں پوشیدہ ہے ۔اس
کے بعد یقینی طور پر ایک ایسا مر حلہ آ جاتا ہے جب خوابوں کا طلسم ٹوٹ جاتا
ہے ۔خوابوں کے رسیا لوگ یہ جان لیتے ہیں کہ خواب خرگوش کے جو مزے ہیں وہ
خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔زندگی دما دم رواں ہے وقت کا سیل رواں سب
توہمات اور خوابوں کے طلسمات کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے ۔مردوں
کے ساتھ شرط باندھ کرسونے والوں ،ہوا میں گرہ لگانے والوں ،خیالی پلاﺅ
پکانے والوں ،اپنے منہ میاں مٹھو بننے والوں اور محض دلکش اورسہانے خوابوں
کی دنیا بسا کراس میں راجہ اندر بن کر داد عیش دینے والوں کو یہ حقیقت کبھی
فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ زندگی اوروقت کی مثال آب رواں کی تند و تیز
موجوں کی ہے ۔جب یہ موجیں گز رجاتی ہیں تو کوئی فرعون اپنی تما م تر قوت
اورہیبت کے باوجود دوبارہ ان کے لمس سے فیض یاب نہیں ہو سکتا ۔زندگی ایک
ایسی ادق زبان ہے جس کا صحیح تلفظ کرتے وقت بڑے بڑے دانش ور بھی سہو اور
تغافل کے مر تکب ہو جاتے ہیں ۔اب تو یہ حال ہے کہ جاگتی آنکھوں سے بھی خواب
دیکھنے کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے ۔شہر یار نے خوابوں کے بارے متعدد چشم کشا
صداقتیں بیان کی ہیں ۔
جاگتی آنکھوں سے بھی دیکھو دنیا کو
خوابوں کا کیا وہ تو ہر شب آتے ہیں
دل پریشاں ہو مگر آنکھ میں حیرانی نہ ہو
خواب دیکھو کہ حقیقت سے پشیمانی نہ ہو
صلہ کوئی نہیں پر چھائیوں کی پوجا کا
مآل کچھ نہیں خوابوں کی فصل بونے کا
شاعر کو قوم کی دیدہ ءبینا سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جب پورا
معاشرہ اور سماج پیہم شکست دل کے باعث بے عملی اور بے حسی کی بھینٹ چڑھ
جاتا ہے تو لوگ تخیل کی شادابی سے موہوم امیدوں کے سہارے دن گزارتے ہیں
۔بدرقہ اور رفیق نہ ہونے کے باوجود سرابوں میں بھٹکنے والے خوابوں کی دنیا
میں کولھو کے بیل کی طرح اپنے زعم میں منزلوں پرمنزل مارتے چلے جاتے ہیں
مگر پھر بھی نشان منزل ان کے مقدر میں نہیں ہوتا ۔چربہ ساز ،سار ق اور کفن
دزدعناصر اپنی ملمع سازیوں سے سادہ لوح لوگوں کوحسین خواب اور سبز باغ دکھا
کر اپنا الوسیدھا کرنے کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں ۔مضمحل لوگ خوابوں کی اس
خیالی دنیا میں افتاں و خیزاں چلتے رہتے ہیں اورایک دن بالآخر زینہ ءہستی
سے اترجاتے ہیں۔شہر یارکی شاعری میں خوبوں کی حقیقی معنویت کو سمجھنا بہت
ضروری ہے ۔شہریار نے اپنے تخلیقی عمل کے معجزنما اثر سے حسن کو نمو بخشی ہے
۔ان کے اسلوب میں ایک ایسی وحدت ہے جو قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں
اتر کر ذہن و ذکاوت کی بالیدگی کا اہتمام کرتی ہے۔وہ زندگی کی حقیقی معنویت
کی تفہیم کی جانب توجہ دلاتے ہیں۔ان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ جس طرح
بھی ممکن ہو خواب اور سعیءپیہم میں حد فاصل کا احسا س پیدا کیا جائے ۔وادی
خیال کو مستانہ وار طے کرنا اور لفظوںکے طوطے مینا بنانا ایک مشغلے کی حد
تک تو قابل فہم ہے مگر عملی زندگی میں اس کے جو نتائج بر آمد ہوتے ہیں وہ
تہذیب اور معاشرت کے مکمل انہدام پر منتج ہوتے ہیں ۔شہر یار کے اسلوب کی
وحدت دراصل یقین کا ثمر ہے ۔اسی لافانی جذبے سے شادمانی،سکون اور کامرانی
کے سوتے پھوٹتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ وہ بے سروپا اور بے مقصد خوابوں کا کچا
چٹھاکھول کر قاری کو زندگی تلخ حقائق کے احساس و ادراک کی جانب متوجہ کرنے
میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے ۔
شہریار کا خیال ہے کہ ہمیں روشن خیالی کو شعاربنانا چاہیے ۔جہاں تک خوابوں
کا تعلق ہے ہمیں مستقبل کے لیے ایک واضح لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے اورآنے
والے دنوں کے لیے قابل عمل طریق کار اپنانا چاہیے ۔ایسے خواب دیکھنے میں
کوئی امر مانع نہیں جن کے مطابق آنے والے زمانے میں نئی نسل کے لیے امیدوں
،امنگوں ،آرزوﺅں ،ترقی ،خوش حالی اور کامرانی کی فصل کاشت کی جائے ۔اس مقصد
کے لیے سعیءپیہم کو ترازوئے کم و کیف حیات سمجھنا نا گزیر ہے ۔جب استحصالی
معاشرے میں ظالم و سفاک ،موذی و مکار استبدادی قوتوں کی شقاوت آمیز نا
انصافیوں ،بے رحمانہ مشق ستم اور انصاف کشی کے باعث امیدوں کی فصل غارت
ہوجائے اور صبحوں شاموں کی محنت اکارت چلی جائے تو نیندیں اورخواب اڑ جاتے
ہیں ۔ان لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات میں خوابوں کی دنیا سے باہرنکل کر
زندگی کے تلخ حقائق سے آنکھیں چارکرنا وقت کااہم ترین تقاضا ہے ۔شہر یارنے
پوری انسانیت کے حوالے سے اپنے تاثرات ،تجربات اور مشاہدات کو اشعار کے
قالب میں ڈھالاہے ۔زندگی گزارنے کی ہماری جدو جہد اپنی نوعیت کے لحاظ سے
جہاں مقصد حیات کا تعین کرتی ہے وہاں اس کی بدولت زندگی کی حرکت و حرارت کی
افزونی کی ایک یقینی صور ت بھی سامنے آتی ہے ۔اس کے برعکس بے سرو پا خواب
اپنے مسموم اثرات سے گلزار ہست و بود کے لیے ہلاکت خیزی کا پیغام لاتے ہیں
۔جہاں سرو وصنوبر اگا کرتے تھے وہاں زقوم اور حنظل کی فراوانی ہو جاتی ہے
۔جن گھروں میں سرشام چراغ روشن ہوجاتے تھے وہاں چراغ غول کے سوا کچھ نہیں
رہتا ۔عقابو ںکے نشیمن زاغوں کے تصرف میں آجاتے ہیںاور ہر طرف کرگس ،بوم
اور شپرمنڈلانے لگتے ہیں۔ ایک زیرک اوربیدارمغز تخلیق کار کی حیثیت سے شہر
یار نے خوابوں کے بارے میں ہمیشہ حقیقی انداز فکر اپنایا ۔ان کے اشعارسے یہ
بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے خواب بھی حقائق کی گرہ کشائی کرتے ہیں اور
طلوع صبح بہاراں کی نوید لاتے ہیں۔
دنیا نے ہر محا ذ پہ مجھ کو شکست دی
یہ کم نہیں کہ خواب کا پرچم نگوں نہ تھا
آندھیاں آئیں توسب لوگوں کومعلوم ہوا
پرچم خواب زمانے میں نگوں کتنا ہے
یہی ہے وقت کہ خوابوں کے بادباں کھولو
کہیں نہ پھر سے ندی آنسوﺅں کی گھٹ جائے
میں سوچتا ہوں مگر کچھ نظر نہیں آتا
کہ اختتام کہاں خواب کے سفر کا ہوا
کون سا قہریہ آنکھوں پہ ہوا ہے نازل
ایک مدت سے کوئی خواب نہ دیکھا ہم نے
پھر کہیں خواب و حقیقت کا تصادم ہو گا
پھر کوئی منزل بے نام بلاتی ہے ہمیں
آنکھوں میں تیری دیکھ رہا ہوں میں اپنی شکل
یہ کوئی واہمہ یہ کوئی خواب تو نہیں
شہر یارکی شاعری میں خوابوں کا حوالہ ایک جداگانہ انداز میں سامنے آتا ہے
۔جہاں کہیں بھی وہ خواب کا ذکر کرتے ہیں وہ بالعموم اسے ایک ایسے رویے سے
تعبیر کرتے ہیں جو عمل سے دوراور محض فکر و خیال کی اساس پر استوار ہے ۔ان
کے کچھ خواب ایسے بھی ہیں جن کو وہ اپنے عزائم اور مستقبل کے منصوبوں سے
تعبیر کرتے ہیں۔ان خوابوں کو وہ ایک فعال قوت کے طورپر پیش کرتے ہیں اوران
کا پرچم بلند رکھنے کے داعی ہیں۔حریت فکر و عمل اور حریت ضمیر سے جینے کے
ان کے خواب یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ظلم کے سامنے سپر انداز ہونا اور ظلم کو
برداشت کر کے چپ رہنا ظلم سے کہیں بڑھ کر اہانت آمیز اور ناقابل برداشت
رویہ ہے ۔خواب کا استعارہ شہر یارکی شاعری کا ایک انتہائی معتبر حوالہ بن
کر سامنے آیا ہے ۔شہر یار کا کمال یہ ہے کہ وہ خواب کو بھی عملی زندگی کا
ایک دلکش حوالہ بنا دیتے ہیں۔خوابوں کی یہی خیاباں سازیاں ان کے اسلوب کا
نمایاں پہلو ہیں۔
خواب میں آسمان پردیکھا تھا میں نے اک افق
آنکھ کھلی تو دور تک دھند کا سلسلہ ملا
آج کی رات میں گھوموں گا کھلی سڑکوں پر
آ ج کی رات مجھے خوابوں سے فرصت کچھ ہے
زخموں کو رفو کرکے دل شاد کریں پھر سے
خوابوں کی کوئی دنیا آباد کریں پھر سے
آنکھوں کو سب کی نیند بھی دی خواب بھی دئیے
ہم کو شمار کرتی رہی دشمنوں میں رات
تمام خلق خدا دیکھ کے یہ حیراں ہے
کہ سارا شہر میرے خواب سے پریشاں ہے
یہ اضطراب ازل سے مرا مقدر ہے
میں کچھ کروں پہ مرا جی بہل نہیں سکتا
شہر یار کی زندگی شمع کے مانند گزری انھوں نے اپنے تمام ارادی اعمال کی
تنظیم اس مﺅثر انداز میں کی کہ ان کے اسلوب اور سیرت و کردار میں نکھار
پیدا ہو گیا ۔عالمی کلاسیک کا مطالعہ ،تحقیق اور تنقید اور تخلیق ادب کو
اگرچہ ابتدا میں ان کے مشاغل کی حیثیت حاصل تھی اور وہ انھیں ایک شعوری اور
اختیاری عمل کے طورپر جاری رکھتے تھے لیکن رفتہ رفتہ یہ سب دلچسپیاں ان کی
فطرت ثانیہ میں بدلتی چلی گئیں ۔ان کا اسلوب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نوائے
سروش کی عمدہ مثال ہے ۔ان کی سیرت کی تشکیل میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے
علمی و ادبی ماحول کا گہرا عمل دخل تھا ۔ان کا کردار ان کی سیرت کامظہر تھا
۔وہ بے لوث محبت کے قائل تھے اور انسانیت کا وقار اور سر بلندی انھیں دل و
جا ں سے عزیز تھی ۔ان کی شاعری میں جن تجربات کا ذکرہے ان کی نوعیت آفاقی
ہے :
دباﺅ کم سہی میزان ذات پر میرا
مگر ہے وزن بہت کائنات پرمیرا
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
نذرانہ تیرے حسن کو کیا دیں کہ اپنے پاس
لے دے کے ایک دل ہے جو ٹوٹا ہوا سا ہے
جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہو گا
ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہو گا
بے لوث محبت کے اعجاز سے وہ ایک طرح سے اپنی ذات کے فروغ ،پر خلوص جذبات کی
تسکین ،تزکیہ نفس اور اپنے تجربات و احساسات کے ابلاغ کو یقینی بنانے کی
سعی میں مصروف دکھائی دیتے ہیں ۔وہ اپنے اعمال کی تنظیم اس انداز سے کرتے
ہیں کہ ان کے تجربات کسی حسین ،دلکش ،پر مسرت اوراطمینان بخش نتیجے پر پہنچ
سکیں ۔ان کی شاعری میں اس جانب توجہ دلائی گئی ہےکہ سچے جذبات کے اظہار کی
راہ میں کوئی امر مانع نہیں ۔ان کے ہاں محبت کے سچے جذبات کی فراوانی ہے
۔ان کا خیال ہے کہ محبت کو ایک ایسے عمل کے طور پراختیار کرنا چاہیے جس کے
لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چا ہیے۔سوال وصل اور عرض غم کے مراحل طے
کرنے کے دوران جو سخت مقام آتے ہیں ان کا بیان شہر یار کی شاعری کا ایک اہم
موضوع ہے ۔ان کی شاعری میں متعدد حکایتیں اور بے شمار شکایتیں ہیں جو حسن و
رومان کے نادر تجربات کی صورت میں ان کے اسلوب کا حصہ ہیں ۔
کاغذ کی کشتیاں بھی بہت کام آئیں گی
جس دن ہمارے شہر میں سیلاب آئے گا
دید سے لمس تک ہمیں کیا کیا نہ تجربے ہوئے
دکھنے میں اور کچھ تھا وہ چھونے پہ اب کچھ اور ہے
دیکھنے کے لیے اک چہرہ بہت ہوتا ہے
آنکھ جب تک ہے تجھے صرف تجھے دیکھوں گا
ساعت خواب وصل کی آنی تھی آ نہیں سکی
وہ بھی تو وہ نہیں رہا میں بھی تو اب بدل گیا
یا تیرے علاوہ بھی کسی شے کی طلب ہے
یا اپنی محبت پہ بھروسہ نہیں ہم کو
تو نے دیکھا نہیں خود کو کب سے
میں ترے سامنے اب ہوں تو دیکھ
شہر یار نے اپنی اصابت رائے اور مستحکم طرز عمل پر اپنے اسلوب کی بنیاد
رکھی ۔ان کی زندگی میں ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جو ان کے لیے آزمائش بن
گئے لیکن ان کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہ آئی ۔یہی انداز فکر جب ان کی
شاعری میں سما جاتا ہے تو ان کی شاعری قلب اور روح کو نشاط انگیز کیفیات سے
متمتع کرتی ہے ۔ان کی سیرت میں جو دل آویز حسن و جمال ہے اس کا سبب یہ ہے
کہ وہ ہمیشہ محبت کے ذریعے دلوں کو مسخر کر لیتے تھے ۔ان کے ہاں محبت کا جو
انداز ہے وہ لین دین کی کوئی شکل نہیں بلکہ یہ تو صرف دین ہی دین ہے ۔وہ سب
کو اپنی بے لوث محبت اورایثار سے نوازتے اور کسی قسم کی ستائش یا صلے کی
کبھی توقع نہ رکھتے ۔قناعت ،تسلیم و رضا اور انسانی ہمدردی کا جو معیار
انھوں نے عمر بھر قائم رکھا وہ لائق تقلید ہے ۔ان کی شاعری میں زندگی کے
تجربات کے اظہار کے سلسلے میں جو منفرد انداز اپنایا گیا ہے اس کے دو
نمایاں پہلو قابل توجہ ہیں ۔ایک تو یہ کہ وہ زندگی کے تمام خارجی حقائق بلا
کم و کاست اور من و عن بیان کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتے ۔اس کے بعد وہ
قاری پر یہ بات چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ ان کے وقیع تجربا ت کو جس انداز میں
دیکھنا چاہیں دیکھ لیں ۔یہ معاملے اس قدر نازک ہیں کہ قاری کو اپنی مرضی کا
فیصلہ کرنا چاہیے ۔دوسرا یہ کہ ان تجربات کے پس پردہ جو اقدارعالیہ اور
نفسیاتی گتھیاں ہیں انھیں فکر و خیال سے ہم آہنگ کیا جائے ۔ان کا خیال تھا
کہ ایک دیانت دار اور با ضمیر تخلیق کار اپنے قلم کو قارئین کی امانت خیال
کرتا ہے ۔اس قلم کی بدولت اسے یہ حوصلہ ملتا ہے کہ تہذیبی ،ثقافتی اور
تاریخی اقدار کو محفوظ کرکے اسے ایسی نہج عطا کریں جو آنے والی نسلوں کے
لیے روشنی کا مینار ثابت ہوں ۔
تخلیق فن کے لمحوں میں شہر یار نے جس سادگی ،سلاست اور بے تکلفی کو ملحوظ
رکھا ہے وہ ان کا امتیازی وصف ہے ۔زبان و بیان پر ان کی عالمانہ اور
خلاقانہ دسترس کے معجز نما اثر سے وہ اپنا موقف ، طرز عمل اور ما فی
الضمیرنہایت خلوص اوردرد مندی سے بیا ن کر تے ہیں ۔وہ الفاظ کو فرغلوں میں
لپیٹ کر پیش نہیں کرتے ۔وہ عام فہم انداز میں اپنے جذبات ،احساسات اور
تجربات کو پورے خلوص کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔اس کے بعدقاری
چشم تصورسے ان تما م تجربات کا منظر نامہ دیکھ لیتا ہے ۔شہر یار کی شاعری
میں اخلاقی معائر،زندگی کی اقدار عالیہ اور مسائل زیست کے بارے میں جو
ہمدردانہ رویہ دکھائی دیتا ہے وہ ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔شہر یار
نے ذات کی تنہائی کا مداوا کرنے کے لیے بے لوث محبت ،بے باک صداقت اور قابل
فہم نوعیت کے عملی خوابوں کے امتزاج سے ایک حسین دنیا کی تشکیل کا تصور پیش
کیا ۔اس کے ذریعے تنہائی کے حصار سے نکلنا ممکن ہے ۔بنی نوع انسان کے ساتھ
وہ ایک قلبی اور روحانی تعلق استوارکرلیتے ہیں اور اسی کو علاج گردش لیل و
نہار قرار دیتے ہیں ۔شہریاران تما م واقعات کو جو ان کی زندگی کے تجربات
اور مشاہدات کے امین ہیں عمیق مطالعہ کے ان کی اہمیت،ہمہ گیری اور افادیت
کے لحاظ سے انھیں مر حلہ وار اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں ۔وہ اپنی شاعری
میں اس بات کا ہمیشہ خیال رکھتے ہیں کہ کوئی واقعہ یا تجربہ جب قاری کے لیے
اہمیت اور افادیت کا حامل ہو تو اسے اشعار کے قالب میں ڈھالاجائے۔وہ علی
گڑھ کی مقصدیت کی روایت کی پاس داری کرتے اور اس پر وفادار بہ شرط استواری
کو اصل ایمان کے مترادف سمجھتے ۔ان کی شاعر ی میں سل کو دل بنانے کا جو
قرینہ ہے وہ اسی روایت کاعجاز ہے ۔
موت کے تند و تیز بگولوں نے شہریار کی زندگی کی شمع بجھا دی ۔ایک ایسی شمع
بجھ گئی جو مسلسل چھ عشروں سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کے سلسلے میںاہم
خدمات انجام دے رہی تھی ۔حریت فکرکا ایک ایسا مجاہد رخصت ہو گیاجس نے زہر
ہلاہل کو کبھی قند نہ کہا ۔علم و ادب کا ایک دبستان ہمیشہ کے لیے بند ہو
گیا ۔اردو زبان و ادب کا ایک بے لوث خدمت گارہمیں دائمی مفارقت دے گیا ۔وہ
دانش ور آج ہم میں موجود نہیں جس نے پوری دنیامیں اردو زبان و ادب کو ایک
بلند مقام عطا کرنے میں اپنی تما م صلاحیتیں وقف کردیں ۔اپنی زندگی کے آخری
ایام میںانھوں نے عدم کے کوچ کی فکر پر روشنی ڈالتے ہوئے جو بات کہی وہ حرف
بہ حر ف درست ثابت ہوئی ۔
آسماں کچھ بھی نہیں اب تیرے کرنے کے لیے میں نے سب تیاریا ں کر لی ہیں مرنے
کے لیے
لیکن مجھے یہ کہنا ہے کہ شہریار کبھی مر نہیں سکتے ۔وہ تاریخ کے اوراق میں
ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ان کا ابد آشنا اسلوب اور لائق صد رشک و تحسین تدریسی
کام ان کو شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام عطا کر چکا ہے
۔ان کی یاد ہمیشہ دلوں کو گرماتی رہے گی عقیدت سے لبریز آنکھیںاور خلوص سے
معمور دل ان کے لیے ہمیشہ سراپا سپاس رہیں گے ۔ان کی آواز اب بھی سنائی دے
رہی ہے ۔
پھیلی ہیں فضاﺅں میں اس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اٹھی آواز تیری آئی |