چمچ دراصل ترکی زبان کے لفظ چمچہ
کا اُردو تلفظ ہے لیکن یہ اُردو کے لشکری زبان ہونے کا فائدہ اُٹھا کر جلد
ہی چمچہ بھی بن گیا۔ اگر یہ چمچہ نہ بنتا تو صرف کھانا کھانے والا چمچ ہوتا
مگر اس نے چمچہ بن کر دیگر بہت سی ذمہ داریاں بھی اپنے پلے باندھ ڈالیں۔ یہ
ایک ہو تو چمچہ کہلاتا ہے جبکہ زیادہ ہوں تو چمچے بن جاتے ہیں۔ ویسے تو
برتنوں میں چمچہ کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتا لیکن فرائضِ منصبی کے لحاظ سے
دیکھئے تو اس چھوٹی سی شے نے بہت بڑی ذمہ داریاں سنبھال رکھی ہیں۔ چمچے ان
مشہور چیزوں میں سے ہیں جو ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور ہر طرح استعمال بھی
کیئے جاتے ہیں۔ ان کی قسمیں بھی بہت ہیں لیکن عام طور پر دو قسم کے چمچے
مشہور ہیں۔ ایک کھانے کے چمچے جبکہ دوسرے بولنے والے چمچے ہوتے ہیں۔ پہلی
قسم کے چمچے کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کھانا پکانے کے علاوہ سالن کو دوسرے
برتن میں نکالنے کے کام آتا ہے جبکہ دوسری قسم کے چمچے کا کام کسی کی چمچہ
گیری کرکے مطلب نکالنا ہوتا ہے۔ کام دراصل دونوں کا ایک ہی ہے بس فرق صرف
اتنا ہے کہ ایک دیگ میں چلتا ہے جبکہ دوسرے کی زبان چلتی ہے۔ پکانے والا
چمچہ نہ ہو تو کھانا مزے کا نہیں بنتا جبکہ بولنے والا چمچہ تھوڑی بہت چمچہ
گیری کرکے بھی بہت کچھ کھا جاتا ہے بلکہ بنا بھی جاتا ہے ۔ ایک چمچہ وہ بھی
ہوتا ہے جو کھانا بنانے کے علاوہ مظلوم شوہروں کے سر سے پاﺅں تک کا حال
جانتا ہے۔ ایسے چمچے کا دستہ ہمیشہ بیوی کے ہاتھ میں ہوتا ہے تاکہ اُس کا
شوہر فرماں برداری کا اعلیٰ نمونہ بن سکے۔
چمچہ گیری کی جامع تعریف تو کوئی چمچہ گیر ہی کر سکتا ہے البتہ اسے ایک فن
ضرور کہا گیا ہے اور اسکی تربیت کے باضابطہ اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ ایک
ایسا شخص جو ذاتی سوچ، خیالات اور دماغ سے فارغ ہو اور اپنی چرب زبانی کے
ذریعے کسی کو خوش کرنے اور اپنا مطلب نکالنے کی غرض سے اُس کی جھوٹی
تعریفیں شروع کر دے ایسے شخص کے لیئے ترقی یافتہ ممالک میں نہ جانے کیا
طنزیہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں اسے چمچہ ہی کہتے ہیں ۔ یہی
وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کسی کو چمچہ کہہ دینے سے ایک خوشامدی، چاپلوس، لَلّو
پتّو اور حاشیہ بردار شخص کا تصور ذہن میں آ جاتا ہے البتہ ایسا شخص ترقی
یافتہ ممالک کے چمچہ گیروں سے متاثر ہو کر خود کو کنگ میکر یا ترغیب کار
سمجھ کر خوش فہمی کا شکار رہتا ہے مگر دوسروں کی نظر میں وہ چمچہ ہی ہوتا
ہے۔ اس طرح کے چمچے ہمارے معاشرے کے اندر وافر مقدار میں پائے جاتے
ہیں۔چمچہ گیری اور خوشامد پسندی میں فرق صرف اتنا ہے کہ خوشامد پسندی سے
چھوٹے جبکہ چمچہ گیری سے بڑے بڑے کام نکلتے ہیں۔ ایسے لوگ اس گھات میں ہوتے
ہیں کہ انہیں موقع ملے تو وہ مستفید ہوں ۔کہتے ہیں کہ چمچہ گیری کی بھی
کوئی حد ہوتی ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ چمچہ گیروں کو اپنا تشخص برقرار
رکھنے کے لیئے حد سے گزرنا اور سوچ کے انداز کو بدلنا ہوتا ہے۔
چمچا گیری کی تاریخ تو شاید صدیوں پرانی ہے لیکن قومی چمچہ گیری کا کلچر کب
متعارف ہوا یہ تحقیق طلب ہے البتہ ایک بات طے ہے کہ چمچہ گیری ہر کسی کے بس
میں نہیں ہوتی۔ اس میں میرٹ کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ
چاپلوسی اور چمچہ گیری کرنے والوں کے کام بنتے ہیں جبکہ حق ڈھونڈنے
والامستحق دربدر کی ٹھوکریں کھا کر یا تو نشہ کرتا ہے یا پھر مایوسی کے
عالم میں ملکِ عدم کو روانہ ہو جاتا ہے۔ درسگاہوں میں یوں تو سبھی موضوعات
پر ڈپلومہ اور ڈگری کورسز پڑھائے جاتے ہیں مگر نہ جانے چمچہ گیری کا کورس
کیوں نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ ایک سیاسی چمچے بھی ہوتے ہیں، یہ چمچوں کی
اُس قسم سے تعلق رکھتے ہیں جو بولنے والے چمچے کہلاتے ہیں۔ آج کل کی سیاست
میں لوٹوں کی طرح چمچوں کی بھی بھرمار ہے اور یہ دونوں اپنے کردار کی بدولت
زبان زدِ عام رہتے ہیں۔ چمچوں کی اہمیت یوں تو ہر دور میں رہی ہے لیکن
سیاست اور چمچے دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ چمچہ گیری سے بہتر
سیاست میں اور کوئی عہدہ ہی نہیں کیونکہ باقی عہدے بھی اسی سے حاصل ہوتے
ہیں۔ سیاست میں چمچہ گیری کا زیادہ امکان بھی اُس وقت ہوتا ہے جب بہتی گنگا
میں ہاتھ دھونے کا ارادہ ہو۔ سیاسی لیڈروں کے گرد منڈلانے والے چمچوں کی
وجہ سے ہمارے ہاں نظریاتی سیاست کی جگہ اب چمچہ گیری کی سیاست نے لے لی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت تقریباً ہر سیاسی پارٹی میں چمچوں کی ایک بڑی کھیپ
موجود ہے۔
آج کل کی سیاست میں تو یہی اصول کارفرما ہے اگر سچ بولو تو ٹیم سے باہر
جبکہ چمچہ گیری کرو تو کام بنتا ہے۔ خوشامد پسند لیڈروں کی وجہ سے سیاست
اور چمچہ گیری ایک دوسرے کی مجبوری بن گئی ہیں۔
حکومتی سربراہ یا سیاسی پارٹیوں کے لیڈر اپنے مطلب کی بات کہلوانے کے لیئے
انہی چمچوں کو استعمال کرتے ہیں ۔ کتنا عجیب لگتا ہے کہ الیکشن سے پہلے کام
نکلوانے کیلئے لیڈر اپنے ووٹروں کی چمچہ گیری کرتا ہے جبکہ الیکشن جیتنے کے
بعد وہی ووٹر کام نکلوانے کیلئے لیڈر کی چمچہ گیری کرتا ہے۔ سیاست میں
کامیاب چمچہ وہی کہلاتا ہے جو ٹی وی، اخبارات کے ذریعے بڑے صاحب کا زبردست
دفاع اور اُس کے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کا ماہر ہو۔ جو لوگ بغیر تربیت
اور ٹریننگ کے چمچہ گیری کرتے ہیں وہ سخت نادان ہیں کیونکہ انہی چمچوں کی
وجہ سے دوسرے چمچے بھی بدنام ہوتے ہیں۔ خوشامد پسند سیاسی لیڈروں کے لیئے
اب ضروری ہو گیا ہے کہ وہ تربیتی ورکشاپس کے ذریعے فنِ لیڈری اور فنِ تقریر
کے گُر سکھانے کے ساتھ ساتھ رموزِ چمچہ گیری بھی سکھائیں ورنہ یہی چمچہ گیر
نہ صرف اُن کے لیئے بدنامی کا سبب بن سکتے ہیں بلکہ فنِ چمچہ گیری سے
ناواقفیت کی بناءپر خود بھی گڑھے میں گرنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ |