نئے قلم کاروں کا ادب اطفال کو مرکز نگاہ بنانے میں کردار

نئے قلم کاروں کا ادب اطفال کو مرکز نگاہ بنانے میں کردارتحریر: ذوالفقار علی بخاری


پاکستان میں ادب اطفال کے ایک خاص دور کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔حالاں کہ اُس زمانے میں نئے لکھنے والوں کی تعداد دورحاضر کے مقابلے میں انتہائی کم تھی۔


آپ اُس دور کو کس طرح سے خاص اہمیت کا حامل قرار دے سکتے ہیں جہاں معیاری لکھنے والوں کی مخصوص تعداد ہو لیکن نئے لکھنے والوں کی بڑی کھیپ موجود نہ ہو۔ کیا چند مخصوص سالوں کے دور کو سنہری قرار دیا جا سکتا ہے جس میں اعلیٰ پیمانے کا ادب تخلیق کیا جا رہا ہو اوراُسے پڑھنے والے بھی قابل تعریف سمجھ رہے ہوں، لیکن نئے لکھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو۔
سنہری دور میں نئے لکھنے والے اگر بہترین لکھیں اوراُن کا موازنہ نامور ادیبوں کے ساتھ کیا جائے تو یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کن کی جانب سے بہترین اورنونہالوں کی نفسیات کے عین مطابق مواد پیش کیا گیا ہے۔ سنہری دور تو تب قرار دیا جائے جب اچھا اوربُرا ادب پیش ہو رہا ہواورنئے لکھنے والے بڑی تعداد میں شامل ہو کر اپنی صلاحیتوں کو منوانے کے ساتھ ادب اطفال کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہوں۔اِس کے ساتھ ساتھ نئے قارئین بھی جنم لے رہے ہوں جو یہ ثابت کریں کہ واقعی کچھ خاص ہو رہا ہے۔
کیا بڑی تعداد میں کتب اوررسائل کا شائع ہونا یا فروخت ہونا سنہری دور کی علامت ہوگا؟ یہ ایک اہم ترین سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔


دورحاضر میں ادب اطفال کے فروغ کے لیے سوشل میڈیا اہم ترین کردار ادا کررہا ہے وہیں نئے لکھنے والوں نے بھی ثابت کیا ہے کہ وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔گزشتہ چند برسوں میں بچوں کے لیے شائع ہونے والی کتب، ناولز اوررسائل کی اشاعت کے ساتھ اُن ادیبوں کے انٹرویوز بھی بڑی تعداد میں شائع ہوئے ہیں جو بچوں کے لیے لکھ رہے ہیں۔ اِس سے قبل ادب اطفال کی تاریخ میں شاید ہی کوئی مثا ل مل سکے۔اِس حوالے سے نئے لکھنے والوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے کہ اُنھوں نے ادب اطفال کو مختصرمدت میں بے مثال مقبولیت سے ہمکنار کر دیا ہے اوراِسے کسی طور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔یہ اُس دور میں بھی نہیں ہوا جسے سنہری قرار دیا جاتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ گنتی کے مخصوص ادیبوں کے نام ہی قارئین جانتے ہیں۔ادب اطفال مخصوص ادیبوں تک محدود ہوا تو اُن کے بعد ایک خلا آگیا کہ کوئی اُن کی جگہ لینے والا نہیں تھا۔ نئے لکھنے والوں کو آگے بڑھنے کا خاطرخواہ موقع نہیں دیا گیا اوربعدازاں یہ عذر پیش کیا گیا کہ نونہالوں کی دل چسپی مطالعے میں نہیں ہے جو کہ نامناسب طرز عمل ہے۔
سنہری دور میں بچوں کے ادب پر تحقیقی کام بھی خاطر خواہ نہیں ہوا اور نہ ہی نئے تحقیق نگار سامنے آسکے ہیں۔دورحاضر میں سوشل میڈیا نے نئے لکھنے والوں کو وہ مواقع فراہم کیے ہیں جو وہ برسوں سے حاصل کرنے کے متمنی تھے۔ ہمارے ہاں ”نئے لکھاری“ ایک طنز بن چکے ہیں جنھیں نامور ادیب بھرپور عزت دینے سے گریز کرتے ہیں۔راقم الحروف کا تلخ تجربہ ہے کہ عالمی ادیب اطفال اردو ڈائریکٹری شائع کی تو ماسوائے چند نامور ادیبوں کے کسی نے بھرپور پذیرائی دینے کی کوشش نہیں کی حالاں کہ ایسا کام ادب اطفال کی تاریخ میں نہیں ہوا ہے۔


یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کیا اشتیا ق احمد، ابن صفی، حکیم محمد سعید کسی دور میں نئے ادیب نہیں تھے؟ اُنھیں مواقع نہ دیے جاتے تو کیا وہ ادب اطفال کو مرکز نگاہ بنا سکتے تھے۔


دورحاضر میں چاہے سوشل میڈیا کے تحت ہی ہو لیکن نئے لکھنے والوں نے ادب اطفال کو ہر خاص و عام کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔جب کہ ماضی کے کئی ادیب آج بھی پرانی روش پر چل کر اپنے ایک خاص خول میں قید ہیں۔راقم الحروف نے بہت کم ایسا دیکھا ہے کہ نئے ادیبوں کو سراہنے کے لیے عملی طورپر سنجیدہ کوشش کی گئی ہو۔آپ بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں میں اہم کردار نئے لکھنے والوں کا ہی دیکھیں گے یہ تلخ سچائی تسلیم کرنی ہوگی۔
گزشتہ سالوں کی بہ نسبت دورحاضر میں کئی حوالوں سے منفرد انداز میں کام کیا جا رہا ہے۔اِس حوالے سے علمی و ادبی شخصیات کی رائے قارئین کے سامنے پیش کی جا رہی ہے ۔



ذیشان افضل(کہانی نویس، کالم نگار، استاد) دور حاضر میں جہاں سوشل میڈیا نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے وہیں ادب اطفال بھی اس کے مثبت اثرات سے محروم نہیں رہا۔ نئے لکھنے والوں نے اس پلیٹ فارم کا بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہوئے بچوں کے ادب کو مرکزنگاہ بنایا ہے۔اب وہ زمانہ نہیں رہا جب بچوں کے لیے لکھنے والے چند مخصوص رسائل یا اشاعتی اداروں کے محتاج ہوتے تھے۔ آج ایک نوجوان لکھاری سادہ سی پوسٹ یا مختصر ویڈیو کے ذریعے سینکڑوں بلکہ ہزاروں قارئین تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ بچوں کی کہانیوں کو دلچسپ انداز میں بیان کرنا، تصاویر یا ویڈیوز کے ساتھ پیش کرنااور براہ راست بچوں اور والدین سے رابطہ رکھنا اب نہایت آسان ہو چکا ہے۔ان تبدیلیوں کے نتیجے میں نہ صرف نئے موضوعات کو جگہ ملی ہے بلکہ بچوں کے لیے تخلیق کیے جانے والے ادب کا معیار اور دائرہ بھی وسیع ہوا ہے۔ اخلاقیات، تخیل، سائنسی سوچ، ماحولیاتی آگاہی اور سماجی ہم آہنگی جیسے موضوعات کو اب کہانیوں کا حصہ بنایا جا رہا ہے جو کہ پہلے بہت کم نظر آتے تھے۔اس ساری صورتحال کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ نئے لکھنے والے محض شہرت کے لیے نہیں بلکہ بچوں کے فکری، تخلیقی اور اخلاقی نشو و نما کے لیے بھی سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔
غلام زادہ نعمان صابری(ادیب الاطفال، مدیر)اس دور میں سوشل میڈیا مجبوری بن کر رہ گیا ہے۔ دیگر شعبوں کی طرح ادب اطفال میں بھی سوشل میڈیا اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ یقیناً نئے لکھنے والے لکھاری بھی سوشل میڈیا سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی کہانیوں کی تشہیر سوشل میڈیا کے ذریعے کرتے رہتے ہیں۔سو اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ دور حاضر میں نئے لکھنے والوں نے ادب اطفال کو سوشل میڈیا کے ذریعے مرکز نگاہ بنایا ہے۔


تسنیم جعفری(سائنس فکشن ادیبہ، بانی ادیب نگر)جی ہاں، بالکل۔فیس بک ہی تو تمام نئے لکھاریوں کے لیے سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے۔
آرسی رؤ ف(کہانی نویس)ادب اطفال کے بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ہی خود کو متعارف کروایا اور پھر اخبارات،رسائل اور بہت سے پلیٹ فارمز پر بھی اپنا نام بنایا۔ہماری کاوشات کہاں اور کب چھپی ہیں ان تک رسائی آسان ہوگئی۔سوشل میڈیا نے تخلیقات کی تشہیر میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔کچھ سینئر ز ان کی انسپریشن بنے اور کچھ تو ایسے بھی جو بہترین راہنما ثابت ہوئے۔کچھ لکھنے والے سینئرز کی راہنمائی کی بدولت عمدہ تخلیق کار بن کر سامنے آئے۔سوشل میڈیا نے لکھاری کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے اب تخلیق کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے،اس سے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بدولت لوگ بہ خوبی واقف ہوتے ہیں۔اور اپنی رائے کا رائے کا فوری اظہار بھی کر سکتے ہیں۔سرائے اردو کا تشہیری نیٹ ورک عمدہ ہے۔ان کی جانب سے تشہیری کہانیوں اور نظموں کاجو سلسلہ شروع کیا گیا وہ خوش آئند ہے۔



مہوش اشرف(کہانی نویس، استاد، شاعرہ)کسی حد تک کچھ لکھنے والے اسی کوشش میں نظر آتے ہیں، حالیہ دنوں میں احمد رضا انصاری نے اچھا قدم اٹھایا۔ امجد بھائی کا چینل بہت قلیل وقت میں بچوں میں مقبول ہو رہا ہے۔ Visual Aidکی حد تک تو یہ ایک اچھا اقدام ہے، پڑھنے لکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ کسی بھی چیز کی زیادتی اچھی چیز نہیں لہذا سوشل میڈیا پر بے مصرف مواد دیکھنے سے اچھا ہے کہ کچھ معیاری دیکھیں،سنیں اورپڑھیں۔


رب نواز ملک (سابق مدیر ماہ نامہ ہمقدم، ماہ نامہ پیغام، ماہنامہ روشن ستارے، سیکرٹری جنرل اسلامک سوسائٹی آف چلڈرن ہابیز پاکستان)ابھی سوشل میڈیا کا صارف ہمارے ملک میں اس قدر بالغ النظر نہیں ہے، البتہ لکھنے والا سوشل میڈیا کو مرکز نگاہ بنانا چاہتا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کے میلانات و رجحانات سے نابلد ہے۔ کونٹینٹ کو کس طرح کیسے اور کس وقت میں پیش کرنا ہے لکھاری کو معلوم ہی نہیں۔ میرا خیال ہے بدلتی دنیا کے ساتھ کم از کم دو ہزار کے بعد والی جنریشن / نسل اس طرف منتقل ہورہی ہے جس طرف دنیا منتقل ہورہی ہے۔ پاکستان میں ہر رجحان بہت دیر بعد adopt کیا جاتا ہے تب تک کوئی نئی ٹیکنالوجی متعارف ہو چکی ہوتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ لکھاریوں کو آگاہی دی جائے۔ ایسے پلیٹ فارمز موجود ہوں جہاں تنقید کی بجائے نت نئی راہوں میں ایک دوسروں کی مدد کی جائے۔


عبدالحفیظ شاہد(طالب علم، لکھاری، شاعر)آج کے دور میں ہر شخص کے ہاتھ میں موبائل فون ہے اور سوشل میڈیا زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ جہاں یہ دنیا بھر کے لوگوں کو آپس میں جوڑ رہا ہے، وہیں بچوں کے ادب کے لیے بھی ایک نئی دنیا کے دروازے کھل چکے ہیں۔ اب بچوں کے لیے ادب صرف کتابوں میں قید نہیں رہا، بلکہ فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب اور ٹِک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے یہ ادب ان کے قریب تر آ گیا ہے۔ والدین کے لیے بھی اب یہ آسان ہو گیا ہے کہ وہ بچوں کو اچھی کہانیاں، نظمیں اور معلوماتی مواد باآسانی دکھا اور سنا سکیں۔ادبِ اطفال کی شکل اب پہلے جیسی سادہ اور محدود نہیں رہی۔ جہاں پہلے صرف کہانی کی کتابیں اور رسالے بچوں کی دلچسپی کا ذریعہ تھے، وہاں اب آڈیو بکس، اینیمیٹڈ کہانیاں اور رنگ برنگے ویڑوئل مواد نے بچوں کے ادب کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔ اس کی بدولت وہ بچے جو پڑھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، وہ بھی سننے اور دیکھنے کے ذریعے علم اور اخلاقیات سے جڑ جاتے ہیں۔یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ سوشل میڈیا نے نئے اور نوجوان لکھنے والوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے جہاں وہ اپنی تخلیقات کو براہِ راست بچوں اور والدین تک پہنچا سکتے ہیں۔ انہیں کسی بڑے اشاعتی ادارے یا رسالے کی ضرورت نہیں، بلکہ وہ خود سے اپنی آواز بلند کر سکتے ہیں۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے جو ادب کو زندہ رکھنے میں نہایت مددگار ثابت ہو رہی ہے۔گزشتہ زمانوں میں بچوں کے ادب پر کام ضرور ہوتا تھا، لیکن آج جیسی رفتار، توجہ اور تسلسل سے شاید ہی کبھی ہوا ہو۔ اب مستقل بنیادوں پر کہانیاں لکھی جا رہی ہیں، پروگرامز منعقد ہو رہے ہیں، اور ادارے خاص طور پر بچوں کے لیے مواد تیار کر رہے ہیں۔ اس تسلسل نے بچوں کے ادب میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔آج کے لکھاری یہ بھی ب خوبی سمجھتے ہیں کہ صرف تفریح ہی کافی نہیں، بلکہ ادب کا مقصد بچوں کی تربیت بھی ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل جو کہانیاں لکھی جا رہی ہیں، وہ نہ صرف دلچسپ ہوتی ہیں بلکہ ان میں اخلاقی سبق، معاشرتی اقدار اور انسان دوستی جیسے پہلو بھی شامل ہوتے ہیں۔ بچے جب ایسی کہانیاں سنتے یا دیکھتے ہیں، تو ان کے دل و دماغ پر اچھا اثر پڑتا ہے اور وہ بہتر انسان بننے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہو سکا ہے کہ سوشل میڈیا نے ادبِ اطفال کو محدود دائرے سے نکال کر ایک وسیع، رنگین اور جاندار دنیا میں پہنچا دیا ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس مثبت تبدیلی کو سراہیں، اس کا حصہ بنیں، اور بچوں کے لیے بہتر مواد تخلیق کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں۔


اسد بخاری(ادیب الاطفال، ڈرامہ نگار)جی بالکل۔نئے لکھنے والوں نے سوشل میڈیا کو ہی تو ہتھیار بنایا ہے۔ سوشل میڈیا کے علاوہ انھیں کوئی اور نہیں جانتا،اور نہ ہی بچوں کے رسائل اور اخبارات تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، یہاں ہی اپنی تعریف سن کر خوش ہوجاتے ہیں۔ جب سوشل میڈیا نہیں تھا تو داد کیسے حاصل کی جاتی تھی، خود چھپوانے اور منوانے کے لیے میلوں کا سفر کرکے اخبارات کے آفس جانا پڑتا تھااور پھر انتظار، اب تو رزلٹ دس منٹ بعد مل جاتا ہے وہ بھی ایک دوسرے کی تعریفیں کرکے۔سوشکل میڈیا نے بہت رائٹر پیدا کیے ہیں لیکن بہت جلد بڑے رائٹر بن جاتے ہیں کہ ساری دنیا کا گیان انہی کو ہے۔سیکھتے اور پڑھتے نہیں ہیں بس وہی کچھ پڑھتے ہیں جو فیس بک پر لکھاہوتاہے۔



دانیال حسن چغتائی (ادیب الاطفال، مدیراعلیٰ سہ ماہی باغیچہ اطفال)عصرِ حاضر میں سوشل میڈیا کے بامعنی اور بھرپور استعمال نے جہاں دیگر اصنافِ ادب کو نئی جہات بخشیں، وہیں ادبِ اطفال کو بھی نئی زندگی عطا کی۔ مگر اس امر سے انکار محال ہے کہ ادبِ اطفال کا وہ وقار، جو ماضی میں مخلص اہلِ قلم کے توسط سے قائم تھا، اب دلچسپ مشغلہ بن کر رہ گیا ہے۔ اسے وہ آسان صنف سمجھ لیا گیا ہے کہ جس کا کسی صنف ادب پر داؤ نہیں چلتا وہ ایسے ہی مشق ستم بنا لیتا ہے۔ آج کل کے نوجوان لکھنے والے فیس بک، یوٹیوب، انسٹاگرام و دیگر ذرائع ابلاغ پر بچوں کی کہانیاں، اشعار اور ویڈیوز تو ضرور پیش کرتے ہیں، مگر ان کی بیشتر تخلیقات میں فکری گہرائی، اخلاقی پیغام اور لسانی سلیقہ عنقا ہوتا ہے۔زمانہ قدیم میں جب ادب لکھا جاتا تھا تو اس میں تہذیب و تمدن کی جھلک، ناصحانہ اسلوب اور بچوں کی ذہنی تربیت کو اولین حیثیت حاصل تھی۔ برخلاف اس کے، موجودہ زمانے میں سوشل میڈیا پر ادبِ اطفال کی جو شکل سامنے آئی ہے، وہ اکثر محض رنگینی، ہنسی مزاح یا وقتی دلچسپی پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والے بہت جلدی مشہور ہونے کی چاہت میں وہ کچھ لکھ جاتے ہیں جس کا ادب اطفال سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ البتہ یہ کہنا بھی سراسر زیادتی ہوگی کہ تمام نئے لکھنے والے سطحی کام ہی کر رہے ہیں۔ چند نوجوان مصنفین بچوں کے لیے معیاری اور بامقصد مواد تخلیق کر رہے ہیں۔ انہوں نے روایتی قصہ گوئی کو جدید رنگ میں ڈھال کر سوشل میڈیا کو بچوں کی ذہنی پرورش کا وسیلہ بنایا ہے۔اگرچہ سوشل میڈیا نے ادبِ اطفال کو وسعت بخشی ہے، مگر اس وسعت میں معیار اور مقصدیت کا توازن قائم رکھنا ہر لکھنے والے کے لیے چیلنج ہے۔ اس ضمن میں جہاں با مقصد اور تعمیری تنقید ضروری ہے، وہیں امید کی کرن بھی باقی ہے کہ اگر موجودہ نسل سنجیدگی سے مطالعہ اور تحقیق کے ساتھ تخلیق کرے تو ادبِ اطفال کا سنہرا دور دوبارہ لوٹ سکتا ہے۔


ماریہ سحر(ادیب الاطفال)پوری طرح سے تو نہیں کہا جاسکتا، لیکن نئے لکھنے والوں نے کوشش کی ہے ادب اطفال کو مرکز نگاہ بنانے کی۔

سدرہ لیاقت علی (قائم مقام سرپرست تحریک دفاع قومی زبان و لباس، مضمون نگار) دور جدید میں تیز رفتار بھاگتی دوڑتی دنیا میں لکھاریوں نے اپنا نام اور مقام خوب بنایا ہے۔ آج کا ادب اطفال صرف پرنٹ میڈیا تک محدود نہیں رہا بلکہ الیکٹرونک میڈیا پر چھایا ہوا ہے۔ پہلے بچوں کی دلچسپی کا مواد محدود پیمانے پر تھا جب کہ آج سوشل میڈیا پرآپ کو ہر قسم کا مواد مل جائے گا۔ نئے لکھاریوں نے بچوں میں مثبت فکری سوچ، حب الوطنی، ذہن اور کردار سازی کے ساتھ ساتھ ادب اطفال کو مرکز نگاہ بنایا ہے۔


نازیہ نزی(شاعرہ،لکھاری)سوشل میڈیا تک تو آج کل سبھی کی رسائی ہے۔اور اس ضمن میں بچوں کے لیے بہت سا مواد مختلف پلیٹ فارمز پر شئیر کیا جا رہا ہے۔جس میں فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب، اور ٹِک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر نئے لکھنے والے موجود ہیں۔جو اپنی کہانیاں، نظمیں، اور ویڈیوز شیئر کرتے ہیں؛ بل کہ کارٹونک انداز سب سے بہترین ہے جس سے بچوں اور والدین کی رسائی آسان ترین ہو گئی ہے۔ میں زیادہ دور نہیں جاوں گی ہمارے خیبر ہی سے رھبان احمد صاحب یوٹیوب چینل پر کہانیاں اور بہت سا بچوں کا مواد کونپلیں ادارے کی طرف سے آڈیو شکل میں پیش کرتے ہیں جو سننے والوں کے لیے بہت کار آمد ہے۔اس لیے اب ادبِ اطفال صرف تحریر تک محدود نہیں رہا بلکہ آڈیو بکس، کارٹون کہانیاں، اور ویژوئل کہانی سنانے کے انداز نے اسے مزید پْرکشش بنا دیا ہے۔اور کئی پلیٹ فارم نشرو اشاعت کا کام کر رہے ہیں۔ یہاں میں مزید اضافہ کرتی چلوں کہ سوشل میڈیا ہی ہے؛ جس نے نوجوان لکھنے والوں کو ایک مضبوط پلیٹ فارم دیا ہے۔جس کے تحت نوجوان اپنی تخلیقات با آسانی بچوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ ہمارا ادارہ ”کونپلیں خیبر پختونخوا“ ہی کو لے لیجیے! اسی طرح”سرائے اردو“بھی بہت کام کر رہا ہے تو کیا اس میں محنت نہیں لگتی؟ سب اپنی تخلیقات براہِ راست قارئین تک پہنچا سکتے ہیں۔پھر سب سے مزے کی بات تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر کچھ ایسے گروپس اور احباب موجود ہیں۔”ہماری اور آپ کی طرح“ جو سب کو کہانیاں پڑھنے اور بچوں کو پڑھانے کی ترغیب دیتے ہیں؛ جس پر باقاعدہ گفت و شنید بھی ہوتی ہے۔ میں یہاں سرائے اردو کی جانب سے جو گوگل میٹ پروگرامز کا ذکر ضرور کروں گی،جو مختلف موضوعات لے کر آتے ہیں اور ادب اطفال کے حوالے سے لوگوں کی گرہیں کھولتے ہیں۔سبھی جانتے ہیں آج کل جس طرح مثبت انداز میں بچوں کے لیے لکھنے کی کمر کسی جا رہی ہے؛شاید ہی کبھی اتنا لکھا گیا ہو! اگر لکھا بھی گیا ہے تو وہ سال ہا سال پر محیط ہے۔جب کہ اب کا کام بہت زیادہ تواتر سے اور اعلی بنیادوں ہر توجہ سے کیا جا رہا ہے،جو بچوں کے لیے نہ صرف تفریحی ہے؛ بل کہ تربیتی اور اخلاقی پہلو بھی سامنے رکھتا ہے۔اگر کوئی میری بات سے اتفاق نہیں کرتا تو وہ اشاعتی ادارے روایتی قسم کے جو ہیں ان کو چھوڑ کر سوشل میڈیا پر متحرک اور فعال آن لائن اداروں کو دیکھ سکتا ہے کہ کتنے بہت سارے لوگ ادب اطفال کے لیے سرگرم ہیں اور کام کر رہے ہیں،لکھ رہے ہیں، پھیلا رہے ہیں اور انھوں نے سب ادبا اور شعراء کو جوڑ کر رکھا ہے۔


حامد محمود(استاد، کالم نگار)میری فرینڈ لسٹ میں جو نئے لکھنے والے ہیں وہ تو بھر پور طریقے سے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔
صبیحہ قاضی (کہانی نویس)دورِ حاضر میں نئے لکھنے والوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ادبِ اطفال کو نئے انداز میں پیش کیا ہے۔ ویڈیوز، آڈیوز اور تصویری کہانیوں کے ذریعے بچوں کے لیے دلچسپ اور سبق آموز مواد تخلیق کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ بچے خود سوشل میڈیا کو مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کر سکتے،لیکن یہ مواد والدین، اساتذہ، اور اسکولوں کے ذریعے ان تک پہنچایا جا سکتا ہے، جیساکہ واٹس ایپ گروپس، ڈیجیٹل کلاس رومز اور سمارٹ بورڈز کے ذریعے، زوم یا گوگل میٹنگ کے ذریعے تاکہ بچے محفوظ اور مؤثر ماحول میں ادب سے جڑ سکیں۔


عمارہ کنول چودھری(بانی و سرپرست تحریک دفاع قومی زبان و لباس)اس حقیقت سے انکار نہیں کہ دور حاضر سماجی ذرائع ابلاغ کا ہے۔سماجی ذرائع ابلاغ نے نوآموز / نئے لکھاریوں کی مشکل آسان کر دی ہے ان کے لیے مختلف اداروں تک رسائی کو ممکن بنا دیا ہے ان کو سماجی ذرائع ابلاغ کی بدولت ناموری نصیب ہوئی ہے یہی معاملہ شعبہ ادب اطفال کا ہے جس کو سماجی ذرائع ابلاغ نے نئی جہت بخشی ہے۔آج کل کے بچے چونکہ جوال/محمول(Mobile)کے زیر اثر رہتے ہیں اپنا زیادہ وقت گزارتے ہیں اور کتابیں کم پڑھتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شعبہ ادب اطفال سماجی ذرائع ابلاغ کے ذریعے مرکز نگاہ بنا ہے اور اگر کسی بھی شخص، شعبہ،ادارہ،لکھاری نے مقبولیت حاصل کرنی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سماجی ذرائع ابلاغ پر بھی فعال/ متحرک رہیں۔


نغمہ عزیز(قلم کار)جی بالکل،نو آموز لِکھاریوں نے کسی حد تک ادبِ اطفال کو سوشل میڈیا کے ذریعے مرکز ِ نگاہ بنانے کی سعی کی ہے،اگرچہ ابھی یہ بہت مقبول نہیں۔ مگر آج کے جدید دور میں جب ہر طرف برقی آلات مستعمل نظر آتے ہیں تو اس لحاظ سے یہ نئے لکھاریوں کے لیے ایک آسان اور سستا ذریعہ ہے،جِس سے فائدہ اْٹھا کر بچوں کو ادب اطفال کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے۔
رباب بی بی(مضمون نگار)بچوں کا ادب کبھی نانی اماں کی گود میں سنائی جانے والی لوریوں تک محدود تھا، مگر آج یہ اسکرین کی روشنیوں میں پلنے لگا ہے۔ سوشل میڈیا اب صرف تصویروں کا گھر نہیں رہا، بلکہ کہانیوں کا جھولا بھی بن چکا ہے۔ نئے لکھنے والے وہ چراغ ہیں جو لفظوں سے جگنو تراش رہے ہیں اور ان جگنوؤں کی روشنی میں بچے خواب بْنتے ہیں۔ ادبِ اطفال اب صرف کاغذ کے صفحوں تک محدود نہیں، بلکہ انگلی کی جنبش میں سانس لیتا ہے، تبصروں میں مسکراتا ہے، اور دلوں میں راستہ بناتا ہے۔ یہ تبدیلی صرف خوش آئند نہیں، بلکہ خواب آرا بھی ہے۔


۔ختم شد۔

نوٹ: یہ مضمون ماہ نامہ قومی زبان، کراچی کے اکتوبرع٢٠٢٥ کے شمارے میں شائع ہو چکا ہے۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 411 Articles with 603008 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More