طارق حیات وافکارِ اقبال کا اجمالی جائزہ

طارق محمود مرزا نے ”دانائے راز“ کے عنوان سے جو مقالہ لکھا وہـ انہیں علامہ اقبالؒ کی قربت سے
آشکار کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہوا۔جس کا منہ بولتا ثبوت ان کی زیرِ نظر کتاب ”حیات وافکارِ اقبال“ ہے۔

طارق حیات وافکارِ اقبال کا اجمالی جائزہ اور مرزا
ڈاکٹرافضل رضوی-ایڈیلیڈ، آسٹریلیا
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید؟
نسیمِ از حجاز آید کہ ناید؟
سر آمد روزگار ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید؟
معروف سفر نامہ نگارطارق محمود مرزا نیو ساؤتھ ویلز کے دارالحکومت سڈنی میں دوتین دہائیوں سے آباد ہیں۔ پاکستان اور آسٹریلیا میں ان کی ایک پہچان ہے جو انہوں نے اپنے حسن ِ اخلاق اور اعلیٰ ظرفی کی بدولت حاصل کی ہے۔طارق مرز ا کا صحافت سے گہرا تعلق ہے اوران کے کالم مختلف اخبارارت اور رسائل و جرائدکی زینت بنتے ہیں۔یہی نہیں سڈنی میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ سیروسیاحت ان کے رگ و پے میں ہے چنانچہ اب تک انگلینڈ، فرانس، سویٹزلینڈ،جرمنی، ہالینڈ، بیلجیم، ڈنمارک سویڈن، ناروے، فن لینڈ، جاپان، تھائی لینڈ، سنگا پور، سلطنت آف عمان، متحدہ عرب امارات اور قطر کے علاوہ نیوزی لینڈکی سیاحت کرچکے ہیں۔ملکوں ملکوں گھومنے کے شوق نے انہیں سفر نامے کی صنف میں بلند مقام پر فائز کر دیا ہے۔ ان کے سفر ناموں پر پاکستان کی بہت سی درس گاہوں میں تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں اور لکھے جارہے ہیں۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ طارق مرزا سفر نامے کی صنف میں بیرون ِ پاکستان بسنے والے سفر نامہ نگاروں میں معتبر ترین درجہ رکھتے ہیں اوران کے قلم نے ان کے سیاحتی مشاہدات و تجربات کو قرطاسِ ابیض پر بکھیر کر اوراقِ تاریخ و ادب میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیاہے۔قبل ازیں راقم الحروف ان کے دو سفر ناموں پر اظہارِ خیال کر چکاہے۔ ”دنیا رنگ رنگیلی“ اردو ادب کے چند بہترین سفرناموں میں سے ایک ہے جب کہ گزشتہ سال شائع ہونے والا سفر نامہ ”ملکوں ملکوں دیکھا چاند“ ان کے گزشتہ تمام سفرناموں پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس سفر نامے کی تقاریبِ پذیرائی سڈنی اور میلبورن میں منعقد ہو چکی ہیں اور راقم الحروف نے ان تقاریب میں طارق مرزا کے فن و شخصیت اور اسلوبِ بیان پر سیر حاصل گفتگو بھی کی۔
پاکستان -آسٹریلیا لٹریری فورم (پالف آسٹریلیا) انکارپوریٹڈ نے سال2020ء میں آسٹریلیا کی تاریخ میں پہلی بار اقبال پروجیکٹ کا آغاز کیا؛جس میں پروفیسر محمد رئیس علوی مرحوم نے ”علامہ اقبال ؒ اور عشقِ رسول ﷺ“ کے عنوان پر مقالہ رقم کیا۔ بعد ازاں رقم الحروف کی درخواست پر دیگر احباب نے بھی مستعدی دکھائی اور طارق محمود مرزا کا مقالہ ”دانائے راز“، ریحان علوی کامقالہ”مغرب، فلسفہ خودی اور میں“، ڈاکٹر نعمت اللہ چیمہ کا مقالہ”اقبال: یقین اور عمل“، ڈاکٹر محمد جہانگیرکا ”سیرت النبی ﷺ اور افکارِ اقبال“، ڈاکٹر محمد محسن علی آرزوؔکا مقالہ”اقبال اور مغربی نظریہ جمہوریت“ اور”سیدہ ایف۔گیلانی کا مقالہ”افکارِ اقبال اور قرآن وسنت کی روشنی میں عورت کا مقام“ موصول ہوئے؛جو”آسٹریلیا میں اقبالیات کی خشتِ اول“کا حصہ ہیں۔علاوہ ازیں، ڈاکٹر عزیزالرحمن عزیز کامقالہ بعنوان ”علامہ اقبال کا تصورِمرگ وحیات“ اور راقم الحروف کا مقالہ بعنوان”کلامِ اقبال ؒکی روشنی میں ِ حرّیت اور جذبہئ حریت“ بھی شامل ہیں۔
طارق محمود مرزا نے ”دانائے راز“ کے عنوان سے جو مقالہ لکھا وہ انہیں علامہ اقبالؒ کی قربت سے آشکار کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہوا۔جس کا منہ بولتا ثبوت ان کی زیرِ نظر کتاب ”حیات وافکارِ اقبال“ ہے۔ یہ کتاب ان کی افکارِ اقبالؒ سے دلچسپی کی غماز وعکاس ہی نہیں بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ عصرِحاضر میں فکر ِ اقبالؒ کی ترویج و اشاعت کی بے حد ضرورت ہے۔”دانائے راز“ کے عنوان سے مقالہ رقم کرکے طار ق مرزا پہلے ہی اقبال شناسوں کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں لیکن ”حیات وافکارِ اقبال“ کی اشاعت سے ان کا نام علامہ اقبال ؒ کے افکار اور حیات پر گہری نظر رکھنے والوں میں شمار ہو گا۔
راقم الحروف نے ان کی اس کاوش کا بغور مطالعہ کیا ہے اور پورے وثوق کے ساتھ اس بات کا اظہار کر سکتا ہے کہ راقم الحروف نے فکر ِ اقبالؒ کی آبیاری کا جو پودا چند سال پہلے سرزمینِ آسٹریلیا پر لگایا تھا؛طارق مرزا آنے والے دنوں میں اس فکر و فلسفہ کو آسٹریلیا میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ان کی اس تالیف میں بہت سے پرانے حوالے نئے پیرائے میں بیان کیے گئے ہیں جو یقینا قارئین کے لیے دلچسپی کا موجب بنیں گے۔ مثلاً، ایک جگہ مصنف علامہ اقبال کی متروک شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”اگر ان کی متروکہ شاعری کو جمع کیا جائے تو وہ بھی ہر اعتبار سے انتہائی بلندپایہ کلام ہے۔ بڑے بڑے شعرا ایسا ایک شعر کہنے سے بھی قاصرہیں۔ مگر ظاہر ہے اقبالؒ کا اپنا معیار تھا اور اپنی فکر تھی،جس تک دوسروں کی رسائی نہیں ہو سکتی“۔
طارق مرز ا چونکہ بنیادی طور پر سفر نام نگار ہیں؛چنانچہ ان کے اس فن کا عکس ان کی اس کتاب میں بھی جھلکتا ہے۔ ایک جگہ جب وہ جرمنی کے اپنی سیاحتی دورے کا ذکر کرتے ہیں اور علامہ اقبالؒ جس گلی میں قیام پذیر رہے وہاں پہنچتے ہیں تو اس کا اظہاران کے اسلوب کا منہ بو لتا ثبوت ہے۔ لکھتے ہیں:
ہائیڈل برگ میں جو مختصر وقت ملا اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اپنے ایک ہم سفر کے ہمراہ اس گلی میں جا پہنچا جہاں شاعرِ مشرق کا قیام تھا۔ یہ گلی ڈھونڈنے میں ہمیں خاصی دقت پیش آئی کیونکہ جرمن ٹیکسی ڈرائیور میری اور میں اس کی زبان سمجھنے سے معذور تھا۔ اس دور میں نیوی گیٹر(navigator) بھی عام نہیں ہوئے تھے۔ بالآخراسٹریٹ ڈائریکٹری کی مدد سے ہم نے وہ گلی ڈھونڈ نکالی۔ گلی کے آغاز میں کھمبے پر جو تختی لگی تھی اس پر درج تھا:
Iqbal-Ufer
Dr Mohammad Iqbal (1877-1938)
Pakistan Seher Dichter and national Philosoph
میں گلی کے کنارے کھڑا تقریباً ایک صدی قبل کے ان لمحات کو ذہن میں لانے کی کوشش کر رہا تھا جب وہ عظیم فلسفی شاعر اس گلی میں سے گزرتا ہو گا۔ سامنے دریائے نیکر محوِ خرام ناز ہو گا۔ دوسری جانب سبزے کی چادر میں لپٹا کہسار (Konigstuhl) جھانکتا ہو گا۔ ان دلفریب مناظر کو دیکھ کر اقبال کے شاعرانہ احساسات اور جذبات کی کیفیت کیا ہوتی ہو گی۔ یہ دلکش اور رنگین نظارے ان کے شاعرانہ تخیل کو کس قدر مہمیز دیتے ہوں گے۔ پھر یہ خیال آتا کہ شاعر کے تصورا نہ تخیل میں جو منظر بسے ہوتے ہیں کوئی خارجی منظر ان کا نعم البدل
نہیں ہو سکتا۔ شاعر کے تخیل میں ایک جہاں آباد ہوتا ہے۔ وہ جب چاہتا ہے اس میں سے اپنا من چاہا منظر منتخب کرتا ہے اور اس کی تصویر کشی کرتا چلا جاتا ہے۔
اسی طرح جب وہ مسجدِ قرطبہ کا ذکر کرتے ہیں تو جہاں علامہ اقبالؒ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں وہیں ان کے فلسفہ زمان ومکان کی بھی خوب صورتی سے عکاسی کرجاتے ہیں۔”عام شعرا اور اقبالؒ میں یہی فرق ہے کہ وہ مسلمانوں کی اس عظیم مسجد کے منظر سے اپنے فلسفیانہ خیالات کو شعری جامہ پہنا دیتے ہیں۔ عام شاعر اس سے منظر نگاری یا پھر زیادہ سے زیادہ احساسِ زیاں کی شاعری کرتا مگر اقبال نے اس میں فلسفہ زمان و مکاں بیان کر دیا“۔
علامہ اقبال کی قرآنِ مجید فرقان ِ حمید سے محبت کا اظہارکچھ ان الفاظ میں رقم ہوا ہے:
جوں جوں اقبال قرآن اور اسلام کا دامن تھامتے چلے گئے وہ عام شاعر کے مقام سے بلند ہو کر اسلام کے داعی اور انسانیت کی فلاح کے علمبردار بن گئے۔ وہ قومیت اور وطنیت کے جال سے بھی نکل آئے تھے۔ ان کا مخاطب اگرچہ عام انسان تھا مگر مردِ مومن سے انہوں نے جو کلام کیا وہ سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔۔۔علامہ اقبال کی فکر اور فلسفہ ُامّت مُسلمہ کا ترجمان اور تہذیب مشرق کا نگہباں تھا۔ وہ مفکّر بھی تھے اور فلسفی بھی،مفسّر قرآن بھی اور علوم ِاسلامی کے عالم بھی، اسلامی اقتصادیات کے ماہر بھی اور بین الاقوامی مدبّر بھی اور انتہائی دُور اندیش رہنما بھی۔ان تمام حیثیتوں میں انہیں اوجِ کمال حاصل تھا۔
طارق مرزا نے اپنی اس کاوش میں سید ابو العلیٰ مودودی کے ایک بیان کا حوالہ دے کر ثابت کیا ہے کہ اس نابغہ ئ روز گارکو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے کس قدر محبت تھی:
قرآن مجید کی تلاوت سے ان کو خاصا شغف تھا اور صبح کے وقت بڑی خوش الحانی سے پڑھا کرتے تھے۔ اخیر زمانے میں طبیعت کی رقت کا یہ حال ہو گیا تھا کہ تلاوت کے دوران میں روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور مسلسل پڑھ ہی نہ سکتے تھے۔ نماز بھی بڑے خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے مگر چھپ کر۔ ظاہر میں یہی اعلان تھا کہ نرا گفتار کا غازی ہوں۔
ایک اور جگہ اسی مضمون کو علامہ اقبالؒ کے رفقاء (غلام بھیک نیرنگ (طالب علمی کے دور کے دوست)، سر عبد القادر، عطیہ فیضی، فقیر وحید الدین اور خلیفہ عبد الحکیم کے حوالے سے بھی ان کی پرہیز گاری اور قرآن سے لگاؤاور اللہ کے رسول ﷺسے گہری محبت کو بیان کیا ہے:
ہر ایک نے اقبال کی اسلام سے رغبت، قرآن سے محبت اور عشقِ رسولؐ کا ذکر کیا ہے۔ یہ بھی نوٹ کرنے کی بات ہے کہ اقبال ساری زندگی علی الصبح اٹھنے کے عادی تھے۔ تہجد اور نمازِ فجر ادا کرتے اور قرآن کی تلاوت ان کے روزمرہ کے مشاغل میں تھی۔ حتیٰ کہ یورپ کی رنگین فضا، مجرد زندگی اور یخ بستہ موسم میں بھی ان کی یہ عادت برقرار رہی۔
طارق مرزا نے اپنی اس کاوش میں علامہ اقبال کی ابتدائی زندگی، تعلیم وتربیت، اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور آمد پھر یورپ روانگی اور وہاں کی تہذیب وتمدن، اردو اور فارسی شاعری،درس وتدریس اور وکالت کے پیشے، سیاست میں کردار نیز ان کی کتب اسرار ورموز سے لے کر ارمغانِ حجاز تک سب کا سرسری جائزہ پیش کر دیا ہے۔ یوں یہ کتاب عام قاری کی دلچسپی کا موجب بن کر ابھرے گی اور اسے نگاہِ تحسین سے دیکھا جائے گا۔
طارق مرزا ایک کہنہ مشق نثر نگار ہیں۔ ان کی تحریریں کالموں کی شکل میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔جہاں تک ان کے اندازِ بیان اور اسلوب اور شخصیت کا تعلق ہے تو پروفیسر محمد رئیس علوی تو اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے انہیں ایک ایسی سند عطا کر گئے ہیں جو کسی کسی کے حصے میں آتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ”میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ میں طارق مرزا کے شہر میں رہتا ہوں “۔ پاکستان کے معروف ادیب پروفیسر رئیس احمد صمدانی لکھتے ہیں،”کچھ عرصہ قبل مرزا صاحب نے یورپ کا سفر نامہ ’ملکوں ملکوں دیکھا چاند‘ مجھے ارسال کیا تھا جس پر مَیں نے بساط بھر اظہار خیال کیا تھا۔ سفر نامہ سے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ مرزا جی کے قلم میں طاقت ہے الفاظ کو خوبصورت جملوں میں پرونے کی“۔
غرض یہ کہ طارق محمود مرزا نہایت سنجیدہ لیکن حزب ِ مراتب اور محبت سے لبریز لہجہ کے مالک ایک ایسے ادیب ہیں جو ہر کسی کو چشمِ زدن میں اپناگرویدہ بنا لیتے ہیں۔ ان کا تعلق راولپنڈی کی تحصیل گوجر خاں سے ہے۔پاکستان میں ان کی ادبی خدمات کو تسلیم کیا جارہا ہے جس کا منہ بولتا ثبوت ان کے سفر ناموں پر جامعات میں لکھے جانے والے تحقیقی مقالات ہیں۔حال ہی میں انہوں نے علامہ اقبال سے اپنی عقیدت کا بھر پور اظہار کرتے ہوئے سڈنی میں پہلی مرتبہ اقبال سیمنار کا اہتمام کیا جس میں ایڈیلیڈ سے راقم الحروف نے خصوصی طورپر شرکت کی۔
آخر میں طارق مرزا کو اقبال شناسوں کی صف میں شامل ہونے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان کا قلم اس سلسلے کو رکنے نہیں دے گا اور وہ حکیم ا لامت کے فلسفے اور خیالات کو آسٹریلیا میں آباد پاکستانی آسٹریلینزتک پہنچانے کا کام جاری رکھے گا۔ علامہ اقبالؒ کے ان اشعار کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ:
گر دلم آئینہ بے جوہر است
ور بحر فم غیر قرآں مضمر است
پردہئ ناموسِ فکرم چاک کن
ایں خیاباں را زِ خارم پاک کن
روزِ محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسۂ پاکن مرا

Dr Afzal Razvi
About the Author: Dr Afzal Razvi Read More Articles by Dr Afzal Razvi: 137 Articles with 230976 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allamah
.. View More