ریاست ِ پاکستان کس کے زیر اثر

سن 1940ءتا 1947ئ کا دور تحریک پاکستان کے عروج کا دور کہلاتا ہے ، اس دور میں بھارت کے ہر مسلمان کے ذہن میں ایک ہی خیال رچا بسا تھا کہ ایک ایسی مملکت بنائیں گے جس میں اللہ اور اس کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دین کا دور دورہ ہوگا جس میں خلفائے راشدین کے نقش قدم پر ریاست کا نظام جاری رہے گا اور وطن عزیز پاکستان میں غیر مسلموں کا اسلامی احکامات کے تحت حقوق دیئے جائیں گے اور وطن عزیز پاکستان میں ہر زبان بولنے والا مسلم ایک دوسرے کا بھائی ہوگا جس میں رنگ و نسل کے بغیر ایک دوسرے سے رشتہ داریاں بڑھائی جائیں گی تاکہ محبتیں ایک دوسرے کیلئے پیدا ہوسکیں ۔ تحریک پاکستان کے کارکنان جانتے تھے کہ نبی پاک ﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں فرمایا تھا کہ آج دین مکمل ہوگیا ہے کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں سوائے تقوی پر۔۔۔۔!!تحریک پاکستان کے کارکنان آپ ﷺ کی محبت سے سرشار تھے اسی لیئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں آزادی کی نعمت سے نواز۔۔۔۔ اُن وقتوں میں ایسے بھی گروہ کارفرما رہے جنہیں پاکستان کا وجود قطعی پسند نہ تھا اور اُن کی خواہش تھی کہ مسلمان اسلامی ریاست نہ بنا سکیں ۔یاد رہے نبی پاک ﷺ کے دین سے اختلاف دور محمدی ﷺ سے چلا آرہا ہے اور شیطان نے اپنے حواریوں کو دین اسلام کے خلاف کاروائی میں ہمیشہ مصروف رکھا ہے ،یہ ضروری نہیں ہے کہ شیطان کے حواری غیر مسلم ہی ہوں ان میں کثیر تعداد ان مفافقوں کی ہے جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر دین اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہچانے کے درپے ہوتے ہیں ۔

ان میں قادیانی گروہ ایسا ہے جو پاکستان کے بنے کے بعد جڑوں میں بیٹھتا چلاگیا اور ریاست پاکستان کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوکر اپنے مزموم عزائم کو حاصل کرنے لگا۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد قادیانیوں کو راستہ ہموار نظر آیا۔ ریاست پاکستان میں افواج، بیوروکریٹس، سیاستدان کی صفوں میں قادیانی جوق در جوق داخل ہونے لگے۔ ۔۔۔۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایمان والے مسلم سپہ سالار یا لیڈر اپنے اندر خوف خدا اور عشق رسول سے سرشار ہوا کرتے تھے ،اسی بابت وہ زنا، جھوٹ، دھوکا،ظلم و ستم اور شراب نوشی سے کوسوں دور رہتے تھے ۔۔مسلم سپہ سالار اور رہنما وہ ہوتا ہے جس میں انتہائی عاجز، شریف النفس، پرہیزگار و متقی اور سچا و ایماندار ی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے وہ اپنی ذمہ داریوں پر مکمل یقین رکھتا ہے کہ اسے جواب دہ ہونا ہے رب العزت کی بارگاہ میں۔۔۔کیا ریاست پاکستان میں سپہ سالار و رہنما ایسے آئے یا ہیں ؟؟ اس کا احاطہ پاکستانی عوام ہی کرسکتے ہیں۔۔۔ !! پاکستان میں جہاں آمریت کی حکومتوں نے پنجے گاڑے وہاں نام نہاد جمہوری حکومتوں نے بھی عوام کا جینا محال کیئے رکھاریاست پاکستان میں درحقیقت آج بھی قادیانیوں کے اثرات پائے جاتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ یہود و عیسائیوں اور دیگر غیر مسلموں کی پشت پر پاکستان کی داخلی و خارجی معاملات میں بالواسطہ و بلا واسطہ مداخلت جاری ر کھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیرون طاقت کے ممالک ریاست پاکستان کی نمائندگی کیلئے اپنے من پسند لیڈران کا انتخاب کرتے نظر آتے ہیں تاکہ عام عوام مشکل در مشکل میں پھنسے رہیں اس کے علاوہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں بھی کوئی نہ کوئی اشو بناکر آپس میں دست گربیاں تک پہنچاتے رہتے ہیں ان کی تمنا رہتی ہے کہ پاکستان میں صاف ستھری سیاست کبھی بھی پنپنے نہ پائے حالات اس قدر پرگندہ کیئے جائیں کہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی طرف یہ یکجا ہوکر کام نہ کرسکیں ۔ انھوں نے سیاستدانوں کے ذہنوں کو طلب دولت کا ایسا زہر ڈال دیا ہے کہ اب بیشتر ساستدان میں درد عوام حقیقت میں نظر نہیں آتا ۔ یہاں بیشتر سیاسی پارٹیوں میںبڑے بڑے عوامی فلاحی امور پر دعوے تو ہوتے ہیں مگر عملی طور پر خالی نظر آتے ہیں کیونکہ اگر عمل کرنا شروع کردیا تو کمیشن کی روایت دم توڑ دےگی اور یوں ان کی عیش و عیاشیوں پر اثر پڑجائے گا، ہماری افواج غافل ہے یا کسی مصلحت پر خاموش!! کیونکہ دشمنان پاکستان دبے پاﺅں ہمارے معاشرے اور ریاست کو نا تلافی نقصان سے دوچار کررہے ہیں ۔۔۔ افواج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ بیرون ممالک کے جاسوس اور دہشتگرد با آسانی ملک پاکستان میں داخل ہوتے جارہے ہیں اور حیرت تو یہ ہے کہ اگر پکڑے جائیں تو با عزت رہا کردیئے جاتے ہیں کیونکہ مائی باپ کا حکم جو آجاتا ہے۔ آخر ماسئی باپ کو پاکستان کے اندرونی مداخلت پر کیوں نہیں روکا جاتا ؟؟ کیا مراعات اور دولت کا حصول روک دیا جائے گا۔ فنڈ اگر ملتے ہیں تو کہاں جاتے ہیں فرض کیا کہ حکمران عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرتے ہیں تو کام کیوں نہیں نظر آتا ، یہاں تو ہر شعبہ معذور اور کمزور ہوتا جارہا ہے ۔ مہنگائی آسماں کو چیر رہی ہے، غریب کا جینا محال بن گیا ہے، یہ کیسی عوامی حکومت ہے؟؟؟پاکستان کی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کا حال بھی کچھ اچھانہیں ؟۔۔۔ پولیس کا ہے کام جیب خالی آپ کی۔۔۔!! کے مسودے پر پاکستان بھر کے پولیس افسران سے لیکر پولیس کانسٹیبل تک ، سب کے سب کسی چور ڈاکو سے کم نہیں بلکہ عوام میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ پولیس کا محکمہ آج ڈاکوﺅں، چوروں کی تربیت گاہ بن چکا ہے اور پھر عدلیہ میں کام کرنے والے پیشکار ہوں یا کلرکس اپنے افسران کی بندآنکھوں کی بناءپر تاریخ کے نام پر روز غریب عوام سے پیسہ لوٹے نظر آتے ہیں ، جج صاحبان جانتے ہیں کہ عدلیہ میں بھی بڑے پیمانے پر رشوت اور لوٹ مار کا بازار گرم رہتا ہے مگر اس کی روک تھام کیلئے جج صاحبان بے بس کیوں؟؟ ریاست پاکستان کے ہر شعبہ میں بد دیانتی، جھوٹ اور مکاری کے نت نئے انداز دیکھنے کو ملتے ہیں ۔عوام کہتی ہے کہ ہمارے مذہبی حکمران اگر درست ہوتے تو یقینا پاکستانی عوام اپنے مال اور جان سے کبھی پیچھے نہیںہٹتے!! مگر چونسٹھ سالوں سے ان مذہبی سیاسی جماعتوں نے بھی صرف عوام کو لوٹا ہے۔ وہ وہ عناصر جو اللہ اور اس کے آخری نبی ﷺ سے بغض و عناد رکھتے ہیں انہیں پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی قطعی پسند نہیں ۔عوامی حلقہ میں یہ بات مشہور ہے کہ ہم سب کو سیاسی لیڈران سے اب چھٹکارا پانا ہوگا اور تمام زبان بولنے والوں کو آپس میں مساوی طور پر حقوق دینے ہونگے اور ایک ہومسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے تاب خاک کا شجر
کے اشعار اور
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
کے اشعار پر اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہی ہماری کامیابی ہے اور قادیانیوں و دیگر کی شکست۔۔۔۔!!
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی : 310 Articles with 246119 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.