جمہور اور جمہوریت

اس دور کی مشکل گھڑی میں اک میں ہوں اور اک میر ا احساس جو مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، ٹارگٹ کلنگ، لاقانونیت، پانی، گندم اور ضروریات زندگی کی اشیاء کی قلت کے باوجود ختم نہیں ہو پاتا اور میرے نیم مردہ وجود کو آئے روز ملنے والی اذیت سے مجھے روشناس کرواتا رہتا ہے، وہاں سیاستدانوں، نوکرشاہی ، ذخیرہ اندوزوں، مل مافیہ ،بھتہ و قبضہ مافیہ، بجلی ،آٹا، چینی چوروں اور ان کے ہمنوا خود میرے جیسے ’’عام عوام‘‘ بھی میری زندگی کے ہر سکھ اور آرام کی راہ میں رکاوٹ ڈالے میرے اپنے ہی ملک میں میرا جینا جہاد برابر کئے ہوئے ہیں۔ سیاستدان جعل سازی ثابت ہوجانے کے بعد بھی دوبارہ ’ ’ میرا منتخب نمائندہ ‘‘ کیسے بن جاتا ہے۔ کیا میں اس سے پوچھ سکتا ہوں کہ میرے معصوم ان داتاآپ کے کردار پر لگ جانے جانے والا یہ بدنما داغ کسی دشمن کی کارستانی ہے یا جناب سے انجانے میں غلطی ہو گئی۔ کیا اس قوم کے ایک فرد کی حیثیت سے مجھ میں اتنی ہمت ہے کہ کسی ’’دھوکے باز ‘‘ کو ملک و قوم سے ایسے ہی معافی مانگنے پر مجبور کرسکوں جیسا اعزاز ملک کے ممتاز ایٹمی سائنسدان کو بخشاگیاتھا۔ بلکل نہیں کیونکہ یہ محمود کا زمانہ نہیں یہاں آقا اور غلام میں امتیاز برتا جاتا ہے لحاظہ خاکسار کی جرات نہیں کہ منتخب فرشتوں سوال کر سکے کہ آقا آپ نے جو وعدے کئے وہ وفا نہ ہوئے، وہ سڑکیں بنیں نہ وہ اسکول قائم ہوئے اور نہ ہی وہ اسپتال وجود میں آسکے جنکا وعدہ انتخابات سے پہلے فرمایاگیا تھا۔ باعزت روزگار اور انصاف بھی عنقا ہوئے اور ملکی معاشی صورتحال کے باعث وعدے پورے نہ کر سکنا سرکار کی مجبوری ہو گی مگر میرے حصے میں آنے والی وہ بھیک بھی مجھ سے چھین لی گئی، وہ ٹکے دو ٹکے جو حکومت میرے نام پر حضور کو عنایت کرتی رہی ان سے جناب کی ملیں بنتی رہیں اوران کے بچے امریکہ و برطانیہ میں تعلیم حاصل کرتے رہے جبکہ حضورہماری خدمت گزاری کی غرض سے اسلام آباد اور ہر ماہ دو ماہ بعد دیار غیر کے دورے فرماتے اور ہمارے نام پر ان ممالک سے فنڈ حاصل کرتے ہے۔ مجھے بچپن سے غلامی کی عادت ہے اور میر ی سوچ کا دائرہ قدرے محدود ہے تو جب روز ایک سے بڑھ کر ایک وبال مجھ پر ڈالا جاتا ہے تو اسے حضور کی جانب سے بندے کی فرما برداری کا امتحان سمھج کر خوشی سے قبول کر لیتا ہوں اور اگر غلطی سے کوئی چوں چراں کر دوں تو حضور کا غصہ اور ان کی پولیس ہوتی ہے اور نافرمان، بیشک اب میڈیا نے مجھے کافی گمراہ کر دیا ہے مگر اب بھی میں یہی سواک خود سے کرتا ہوں کہ64 سال میری قربانیوں اور خدمات کے باوجود حضرت مجھ سے کیونکر ناراض رہتے ہیں مگر سوچ کوجھٹک کر میں ہر پریشانی جھیل لیتا ہوں کہ شاید یہ آخری امتحان ہو اور سرکار مجھ سے خوش ہوجائیں اور میری آزمائشوں کا خاتمہ ہو جائے ۔ میں نے اپنے بچوں کو تمام مصیبتیں کو کاٹ کر پالااور کسی حد تک تعلیم بھی دلوا دی مگر سرکاری بابو کہتے ہیں کہ اسے نوکری نہیں مل سکتی کیونکہ منتخب نمائندے کے کوٹے پر انکے خاص افراد کو نوکریاں دی جا چکی ہیں، چند شر پسند عناصر یہ بیہودہ خبر پھلاتے ہیں کہ حضور نے نوکریوں کے بدلے رشوت لی ہے، میری پست ذہنیت ان باتوں پر یقین کرنے لگتی ہے مگر پھر حضور کی پولیس اور موقع شناسی کا خیال آجاتا ہے اور میں سوچنے لگتا ہوں کہ میرے قائدکو تواللہ نے بے حد نواز رکھا ہے اور وہ قائداعظم کے اقوال و فرمودات سے محبت رکھتے ہیں ، انکی تصویر سے نہیں، یقیناًانہوں نے میرے بچوں سے زیادہ قابل اور موزوں افراد کو ہی نوکریاں دلوائی ہونگی اور خود کو نادان گردان کر دوبارہ حضور اور انکی آل اولاد کی لمبی عمر کی دعائیں کرتا ،ان کے جلسوں میں نعرے لگاتا ہوا انکی غلامی میں ان دیکھے سجدے کرتا ہوں۔ نظر انداز کیا جانے والے یہ جذبات پاکستان کے کروڑوں لوگوں کی حالت زار نہیں؟ عباسی خلیفہ مامون الرشید کے زمانے میں اسکے سپاہیوں نے ایک شخص کو گرفتار کر کے ایک سرکاری عمارت کی تعمیر کیلئے بیگار پر لگادیا ، اس ظلم پر وہ شخص چلایا ’’اے عمرؒ تو کہاں ہے ‘‘ اس کی یہ صدا خلیفہ تک پہنچی تو اس نے اس شخص کو دربار میں طلب کر کے اسے اسکی صدا کے جواب میں ایک تاریخی جملہ کہا، ’’ نہ میں عمر ہوں ، نہ تم عمر کی رعایا ‘‘ ، جیسے عوام ہونگے ویسے ہی فہیم یانااہل ان پر حکمران ہونگے۔ بیشک ہندوستان میں انگریز راج کے بانیوں میں یہ ہمارے آج کے معزز امراء کے آباؤاجداد بھی شامل تھے ،جنہوں نے مجاہدین آزادی کی مخبریا ں کر کے جنگ آذادی کو ناکام بنایا اور اسکے عوض تاج برطانیہ نے انہیں نقد انعامات اور جاگیریں عطا کیں۔ یہ پنجاب کے شاہ ، ملک، ٹوانے ، گیلانی، چوہدری ، قریشی ، شیخ، میاں، اعوان ، حیات ،ٹمن ،دولتانہ ، سندھ کے خاصخیلی، سید، مخدوم، زرداری،لاشاری، کھوڑو، مزاری ، خیبر پختونخواہ کے خان ، سرحدی گاندھی، اور کئی اور ’’ جمہوری رہنما ‘‘ آخر کیسے اتنے امیر ہو گئے ؟ کس کے اجداد نے انگریزوں سے کس خدمت کے عوض کیا کیا حاصل کیا ۔ اور 98%مسلم آبادی والے اس ملک میں سدین اسلا م کے محافظ ، بات بات پر کفر کے فتوے جاری فرما کر ملک میں انکا جینا حرام کئے ہوئے ہیں ۔کیا اس ملک کو اس لئے ہی حاصل کیا گیا تھا کہ بعد از آزادی غلامی کا نیا دور شروع کیا جا سکے اور گورے انگریزوں کی جگہ انکے وفادار کالے انگریز لے سکیں اور یورپ کے تاریک دور کی مانند انکے ہمراہ مذہبی علماء ان جذباتی بھیڑوں کے غلے کواسلام اور جمہوریت کا جھانسہ دیکر تاج برطانیہ اور تخت واشنگھٹن کے احکامات کی مکمل پیروی پر آمادہ کر سکیں۔ ہمارے یہا ں ایک عام تعاصر ہے کہ پاکستان کے سیاستدانوں کو محب وطن نہیں سمجھا جاتا ، تو صا حب جنکا انداز گزشتہ نسلوں سے ہی قوم سے غداری ٹہرا، جنکی دولت سے غیر ملکی بینک بھرے پڑے ہیں اور جو ملک اور قوم کے مسائل کا حل لندن ، امریکہ اور دبئی جاکرتلاش کرتے ہیں انکا اعتبار کرنے کا کیا پیمانہ ہو سکتا ہے ۔یہ جمہوریت ہے کہ دنیا کی پہلی اسلامی نظریاتی مملکت کا وزیر داخلہ سورت اخلاص کی تلاوت نہ کر سکتا ہو، وزیر تعلیم قرآن پاک کے چالیس پارے اسکولوں میں پڑھانے کا اعلان کرے،میٹرک پاس افراد ملک کے آئینی سربراہ کے یار جیل ہونے کے شرف کی بدولت ملکی اداروں کے سربراہ بن جائیں اور پی ایچ ڈی سڑکوں پر دھکے کھائیں، ملک کی عدالت عظمی اپنے ہی فیصلوں پر عملدرآمد کروانے کیلئے بے بس ہو ، جہا ں وزیر اعظم شوق میں جیل جانے کی تمنا فرمائیں مگر عدالتی حکم کی تعمیل کو سیاسی غداری سے تعبیر کریں۔ جہا ں قدرتی آفات کے نزول کی وجوہات پر غور کی بجائے ان پر بھی سیاست کی جائے اور افواج کو گالی دینا فیشن بن جائے ، جمہور کا استحصال جمہوریت اور اسکے اداروں کا فروغ قرار پائے ، یہی جہوریت اور جمہوری روایات ہیں اورمجھ پر ظلم وجبرکرنے والے، میرے ملک کی دولت لوٹنے والے ہی میرے قائدین ٹہریں اور میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتا رہوں اور خود کو ناسمھج گردان کرسیاسی پرچم سنبھالے حضور اور ان کی اولاد کی لمبی عمر کی دعا کرتا ہوا ان کی غلامی میں سر جھکالوں تو میرے سوا کوئی قصوروار نہیں ،کیا آذاد ذرائع ابلاغ اورجدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہم نہیں جانتے کہ ہمارے سروں پر مسلط یہ ارب پتی سیاستدان، بیوروکریٹ،ٹیکنوکریٹ، سول سوسائٹی آمرء اور سابق جرنیل شراب خوری، قانون شکنی ، کرپشن ، زناکاری اور دیگر بداعمالیوں میں ملوث ہیں ؟ طاقت بلا شبہ انسان کو گمراہی کی جانب لے جاتی ہے مگر طاقت کے حصول کا باعث بننے والے اگر خود گمراہی میں مبتلا ہوجائیں اور اپنی قوت سے نا آشنا ہوکر اپنا وجود خود ساختہ خداؤں کے حوالے کر دیں تو یہی صورتحال جنم لیا کرتی ہے۔ روز مرہ کی عوامی بحث وتمحیث کا اختتام ایک مخصوص جملے پر ہوتا ہے کہ اب اللہ ہی کوئی معجزہ کرے تو پاکستان کا مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے، معجزات یقیناًہوا کرتے ہیں مگر اس ملک کو معجزے کی نہیں حرکت کی ضرورت ہے اور اسکی عوام کو اس احساس کی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کوئی کاروبای ادارہ نہیں بلکہ اٹھارہ کروڑ غیرت مند مسلمانوں کی ریاست ہے جوکہ اس کے معاملات کو چلانے کی اہلیت و قابلیت رکھتے ہیں۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سے عرب ممالک اور اسکے عوام کبھی مسلمانوں کے لئے مثال نہیں بن سکے مگر گزشتہ کچھ عرصے میں عرب عوام نے اپنے شعور اور قوت کا واضع مظاہرہ کیااور مصر میں منتخب کی گئی نئی فقید المثال آئین ساز اسمبلی وہاں کے عوام کی طرف سے مسلم ممالک اور بلخصوص پاکستانی عوام کیلئے واضع پیغام ہے۔میرا مقصد محض اس معاشرتی وملی بے حسی کا اظہار کرنا تھا جس کی بدولت پاکستان بنا ء کو ئی جنگ لڑے ہی اپنے اختتام (نعوذباللہ)کی جانب جا رہا ہے ۔ہمیں ایک بار نہیں سو بار اپنی نداعمالیوں پراللہ سے معافی طلب کر کے قہر الہی کی اس شکل سے نجات کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ حکیم الامت اقبالؒ فرماتے ہیں، خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کو بدلنے کا

(روز نامہ جنگ بروزاتوار 22اپریل ، کالم ’’یہ کیسے ہمارے حکمران ‘‘ میں جناب عابد تہامی نے قائد اعظم یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کے ایک مقالے کا حوالہ دیتے ہوئے پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہمارے آج کے حکمرانوں کے اجداد کا تفصیلی تعارف بیان کیا ہے)
Ahsan Hilal Awan
About the Author: Ahsan Hilal Awan Read More Articles by Ahsan Hilal Awan: 11 Articles with 6816 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.