اب کچھ کرنا پڑے گا

ایک وقت تھا جب ایران میں دور شہنشاہیت ہوا کرتا تھا ، آخری شاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے عوام کو مذہبی، ثقافتی اور معاشی ترقی سے روشناس کروانے کیلئے امریکہ بہادر کی غلامی کو من و عن قبول کر رکھا تھا اور مملکت کے تمام معاملات میں انکا عمل دخل حدوں کے تعین کا محتاج نہ رہا۔ خوشحال ایرانی عوام پانچ ہزار سالہ غلامی کے خاتمے پر شاید کبھی رضامند نہ ہوتی اور امام خمینی کا ساتھ نہ دیتی مگر شاہ سے زیادہ انہیں اپنے ملک میں بیرونی مداخلت ، مذہبی معاملات میں شاہ کے داہرانہ خیالات اور رعایا کو بہ زور طاقت مغربی طرز زندگی گزارنے پر مجبور کرنے کے بیوقوفانہ اقدام نہ کرتا۔ شاہ ایران امریکہ اور اسکے حواریوں سے جتنی محبت اور الفت رکھتااپنی عوام سے اتنا ہی دور ہوتا گیااور انکی جانب سے آنے والی صداؤں کو دبانے کیلئے اپنے اتحادیوں سے اور ’سواک ‘ کے پچاس ہزار جاسوں کا استعمال کیا اورایرانی عوام اسی قدر ان قوتوں سے نفرت اور شر انگیز ی پیدا ہوتی رہی ۔ شاہ یہ بھول گیا مغرب اسکا سگا کبھی نہیں بنے گا اور اسکی عوام ہی اسکی پہچان ہیں، وہ یہ حقیقت اپنی زندگی کے بے بس اور شرمناک انجام ہونے سے قبل ہی جان گیا جب اسکے انتہائی قریبی اتحادیوں نے اسے سیاسی پناہ تک دینے سے انکار کر دیا اور دس ہزار ملین پاؤنڈز کا مالک سابق شہنشاہ ، قاہرہ میں کینسر کے موذی مرض سے زندگی بھی ہار گیا۔گزشتہ 65سالوں سے ہمارے ملک کے حکمران بھی واشنگٹن کو قبلہ بنائے شدید عوامی تحفظات کے باوجود امریکہ پرستی کا شکار رہے ہیں۔لیاقت علی خان سے لیکر سید یوسف رضا گیلانی تک کوئی سربراہ حکومت پاکستانی عوام کی اکثریت کی ملکی معاملات میں برھتی ہوئی امریکی مداخلت کے خلاف نفرت کا درست ادراک نہیں کر سکا یا ریاست کے مفادات کو ذاتی مفادکی خاطرقربان کرتارہا اور اسلام آباد کی راہ واشنگھٹن سے ہی ممکن ہونے لگی کیونکہ کبھی دشمن کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے امریکی اسلحے کی ضرورت تو کبھی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے امریکی درسے عا لمی ما لیاتی اداروں کی بھیک کے بہانے ملک کو تباہی سے بچانے اور غیر مرئی غلامی کی جانب دکھیلنے کیلئے استعمال ہوتے رہے ۔ دنیا بھر کے ممالک اپنے قومی مفادات کی خاطر اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دیتے ہیں اور آذادی سے اب تک پاکستان کے معاملات میں امریکی عمل دخل متواتر بڑھتا رہا اور دھمکیوں کی شکل اختیار کر گیا تو اسکی وجہ امریکی نہیں خودپرست ذہنی غلاموں کی وہ ’ایلیٹ‘ ہے جو اپنے ملکی مفاد کو سمھجنے سے ہی قاصررہے۔ ویت نام ایک چھوٹا سا ملک ہے جو نہ تو ایٹمی قوت ہے اور نہ ہی انکے زر مبادلہ کے ذخائر اربوں ڈالرہیں۔ امریکہ آمد پر ایک ویتنامی حکومتی اہلکار کی تلاشی لی گئی جس کے بدلے میں ویت نام آنے والے امریکی سفیر کو بھی یہی عمل سہنا پڑاکیونکہ ویت نامی اپنے قومی وقار کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔ کیا پاکستانی حکمران اپنے قومی مفاد ات سے نا آشنا تھے جب ہمارے وزیر خارجہ اور معزز ارکان مقننہ کو امریکی ہوائی اڈے پر تذلیل کا نشانہ بنایا گیا ، اور یہی نہیں بلکہ پاکستانیوں کو ریڈ کیٹیگری میں ڈال کرگرین پاسپورٹ یافتہ ہر شخص کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک روا رکھا جارہا ہے۔9/11کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں کئے گئے غلط فیصلوں کو سدھارنے کیلئے موجودہ حکومت کو کئی مواقع ملے مگر ملک سے باہر رکھی گئی ذاتی دولت اور عالمی مالیاتی اداروں سے ملنے والی بھیک کی خاطر ملک غیرت کا سودا کرناابتک مناسب سمجھاگیا مگر امریکی دوستی آہستہ آہستہ ملکی معاملات پر اس قدر حاوی ہو چکے ہیں کہ اب اس صلیبی جنگ میں پاکستانی کفیت گویا نہ نگلی جائے نہ اگلی جاتی ہے والی ہوچکی ہے۔ سلالہ حملے کے بعد بطور احتجاج بند کی گئی نیٹو سپلائی سے نہ امریکی کسی بھی طرح رام ہوئے اور نہ ہی بات معافی تلافی تک پہنچ سکی اور افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس میں شرکت کیلئے صدر پاکستان کے حالیہ دور شگاگو کے دوران ان کے ساتھ روا رکھے گئے غیر سفارتی رویے نے پاکستانی عوام میں امریکی نفرتوں کو مزید قوی کرنے میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ عوامی سطح پر آصف علی زرداری کی شخصیت کو پسند کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ الگ ہے مگر یہاں بات ریاست پاکستان کے سربراہ کی تذلیل کی ہے۔با ت تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ، سابق وزیر اعظم نے سچی مگر انتہائی کڑوی بات کہہ کر زخم اور تازہ کر دیئے کہ بھیک مانگنے والوں سے کوئی معافی نہیں مانگا کرتااور نہ ہی انکی کوئی عزت کرتا ہے۔ اتنی سچی باتوں کے بعد میاں صاحب کو ایمل کانسی کی یاد نہ آئی ،اور نہ ہی کارگل کے حوالے سے بل کلنٹن سے کی گئی گفتگویاد رہی ، یہی حال مولانافضل الرحمن اور مسلم لیگ قائداعظم کے قائدین کا بھی ہے ، خداجانے ہمارے سیاسی زعماء نامعلوم کون سی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں کہ مقتدر بنتے ہی انہیں حزب اختلاف کے دور میں کی گئی باتیں بھول جاتی ہیں اور اقتدار ختم ہوتے ہی یاداشت درست ہوجاتی ہے اور کچھ تو محض امریکی آشیرباد کی مبہم سی امید پر ہی کڑوی باتوں کویاداشت سے نکال باہر کرتے ہیں۔درحیقیقت ہماری کسی سیاسی و مذہبی جماعت کے پاس پالیسی سازادارے موجود ہی نہیں اور شخصی آمریتوں کا شکار تمام جماعتیں کسی بھی معاملے میں قائدیا قائدیں کے داغے گئے بیان سے ہی پالسیی وضع کرتیں ہیں اورمعزز ممبران عوام و ذرائع ابلاغ میں اسکا مفصل راگ الاپتے نظر آتے ہیں کیونکہ اپنی عقل کا استعمال جماعت کی حکومت بن جانے کی صورت میں انہیں ممکنہ وزارت سے محروم کر سکتا ہے۔ دولت اور حوس کا یہ کھیل عوامی انتقام کے اس لاوے سے قطعی بے خبر ہوا کرتا ہے جوسب کچھ پلٹ دیتاہے۔ جلا وطنی سے قبل ایک بار امام خمینی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہو کر شاہ ایران نے اپنا ایک ایلچی کے ذریعے انہیں پیغام بھیجا کہ ایران سے تشریف لے جانے کی جو قیمت چاہیں گے میں آپ کو اتنا مال و دولت دینے کو تیا ر ہوں۔ جواب میں امام نے بھی یہی پیغام شاہ کیلئے بھیج دیا ، شاہ انتہائی تعجب کا شکار ہوا اور امام صاحب کو کہلوا بھیجا کہ آپ کیونکر اتنی بڑی رقم کا بندوبست کر پائیں گے ؟ اسکے جواب میں امام خیمینی نے کہا کہ میرے پاس علم کی دولت کے سوا کچھ نہیں مگر میں تہران کے کسی بھی چوک پر کھڑا ہو کر لوگوں سے التجاء کروں گا کہ میری مدد کو میں تمہیں شاہ سے آذاد کر والوں گا،مجھے یقین ہے کہ شام تک تمہاری طلب کردہ رقم جمع ہو جائے گی۔پاکستانی عوام میں امریکہ اور اسکے حلیفوں کیلئے بڑھتی ہوئی بیزاری کہیں ہمارے سیاستدانوں کی شکل شاہ ایران کی تاریخ نہ دہرا دے۔شاہ کے بعد کا ایران امریکہ اور اسکے حواریوں کیلئے جہنم کی شکل اختیار کر گیا یہاں تک کہ انقلاب ایران کے بعد تہران میں امریکی سفارتخانے پر جامعات کے طلبا نے قبضہ کرلیا اور وہاں موجو د سفارتی عملے کو 444روز تک یرغمال بنائے رکھا۔ ’’مرگ با امریکہ‘‘(بزرگ شیطان) روح اللہ خمینی کی انقلاب ایران کے موقع پر کی گئی تقریر کا ایک ایسا طوفان خیز جملہ ہے جو امریکی غلامی اور اس کے ثمرات سے نجات کیلئے کی گئی ایرانی جذبات کا اظہار بن چکا ہے۔ اس معاملے میں پاکستانی عوام کس قدر جذباتی ہو سکتی ہے اسکا ادراک یقیناًامریکہ بہادر کو بھی ہو چکا ہے ہے اسی لئے ’’یوایس ایڈ‘‘ کی تجوریوں کے منہ کھولے جا چکے ہیں تاہم میر ی استداء ہے کہ امریکی حمایت و ولائیت پر پلنے والوں کو اب ہوش کے ناخن لے لینے چاہیں قبل اسکے کہ لاکھوں کروڑوں ڈالروں کے مالکان کودنیا بھرمیں سر چھپانے کوئی ٹھکانہ بھی نصیب نہ ہو کیونکہ امریکی پینترہ بدلنے کے بھی ماہرہیں جیسا کہ حال ہی میں انہوں نے حسنی مبارک کے ساتھ کیا وہ کل کو آپ کے ساتھ بھی ہونا ممکن ہے ۔ سلالہ واقعے کو بطور ایک ہتھیا ر استعمال کیا جانا چاہئے اور آزاد قوم کی طرح اپنی عزت اور وقار کو اسی طرح باور کروایا جانا چاہیے جیسے 1999ء میں جین نے امریکی جاسوس طیاروں کو اپنی فضائی حدود میں داخل ہونے پربمعہ پائیلٹ اتار کر اس وقت تک قید رکھا جب تک امریکی صدر نے اس واقعے پر معافی طلب نہ کی ۔دہشتگردی کے خلاف نا نہاد جنگ اپنی مقبولیت اور حمایت کھو چکی ہے مگر اپنے تجارتی و مذہبی مفادات کی تکمیل اور ’’چین کے معاشی جن ‘‘پر قابو پانے کی خاطر وزیرستان اور خیبرپختونخواہ میں دہشتگردی کا طوفان پھیلانے کے بعد امریکہ اب دہشتگردی کیخلاف نام نہاد جنگ کوباقاعدہ طور پر پاکستان کے شمالی علاقوں تک وسعت دینے کاقوی ارادہ کر چکاہے تاکہ آئندہ عام انتخابات میں اپنی عوام کو مزید بیوقوف بنا کر خطے میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھا جاسکے۔ جبکہ انکا واضع مقصد ہے کہ دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت اور خصوصا پاک فوج کی برھتی ہوئی صلاحیتوں پر بندھ باندھاجائے تاکہ خطے میں بھارت کو بطور مستحقم دوست چین کے خلاف استعمال کیا جا سکے تاہم اتحاد میں شامل بیشتر ممالک عوامی ردعمل کے باعث جنگ سے نکلنے کے باعزت راستے تلاش کر رہے ہیں بلکہ کئی ممالک افغانستان سے انخلاء کی حتمی تاریخوں کا اعلان بھی کر چکے ہیں ۔ اس بدلتی ہوئی صورتحال میں پاکستانی انتظامیہ کے پاس انتہائی نادر موقع ہے کہ اپنی قومی ساخت کو بحال کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر خارجہ معاملات پر اصلاحات کریں ۔ سیاسی و مذہبی قائدیں حزب اقتدار و اختلاف کے فرق کو بھلا کر عسکری قیادت اور خارجہ امور کے ماہرین کو مل کر آئندہ 20برس کیلئے ایک مکمل و مفصل خارجہ پالیسی بنانی ہو گی جو متفقہ اور قومی امنگوں کے عین مطابق ہو اور حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہ ہوسکے اور کسی پتھروں کے دور میں لے جانے کی دھمکی یا DO MOREکے حکم کی تابع نہ ہو بلکہ صرف اس اسلامی ریاست کے مقدر اعلی اللہ تبارک وتعالٰی کے ماتحت کام کرے ۔
Ahsan Hilal Awan
About the Author: Ahsan Hilal Awan Read More Articles by Ahsan Hilal Awan: 11 Articles with 7715 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.