گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
سفرِ معراج محبت و عظمت کا سفر تھا۔ اس سفر سے اہلِ ارض کی طرف واپسی بھی
محبت اور عظمت کی مظہر تھی۔ بعض کتبِ تفاسیر میں اس امر کی تصریح کی گئی ہے
کہ واپسی پر بھی حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں
برّاق پیش کیا گیا۔ اس کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس مکہ مکرمہ
تشریف لائے۔ جیسے جاتے ہوئے ہر آسمان پر ایک برگزیدہ نبی اور ملائکہ کے
ساتھ ملاقات کا مفصل ذکر ہے ایسے ہی واپسی پر تفصیلی ملاقاتوں کا ذکر موجود
نہیں لہٰذا واپسی کی تفصیلات اور جزئیات اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو ہی معلوم ہیں۔
صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں معجزہ معراج کا تفصیل سے ذکر
ملتا ہے۔ واپسی کے دوران چھٹے آسمان پر جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ہوئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے
دریافت کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ رب العزت کی
بارگاہ سے اپنی امت کے لئے کیا تحفہ لائے ہیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے میری امت کے لئے پچاس نمازیں یومیہ
عطا کی ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ میں نے اپنی امت پر بہت محنت
و مشقت کی تھی جس سے حاصل ہونے والے تجربے کے نتیجے میں یہ عرض کرنا چاہوں
گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لے جائیے اور اللہ کی بارگاہ
میں نمازوں میں تخفیف کی درخواست کیجئے۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم ! آپ کی امت پچاس نمازوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گی۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مشورے پر عمل کیا اور وہاں سے پلٹے اور
ربِ کائنات کے دربارِگہر بار میں حاضر ہوئے اور امت کے لئے پچاس نمازوں میں
کمی کی اِستدعا کی۔ اس طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیثِ
مبارکہ کے مطابق اس مرتبہ پانچ نمازیں کم ہوئیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کے
پاس آئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم ! یہ بوجھ بھی زیادہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر
بارگاہِ ایزدی میں ملتجی ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے مزید پانچ نمازوں کی کمی
فرما دی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نو بار اللہ
رب العزت کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور صرف پانچ نمازیں باقی رہ گئیں۔ صحیح
بخاری میں مروی حدیثِ مبارکہ کے مطابق چار مرتبہ دس دس نمازوں کی اور
پانچویں مرتبہ پانچ نمازوں کی کمی ہوئی۔ غرض جب پانچ نمازیں رہ گئیں تو
موسیٰ علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پھر گزارش کی کہ آپ
کی امت یہ پانچ نمازیں بھی پوری طرح ادا نہیں کر سکے گی لہٰذا ایک بار پھر
بارگاہِ خداوندی میں التماس گزاریں۔ اس پر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : اب کی بار مجھے جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ (حدیث کے
اَلفاظ اشارہ کر رہے ہیں کہ اللہ کی طرف سے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی بات ٹالنے کا تصور ہی نہیں یعنی اگر ایک مرتبہ پھر حاضری ہو
جاتی تو مزید کمی بھی ہو سکتی تھی مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ہی
حاضر نہ ہوئے) پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے چلے تو اوپر سے
آواز آئی کہ اے محبوب! نمازیں تو میں نے پانچ کر دی ہیں لیکن ان پانچ
نمازوں کے ادا کرنے پر ثواب تیری امت کو پچاس نمازوں کے برابر ہی ہو گا۔
خود ساختہ عقائد کی مَن مانی تاویلات
روشنی کے سفر کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ حروفِ حق کے اجلے پن
پر گروہی اور مسلکی مفادات کی سیاہی اس حد تک مل دی جائے کہ خورشیدِ جہاں
تاب کی کرنوں پر جہالت کے اندھیرے مسلط ہو جائیں اور صبحِ نو کے اُجالے پس
منظر میں چلے جائیں۔ دین کو مختلف خانوں میں بانٹ کر ہم نے خود ساختہ عقائد
کی مَن مانی تاویلات کا کارنامہ تو سرانجام دے لیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ
اتحادِ امت کو پارا پارا کرکے عالمِ کفر کے مقابلے میں دین کی قوتوں کو سرِ
تسلیم خم کرنے پر مجبور بھی کر دیا ہے۔ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ اکثر
دینی معاملات کو مناظرانہ اور مجادلانہ نزاع کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ اعتقادی
اور مسلکی اختلافات اتنے شدید ہو چکے ہیں کہ تنقید، اختلاف اور نزاع کے سوا
دین کے کسی مسئلہ کو دیکھنا اور سمجھنا گوارا ہی نہیں کیا جاتا اور پھر اس
سے بڑھ کر بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ اکثر اختلافات کا مرکز و محور (نعوذ
باللہ من ذالک) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کوبنا لیا گیا
ہے۔
انگریز نے نوآبادیاتی دور کی سب سے کاری ضرب کے طور پر برصغیر میں مسلمانوں
کی متاعِ حیات چھیننے کی جو سازش کی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی ذات کو مباحث کا موضوع بنا کر عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
آگ کو سینے میں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کا جو فتنہ برپا کیا تھا وہ آج
امربیل کی طرح ایمان کی شاخوں پر براجمان ہے۔ نت نئے فتنوں کے ساتھ کبھی
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیارات و تصرفات موضوعِ مناظرہ ہیں تو
کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیتِ مبارکہ یا علمِ مبارک، کبھی آپ
کی روحانیت اور اس کے فیض کا کائنات میں ہمہ وقت جاری و ساری رہنا موضوع
بحث ہے تو کبھی بشریت اور نورانیت۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات کے باب میں جب بھی کوئی
آیت، حدیث یا کوئی واقعہ ہمارے سامنے آتا ہے تو اسی زاویئے سے اس امر کا
جائزہ لیا جاتا ہے اور اپنے خود ساختہ موقف کی تائید میں الٹی سیدھی
تاویلیں گھڑی جاتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اپنے مذمومہ تصورات کو مسلک اور
عقیدے کا نام دے کر ذہنوں میں جما لیا جاتا ہے اور پھر جو کوئی آیت یا حدیث
سامنے آتی ہے اسے خاص مسلکی تعصبات سے رنگے شیشوں والی عینک سے دیکھتے ہیں۔
اب جو شخص سرخ شیشے والی عینک لگا کر سفید شئے کو دیکھے گا تو ظاہر ہے کہ
اسے سفید چیز سرخ ہی نظر آئے گی۔ ان جھگڑوں کو ختم کرنے کی صرف ایک ہی صورت
ہے کہ اپنی ان آنکھوں پر ایک ہی رنگ کی عینک لگا لی جائے اور وہ رنگ صرف
قرآن و سنت کا رنگ ہو۔ اگر ایسا ہو جائے تو اختلافات نہ ہونے کے برابر رہ
جائیں گے۔
بار بار لوٹ کر جانا نبوت کا کمال تھا
اسلام اور پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف عہدِ رسالت مآب
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہود و نصاریٰ کی طرف سے فتنہ و شر کی آگ
بھڑکائی گئی تھی۔ آج اکیسویں صدی عیسوی کے آغاز پر بھی اس کی شدت میں کمی
نہیں آ سکی۔ کیا ہم ان اسلام دشمن طاقتوں کا آلہ کار بن کر اسلام کے نادان
دوستوں کا کردار نہیں ادا کر رہے! واقعہ معراج میں بھی بہت سے معاملات کو
اسی طرح لیا گیا ہے۔ اپنا مخصوص نقطہ نظر حق ثابت کرنے کے لئے خدا جانے کیا
کیا تاویلات پیش کی گئی ہیں۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی واقعہ کا
اصل مدعا کچھ اور ہوتا ہے جبکہ دین کا پرچار کرنے والے اپنے مطلب کی بات
نکال کر اصل روح کو مسخ کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو امتِ محمدیہ کے لئے پچاس نمازیں عطا کیں۔ پھر
تقریباً 9 مرتبہ آنے جانے سے صرف پانچ رہ گئیں، پہلے پچاس کیوں دیں؟ اور
راستے میں موسیٰ علیہ السلام کو کھڑا کر کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کو بار بار کیوں بلوایا؟ اور آخر میں پانچ نمازیں کیوں رہ گئیں؟ اس کی حکمت
تو نمازیں دینے والا جانتا ہے یا پھر نمازیں لینے والا؟ اللہ اور رسول نے
اس کی وجہ بیان نہیں فرمائی۔ بہتر ہے اس پر خاموشی اختیار کی جائے لیکن ہم
وجہ تلاش کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ اپنے اپنے مطلب کے دلائل ثابت
کرنے کے لئے استدلال کے انبار لگا رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کا بار بار لوٹ کر جانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا کمال تھا
اور ہے لیکن افسوسناک بلکہ شرمناک بات یہ ہے کہ اس میں بھی تنقیص کا پہلو
نکالا گیا اور یہاں تک کہنے کی جسارت کی گئی کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو علم ہوتا کہ بالآخر پانچ نمازیں ہی رہ جانی ہیں تو شروع سے ہی
پانچ لے آتے، پچاس کیوں لیں؟ اور 9 چکر کیوں لگائے؟ یہ ایک متعصبانہ رنگ کی
عینک ہے۔ جب اس رنگ کی عینک سے اس حدیث پاک کو دیکھا جائے تو یہی کچھ نظر
آتا ہے۔ کاش! اس واقعہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال ہی کے رخ
کو دیکھا جاتا۔ چونکہ یہ سوال اپنی جگہ ہرگز ہرگز علمی نہیں لہٰذا اس کا
سادہ سا جواب یوں ہے کہ چلو بفرضِ محال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو
علم نہ تھا، اللہ کو تو معلوم تھا لہٰذا خود ہی پہلی دفعہ پانچ دے دیتا۔
گویا ہوش و خرد سے خالی سوال کرنے والے اور علمِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم پر اعتراض کی جسارت کرنے والے نے فقط شانِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم ہی میں تنقیص کا پہلو تلاش کرنے کی جسارت نہ کی بلکہ شانِ الوہیت پر
بھی اعتراض کے دروازے کھول دیئے۔ (یاد رہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کا تعلق ایسا ہے کہ جو اعتراض رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
پر کیا جائے گا وہی اعتراض کسی نہ کسی صورت میں اللہ پر بھی وارد ہو جائے
گا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب اللہ تبارک و
تعالیٰ کے ادب سے جدا نہیں) اصل بات یہ ہے کہ پہلے پچاس نمازیں دیں تو وہ
بھی اللہ رب العزت کا امر تھا پھر کم ہوئیں، حتیٰ کہ پانچ تک آ گئیں تو یہ
بھی اللہ رب العزت کا امر تھا۔ رہا بار بار کا آنا جانا۔ ۔ ۔ تو یقینی بات
ہے کہ اس میں اللہ رب العزت کی طرف کوئی حکمت ہو گی۔
اپنائیت اور محبت کے پیمانے
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باربار آنے جانے کو اگر محبت
اور اپنائیت کے پیمانے پر رکھا جائے تو اور ہی حکمتیں ذہن میں آتی ہیں۔ ان
حکمتوں سے محبتِ رسول کی خوشبو کے جھونکے آتے ہیں۔ عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے چراغ جلتے دکھائی دیتے ہیں۔ عرفاءنے اس کی بہت سی حکمتیں
بیان کی ہیں۔
قرآنِ مجید میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی جب مصر گئے تو حضرت
یوسف علیہ السلام نے حضرت بنیامین علیہ السلام کو پہچان لیا۔ بھائی کی محبت
غالب آئی تو انہوں نے چاہا کہ بنیامین کو کسی طرح روک لیا جائے اور دوسرے
بھائیوں پر ظاہر بھی نہ ہو کہ میں وہی یوسف ہوں جسے وہ خود کنویں میں پھینک
آئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے بنیامین کے سامان میں اپنی کوئی چیز چھپا دی اور
جب وہ سب روانہ ہونے لگے تو فرمایا کہ ہمارا کچھ سامان کھو گیا ہے، جس کے
پاس سے برآمد ہو گا اسے ہم گرفتار کر لیں گے۔ ذرا ان مسافروں کی تلاشی تو
لو۔ جب بنیامین کے تھیلے سے سامان نکلا تو فرمانے لگے ہم اسے نہیں جانے دیں
گے۔ چونکہ یوسف علیہ السلام کو اپنے بھائی سے بچھڑے ہوئے کئی سال ہو گئے
تھے لہٰذا ان کی محبت کا تقاضا تھا کہ بھائی کو کسی طرح روک لیا جائے۔
بلاتشبیہہ و بلامثال کچھ ایسا ہی معاملہ ادھر بھی ہے کہ کسی ایسے بہانے کی
ضرورت تھی جس کے پیشِ نظر محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار پلٹ کر
بارگاہِ الوہیت میں حاضری دیتا رہے اور محب کی نگاہیں اس کے چہرے کو بار
بار تکتی رہیں۔ سو جب دیکھا کہ میرے محبوب کو اپنی امت سے شدید محبت ہے تو
امت کے بوجھ کو بہانا بنایا اور نمازیں از خود زیادہ دے کر حضرت موسیٰ علیہ
السلام کو راستے میں کھڑا کر دیا۔
اہلِ محبت نے اس کی تعبیر ایک اور طرح سے بھی کی ہے یعنی اس بار بار آنے
جانے کا مقصد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک دعا ہے جو انہوں نے طور پر
مانگی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا تھا۔
رَبِّ اَرِنِی.
(الاعراف، 7 : 143)
مولا! مجھے اپنے جلوہ حسن عطا کر۔
بارگاہِ صمدیت سے جواب ملا تھا :
لَن تَرَانِی.
(الاعراف، 7 : 143)
(اے موسیٰ!) تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا۔
بعض عرفاءنے بیان کیا ہے کہ عشق و محبت میں مچل کر موسیٰ علیہ السلام نے
بار بار سوال کیا تھا۔ کسی نے کہا پانچ مرتبہ سوال کیا تھا، کسی کے مطابق 9
مرتبہ بارگاہِ خداوندی میں التماس گزاری تھی اور قاعدہ ہے کہ نبی کی
درخواست رد نہیں کی جاتی۔ ہاں ایسا ممکن ہے کہ کسی حکمت کے تحت اسے موخر کر
دیا جائے یا کسی اور وقت کیلئے محفوظ کر لیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا معراج کی شب تک موخر کر دی گئی تھی اور آج
اس کی قبولیت کا وقت تھا لہٰذا انہیں چھٹے آسمان پر کھڑا کر دیا گیا اور
حکم فرمایا گیا کہ آج میرا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری تجلیات کا
مظہرِ اتم بن کر آ رہا ہے۔ تو اس کو دیکھتا جا اور اس آئینے میں میرے حسن
کے پرتو سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک دیتا جا۔ لہٰذا میں اسے پچاس نمازیں دے کر
بھیجتا ہوں، تو کمی کے بہانے لوٹاتے جانا، ہر بار محبوب مجھے مل کر آئے گا
تو اسے دیکھتے جانا، اس طرح محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے اندر
میرا جلوہ کرتے جانا۔
صدیوں کا سفر چشمِ زدن میں صدیوں پر محیط سفرِ معراج چشمِ زدن میں طے ہو
گیا۔ براق پر مکہ معظمہ میں واپسی ہوئی، صحنِ حرم میں تشریف لائے، پھر تہجد
کے وقت اٹھے۔
حدیث پاک میں آتا ہے :
فاستیقضتُ و انا بالمسجد الحرام.
(الشفاء، 1 : 246)
(ملاءاعلیٰ اور ملکوتی مشاہدہ سے وارِد شدہ اِستغراق کی کیفیت سے) واپس
پلٹا تو مسجدِحرام میں تھا۔
صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے ہے خدا کا رسول بس معجزہ معراج کے ظہور سے ایوانِ
کفر و شرک کا لرز اٹھنا ایک فطری امر تھا۔ چنانچہ ہر طرف شور مچ گیا۔ فتنہ
و شر کے طوفان اٹھ کھڑے ہوئے۔ اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی کردار کشی کا اس سے زرّیں موقعہ کفار و مشرکین کے ہاتھ کہاں سے
آتا! دعویٰ معراج کو بنیاد بنا کر مخالفینِ اسلام نے ایک منظم سازش کا
منصوبہ بنایا۔ یہ لوگ ہر وقت اس تلاش میں رہتے تھے کہ کسی طرح حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی دعوے کو معاذاللہ جھوٹا ثابت کر سکیں۔ سو
ابوجہل اور دیگر بدبختوں نے معراج کے واقعہ کو اپنے لئے بہت بڑی دلیل سمجھا
اور وادءمکہ میں شور برپا کر دیا۔ ہر طرف اپنے نمائندے بھیجے۔ شہرِ مکہ کے
گلی کوچوں میں ایک غلغلہ پیدا ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
یہ کیا دعویٰ کر دیا! ابوجہل بھاگا بھاگا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس
گیا کہ آج میں پوچھتا ہوں کہ تو اس نبی کے دعوے کی صداقت پر ایمان لاتا ہے۔
اب بتا تو کیا کہتا ہے کہ آج تیرے دوست نے ایک ایسا دعویٰ کیا ہے کہ تو
کبھی اسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہو گا۔ جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے
ابوجہل کی زبانی دعوءمعراج سنا تو مسکرا کر ارشاد فرمایا کہ میں تو محض
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ اقدس سے سن کر خالقِ کائنات کو مان
چکا ہوں۔ یہ سب باتیں تو اس سے بہت ہی کم درجہ کی ہیں۔ حضرت صدیقِ اکبر رضی
اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے تصدیق کئے بغیر
سفرِ معراج کی تصدیق کر دی۔ اس صبح آپ صدیقِ اکبر کے لقب سے سرفراز ہوئے
یعنی سب سے بڑا تصدیق کرنے والا۔ (تفسیر ابن کثیر، 3 : 10۔ 11)
علمِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آزمائش کی جسارت
کفار و مشرکین ابوجہل کی قیادت میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی بارگاہِ بیکس پناہ میں حاضر ہوئے اور سفرِ معراج خصوصاً بیت المقدس کے
بارے میں الٹے سیدھے سوالات کرنے لگے۔ مقصد یہ تھا کہ اللہ کے نبی کی کسی
بات کو معاذاللہ جھوٹ ثابت کیا جائے اور پھر اس مفروضے کو بنیاد بنا کر
اسلام اور پیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف زبردست منفی
پروپیگنڈہ مہم کا آغاز کیا جائے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
سوال کیا گیا کہ بیت المقدس کے در و دیوار، چھتوں، دروازوں اور کھڑکیوں کی
کیفیات بیان کریں۔ یہ سوال انہوں نے اس بنا پر کیا تھا کیونکہ وہ اپنے طور
پر یہ فرض کئے بیٹھے تھے کہ اس سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی
بیت المقدس نہیں گئے۔ وہ ان سوالات کے جوابات کیسے دے سکیں گے! اب ظاہر ہے
کہ جب کوئی شخص کسی عمارت کی سیر کرتا ہے تو وہ اسکے شہتیر اور کھڑکیاں
وغیرہ تو نہیں گنا کرتا، لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لمحہ بھر
تو اِنقباض کی کیفیت طاری ہوئی۔ اس پر اللہ رب العزت نے بیت المقدس کا ہر
عکس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش فرما دیا۔ چنانچہ بیت
المقدس کے بارے میں جو بات مشرکینِ مکہ پوچھتے جاتے حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم دیکھ دیکھ کر بتاتے جاتے کہ در و دیوار بیت المقدس میں کیا کچھ
نصب ہے۔
عن جابر بن عبداﷲ، قال سمعتُ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول : لما
کذّبنی قریش قمتُ فی الحجر فجلّی اﷲ لی بیت المقدس، فطفقت اخبرہم عن آیاتہ
و انا انظر لیہ.
1. صحیح البخاری، 2 : 684، کتاب التفسیر، رقم : 4433
2. جامع الترمذی، 2 : 141، کتاب تفسیر القرآن، رقم : 3133
3. صحیح لمسلم، 1 : 96، کتاب الایمان، رقم : 276
4. مسند احمد بن حنبل، 3 : 377
5. مسند ابی عوانة، 1 : 125، 131
6. شرح المواہب للزقانی، 6 : 127
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا کہ جب قریش نے میری (معراج کی) تکذیب کی اس وقت میں حجرِ اسود کے
پاس تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میری نظروں میں عیاں کر دیا اور میں
اسے دیکھ دیکھ کر اس کی تمام نشانیاں قریش کو بتانے لگا۔
قافلے والوں کے اُونٹ کی گمشدگی
مخبرِ صادق حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیتِ المقدس کے بارے
میں کفار و مشرکینِ مکہ کے ہر سوال کا درست جواب دے رہے تھے۔ جب انہیں اپنی
اس سازش میں ناکامی کی صورت دکھائی دینے لگی تو کہنے لگے کہ ہمارے بعض
قافلے اس راہ پر گئے ہیں۔ کچھ ان کے بارے میں بتلائیے۔ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ میں نے تمہارا پہلا قافلہ روحا کے
مقام پر دیکھا تھا۔ اس قافلے کی قیادت فلاں قبیلے کا فلاں شخص کر رہا تھا۔
پھر ایسا ہوا کہ اس قافلے کا ایک اونٹ گم ہو گیا۔ وہ لوگ وہاں رک کر اپنے
اونٹ کی تلاش میں گئے ہوئے تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو مجھے پیاس لگی۔ میں
نے دیکھا کہ ان کے ایک اونٹ کے پالان کے ایک پیالے میں پانی پڑا ہے۔ میں نے
اُتر کر اس پانی کو پی لیا۔ جب میں روانہ ہونے لگا تو مذکورہ شخص اونٹ کو
تلاش کر کے واپس پہنچا تو میں نے جاتے ہوئے اسے سلام کیا تو قافلے والوں
میں سے بعض نے کہا یہ تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز ہے۔ جب
قافلے والے واپس آئیں تو ان سے دریافت کر لینا۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ خواب میں پیا ہوا پانی اس لائق نہیں ہوتا
کہ پوچھا جائے کہ پیالے میں پانی تھا یا نہیں تھا اور پھر یہ کہ آوازِ رسول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سفر حالتِ خواب
میں نہیں عالمِ بیداری میں تھا۔
تاجدارِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب میں مقام ذِی
فجا پر پہنچا تو وہاں مجھے دوسرا قافلہ ملا۔ اس قافلے میں ایک اونٹ پر فلاں
فلاں نامی دو دوست سوار تھے۔ جب میرا برّاق ان کے قریب سے گزرا تو وہ اونٹ
بدک کر بھاگا اور وہ دونوں اس سے گر پڑے۔ چنانچہ اس حادثے میں ایک کا ہاتھ
ٹوٹ گیا۔ جب قافلے والے آئیں تو ان سے تمام اَحوال پوچھ لینا۔
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تِلوین کے
مقام پر ایک تیسرا قافلہ دیکھا۔ کفار و مشرکین نے اس قافلے کے بارے میں
کوئی علامت پوچھی تو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
اس کے آگے بھورے رنگ کا ایک اونٹ ہے جس پر دو بوریاں لدی ہوئی ہیں۔ ایک
سیاہ دھاری دار اور دوسری سفید دھاری دار، جب وہ قافلہ واپس آئے تو خود
اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا۔
کفار مکہ نے سوچا کہ تینوں دلیلیں قوی ہیں۔ لہٰذا جاتے ہوئے کہنے لگے کہ
اتنا اور بتا دیجئے کہ وہ قافلے اندازاً کب تک مکہ پہنچ جائیں گے۔ اس پر
آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پہلا قافلہ کل سورج
طلوع ہونے سے پہلے مکہ پہنچ جائے گا۔ دوسرا قافلہ اس وقت مکہ پہنچے گا جب
سورج عین نصف النہار پر ہو گا جبکہ تیسرے قافلے کی آمدکا وقت سورج غروب
ہونے سے ذرا پہلے ہے۔ (المواھب اللدنیہ، 2 : 40)
ابھی جملہ بھی مکمل نہ ہونے پایا تھا
قافلوں کی آمد کے وقت کا سن کر کافروں کا ایک گروہ مکہ معظمہ کی سب سے
اونچی پہاڑی پر جا کر بیٹھ گیا اور سورج کے طلوع ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
دوسری طرف مسلمان بھی اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کو حرف
بحرف سچ ثابت ہوتا دیکھنے کے لئے گردِ کارواں کی تلاش میں تھے۔ عشاق قافلے
کی طرف جبکہ کفار افق پر سورج کی تلاش میں تھے۔ جب سورج طلوع ہونے کا وقت
قریب آیا تو ایک کافر بآواز بلند بولا : خدا کی قسم! سورج طلوع ہو گیا۔
ابھی یہ جملہ مکمل نہ ہوپایا تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پکار اٹھے وہ
دیکھئے قافلہ بھی پہنچ گیا۔ یہ دیکھ کر کفار کہنے لگے کہ ہم کچھ نہیں مانتے
یہ تو جادو ہے۔ ایسا ہی معاملہ دوسرے قافلے کے ساتھ بھی ہوا جو حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق نصف النھار پر پہنچا۔
خورشیدِ فلک! یہیں رُک جا
تیسرے قافلے کو راستے میں کوئی حاجت پیش آ گئی لہٰذا اسے تاخیر ہو گئی۔
سورج غروب ہونے کے قریب تھالیکن قافلے کی آمد کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے
تھے۔ اس پر کفار و مشرکین چہ مگوئیاں کرنے لگے۔ غیرتِ حق جوش میں آئی، سورج
کو حکم ہوا کہ یہیں رک جا۔ جب تک وہ قافلہ نہ پہنچے تجھے غروب ہونے کی
اجازت نہیں۔ چنانچہ سورج افق کے کناروں پر رکا رہا، وقت گزرتا رہا حتیٰ کہ
قافلہ نمودار ہو گیا۔ اس پر کفار سے جب کوئی بن نہ پڑا تو کہنے لگے : ہم
نہیں مانتے یہ تو کھلا جادو ہے۔
(الشفاء، 1 : 284) (حجة اللہ علی العالمین : 298)
ایک یہودی عالم کی تصدیق
سفرِمعراج کی قدم قدم پر اغیار کے حوالے سے تصدیق بھی ہو رہی تھی اور توثیق
بھی، لیکن جن دلوں پر کفر کے تالے پڑے تھے انہیں سورج کی روشنی کیا نظر
آتی! وہ معجزاتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادو کا لیبل لگا کر اپنے
کفر کو تسکین دے لیتے۔ آج صدیاں گزر جانے کے بعد جب سائنسی ارتقاءاپنی
معراج کو چھو رہا ہے، کائنات کی بیکراں وسعتیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے نقوشِ کفِ پا کی تصدیق کر رہی ہیں۔
کتبِ حدیث اور کتبِ تفسیر میں ایک یہودی عالم کا واقعہ بھی درج ہے۔ خاص طور
پر امام ابنِ کثیر رحمة اللہ علیہ نے اپنی تفسیر اور امام ابو نعیم اصفہانی
رحمة اللہ علیہ نے دلائل النبوة میں بیان کیا ہے کہ محمد بن کعب الکربی رضی
اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابی
دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو قیصرِ روم کی طرف اسلام کا پیغام دے کر بھیجا۔
آپ نے اس عیسائی بادشاہ کو دعوتِ اسلام پہنچائی اور آقائے دوجہاں صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے فضائل اور مناقب بیان کئے تو اس نے کہا کہ میں عرب کے
کچھ تاجروں سے چند سوالات کرنا چاہتا ہوں۔ ان سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے حالات بیان کرنے کو کہا گیا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ
میں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ کسی طرح بادشاہ کی نظروں میں حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درجہ گر جائے اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کو ماننے سے انکار کر دے لیکن محتاط بھی رہا کہ کسی جھوٹ پر پکڑا نہ جاؤں۔
ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے قیصرِ روم! میں تمہیں اس نبی کی ایک
ایسی بات بتاتا ہوں جسے سن کر تجھے (معاذاللہ)اس کے جھوٹے ہونے کا یقین آ
جائے گا۔ یہ کہہ کر واقعہ معراج بیان کیا۔ جب وہ اس مقام پر پہنچا کہ اس
نبی نے کہا کہ میں برّاق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچا جہاں بابِ محمد
میرے لئے کھلا تھا۔ وہاں پتھر سے برّاق کو باندھا گیا تھا تو قیصرِروم کے
دربار میں موجود دنیائے عیسائیت کے سب سے بڑے پادری نے کہا کہ ہاں اس رات
کا مجھے علم ہے۔ قیصرِ روم نے کہا تجھے اس رات کی کیا خبر ہے؟ تو اس نے
جواب دیا کہ میرا معمول تھا کہ میں ہر رات مسجدِاَقصیٰ کے دروازے اپنے
ہاتھوں سے بند کر کے اور تالے لگا کر سویا کرتا تھا۔ اس رات جب میں اس
دروازے پر پہنچا تو وہ بند نہ ہوا۔ میں نے اپنے کئی ساتھیوں کو بلایا جنہوں
نے مل کر زور لگایا مگر پھر بھی دروازہ بندہ نہ ہوا حتیٰ کہ مستریوں کی سب
کوششیں بھی بے کار گئیں لہٰذا فیصلہ یہ ہوا کہ اب تو اسے کھلا چھوڑ کر سو
جائیں۔ صبح اٹھ کر اسے بند کر دیں گے۔ پادری کہتا ہے کہ خدا کی قسم! اس رات
میں دروازہ کھلا چھوڑ کر سو گیا لیکن ساری رات سوچتا رہا کہ یہ کیا ماجرا
ہے؟ جب علی الصبح میں نے دروازہ بند کرنا چاہا تو وہی دروازہ جو رات کو بند
نہ ہوا تھا اس وقت آرام سے بند ہو گیا۔ میں بھی حیران ہو رہا تھا کہ میری
نظر دروازے کے باہر پتھر پر پڑی تو اس پر سواری کے باندھنے کا نشان تھا۔ اس
پتھر کے بارے میں تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا تھا :
لما انتہینا لی بیت المقدس قال جبرئیل بصبعہ، فخرق بہ الحجر و شدّ بہا
البُرّاق.
جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبرئیل نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا تو اس پتھر
میں سوراخ ہو گیا۔ پھر جبرئیل نے اس کے ساتھ براق باندھا۔
1. جامع الترمذی، 2 : 141، کتاب التفسیر، رقم : 3132
2. المستدرک للحاکم، 2 : 360، رقم : 3370
3. مشکوة المصابیح، 3 : 306، رقم : 5921
وہ یہودی عالم کہتا ہے کہ میں نے اس کیفیت کو دیکھا تو مجھے پرانی الہامی
کتابوں میں پڑھا ہوا یہ واقعہ یاد آ گیا جو ہم انبیاءکی زبانی سنتے آئے ہیں
کہ جب نبءآخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ آئے گا تو انہیں
سفرِمعراج پر بلایا جائے گا اور وہ اس رات بیت المقدس آ کر انبیاءکی امامت
کرائیں گے اور اس پتھر پر ان کی سواری باندھی جائے گی۔ میں سمجھ گیا کہ آج
نبءآخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج کی رات ہے اور ابوسفیان رضی
اللہ عنہ اپنے بیان میں سچا ہے۔
ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ سنا تو میرے قدموں کے نیچے
سے زمین نکل گئی کہ یہ تو ایسی حقیقت ہے کہ عالمِ عیسائیت کا بڑا پادری بھی
اپنی مخالفت کے باوجود جسے تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ امام ابو نعیم اصفہانی
رحمة اللہ علیہ تو یہاں تک بیان کرتے ہیں کہ وہ پتھر ان کے زمانے تک موجود
رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم! لوگ آج بھی سواری باندھے جانے والی جگہ پر
ہاتھ لگا کر برکتیں حاصل کرتے ہیں۔
(دلائل النبوة : 288)
ادھر سے کون گزرا تھا کہ اب تک
دیارِ کہکشاں میں روشنی ہے |