دیوانے کی پکار
(DR ZAHOOR AHMED DANISH, NAKYAL KOTLE AK)
الحمد للہ عزوجل :میں اپنی قسمت پر رشک
کرتاہوں ۔پوچھیں وہ کیوں ؟تو جواب بھی سن لیجیے کہ میں مسلمان ہوں ۔میں حق
کو تسلیم اور ناحق کی تردید کرنے والا ہوں ۔میرے حصّہ میں ایک اور عظیم
نعمت آئی و ہ محبت رسول کی ۔کہ جس پر میں سینہ کشادہ کرکے اللہ کی زمین پر
چلتاہوں ۔اے زمین اگر تجھے اس بات پر ناز ہے کہ تجھ پر میری آنکھوں کی
ٹھنڈک ،میری زندگی کا حاصل ،میری کامیابیوں کی معراج ،میرے پیارے نبی ؐ
تشریف لائے تجھے شرف بخشا، تیری وقعت میں اضافہ ہوا۔تو یاد رکھ!! میں بھی
تہی دامن نہیں رہا۔میرے دل کی زمین پر بھی میرے نبی ؐ کی محبت کے غنچے
کھلتے ہیں جن کی مہک میری دل ودماغ کو فرحت بخشتی ہے ۔
محترم قارئین :نہ جانے جب میں نبی اکرم شفیع امم رسول محتشم نبی مکرم اللہ
کے پیارے امت کے سہارے رب کے محبوب دانا ئے غیوب مالک رکاب امم فخر عرب و
عجم والی کون و مکان سیاح لامکاں سید انس و جان سرور لالہ روخاں نیر تاباں
سر نشین محوشاں ماہ خوباں شہنشاہ حسینا تتیمہ دوراں سد خیر ذہراجمالہ
جلوائے صبح ازل نور ذات لم یزل باعث تکوین عالم فخر ادم و بنی ادم نیر بطحہ
پاسدار ما اوحیٰ شاہد ماطغیٰ صاحب الم نشرح معصوم آمنہ،احمد مجتبی محمد
مصطفی ؐکا ذکر کرتاہوں۔فرط جذبات سے میری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں ۔ابوبکرو
عمر،عثمان و علی رضی اللہ تعالی عنہم کی آنکھوں کی عظمت و برتری پر رشک
آتاہے ۔کتنی پیاری آنکھیں ہیں جنھوں نے چہرہ ئ والضحی کے جلوے لوٹے ۔آہ !اے
کاش ۔مجھ سیاہ ،عصیاں شعار پر بھی کرم ہوجائے ۔اک جلوہ جاناں ،اک جلوہ ئ رخِ
زیبا نصیب ہوجائے ۔
افسو س :تف ہے ان بدنصیبوں پر ۔جنھوں نے میرے نبی ؐ کی شان میں گستاخیاں
کیں ۔اعتراضات کے دروازے کھولے ۔ان بڑے فتنوں میں ایک بڑا فتنہ فتنہ
قادیانیت بھی ہے ۔جس نے خاموش زہرکی طرح کام کیا اور ناسور بنتاچلاگیا۔
محترم قارئین:عشقِ مصطفی پر میری جان جاتی ہے تو جائے ،میرا مال جاتاہے تو
جائے ۔لیکن میں یہ کبھی گوارا نہیں کروں گاکہ اس کے خلاف سازش ہومیری نبی ؐ
کی بے عیب ذات پر شب خون مارا جائے اور میں چپ سادھ لوں ممکن نہیں ۔ختم
نبوت ہماراعقید ہ ہے ۔میں دیکھ رہا ہوں کے کچھ ناپاک عزائم رکھنے والے ختم
نبوت کے عقیدہ کے متعلق شاکی ہیں ۔میں لکھنے اور بولنے پر قدرت رکھتاہوں ۔چنانچہ
اس حق و سچ کو آپ تک پہنچارہاہوں ۔
آپ قران کو الہامی کتاب مانتے ہیں ۔لاریب کتاب مانتے ہیں ۔تو پھر آئیں میں
اسی عظیم کتاب سے پوچھ کر آپ کو بتاتاہوں کہ ختم نبوت کی حقیقت کیا ہے ؟ اے
قران میں تجھ سے بہت پیار کرتاہوں ،تجھے سینے سے لگاتاہوں ۔تجھے جزدان میں
رکھتاہوں ،وضوکرکے تجھے چھوتاہوں ۔مجھے عقیدہ ختم نبوت بتادے ،سمجھ دے ۔
ختمِ نبوت پر قرآنی آیات
مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ
اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْماً
یعنی محمد تمہارے مَردوں میںسے کسی ایک کے باپ بھی نہیں ہیں لیکن وہ اﷲ کے
رسول اور آخری نبی ہیں۔ اور اﷲ ہر چیز سے باخبر ہے(احزاب: ٤٠)۔
حضرت زید بن حارث رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا
مُنہ بولا بیٹاسمجھ کر زید بن محمد کہا جاتا تھا۔ اﷲ تعالیٰ جل شانہ، نے
مُنہ بولا بیٹا بنانے سے منع فرما دیا۔ چنانچہ قرآن شریف میں اس کی تصریح
موجود ہے کہ وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَآئَکُمْ اَبْنَآئَکُمْ ذٰلِکُمْ
قَوْلُکُمْ بِاَفْوَاھِکُمْ یعنی اﷲ نے تمہارے مُنہ بولے بیٹوں کو تمہارے
فرزند نہیں بنایا ، یہ صرف تمہارے مُنہ کی باتیں ہیں۔ اُدْعُوْھُمْ
لِاٰبَآئِھِمْ یعنی انہیں ان کے اپنے باپوں کے نام سے پکارا کرو(احزاب :٤ ،
٥)۔
جب حضرت زید رضی اﷲ عنہ نے اپنی زوجہ حضرت زینب رضی اﷲ عنہا کو طلاق دی تو
اس مسئلے کی وضاحت کےلئے اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو
حکم دیا کہ حضرت زینب سے نکاح فرمائیں۔ اس نکاح کا ذکر
زَوَّجْنٰکَہَا(احزاب:٣٧) میں موجود ہے۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
حضرت زینب رضی اﷲ عنہا سے نکاح فرمایا تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ
محمد نے اپنی بہو سے نکاح کر لیا ہے۔ اس موقع پر یہ آیت ختم ِنبوت نازل
ہوئی۔
اس آیت کے چار حصّے ہیں۔ (١)۔ محمد تمہارے مَردوں میں سے کسی ایک کے باپ
بھی نہیں ہیں۔ (٢)۔ لیکن وہ اﷲ کے رسول ہیں۔ (٣)۔ وہ آخری نبی ہیں۔ (٤)۔ اﷲ
ہر چیز سے باخبر ہے۔
پہلے حصّے میں حضرت زید والے مسئلے کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ سابقہ انبیاء
علیہم السلام میں اکثر ایسا ہوتا رہا ہے کہ باپ کے بعد اس کا بیٹا نبی ہُوا
کرتا تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ ا کے کسی بیٹے کو جوانی تک نہیں پہنچایاتاکہ آپ
ا کے بعد اجرائے نبوت کے وہم کی بھی نفی ہو جائے اور مُنہ بولے بیٹے سے بھی
اجرائے نبوت کی غلط فہمی جنم نہ لے سکے۔ حدیث شریف میں یہاں تک وضاحت موجود
ہے کہ حضرت ابنِ ابی اوفیٰ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ لَوْ قُضِیَ اَنْ
یَّکُوْنَ بَعْدَ مُحَمَّدٍا نَبِیٌّ عَاشَ اِبْنُہ، وَلٰکِنْ لَّا نَبِیَّ
بَعْدَہ، یعنی اگر محمد ِکریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبی آنا ہوتا
تو آپ ا کے بیٹے ابراہیم زندہ رہتے لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعد
کوئی نبی نہیں (بخاری جلد٢ صفحہ٩١٤)۔
محترم قارئین :ختم ِ نبوت کے متعلق نبی کریم کیا فرماتے ہیں ؟
کَانَتْ بَنُوۤ اِسْرَائِیْلَ تَسُوسُہُمُ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ھَلَکَ
نَبِیٌّ خَلَفَہ، نَبِیٌّ وَاِنَّہ، لَا نَبِیَّ بَعْدِی وَسَیَکُونُ
خُلَفَآءُ فَیَکثُرُونَ قَالُوا فَمَا ذَا تَأْمُرُنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ
قَالَ فُوا بَیْعَۃَ الْاَوَّلِ فَالْاَوَّلِ اَعْطُوا حَقَّہُمْ فَاِنَّ
اللّٰہَ سَآئِلُہُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاہُمْ(بخاری جلد١ صفحہ٤٩١ ، مسلم جلد١
صفحہ١٢٦ ، مشکوٰۃصفحہ ٣٢٠ ، المستند صفحہ٦)۔
ترجمہ:۔بنی اسرائیل میں لوگوں کی اصلاح کا کام انبیاء کے ذمے تھا۔ ایک نبی
کے بعد دوسرا نبی آجاتا تھا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔بلکہ اب خلفاء
ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔صحابہ نے پوچھا یارسول اﷲ ! پھر ہمارے لیے کیا
حکم ہے ۔فرمایا پہلے کی بیعت نبھاؤ بس پہلے کی بیعت نبھاؤ۔تم ان کا حق ادا
کرتے رہو۔اﷲ ان سے ان کی رعایا کے بارے میں خود پوچھ لے گا۔
اس حدیث میں ختم ِنبوت کی وضاحت چار طرح سے کر دی گئی ہے ۔
(ا)بنی اسرائیل کے پے در پے آنے والے انبیاء علیہم السلام کی بجائے لَا
نَبِیَّ بَعْدِیْ کے الفاظ فرمائے گئے۔اس سے ظِل اور بروز وغیرہ کی جڑ کٹ
گئی۔
(٢)کثرت سے خلفاء کا ہونا بھی ا س بات کو واضح کر رہا ہے کہ خلفاء سے مراد
انبیاء نہیں ہیں۔ورنہ چودہ سو سال میں کثرت سے انبیاء آچکے ہوتے۔
(٣)''پہلے خلیفہ کی بیعت نبھانے'' کے الفاظ سے معلوم ہوا کہ ایک ہی شخص کئی
خلفاء کا زمانہ پائے گا۔ خلفاء کا یہ تسلسل بھی ختم ِنبوت میں کسی ظِلی اور
بروزی رخنہ اندازی کی اجازت نہیںدیتا۔
(٣)''تم اُن کا حق ادا کرتے رہو ۔اﷲ اُن سے اُن کی رعایا کے بارے میں خود
پوچھ لے گا''۔ اِن الفاظ سے معلوم ہو ا کہ ان خلفاء سے خطا کے سرزد ہونے کا
امکان ہو گا اور وہ معصوم نہیں ہوں گے اور جو معصوم نہ ہو وہ نبی نہیں
ہوتا۔
اِنَّ مَثَلِی وَمَثَلَ الْاَنْبِیَآءِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ
بَنیٰ بَیْتاً فَاَحْسَنَہ' وَاَجْمَلَہ' اِلَّا مَوضِعُ لَبِنَۃٍ مِنْ
زَاوِیَۃٍ فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوفُونَ بِہٖ وَیَتَعَجَّبُونَ لَہ' وَ
یَقُولُونَ ھَلَّا وُضِعَتْ ہٰذِہِ اللَّبِنَۃُ قَالَ فَاَنَا اللَّبِنَۃُ
وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ(بخاری جلد ١ صفحہ٥٠١، مسلم جلد ٢صفحہ ٢٤٨،
ترمذی جلد ٢ صفحہ ٢٢٤ ، المستند صفحہ٧)۔
ترجمہ:۔میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے ایک آدمی نے حسین
وجمیل محل بنایا ہو مگر کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ہو ۔لوگ آکر اس
محل میں گھوم پھر کر دیکھتے ہیں اور اس کی خوبصورتی پر حیران ہوتے ہیں اور
کہتے ہیںکہ یہ ایک اینٹ کی جگہ کیوں خالی ہے ۔بس میں وہ آخری اینٹ ہوں ۔
اور میں خاتم النبیین ہوں ۔
سَیَکُوْنُ فِیْ اُمَّتِیْ کَذَّابُوْنَ ثَلَاثُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعَمُ
اَنَّہ، نَبِیٌّ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیّٖنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ (بخاری
جلد ١صفحہ٥٠٩، مسلم جلد٢ صفحہ٣٩٧)۔
ترجمہ:۔میری اُمت میں تیس جھوٹے شخص ہوں گے ، ان میں سے ہر ایک نبوت کا
دعویٰ کرے گا۔حالانکہ میں آخری نبی ہوں ۔میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔
اِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِی
وَ لَا نَبِیَّ(ترمذی جلد٢ صفحہ٦٢ ، المستند صفحہ٧)۔
ترجمہ :۔بلا شبہ رسالت اور نبوت دونوں منقطع ہو چکی ہیں ۔اب میرے بعد نہ تو
کوئی رسول ہو گا اور نہ کوئی نبی ۔
بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ(بخاری جلد ٢صفحہ ٩٦٣، مسلم جلد ٢
صفحہ ٤٠٦ ، المستند صفحہ٧)۔
ترجمہ:۔میںاور قیامت دو انگلیوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں(یعنی میرے اور قیامت
کے درمیان کوئی نبی نہیں) ۔
مشکوٰۃصفحہ٥٦٣ ، المستند صفحہ٢٩)۔
محترم قارئین:دعوٰی کرنا بہت آسان لیکن اپنے دعوے کو ثابت کرنا اور اس پر
قائم رہنا مشکل کام ہے ۔مجھ دیوانے کو جب بھی مشکل پیش آتی ہے ۔میں قران سے
،حدیث سے ،اجماع سے اپنے مسئلہ کا حل تلاش کرتاہوں ۔کبھی مایوسی نہیں
ہوتی۔میں اپنے نبی ؐ سے اپنی مال ،اولاد ،جا ن سب سے زیادہ پیارکرتاہوں
۔کیوں کہ مجھے جوبھی ملا ۔اس ہستی کے وسیلہ سے ملا۔بعض لوگ مجھے میری باتوں
اور میری تحریروں پر مجھے دیوانہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ،ڈاکٹرکا صوفی ازم
سے کیا تعلق ؟کیا مستانوں والی حرکتیں کرتے ہو۔میرا ایک ہی جواب ہوتاہے
۔مجھے کچھ نہیں پتابس مجھے ایسا ہی رہنے دو ۔مجھے اپنے رب اور رب کے محبوب
سے جنون کی حدتک پیار ہے ۔اگر یہ پیار مجھے دیوانہ ،مستانہ کہلواتاہے تو
میں اسے اپنے لیے سعادت جانتاہوں ۔اللہ کرے ہمیں محبت خداومحبوب خدا کی
دیوانگی نصیب ہوجائے ۔ |
|