تصادم کی راہ

امریکہ سے پاکستان کی دوستی کا آغاز پاکستان کی تخلیق کے ابتدائی د نوں سے ہی ہو گیا تھا۔ در اصل پا کستان کےلئے امریکی دوستی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بچا ہی نہیں تھا۔ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت پہلے ہی روس کی گود میں بیٹھ کر ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی بجا رہا تھا لہذا ہمارے لئے ضروری تھا کہ ہم اس کی اس حرکت کا کوئی بھر پور جواب دیتے اور وہ جواب امریکی دوستی کی صورت میں ہی دیا جا سکتا تھا ۔بھارتی قیادت کے روسی گود میں بیٹھے ہو نے کی وجہ سے پاکستان کے لئے روسی گود میں بیٹھنا ممکن نہیں تھا اب پاکستان کے پاس ایک ہی راستہ تھاکہ وہ کسی دوسری بڑی طاقت امر یکہ سے اپنی دوستی کی بنیادیں استوار کرتا اور خود کو نہ صرف محفوظ محسوس کر تا بلکہ بھارتی جار حیت پر روک لگانے کی کوشش بھی کرتا اور پاکستان نے اسی راہ کا انتخاب کر کے بالغ نظری کا ثبوت دیا جس پر بھارتی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ اس زمانے میں بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لا ل نہرو سوشلزم کا علم بلند کئے ہوئے تھے اورا مر یکہ کو سوشلزم کے نام سے چڑ تھی لہذ جنوبی ایشیامیں اپنے مفا دات کے تحفظ کی خاطر ا مریکہ کو جنوبی ایشیا میں کسی ایسے اہم ملک کی ضر ورت تھی جو انتہائی اہم ہو اور امریکہ سے تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہو۔ اسی پسِ منظر میں امریکہ کی نظرِ انتخاب پاکستان پر پڑ گئی جسے اسلامی دنیا کی دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ممکت ہو نے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔امریکہ کی نظرِ انتخاب پاکستان پر اس لئے بھی پڑنی ضروری تھی کیونکہ امریکہ کو اس امر کا یقین تھا کہ فیوڈل ازم کی زنجیروں میں جکڑا ہوا پاکستان سوشلزم کے پھیلاﺅ کی اس جنگ میں اس کا ممد و معا ون ہو گا اور مالی معاملات میں اس کی اعانت کی بدولت اس کا احسان مند بھی رہے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی لا بی نے پاکستان کو اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے میں کھل کر اعا نت کی اور پاکستان کو بھارتی جارحیت کے سامنے بڑی جرات کے ساتھ کھڑے ہو نے کے قابل بنایا۔ بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کی بھی شدید خواہش تھی کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات مضبو ط بنیادوں پر قائم ہوں کیونکہ وہ ان تعلقات میں پاکستان کی سلامتی کو پنہاں دیکھ رہے تھے لیکن قائد کی رحلت کے بعد قائم ہو نے والی جمہوری حکومتوں کے پسِ پردہ مارشل لائی انداز نے سارا منظر ہی بدل کر رکھ دیا اور امریکہ سے ہمارے برابری کی سطح پر تعلقات ایک خواب بن کر رہ گئے تبھی تو فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے فرینڈز ناٹ ماسٹرز ( اے طائرِ لا ہوتی) لکھ کر اپنی دل کی بات کہنے کی کوشش کی تھی اور امریکہ پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ مالی اعانت سے قوموںں کی خوداری اور غیرتِ ملی کا سودا نہیں ہوا کرتا لہذا دوستی کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے کہ امریکہ پاکستان کو برابری کا مقام دے اور اس کی دوستی کی قدر کرے۔

عزیزانِ من کوئی اس سے لاکھ اختلاف کرے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو ایک بڑی عسکری قوت بنانے میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا تھا ۔ آزادی کے اولین سالوں میں جب پاکستان کے پاس اپنے ملازمین کی تنخواہیں دینے کےلئے پیسے نہیں تھے تو پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان جنوبی ایشیا کی ایک بڑی فو جی قوت بن کر ا بھرا تو اس کے پسِ منظر میں کوئی تو تھا جس کے کندھوں پر سوار ہو کر پاکستان نے اتنی بڑی چھلانگ لگا لی تھی۔ بھارت کو پاکستان کی یہ حیثیت کسی بھی صورت میں گوارا نہیں تھی وہ تو پاکستان کو اپنے زیر ِ نگین رکھنا چاہتا تھا لہذا اس نے پاک امریکہ تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کا آغاز کر دیا ، ہم نے اپنی بیو قوفیوں اور غلط پالیسیوں سے بھارت کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ امریکی خوشنودی حاصل کرتا چلا جائے اور ہمیں امر یکی دشمنوں کی صف میں دھکیلتا چلا جائے۔ جنوبی ایشیا میں وہ پوزیشن جو کسی زمانے میں پاکستان کو حاصل تھی اسے بر رضا و رغبت بھارت کے حوا لے کر د ینے کو پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔ جب کوئی قوم اپنے پاﺅں پر خود ہی کلہاڑی مارنے کے خبط میں مبتلا ہو جائے تو پھر کوئی اس کی مدد نہیں کر سکتا۔ ہم نے اپنی بیو قوفیوں سے امریکہ کو غیر پسندیدہ ملک میں شامل کر لیا ہے جس کے نقصا نات کا ہمیں ابھی اندازہ نہیں ہو رہا۔ ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہو نا چائیے کہ بھارت جو کسی زمانے میں روسی بلاک کا سب سے اہم ملک تھا آج کل امریکی بلاک کا سب سے اہم ملک ہے اور وہ ملک جو امریکی قربت میں سب سے زیادہ اہم تھا بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ مذہبی عناصر اور ان جیسے نادان دوست ہمیں امریکی بلاک کو چھوڑ کر روسی بلاک میں جانے کی ترغیب دے رہے ہیں حا لا نکہ و ہ خود بھی جانتے ہیں کہ روسی بلاک کی کوئی اہمیت نہیںہے اگر اہمیت ہوتی تو پھر بھارت روسی بلاک کو چھوڑ کر امریکی بلاک میں قدم نہ رکھتا کیونکہ بنیا کبھی بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔ سچ ہمیشہ کڑوا ہو تا ہے اور آج کا سچ یہی ہے کہ دنیا اس وقت امریکی مٹھی میں بند ہے اور موجودہ دنیا کے سارے فیصلے اسی کی رضا اور مرضی سے رو بہ عمل آتے ہیں وہ جسے چاہتا ہے دھشت گردی کا لیبل لگا کر اس پر چڑھائی کر دیتا ہے اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے۔ عراق، لیبیا، افغانستان اور شام اس کی بڑی ہی واضح مثا لیں ہیں ۔ کیا پاکستان کےلئے ضروری تھا کہ وہ دنیا کے اس مست ہاتھی (امریکہ) کے قدموں میں خو د کو ڈال دیتا اور اپنے روند ھے جانے کا منظر خود اپنی آنکھوں سے دیکھتا؟پاکستان کی کوشش یہ ہو نی چائیے تھی کہ وہ اس مست ہاتھی کے ساتھ رہ کر اپنے آپ کو محفوظ رکھتا لیکن شائد حکومت نے تصادم کو ہوا دے کر خود کو مشکل صورتِ حا میں ڈال لیا ہے جس میں اسے شدید نقصان پہنچنے کا ا حتمال ہے ۔امریکہ اس وقت اپنی ٹیکنالوجی اور جدید جنگی سازو سامان کی وجہ سے دنیا کی اکلوتی سپر پاور اس نے یہ مقام ا پنے خونِ جگر سے ھاصل کیا ہے لہذا اس سپر پاور سے تصادم کی راہ اپنانا کسی بھی لحاظ سے پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے ۔ اگرمریکہ بھی ہماری طرح بھڑکیں مار کر خود کو خوش کرلیتا تو شائد وہ آج دنیا کی سرداری کی مسند پر جلوہ افروز نہ ہو تا یہ اس کی محنت، لگن اور تحقیق و جستجو کا ثمر ہے جس کی قوت پر وہ دنیا پر حکمرانی کے مزے لوٹ رہا ہے۔ ہمیں شوق تو بہت ہے کہ ہم بھی دنیا کی حکمرانی سے فیض یاب ہوں لیکن ہماری حرکتیں ایسی ہیں کہ ہمارے لئے اپنی سلامتی کا تحفظ بھی مشکل ہو تا جا رہا ہے۔ ہم فتووں اور جنگ و جدل میں الجھی ہو ئی ایک ایسی قوم ہے جس کا واحد مقصد اپنے مذ ہبی اور سیاسی مخالفین کا خا تمہ رہ گیا ہے۔ ہم علاقائی اور لسانی گروہ بندیوں میں اس حد تک جا چکے ہیں کہ ملک کشت و خون کا منظر پیش کر رہا ہے اور ہماری ذات پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو تا ۔کراچی جیسا روشنیوں کا شہر انسانی خون کی ارزانی کی علامت بن کر رہ گیا ہے اور حکومت بے بسی سے یہ کماشہ دیکھ رہی ہے۔ کیا غیرت مند قوموں کا یہی شعار ہو ا کرتاہے کہ وہ اپنے ہی شہریوں اور بھائیوں کے گلے لسانیت کی بنیاد پر کٹتے دیکھتی رہے اور اس کے تداررک کے لئے آگے نہ بڑھے جو قومیں بھی ایساکر تی ہیں ان کی داستاں تک نہیں ہوتی داستانوں میں۔

اگر ہم قیامِ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں تھوڑا سا جھانکنے کی کوشش کریں تو ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب امریکہ اور پاکستان یک جان دو قالب کا منظر پیش کرتے تھے ۔اس وقت مذ ہبی تنظیموں نے امریکی اثر و رسوخ کو پاکستان میں پھیلانے میں سب اے اہم کردار ادا کیا تھا اور رہی سہی کسر 1979 میں افغان جنگ نے پوری کر دی تھی۔ جنرل ضیا الحق، جہادی تنظیمیں اور امریکہ ایک ہی مورچے میں بیٹھے ہو ئے تھے اور روسی جارحیت سے اس خطے کو محفوظ بنانے کی کوششوں میں جٹے ہو ئے تھے۔ امریکہ نے روس کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے ڈالروں کے منہ کھول دئے اور جہادی تنظیموں کو بے تحاشہ نوازا تھا جس سے جہادی تنظیموں نے روسی جارحیت کے خلاف بھر پور مزاحمت کر کے اسے افغانستان سے بے دخل کرنے میں امریکہ کا بھر پور ساتھ دیا تھا۔روس کے جانے کے بعد انہی جہادی تنظیموں کے ہاتھوں پاکستان کی جو درگت بنی ہوئی ہے اس سے پوری دنیا آگا ہ ہے ۔ کلاشنکوف کلچر اور ہیر وئن کے تحفے اسی دور کی یادگاریں ہیں جس نے پاکستان سے اخلاقیات کا جنازہ نکالنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ ملک میں دھشت گردی کی کاروائیوں میں انہی جہادی تنظیموں کے افراد ملوث ہیں جنھیں امریکہ اور جنرل ضیا الحق نے پا ل پوس کر بڑا کیا تھا۔اب حالت یہ ہے کہ جہادی تنظیمیں ایک طرف ہمارے وجود کے لئے خطری بنی ہوئی ہیں تو دوسری طرف امریکہ ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے اور ہم نہ جائے ماندن نہ پپائے رفتن کی کیفیت میں جکڑے ہو ئے ہیں اور اس سے نکلنے کی کوئی راہ ہمیں نہیں سوجھ رہی۔ اساں نچ کے یار مناناں کا رقص کرنے والی قوم آج امریکہ کے ساتھ تصادم کی شاہراہ پر کھڑی ہے اور اسے سمجھ نہیں آرہی کہ وہ اس لمحے کو ن سا فیصلہ کرے جس سے ملک میں امن و امان اور استحکام کی دولت نصیب ہو جائے۔کیا پاکستان میں اتنی سکت ہے کہ وہ امریکی دشمنی کا بوجھاٹھا سکے اگر اتنی سکت نہیں ہے تو پھر اسے افہام و تفہیم سے اپنے بچاﺅ کی کوئی صورت پیدا کرنی چائیے ۔ حکومتی عمائدین کے لئے یہ معاملہ سب سے تشویش ناک سوال کی صورت میں پھن پھیلائے کھڑا ہے اور موجودہ حکومت کسی بھی نتیجے پر پہننے سے قا صر ہے کیونکہ وہ فیصلہ کرنے کی قوت سے محروم ہے ۔وہ ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی پر عمل پیرا ہے لیکن ریاستیں اس طرح نہیں چلا کرتیں ۔اس کے لئے دوٹوک اور جرات مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہو تی ہے لیکن اپنے اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی موجودہ حکومت ا تنے بڑے فیصلے کرنے کی قوت نہیں رکھتی۔ فوج، مذہبی جماعتوں اور اتحادیوں میں گری ہو ئی موجودہ حکومت بہت کمزور ہے اور سخت دباﺅ میں ہے ۔ وہ کسی کو بھی ناراض نہیں کرناچا ہتی جس کی وجہ سے اس میں بڑے فیصلے کرنے کا فقدان ہے اور ا س کی اسی تذبذبی کیفیت کی وجہ سے پاک امریکی تعلقات دن بدن تعطل کا شکار ہو رہے ہیں۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515470 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.