اُوہو!!ملک میں بجٹوں کے بعد احتجاجوں کا موسم رقص کر رہا ہے

کیاواقعی بجٹ2012-13ملک میں مثبت تبدیلیاں لانے اور بحرانوں کے خاتمے کا ضامن ثابت ہوگا..؟

ہم الحمداللہ مسلمان ہیں اور قرآن اور احادیث کی کتابوں یعنی خداکی کتاب ا ور رسول ﷺ کی حدیث میںواضح طور پر ہدایات ہیں کہ دولت اور سرمایہ صرف امیراور دولت مند لوگوں میں چکرنہ لگاتارہے ،ایسانظام اپنایاجائے کہ دولت سے تمام شہری فائدہ اٹھاسکیں یعنی یہ ٹھیک ہے کہ دولت اچھی چیزہے اِس لئے منصفانہ طور پر سب کے نصیب میں آنی چاہئے ایسی منصفانہ تقسیم جس سے متعلق کہاجاتاہے کہ معاشرے کے ہر طبقے کے حصے میں اتنی دولت آجائے کہ وہ اپنے معاملات زندگی بہتر طور پر خوش و خرم انداز سے گزار سکے اور ایسی بھی تقسیم نہ ہوجس سے متعلق آسکر وائلڈ کہتا ہے کہ زمانہ ءقدیم میں امیروں نے غریبوں کی بغاوت روکنے کا یہ موثر طریقہ ایجاد کیاتھاکہ غریبوں کے پیسے کی کمائی کا تھوڑاسا حصہ اِنہیں خیرات کی صورت میں واپس دے دیاکرتے تھے“ جس سے غربیوں میں امیروں سے متعلق پیداہونی والی منفی سوچ زائل ہوجاکرتی تھی اور غریب اپنے حصے میںآنے والی اِس رقم سے متعلق سوچ سوچ کر خود ہی خوش ہوتے اور خود ہی تھک ہار کر سوجاتے اور اپنے معمولات زندگی میں مگن رہتے اُن کا امیروں کی جانب خیال ہی نہیں جاتاتھاکہ امیرکن کن عیاشیوں میں لگے ہوئے ہیں کیوں کہ اُس زمانے کے غریب یہ سمجھتے تھے کہ امیروں نے ہماراحصہ تو ہمیں دے ہی دیاہے اَب یہ اپنی دولت کا کچھ بھی کریں اِس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے اور اُس زمانے کے امیروںکا بھی یہی خیال تھاکہ غریبوں کو تھوڑابہت دیاجائے جس سے یہ خوش ہوجائیں اور ہماری جانب نہ دیکھیں کہ ہم قومی دولت کا کیا کررہے ہیں...؟

یہاں ہمیںیہ کہنے دیجئے کہ آج ہمارے معاشرے میں زمانہءقدیم کے امیروں والا طریقہ ہی رائج ہے ہم معذرت کے ساتھ کہیں کہ اُس زمانے کے امیر اپنے زمانے کے غریبوں کو کچھ تو دے بھی دیاکرتے تھے مگر افسوس کہ ہمارا آج کا امیرطبقہ جو ہم پر حکمرانوں کی صورت میں مسلط ہے یہ اپنے غریبوں کو کچھ بھی نہیں دیتاہے اور اُلٹایہ امیر طبقہ ہر سال بجٹ کے نام پر ملک کے غریبوں کے خون پسینے سے کمائی گئی رقم پر قابض ہوجاتاہے جو قومی خزانے میں جمع ہوتی ہے یہی حکمران بجٹ میں لفظوں کی ہیر پھیراور گورکھ دھند سے اِس دولت کو کاغذوں میں تو غریبوں میں تقسیم کردیتے ہیں مگر بظاہر پورے سال اِس رقم کے ثمرات غریبوں میں کہیں بھی نظر نہیں آتے ہیں یہ روش کئی سالوں سے جاری ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں اِن دنوں بجٹوں کے بعد احتجاجوں کا موسم جاری ہے حکمرانوں اور برسراقتدار جماعت کے لئے تو یہ بجٹوں کی بہار باعث تسکین ہے مگر دوسری جانب اپوزیشن اور عوام کے لئے یہ موسم احتجاجوں کا رنگ لئے ہوئے ہے جدھر دیکھو پُرتشدد احتجاجوں کا سلسلہ اپنے پورے زور روشور سے جاری ہے اِن احتجاجوں میں حصہ لینے والوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے دورِ اقتدار کا آخری خساروں کا بجٹ بھی جس طرح پیش کیا ہے یہ بھی سب کے سامنے ہے اور اِس کے بعد ایوانوں اور سڑکوں پر حکومت اور بجٹ مخالف احتجاج کرنے والوں نے جو حشر برپا کیاہوا ہے آج اِس سے بھی کو ن ہے جو واقف نہیں ہے ...؟مگراتنا کچھ ہونے کے باوجود دوسر ی طرف حکمرانوں کا دعوؤں ہے کہ اِن کا یہ بجٹ ہر لحاظ سے ایک منفرد اور ایسا بجٹ ہے جو ملک کی تعمیر و ترقی میں سنگِ میل ثابت ہوگا حکمرانوں کے انگنت دعوؤں کے بعد اَب ایک سوال یہ ضرور پیداہوتاہے کہ کیاواقعی بجٹ 2012-13ملک میں مثبت تبدیلیاں لانے اور بحرانوں کے خاتمے کا بھی ضامن ثابت ہوگاکہ نہیں.؟

اُدھر وفاقی بجٹ کے آنے کے بعد یکے بعد دیگرے ہماری چاروں صوبائی حکومتوں خیبر پختونخواہ، پنجاب، بلوچستان اور سندھ حکومت نے بھی اپنے اپنے بجٹ پیش کردیئے ہیں اور اَب وفاق کی طرح ہر صوبائی حکومت نے اپنے تئیں یہ دعویٰ کیا ہے کہ اِس کا بجٹ ملکی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرے گا اور اِس بجٹ میں ملک کی تعمیر و ترقی اور غریب عوام کی مفلوک الحالی کے خاتمے کے لئے خاطر خواہ رقم مختص کی گئی ہے جبکہ اِن تمام حکومتوں دعوؤں کے برعکس غیر جانبدار اقتصادی ماہرین اور عوام کا خام خیال یہ ہے کہ وفاق سمیت کسی بھی صوبائی حکومت کا بجٹ عوام کے لئے تسلی بخش نہیں ہے اگرچہ حکمران لاکھ دعوے کرتے رہیں کہ اِن کے پیش کردہ بجٹ ملک میں خوشگوار تبدیلیوں کے باعث بنیں گے تو یہ سب محض سیراب اور عوام کو سبز باغ دکھانے کے کچھ نہیں ہیں ۔

آج ہم سندھ کے بجٹ سے متعلق بات کریں گے جس کے بارے میں وفاق اور وسندھ کی انتظامیہ کا یہ کھلا دعوی ٰ ہے کہ یہ سندھ کی تاریخ کا ایک ایسا بجٹ ہے جو اِس سے پہلے کبھی بھی پیش نہیں کیاگیاہے یعنی گزشتہ دنوں سندھ کا 5کھرب78 ارب خسارے کا جو بجٹ پیش کیاگیاہے اِس میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے ساتھ ساتھ 20ہزارملازمتیں دینے کا اعلان بھی کردیاگیاہے یہاں ہم اِس بجٹ کی مختصراََ تفصیل پیش کرناچاہیں گے وہ یہ ہے کہ مالی سال2012-13ءکے لئے سندھ کا 5کھرب 77ارب98کروڑ 39لاکھ روپے کے خسارے کا بجٹ جسے صوبائی وزیرخزانہ سیدمرادعلی شاہ نے انتہائی تحمل اور یکسوئی سے پیش کرتے ہوئے بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے دل کھول کر سبسڈیز کا بھی اعلان کیا ہے اور اِسی کے ساتھ ہی یہ بھی بتادیاہے کہ اِس بجٹ میںوفاق کی طرح سندھ حکومت نے بھی سرکاری ملازمین کے لئے بنیادی تنخواہوں اور پنشرز کے لئے 20فیصد ایڈہاک ریلیف الاو ¿نس ،20ہزارنئی ملازمتیں جبکہ سرکاری ملازمتوں میں خواتین کا کوٹا5فیصد سے بڑھاکر25فیصدکردیاگیاہے اور اِسی طرح اُنہوںنے بتایاکہ وفاق سندھ کو تین کھرب روپے کا ٹیکس وصول کرکے دے گا اور امن و امان پر اخراجات میں 131فیصد اضافہ،39.30ارب مختص ، ترقیاتی اخراجات اور تعلیم کے فنڈز میں 50فیصد اضافہ اور اِسی طرح گورنر سندھ کے صوابدیدی فنڈ کے لئے ایک ارب جبکہ وزیراعلی کے لئے تین ارب روپے بھی مختص کئے گئے ہیںاور اِس بجٹ میں ارکان سندھ اسمبلی کا صوابدیدی فنڈ بڑھاکر چھ کروڑ روپے کردیاگیاہے اور وسیلہ حق پروگرام کے ذریعے 30ہزار نوجوانوں کو تین لاکھ فی کس دیئے جائیں گے، (یہاں ہم یہ پوچھنا چاہیں گے کہ یہ سہولت صرف پارٹی کے جیالوں کو ہے یا یہ مراعات سب کے لئے ہے)چھوٹے قرضوں کے لئے دوارب مختص ، کراچی سرکلرریلوے ، گریٹرواٹرسپلائی اور سیوریج اسکیموں کے لئے بھی فنڈز، زرعی شعبے کے لئے چارارب سبسڈی مختص، پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر آٹھ ارب خرچ ہوں گے ضلعی حکومتوں کی ترقی کے لئے 20ارب روپے ملیں گے، فی ٹریکٹر2لاکھ سبسڈی بھی کیا واقعی ہر فرد کو بالارنگ و نسل اور زبان و مذہب اور سیاست و تعصب سے پاک دی جائے گی اگر ایساہے تو ٹھیک ورنہ سب بیکار ہے یہ وہ طائرانہ جائزہ ہے جو ہم نے اپنے قارئین کے لئے یہاں پیش کیاہے اَب دیکھنایہ ہے کہ اِس بجٹ میں جن شعبوں کے لئے جتنی بھی رقم مختص کی گئی ہے یہ اِن شعبوں میں تقسیم ہوگی بھی کہ نہیں یا یوں ہی خبروں اور میڈیاکی زینت بن کر رہ جائے گی اور یہ کہیں کی کہیں ہوجائے گی...؟؟ اور اِسی طرح ملازمتیں بھی صرف حکمران جماعت سے وابستہ عہدیداروں، کارکنوں اور اِن کے جیالوں کو ہی دی جائیں گیںیا مجھ جیسے ایسے پاکستانیوں کو بھی ہماری یہ موجودہ حکومت نوکریاں دے گی جن کا کسی پارٹی سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور جس کے تین بھائی بے روزگارہیں اور کم آمدنی سے اپناگزربسر کررہے ہیں اِن کے لئے بھی کوئی سوراخ ہے یاسب ملازمتیں اُن لوگوں کے لئے ہیں جو اِن کی پارٹی یا اِن کے اتحادیوں سے جوڑے ہوئے ہیں یہ سب ملازمتیں اِن ہی کے لئے ہیں اور جن کی میری طرح کوئی پارٹی نہیں ہے وہ دردر کی ٹھوکریں ہی کھاتارہے گا۔

جیساکہ ہم اُوپر بیان کرچکے ہیں کہ ہمارے آج کے دور کے امیرحکمرانوں نے زمانہ ءقدیم کے دولت مندوں کی طرح غربیوں کی خون پسینے سے کمائی گئی قومی دولت پر اپنا قبضہ قائم رکھنے کے لئے بجٹ کی آڑ میں وہ حربہ ڈھونڈ نکالا ہے جس پر کسی غریب کو اعتراض کرنے کا کوئی جواز بھی نہیں ہے اَب چونکہ وفاق سمیت چاروں صوبائی حکومتوں نے بھی اپنے بجٹ پیش کردیئے ہیں دیکھنایہ ہے کہ یہ حکومتیں بجٹ میں کئے گئے اپنے دعوؤں اور وعدوں کو کتناعملی جامہ پنہا پاتی ہیں ہمیںاُمید ہے کہ اِن کا کوئی ایک بھی دعوی پورے سال میں کہیں بھی عملی طور پر پوراہوتاہوانظر نہیں آئے گا۔اور ملک کے غریب عوام بجٹوں میں دکھائے گئے سبزباغات اور سیراب کے حصول کے خاطر ملک کی سڑکوں اور اپوزیشن والے کبھی ایوانوں اور کبھی اپنی سیاست چمکانے، تو کبھی اپنا سیاسی قداُونچاکرنے اور اگلے انتخابات میں اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے خاطر اِن ہی غریبوں کی احتجاجی تحریکوں ، ریلیوں ، جلسوں اور جلوسوں میں شامل ہوں گے اور یہ بتانے اور جتانے کی کوششوں میں لگے رہیں گے کہ ہم تن ، من، دھن سے غریبوں کے ساتھ ہیں جیساکہ گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ن) والوں نے ایوان صدر کی جانب ایک منی مارچ کیااور ایوان صدر میں زبردستی گھوسنے کی کوشش میں پولیس والوں کی لاٹھیاں اور ڈنڈے بھی کھائے مگر یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کرتے رہے کہ ہم غریبوں کے ساتھ ہیں ۔

اور اَب اِسی کے ساتھ ہی آخر میں ہم یہ کہہ کر اجازت چاہیں گے کہ دنیاکی تاریخ گواہ ہے کہ بے ہنر کوئی ایک فرد ہو یا ہمارے موجودہ مصالحت پسندمگر نااہل حکمرانوں کی طرح کئی افراد ہوںدولت حاصل نہیں کرسکتے اور بد انتظام کے پاس دولت ٹک نہیں سکتی چاہئے وہ جتنے بھی جتن کیوں نہ کرلے ...ایسے میں بھلائی اِسی میں ہے کہ خداکی کتاب اور رسول ﷺ کی حدیث کے مطابق دولت کی منصفانہ تقسیم ہی معاشرے میں فلاح وبہود کی راہیں کھول سکتی ہے ورنہ معاشروں میں غریبوں کے امیراور امیروں کے غریب ہونے کا یہی ایک راز ہے کہ بھوک اِنہیں دولت جمع کرناسکھاتی ہے اور امیری اِنہیںبربادکرنے کے طریقے بتاتی ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971234 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.