سبحان اللہ آج تک بزرگوں سے سنتے
تھے کہ دنیا بدل گئی ہے۔زمانے کے انداز بدلے گئے ،وقت وہ نہیں رہا جانے
کتنے طریقوں سے بزرگ ایک ہی بات کو سمجھانے کی ناکام کوشش کرتے رہے مگر
ہماری عقلِ سلیم کے پَلے کُچھ نہ پڑا ۔کبھی ان کی باتوں کو غور سے نہ پرکھا
کہ وہ تو پرانے دور کے تھے اب دور نیاآگیا اب ان کی باتوں اور ان کے تجربات
کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔مگر زندگی کے عام حالات میں آئے دن نظر آنے والے
کئی واقعات ان کے تجربے ، ان کی باتوں میں چھُپی حقیقت اور ان کی حکمت کی
گواہی دیتے ہیں۔بچپن سے پاکستان کو انڈیا کا ،بلی کو کُتے کا ،غصے کو عقل
کا ، پولیس کو قانون کا اور سیاستدانوں کو عوام کا دشمن سنتے آئے ہیں۔مگر
اب تو انہوں نے چہرے چھپالیے ہیں۔نقاب پوش ہو گئے ہیں سب کے سب۔پھر کُچھ
باتیں لگتی بھی عجیب ہیں۔(معذرت کے ساتھ کیونکہ میں ایک دیہاتی ہوں اور
مجھے بات گھما کر کرنے کا فن ابھی نہیں آیا)اب جیسے بلی کتے سے دوستی کرلے،
سیاستدان عوام دوست بن جائیں،وکیل صرف سچ بولیں،پولیس رشوت نہ لے،میڈیا
بلیک میل نہ کرے،زرداری صاحب تین ماہ لگاتار ملک میں رہیں،نواز شریف اپنی
دولت قبول کرلیں اور وغیرہ وغیرہ وغیرہ اور پھر وغیرہ ۔بار بار وغیرہ اس
لیے لکھا کہ فہرست انتہائی طویل تھی ۔اور شمار میں لانا دشوار تھا۔کامران
صاحب کہتے ہیں کہ ملک کا 60% بجٹ تعلیم پر لگ رہا ہے۔لگ بھی شائد رہا ہو گا
مگر میری ان سے یہ گذارش ہے کہ اس 60کو 62 کر دیں اور اب جو دو فیصد ملے
اسے پارلیمنٹ کے لوگوں کی تعلیم پر خرچ کریں۔اور ان کے لیے پرائمری سکول
قائم کریں کیونکہ کلاس میں بیٹھنے کی تہذیب بہت چھوٹی کلاسوں میں سکھائی
جاتی ہے۔گیلانی صاحب کہتے ہیں عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں۔جمہوریت
کا گھوڑا دوڑاتے رہیں گے۔اگر وہ واقعی سچ کہہ رہے ہیں تو ایک کہاوت کو اردو
ادب میں تبدیل کرنے کی درخواست چاہوں گا۔ کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کو اب
جس کی لاٹھی اس کا گھوڑا پڑھا جائے۔شہباز شریف ملک میں مزدور کی تنخواہ
9000 کرنے کی بات کرتے ہیں اور قوم کے معمار اپنی خدمات صرف تین ہزار روپے
میں ادا کر رہے ہیں۔گیلانی صاحب کہتے ہیں کہ ملک میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ
ختم کی جائے ۔کتنی بدتمیز ہے لوڈشیڈنگ کہ صاحب نے پیار پیار سے کوئی پانچ
سو پچتر بار ایسا بولا مگر اس کے کان پر جُوں تک نہ رینگی ۔لوڈشیڈنگ نہ ہو
گئی کوئی بڑا سرکاری افسر ہو گئی۔نواز صاحب نے ملک میں اقلیتوں کی بات کی ۔مگربجٹ
میں اقلیتوں کو خاص توجہ نہ دی گئی تو اس پر انہوں نے کوئی قدم نہ
اٹھایا۔چوہدری شجاعت صاحب کہتے ہیں کہ فوض کو اقتدار میں آنے کا کوئی شوق
نہیں ۔شائد نہ بھی ہو مگر یہ سب باتیں کم از کم ان کے منہ سے تو اچھی نہیں
لگتیں۔ملک کے حالات کا اگر ٓج بھی رحمان ملک صاحب سے پوچھ لیں وہ آج بھی
اطمنان کا اظہار کریں گے۔مگر ان میں سے کوئی بھی ہمارے ساتھ آکر نہ بیٹھے
گا نہ ہم جیسا لگنے کی غلطی کرےگا۔اب اگر ان سب باتوں کا موازنہ برگوں کے
اس ایک مقولے سے کریں کی کرسی کی لالچ انسان کو اس کی اصلیت تک بھلا دیتی
ہے محسن تو بہت دور کی بات ہے۔اب وقت آگیا ہے ہمیں اب غور کرنا ہوگا کہ آخر
کب تک کب تک یہ جھوٹ بول بول کہ ہمیں بے وقوف بناتے رہیں گے۔کب ہمیں عقل
آئے گی۔ایسا نہ ہو کہ جب عقل آئے تو ہماری حالت ایسی ہو کہ ہمیں واپس آنے
کی کوئی امید نظر نہ آئے ۔لہٰذا آنکھیں کھول کر سب کچھ دیکھ بھال کر اور
سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔سیاستدانوں کی دولت ان کے عیبوں پر پردہ ڈال
دیتی ہے مگر غریب جس کے پاس اپنا تن ڈھانپنے کے لیے بھی کپڑا نہیں وہ اپنے
عیب خاک چُھپائے گا۔اسے اب عیب سے اور عیبداروں سے دور رہنا ہوگا اور یہی
اس کی بقاء کا واحد ذریعہ ہے۔ |