آج کل ہمارے ملک کا میڈیا ہمارے
ملک کی سیاست کے لیئے اُتنا ہی اہم ہو چکا ہے جتنا کہ ایک اندھے کے لیئے دو
آنکھیں۔۔۔ہر سیاسی پارٹی میڈیا کے ذریعے عوام کے دلوں میں اپنا گھر بنانا
چاہتی ہے اور بڑی حد تک اس میں کامیابیاں بھی حاصل ہو رہی ہیں۔ ہر ٹی وی
چینل پر سیاسی اکھاڑے لگے ہوتے ہیں اور بڑے بڑے مایا ناز اینکر پرسنزاپنے
بلائے ہوئے مہمانوں پر سوالات کی بوچھاڑ کر رہے ہوتے ہیں۔دلچسپی کا عالم
اُس وقت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے جب ایک پارٹی کا نمائندہ اپنے ساتھ بیٹھے
دوسری پارٹی کے نمائندے کو اشتعال دلانے کے لیئے اُس پارٹی کے خلاف کوئی نہ
کوئی شوشہ چھوڑتا ہے یا کوئی نہ کوئی سکینڈل نمایاں کرتا ہے۔کرپشن کے لگے
ہوئے الزامات کو دھراتا ہے۔جسے سن کر مخالف پارٹی کے نمائندے کے ماتھے پر
پسینہ آنا شروع ہو جاتا ہے اور حلق بھی خشک ہونے لگتا ہے جسے تر کرنے کے
لیئے سامنے پڑا پانی کا گلاس اُٹھاتا ہے ۔ دو چار گھونٹ اپنے حلق میں
انڈیلتا ہے اور اپنا یعنی اپنی پارٹی کا دفاع کرنے کے لیئے ایک دھواں دار
تقریر شروع کر دیتا ہے۔دو مخالفین کی اسی بات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اینکر
پرسن ان دونوں کی لڑائی میں جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے اور ان کو لقمے
دینا شروع کر دیتا ہے۔ ابھی ایک سوال پر بحث مکمل نہیں ہوتی تو دوسرا گرما
گرم سوال داغ دیا جاتا ہے جس سے ماحول باقاعدہ طور پر ایک اکھاڑے کا منظر
پیش کرنے لگتا ہے۔جس سے اینکر کی موجیں لگ جاتی ہیں کیونکہ اُس کے دل کی
مراد پوری ہو رہی ہوتی ہے۔ اُس کے پروگرام میں لوگوں کی دلچسپی بڑھ رہی
ہوتی ہے اور لوگ بریک کے بعد واپس آنے کا نتظار کرتے ہوئے اشتہارات بھی بڑی
دلچسپی سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔یہ کسی ایک ٹی وی چینل کے ٹاک شو کی کہانی
نہیں آپ کسی بھی چینل پر چلنے والے پروگرام کو دیکھ لیں آپ کو یہی کچھ نظر
آئے گا۔ یہ سب کچھ عوام کو دکھانے کے لیئے اور مہنگے مہنگے اشتہارات چلانے
کے لیئے کیا جاتا ہے۔ ٹاک شو ز میں جھگڑنے والے پارلیمنٹ کیفے میں اکٹھے
بیٹھ کر چائے پی رہے ہوتے ہیں، گپیں ہانک رہے ہوتے ہیں ، قہقہے لگا رہے
ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ہاتھ ہر ہاتھ پھینک کر بھر پور طریقے سے اپنی
خوشی کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔اور وہ جو ٹاک شو میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی
ذات پر کیچڑ اچھال رہے ہوتے ہیں وہ کیچڑ صرف اس ٹاک شو کی حد تک ہی ہوتا ہے۔
یہاں تک کہ کچھ مخالفین کی آپس میں رشتہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ اخبارات میں
دیئے گیئے ایک دوسرے کے خلاف بیا نات اُن کے سیاسی بیان ہوتے ہیں۔۔۔
بات ہو رہی تھی میڈیا کی ۔۔۔ میڈیا میں آنے والے دلچسپ ، مزیدار اور سنسنی
خیز ٹاک شوز کی۔ یہ ٹاک شوز بالکل ایک ڈرامے کی طرح ہی ہوتے ہیں جس کی پہلے
سٹوری لکھی جاتی ہے، اُس سٹوری کے کریکٹر چنے جاتے اور اُس کے بعد اُن
کریکٹرز کو ان کے الگ الگ اسکرپٹ دے دیئے جاتے ہیں اور پروگرام پہلے سے طے
شدہ اسکرپٹ کے تحت ریکارڈ کیا جاتا ہے اور عوام کی انجوائے منٹ کے لیئے
مقررہ وقت پر پیش کر دیا جاتا ہے۔۔۔ بھاری بھرکم معاوضہ لینے والے اینکرز
بھاری بھرکم داد بھی حاصل کرنے میں کامےاب ہو جاتے ہیں۔ عوام کے دلوں میں
اُن کی عزت ایک مسیحا کی سی ہوتی ہے۔ لوگ ان کو فرشتہ بھی تصور کرنے لگ
جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر یہ (اینکرز) نہ ہوتے تو اس ملک کا کیا بنتا
۔۔ سچی اور کھری باتیں ہم تک کیسے پہنچ پاتیں۔۔ یہی لوگ ہی تو ہیں جو ملک
کے خیر خواہ ہیں ۔۔ انہی لوگوں (اینکرز) کی وجہ سے ملک بچا ہوا ہے کیونکہ
یہ بد عنوانی کے ہر معاملے کو ہائی لائٹ کر دیتے ہیں جس سے کرپشن کا عمل
اگر رکتا نہیں تو کم ضرور ہو جاتا ہے۔۔سیاست دانوں کی بد عنوانیاں واشگاف
ہو جاتی ہیں اور عوام میں یہ جان لینے کا شعور پیدا ہوجاتا ہے کہ کون ملک
کا وفادار ہے اور کون غدار۔۔۔کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے کہ کچھ ٹی وی
اینکرز اچھا کام بھی کر رہے ہیں لیکن ابھی گذشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل
پر دو مشہور و معروف اینکرز نے ملک ریاض کا انٹرویو لیا ہے جس کی آف دی
ریکارڈ ویڈیوز انٹر نیٹ پر ریلیز ہونے کے بعد میڈیا کی دنیا میں ایک تہلکہ
مچ گیا ہے اور یہی فرشتہ نما میڈیا پوری دنیا میں ننگا ہو گیا ہے۔۔۔ وہی
اینکرز جو لوگوں کے دلوں میں گھر کیئے ہوئے تھے اب وہی اینکرز گندی مچھلیاں
اور کالی بھیڑوں کے نام سے پکارے جانے لگے ہیں۔۔۔ اگر دیکھاجائے تو اس
فرشتہ نما میڈیا کی دنیا بھی ایک عجب ہی دنیا ہے۔۔۔ |