سپریم کورٹ نے 14جون کوارسلان
افتخارازخود نوٹس کیس نمٹاتے ہوئے اٹارنی جنر ل کو قانون حرکت میں لانے کا
حکم دیا اور کہا کہ ملک ریاض ان کے دامادسلمان احمد اور چیف جسٹس پاکستان
کے بیٹے ارسلان افتخار کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے سپریم کورٹ
نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ملک ریاض نے انصاف خریدنے کی کوشش کی لیکن
تسلیم کیا کہ34 کروڑ روپے خرچ کرنے کے باوجودکامیاب نہیں ہوسکے۔
عدالت نے اپنی کارروائی مکمل کرلی اب دیکھنا ہے کہ اٹارنی جنرل کورٹ کے حکم
پر کیا اور کیسی سخت کارروائی کراتے ہیں۔
ارسلان افتخار مقدمہ تو نمٹ گیا بس اس کے ثمرات کا انتظار پوری قوم کو رہے
گا ۔لیکن اس کیس کی ابتدا ءہی میں ملک ریاض نے” آزاد لیکن اپنی مٹھی میں
بند “میڈیا کے بعض سیکشن کی مدد سے اپنی صفائی میں جو کچھ کہا اس کے نتیجے
میںتوہین عدالت کے مرتکب ہوئے اور یہ کیس ابھی زیر سماعت ہے اس مقدمہ کی
آئندہ سماعت 22 جون کو ہوگی۔
توہین عدلت کے نوٹس کے باوجود ملک ریاض حسین ٹی وی چینلزپر اپنا کیس خود ہی
لڑتے رہے اس مقصد کے لیئے ان کے مہربان میڈیاپرسنز کا مکمل تعاون دیکھنے
میں آیا ملک ریاض قوم کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے اس
قوم کے سامنے جو بہت کچھ جانتی اور سمجھتی ہے مگروہ زبان نہیں رکھتی جو اس
پر فوری ردِعمل کرسکے اور وہ اختیار نہیں رکھتی کہ ان کو روک سکے۔وہ تو بس
مفت میں” سب بکواس“ سنتی رہی اور مسکراتی رہی ، اگر ہماری معصوم قوم کچھ
کہنے کے قابل ہوتی تو فوری طور پر صرف یہ ہی کہہ پاتی کہ ” چینل بھی کمارہا
ہے اور چینل والے بھی“ کسی نے نوٹ پکڑلئے تو کسی نے وعدے پر ہی خدمات پیش
کردیں۔
بحریہ ٹاﺅن اور ملک ریاض کے معاملات پر آزاد میڈیا کی گونج میں بعض صحافیوں
نے جو کچھ کیا اس کے بعد اس میڈیا کے ”اپنے منہ میاں مٹھو “ صحافیوں کو اب
آزاداور سچے صحافی ہونے کا دعویٰ کرنے کے بجائے ہمیشہ کے لیئے خاموش ہوجانا
چاہئے ۔
میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ٹی وی اور اخبارات میں صحافت کا 25سال کا
تجربہ ہونے کے باوجود نہ تو ایسے میڈیا اور نہ ہی ایسے صحافیوں میں میرا
نام آتا ہے سچ یہ بھی ہے کہ الحمد اللہ میں تو ان میں شامل ہوں جنہیں کوئی
بھی کسی بھی طرح کی رقم دینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔شکر ہے اللہ کا کہ
مجھے ایسے” مادر پدر آزاد“ میڈیا کے دور سے قبل ہی اللہ نے فالج جیسے
خطرناک مرض میں مبتلا کردیا ویسے تو میں ہمیشہ ہی علامہ اقبال کے اس شعر کے
مطابق زندگی گذارتا ہوں کہ ” اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز
میں کوتاہی“۔
اب مزید بات کرتے ہیں ملک ریاض حسین کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان کے کھرب پتی بلڈر
ملک ریاض کی بے بسی کا عالم تو دیکھئے،13 جون کو ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو
دیتے ہوئے کہتے ہیں ”آپ لوگ مجھے گولی ماردیں میں مرنے کو تیار ہوں“ ساتھ
ہی ایک سے زائد مرتبہ یہ بھی بولا کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو سپریم کورٹ ذمہ
دار ہوگی۔
ملک ریاض مجھے اس انٹرویو کے دوران مجموعی طور پر انتہائی پریشان حال انسان
لگے لیکن کبھی کبھی وہ مجھے بے وقوفی کی حد تک سیدھے سادے معصوم آدمی بھی
نظر آئے ۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ جب کوئی شخص اپنی مرضی کے خلاف اور ذہنی و
جسمانی صلاحیتوں سے زیادہ ذمہ داری قبول کرلے تو وہ تقریباََپاگل ہوجاتا
ہے۔
توہین عدالت کا نوٹس جاری ہونے کے باوجود عدالت کے بارے میں توہین آمیز
جملے دہرانا پاگل پن نہیں تو بے وقوفی ضرور ہے۔ ملک ریاض کی بے بسی یہ ہے
کہ وہ مرنے کے لیئے بھی تیار ہیں اور لوگوں کو مارنے کی بھی دعوت دے رہے
ہیں۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے صدر آصف زرداری کی سپورٹ نہیں ہے البتہ میں ان
سے ملتا رہتا ہوں ،تاہم یہ بھی واضع کرتے ہیں کہ میں ان (زرداری)سے ایوان
صدر میں ایک ہی بار ملا ہوں، جب ٹی وی اینکر نے پوچھا کہ پھر آپ آصف زرداری
سے کہاں ملتے ہیں؟ تو انہوں نے معصومیت سے جواب دیا کہ ان (آصف زرداری) کے
گھر کی انیکسی میں ملتا ہوں اور ہر دوسرے تیسرے دن ملتا ہوں۔ملک ریاض جذبات
میں یہ بھی کہہ گئے کہ جب ایگزیکٹیو کو نہیں چلنے دینگے تو سسٹم کیسے چلے
گا؟
مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ ملک ریاض آخر کن مجبوریوں کے باعث اس ڈرامہ کا
اہم کردار بننے پر تیار ہوئے کیا وہ واقعی ڈاکٹر ارسلان کے ہاتھوں بلیک میل
ہورہے تھے یا کسی اور کے ہاتھوں ” سر تا پا “ پھنس کر یہ سب کچھ کرنے پر
مجبور ہوئے ہیں؟یہ بات تو آنے والے دنوں میں انشاءاللہ واضع ہوجائے گی کہ
عدلیہ کو بدنام کرنے کی ناکام سازش کے پیچھے کون تھا ؟ عام خیال یہ ہی ہے
کہ جس کو عدلیہ کے فیصلوں سے زیادہ تکلیف پہنچی ہے اور آنے والے دنوں مزید
تکالیف کا خدشہ ہے وہ ہی اس سازش کے اصل کردار ہیں۔کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ
یہ منصفانہ نظام مزید کچھ دن چلتا رہا تو انہیں ذلت کے ساتھ رخصت ہونا پڑے
گا ۔
مجھے ملک ریاض سے ہمدردی بھی ہے کیونکہ کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود آج
وہ جس جگہ کھڑے ہیں اس سے آگے انہیں تاریکی نظر آرہی ہے۔۔۔وہ یقینا یہ بھی
سوچ رہے ہونگے کہ کوئی کامران ،کوئی لقمان،کوئی مسعود اور کوئی سیٹھی ان کی
مدد نہیںکرے گاکیونکہ یہ سب زر کے پجاری ہیں ملک صاحب کو پتہ ہے کہ جس
معاشرے میں بغیر پیسہ خرچ کئے کچھ بھی نہیں ہوتا وہاں کایا پلٹ جائے تولوگ
اپنی عزت کی حفاظت کے لیئے کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔۔۔روپے پیسے کے لیئے سب کچھ
کرجانے والے روپے پیسوں کو پہچاننے سے بھی انکار کرسکتے ہیں ۔
ملک صاحب آپ نے جن پر بھاری نوٹ خرچ کئے وہ بے چارے تو اپنی عزتوں کے ساتھ
اپنی نوکریاں بھی بچانے کی فکر میں مبتلا ہونگے۔ اس لیئے میں آپ سے یہ ہی
کہونگا جو بھی ہوا اب عمر کے اس حصے میں سچ کہہ دیں اور آپ سے فائدے اٹھانے
والے ہر شخص کا نام بتادیں اچھا ہوگا کہ آپ ساتھ ساتھ یہ بھی وضاحت کردیں
کہ آپ نے ان کو کیوں فائدہ پہنچایا ۔۔۔۔ظاہر ہے آپ بزنس مین ہیں گھاٹے کا
سودا تو آپ نے بھی نہیں کیا ہوگا؟آپ نے جن کے اشارے پر ملک کے اہم ترین
ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کی آخر اس کے بدلے میں انہوں نے بھی تو کچھ
دیا ہوگا یا وعدے کئے ہونگے؟
یاد رکھیں جن شخصیات نے آپ کو ایک معمولی میٹرک پاس کلرک سے ملک کا بارہواں
امیر ترین آدمی بننے میں کسی بھی طرح مدد کی وہ حضرات اپنی عزت بچانے یا
مزید رسوا ہونے سے بچنے کے لئے آپ کو دوبارہ منشی بناسکتے ہیں۔اس لئے ایسے
لوگوں پر اب مزید اعتبار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔۔۔ کیونکہ اب ان کی
بھی باری آنے والی ہے ، اس لیئے اب تو تو صرف اللہ ہی آپ کی مدد کرےگا لیکن
اس کے لیئے آپ کو توبہ کا راستہ اختیار کرنا ہوگا،سرداروں اور زرداروںسے اب
کچھ نہیں ملے گا کیونکہ بقول شاعر
رسید مژدہ کہ ایام غم نخواہد ماند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چٹان نماندو چنین نیز ہم
نخواہد ماند
خوشخبرہ پہنچی ہے کہ غم کے دن نہیں رہیں گے۔۔۔۔۔۔وہ دن بھی نہیں رہے اور یہ
دن بھی نہیں رہیں گے |