مصر میں اسلام پسندوں کو ناکام بنانے کی سازش

مصر میں صدارتی انتخابات انتہائی اہم مرحلے میںتو داخل ہوگئے لیکن صدارتی انتخاب سے صرف 2روز قبل(14جون2012ئ) کے مصری سپریم کورٹ کے متنازع فیصلے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسلام پسندوں کی کامیابیوں سے خوفزدہ مغرب اور آمریت نواز قوتیں اسلام پسندوں کو اب قصر صدارت سے دور رکھنے کے لیے آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔

جمعرات (14جون2012ئ) کومصری سپریم کورٹ نے احمد شفیق اہلیت کیس کے فیصلے کے دوران مصر میں 1950ءکے بعد پہلی مرتبہ انتہائی شفاف الیکشن کے نتیجے میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کے ایک تہائی (166)ارکان (جن میں 108اخوانی اور27سلفی ہیں) کے انتخاب کو نہ صرف کالعدم قرار دیا بلکہ ان ارکان کے درست انتخاب تک پارلیمنٹ کو معطل اور فوجی کونسل کو آئین سازی کا حق بھی دے دیا ۔25جنوری2011ءکے انقلاب اور حسنی مبارک کی آمریت کے خاتمے کے بعد نومبر2011ءسے جنوری2011ءتک تین مراحل میں مصری پارلیمنٹ کی508میںسے 498نشستوں کے لیے انتخاب ہوا۔ مجموعی طور پر 50,996,746میں سے 27,065,135ووٹرز(53.04فیصد) نے حق رائے دہی استعمال کیا اور 18,661,403(69فیصد) ووٹرز نے اسلام پسندوں (الاخوان المسلمون (10,138,134)(37.5فیصد)، سلفیوں کی جماعت النور(7,534,266) (27.8فیصد)اور روشن خیال اسلامی جماعت(989,003) (3.7 فیصد)کے حق میں ووٹ کاسٹ کیا۔ اس طرح فوجی کونسل اور عالمی سامراج کی رکاوٹوں کے باووجودپارلیمنٹ میں اسلام پسندوں کی سب سے قدیم جماعت الاخوان المسلمون کے سیاسی شعبے ”آزادی و انصاف پارٹی“ کو پارلیمنٹ میں235نشستیں( 47.18 فیصد )،سلفیوں کی جماعت النور کو123نشستیں( 24.69 فیصد )اور روشن خیال اسلامی جماعت کو10نشستوں( 2فیصد ) پر کامیابی ملی۔اس طرح 498میں سے368ارکان پارلیمنٹ (73فیصد) کا تعلق صرف اسلام پسندوں سے ہے۔

حال میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق مصر کے ان منتخب ارکان میں سے140 ارکان حافظ قرآن، 180 ارکان کو نصف سے زیادہ قرآن زبانی یاد ہے۔ 100 سے زائد ارکان کو تقریباً ایک ہزار حدیثیں زبانی یاد ہیں۔ 170 ارکان پی ایچ ڈی ہیں اور 350 ارکان ایسے ہیں جنہوں نے حسنی مبارک کے آمرانہ دور میں نہ صرف جدوجہد کی بلکہ3 سے 10 سال تک جیلیں کاٹی ہیں اور ان سب کا تعلق الاخوان المسلمون اور سلفیوں کی جماعت النور سے ہے۔دراصل 25 جنوری 2011ءکے انقلاب کے بعد مغرب اور آمریت نواز قوتوں نے اتحاد بھی کرلیا مگر مصر کے عوام نے اسلام پسندوں پر اعتماد کرتے ہوئے پارلیمنٹ تک پہنچایا۔اس پارلیمنٹ کا بنیادی کام آئین سازی تھا مگر جمعرات (14 جون 2012ء) کو مصری سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے ایک تہائی(166 ) ارکان کی رکنیت ہی منسوخ کی اور ان نشستوں کو خالی قرار دیتے ہوئے ان میں انتخاب تک پارلیمنٹ کو معطل کردیا ہے اور آئین سازی کا کام اب فوجی کونسل کو سونپ دیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے اس فیصلے کے بعد عملاًپارلیمنٹ تحلیل ہوگئی ہے۔
مصر کی اعلیٰ آئینی عدالت کے سربراہ فاروق سلطان کا کہنا ہے کہ پارلیمان کے ایوان زیریں عوامی اسمبلی کے ایک تہائی ارکان کی رکنیت کالعدم قرار دیے جانے کے بعد تمام اسمبلی تحلیل ہوجائے گی اور ملک میں نئے پارلیمانی انتخابات کرانا پڑیں گے۔ ان کے حکم نامے کو تسلیم کرنا تمام ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔اب یہ انتظامیہ پر منحصر ہے کہ وہ نئے انتخابات کرانے کا اعلان کرتی ہے یا نہیں۔ عدالت کے ایک جج ماہر سامی یوسف نے ایک غیر ملکی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے اس فیصلے کی تصدیق کی ہے۔اس فیصلے کا واضح مطلب یہ ہے کہ اب پوری پارلیمان ہی ازخود برخاست ہوگئی ہے اور اس کے نئے سرے سے انتخابات کرانا پڑیں گے۔ عدالت کے اس فیصلے کے فوری بعد حکمران مسلح افواج کی سپریم کونسل کے ارکان کا اجلاس ہوا جس میں نئی صورت حال پر غورکیا گیا۔حکمران فوجی کونسل ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالت کے فیصلے کے بعد فوج کو قانون سازی کے اختیارات بھی حاصل ہوگئے ہیں۔ جس قانون کے تحت پارلیمانی انتخابات کرائے گئے تھے،اس کے قواعد وضوابط آئین کے منافی ہیں، اس لیے اب پارلیمان کے ایوان زیریں کو مکمل طور پر تہلیل کرنا پڑے گا۔جبکہ مصر کے قانونی اور آئینی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ عدالت کے فیصلے کے بعد پوری پارلیمان کو تہلیل کیا جاسکتا ہے یا پھرمتاثرہ نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرانا پڑیں گے۔

در اصل اس فیصلے کی وجہ 12 اپریل 2012ءکو پارلیمان کا منظورہ کردہ وہ قانون بناجس کے ذریعے سابق آمر حسنی مبارک کے دور کے آخری10 برسوں میں نائب صدر یا وزیراعظم کے منصب اور ان کی جماعت کالعدم نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کے کسی اعلیٰ عہدے پر فائز رہنے والی شخصیات آیندہ دس سال تک سرکاری عہدے کے لیے منتخب نہیں ہوسکتی ہیں۔اسی قانون کے تحت احمد شفیق کو صدارتی الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دے دیا تھا، لیکن 24 گھنٹے کے بعد ہی انتظامی عدالت نے انھیں صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دے دی تھی اور حتمی فیصلے کے لیے مقدمے کو آئینی عدالت کو بھیج دیا۔ احمد شفیق سابق آمر صدر حسنی مبارک کے اقتدار کے آخری دنوں میں وزیراعظم کے عہدے پر فائز تھے ۔ان پر یہ الزام بھی ہے کہ احتجاج کرنے والے سیکڑوں مظاہرین کو سکیورٹی فورسز نے قتل یا ہزاروں کو احتجاج کی پاداش میں پابند سلاسل انہی کے حکم پر کیا تھا۔

دراصل مغرب اور آمریت نواز قوتوں نے یہ فیصلہ صدارتی انتخاب میں الاخوان المسلمون کے سیاسی شعبے آزادی و انصاف پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر محمد مرسی کی متوقع کامیابی سے خوفزدہ ہوکر کیا ہے ۔ان قوتوں کی پہلی کوشش ڈاکٹر محمد مرسی کی ناکامی ہے مگر مصری عوام کے موڈ کو مد نظر رکھا جائے تو یہ بہت ہی مشکل ہے ،اس لیے ان قوتوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر محمد مرسی کامیابی کے بعد بھی بے بس ہوں گے کیونکہ آئین سازی کا اختیار فوجی کونسل کے پاس ہے اورڈاکٹر محمد مرسی پارلیمنٹ کے خلاف فیصلے کے بعد اب انہیں پارلیمان کی حمایت بھی حاصل نہیں ہوگی۔ یوں ان کو قصر صدارت سے علیٰحدگی یا کٹھ پتلی بن کر رہنے کا فیصلہ کرناہوگا۔

23 اور 24 مئی2012ءکو ہونے والے صدارتی انتخابات کے ابتدائی مرحلے میں 13 امیدواروں کے مابین مقابلہ ہوا جس میں الاخوان المسلمون کے ڈاکٹر محمد مرسی5,764,952 (24.3فیصد) ووٹ لے کر پہلے نمبر پر جبکہ حیرت انگیز طور پر سابق آمر حسنی مبارک کے آخری وزیراعظم احمد شفیق5,505,327 (23.3فیصد) ووٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ حالانکہ انتخابات سے قبل کے جائزوں میں اصل مقابلہ او آئی سی کے سابق سیکرٹری جنرل امر موسیٰ، سلفیوں کے حمایت یافتہ اورالاخوان المسلمون کے سابق رہنما عبدالمنعم ابوالفتوح اورالاخوان المسلمون کے ڈاکٹر محمد مرسی کے مابین مقابلہ قرار دیا جارہا تھا لیکن نتیجہ حیرت انگیز طور پر مختلف آیا ۔صدارتی پولنگ میں سوشلسٹ امیدوار اور انقلابی رہنما حمدین صباحی 4,820,273 (20.4فیصد ) ووٹ کے ساتھ تیسرے نمبر، سلفیوں کے حمایت یافتہ امیدوارعبدالمنعم ابوالفتوح 4,065,239 ( 17.2 فیصد ) ووٹ کے ساتھ چوتھے اور او آئی سی کے سابق سیکرٹری عمرو موسیٰ صرف 2,588,850 ( 10.9 فیصد )ووٹ کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہے۔ مصری آئین کے مطابق پہلے مرحلے میں کسی بھی امیدوار کو 50فیصد ووٹ نہ ملنے کے باعث انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے تاریخ پہلے سے طے تھی جس میں پہلے اور دوسرے نمبر کے امیدواروں کے مابین 16 اور 17 جون2012ءکوالاخوان المسلمون کے ڈاکٹر محمد مرسی احمد شفیق مقابلہ ہوگا۔

موجودہ صورتحال میں سلفی جماعت النور، مصر میں انقلابی تحریک کا آغاز کرنے والا ”6 اپریل گروپ“ اور دیگر انقلابیوں نے الاخوان المسلمون کے امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی کی حمایت کا اعلان کیا ہے جس کی وجہ سے یہ بات یقینی نظر آتی ہے کہ 16 اور 17 جون2012ءکو صدارتی انتخابات کے حتمی مرحلے میں اسلام پسند رہنما محمد مرسی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔اس کی ایک جھلک انتخاب کے حتمی مرحلے میں 9 اور 10 جون 2012ءکو تارکین وطن کی پولنگ میں اسلام پسند امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی کو ملنے والے 75 فیصد ووٹ تھے۔ دنیا کے 33 ممالک میں موجود ساڑھے پانچ لاکھ سے زاید مصری رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 3لاکھ 10ہزار نے ووٹ کا حق استعمال کیاجن میں سے 2 لاکھ 32 ہزار سے زائد(75 فیصد ) نے ڈاکٹر محمد مرسی کو منتخب کیا۔، شاید یہی حمایت مصری عدالت اور فوجی کونسل کو بھی قبول نہیں اور اب قصر صدارت سے اسلام پسندوں کو دور رکھنے کے لیے سپریم کورٹ کے ذریعے سازش کی گئی تاکہ کسی بھی دھاندلی کی صورت میں پارلیمنٹ سے مزاحمت نہ ہوسکے۔ مصر میں الاخوان المسلمون تقریباً گزشتہ 70سالوں سے سرگرم عمل ہے اور اس عرصے کے دوران اس کے ہزاروں کارکنوں اور رہنماﺅں کو شہید کردیا گیا۔ اور موجودہ ارکان پارلیمنٹ میں سے اکثریت وہ ہے جنہوں نے حسنی مبارک اور انور سادات کے ادوار میں جیلیں کاٹیں۔ دہائیوں کے ظلم وجبر کے باوجود الاخوان المسلمون کو ختم نہیں کیا جاسکاہے ۔مبصرین کے مطابق ملک کے اندر بھی اسلام پسند امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی کی بھاری کامیابی یقینی نظر آتی ہے ،مگر فوجی مداخلت کی وجہ سے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر دھاندلی کے ذریعے اسلام پسندوں کو اقتدار سے دور رکھنے اور دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو مصر ایک مرتبہ پھرتصادم کی طرف جائے گا جس کے نتائج تباہ کن ہونگے ۔

احمد شفیق کی انتخاب میں شرکت روز اول سے مشکوک اور مضحکہ خیز رہی ہے کیونکہ صدارتی انتخابات کے کاغذات نامزدگی سے قبل مصر کی پارلیمنٹ نے قانون جس کے مطابق حسنی مبارک کے آخری 10 سالوں کے کسی بھی عہدےدار کو نااہل قرار دیا گیا تھا لیکن احمد شفیق نے ایک صوبائی عدالت میں اپیل دائر کی جس نے الیکشن لڑنے کی اجازت دی،بعد میں اسی کیس کو بنیاد بناکر اسلام پسندوں پر مشتمل پارلیمنٹ کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔ احمد شفیق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں مغربی قوتوں کے علاوہ مقامی فوج کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ انتخابات کے پہلے مرحلے میں دوسرے نمبر پر رہے۔ حالانکہ جائزوں اور تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کا شمار چوتھے اور پانچویں نمبر کے امیدوار کے طور پر کیا جاتا تھا۔ جمعرات(14جون2012ئ) کومصری سپریم کورٹ کے فیصلے نے مصر میں ایک مرتبہ پھر بے چینی پیدا کردی ہے اور عوام کا بھی سخت ردعمل ہے۔

دراصل عرب دنیا میں آنے والی تبدیلی کو مغربی قوتیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتی رہیں لیکن انہیں اس وقت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جب انہیں اس تبدیلی کے نتیجے میں مصر، لیبیا اور تیونس میں اسلام پسند بھرپور طریقے سے کامیاب ہوئے، جس کے بعد پہلے مرحلے میں تیونس میں اسلام پسندوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی، بعد ازاں لیبیا کے اندر بھی مختلف گروپوں کو دست وگریبان کردیا گیا اور مصر میں کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچنے والے سفر کو بھی اب ناکامی سے دوچار کیا جارہا ہے۔ تاہم مبصرین کے مطابق 14 جون2012ءکے فیصلے کا بظاہر نقصان الاخوان المسلمون کو نظر آتا ہے لیکن عملی طور پر انہیں فائدہ ہوگا کیونکہ ایک مرتبہ پھر عوام کے اندر حسنی مبارک اور ان کے حامیوں کے خلاف نفرت بڑھے گی اور موجودہ صدارتی انتخاب میں یقینا کامیابی اسلام پسندوں کے مقدر میں آئے گی۔اس کامیابی کو فوجی کونسل یا مغربی قوتوں نے بزور طاقت یا کسی دھاندلی کے ذریعے روکنے کی کوشش کی تو مصر انتہائی خوفناک تصادم کا شکار ہوجائے گا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اسلام پسندوں کی حالیہ کامیابیوں سے مغربی ممالک بالخصوص اسرائیل نواز قوتیں شدید خوفزدہ ہیں اور وہ کسی بھی صورت مصر میں اسلام پسندوں کی کامیابی نہیں چاہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 16 اور 17جون2012ءکو صدارتی انتخاب کا نتیجہ کیا نکلتا اور 14 جون2012ءعدالتی کا فیصلہ صدارتی انتخاب میں کس حد تک اثر انداز ہوتا ہے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 106889 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.