تحریر : محمد اسلم لودھی
سپریم کورٹ نے ملک ریاض ، ارسلان چودھری اور سلمان احمد کے خلاف سخت ترین
کاروائی کی ہدایت کرکے نہ صرف خود کو پاکستانی قوم کی نظروں میں سر خرو
کرلیا ہے بلکہ یہ ثابت کردیا ہے کہ کوئی کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو قانون
اور انصاف کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔حکومتی ایوانوں میں بیٹھے
ہوئے شطرنج کے ماہر کھلاڑیوں کے لیے یقینا یہ فیصلہ بہت حیران کن ہوگا
کیونکہ ملک ریاض کے الزامات کی آڑ میں سپریم کورٹ اور بطور خاص چیف جسٹس کو
دباﺅ میں لانے کا جو پروگرام حتمی طور پر طے پاچکا تھا اب وہ بہت حد تک بے
اثر ہوچکا ہے بلکہ رشوت دے کر عدلیہ سے من چاہے فیصلے حاصل کرنے کی خواہش
رکھنے والا ،رشوت لینے والا اور میڈل مین کا کردار ادا کرنے والا بھی اس
جرم میں برابر کا شریک قرار پاچکا ہے ۔ اب گیند حکومت کے کورٹ میں ہے کہ کس
طرح عدل و انصاف کے تقاضے پوری کرتی ہے ۔ جہاں تک ملک ریاض کے الزامات اور
حیثیت کا تعلق ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ۔ ملک ریاض اپنی دولت کے
بل بوتے پر نہ صرف اقتدار کے ایوانوں کے موثر مہروں کو خریدنے کے ماہر رہے
ہیں بلکہ انہوں نے فوج اور انتظامی اداروں میں اثر و رسوخ رکھنے والے سابق
جرنیلوں ، صحافتی میدان کی موثر آواز بننے والے صحافیوں اور الیکٹرونکس
میڈیا کے ذریعے رائے عامہ ہموار کرنے پر قادر کئی اینکرپرسن کو بھی اپنا
غلام بنا رکھا ہے ۔ شاید ان کا یہ گمان تھا کہ وہ ارسلان کو دولت سے نواز
کر اور بلٹ پروف گاڑی کا لالچ دے کر آزاد عدلیہ کے نقیب چیف جسٹس افتخار
محمد چودھری کو بھی خرید لیں گے لیکن یہ ان کی غلط فہمی تھی ۔ مشکل ترین
حالات میں بھی جو شخص نہ عہدوں کے لالچ میں آسکا نہ دنیا کی مال و دولت ہی
اسے اپنے عظیم مقاصد سے ہٹا سکی وہ کس طرح عدل و انصاف کے تقاضوں کو بھول
کر ملک ریاض کے مقدمات کا فیصلہ ان کی مرضی اور منشا کے مطابق کرسکتا تھا ۔تاریخ
شاہد ہے کہ چیف جسٹس کاعہدہ چھوڑنے کے عوض نہ صرف پاکستان میں انہیں بے
پناہ مالی مراعات اور پر کشش عہدوں کی پیشکش ہوچکی تھی بلکہ انہیں عالمی
عدالت کا سربراہ تک بنانے کی پیش کش کی جاچکی تھی لیکن افتخار محمد چودھری
جیسے لوگ جب کسی قوم کاافتخار بن جاتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں خرید
نہیں سکتی ۔ جو شخص اپنے بیٹے کے خلاف از خودنوٹس لے کر اسے کٹہرے میں کھڑا
کرسکتا ہے وہ ملک ریاض اور حکمرانوں کے بچھائے ہوئے جال میں کیسے پھنس سکتا
ہے ۔ اس بات کا اعتراف خود ملک ریاض کرچکے ہیں کہ وہ بحالی سے پہلے انہیں
زرداری سے ملوانے پر اصرار کرتے رہے لیکن افتخار محمد چودھری نے دنیا کے سب
سے بڑے سوداگر اور ضمیر وں کو خریدنے والے بیوپاری کو ملنے سے صاف انکار
کردیا ۔یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں نے بحالی کے باوجود نہ تو چیف جسٹس سمیت
آزاد عدلیہ کے دیگر جج صاحبان کو دل سے قبول کیا اور نہ ہی ان کے فیصلوں کو
نافذ کرنے کی جستجو کی ہے بلکہ عدالت عظمی کے فیصلوں کا تمسخر جس طرح پیپلز
پارٹی کے دور میں اڑایا گیا ہے اس کی مثال پاکستانی تاریخ میں نہیں ملتی ۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے ڈاکٹر بابر
اعوان جیسے ضمیر فروشوں کا سہارا لے کر کروڑوں روپے بار ایسوسی ایشنوں اور
من پسند وکیلوں میں بے دریغ تقسیم کردیئے گئے لیکن وہی بابر اعوان جو عدالت
عظمی کے ہر فیصلے کا مذاق اڑانا اور توہین کرنا اپنا فرض تصور کرتا تھا خدا
کی گرفت میں آکر خود حکمرانوں کے زیر عتاب میں آچکا ہے ۔موجودہ حکمران
عدلیہ کی کتنی عزت کرتے ہیں اس کا ایک چھوٹا سا مظاہرہ 14 جون 2012 کو
سپیکر رولنگ کیس کی سماعت کے موقع پر اٹارنی جنرل کی جانب سے دیکھنے میں
آچکا ہے ۔ جس طرح بھری عدالت میں چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان کی موجودگی
میں ذومعنی اشارے کرتے ہوئے ججز کے بارے میں نامناسب الفاظ بار بار استعمال
کئے اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے حاکمانہ انداز میں بات کرتے ہوئے
کہا کہ آپ جانبدار ہوچکے ہیں اس لیے مقدمے سے الگ ہوجائیں ۔ یہ توہین آمیز
زبان اٹارنی جنرل کی ضرور تھی لیکن اس کے پس منظر میں ایوان صدر اور وزیر
اعظم ہاﺅس میں بیٹھے ہوئے وہ مغرور حکمران اور پاکستانی سیاست کے وہ شاطر
کھلاڑی تھے جو چیف جسٹس کو اپنے راستے کی دیوار تصور کرکے پوری عدلیہ کی
بساعت لپیٹنے کی ہر ممکن خواہش اور جستجو رکھتے ہیں تاکہ ان کی کرپشن اور
جانبدارانہ انتظامی فیصلوں کو روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہ ہو ۔ یہ اٹارنی
جنرل وہی ہیں جو مشر ف دور میں نیب کے پراسیکوٹر ہوا کرتے تھے اور کئی بار
عدلیہ کے خلاف توہین عدالت جیسے جرم کاارتکاب پہلے بھی کرچکے تھے لیکن
موجودہ حکمرانوں کو ہر وہ شخص اچھا لگتا ہے جو چیف جسٹس سمیت عدالتی فیصلوں
کا سرے عام تمسخر اڑاکر حکمرانوں کی کرپشن ، اقربا پروری اور لوٹ مار کو
قانونی تحفظ دینے کا ماہر تصور کیاجاتا ہے ۔بہرکیف چیف جسٹس افتخار محمد
چودھری اور دیگر جج صاحبان کے خلاف حکومت جتنی چاہے سازشیں کرلے اور ملک
ریاض جیسے کتنے بھی مہروں کو استعمال کر لے پاکستانی قوم چیف جسٹس کے شانہ
بشانہ کھڑی نظر آئے گی کیونکہ چیف جسٹس نے بحالی کے بعد اپنے شاندار عدالتی
فیصلوں کی بدولت قوم کے دل میں اپنا مقام پیدا کرلیا ہے اور یہ مقام اور
احترام کبھی ختم نہیں ہوسکتا ۔ |