بیماری کا سرٹیفیکٹ

جس ملک میں بھی عدلیہ آزاد ہو اور وہاں جمہوریت بھی قائم ہو اسے ایک مہذب ملک تصور کیا جاتا ہے، الحمدللہ وطن عزیز پاکستان میں عدلیہ بھی آزاد ہے جمہوریت بھی پھل پھول رہی ہے اور بظاہر جمہوریت کو کوئی خطرہ بھی نہیں ہے۔ عدالتیں بھی اپنا اپنا کام خوش اسلوبی سے کر رہی ہیںاور فیصلے صادر فرمائے جا رہے ہیں۔ جمہوریت بھی سیاستدانوں کی بے شمار قربانیوں کے بعد ٹریک پر آ گئی ہے۔سیاست بھی عروج پر ہے کوئی نئے صوبے مانگ رہا ہے اور کوئی اس ملک کو ہی حصے بخرے کرنے کی بات کر رہا ہے۔ ہم اپنے آپ کو مہذب سمجھتے ہیں لیکن دنیا ہمیں ایسا سمجھنے سے گریزاں ہے، کیوں؟

سیاست اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے یہ وہ دو پرزے ہیں جن سے ایک نظام بنتا ہے ان میں سے کسی ایک پرزے کا نقص سارے نظام کو درہم برہم کر دیتا ہے ، ہمارے ہاں بھی آج کل نظام درہم برہم ہے لیکن آج تک ہم یہ نہیں جان پائے کہ ہمارے ہاں خرابی سیاست میں ہے یا جمہوریت میں ؟سیاست کی بار بار کی ناکامی جمہوریت کو قید تنہائی سے پھانسی کے پھندے تک لے گئی۔ لیاقت علی خان گولی کا نشانہ بنے تو ذوالفقار بھٹو پھانسی چڑھے ، نواز شریف قید و بند کے بعد ملک بدر ہوئے تو محترمہ بے نظیر جلاوطنی کے بعد اپنے ہی وقت میں دن دھاڑے قتل کر دی گئیں اور اب یوسف رضا گیلانی مجرم قرار پائے گئے۔ سیاست کی ناکامی جمہوریت کی موت ہوتی ہے، سیاست کی ہر ناکامی کے بعد قریب المرگ جمہوریت کو پھر سے آب حیات پلا کر زندہ و توانا بنانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن سیاست پھر ناکامی سے دوچار ہو جاتی ہے۔ آخر سیاست کو ایسا کون سا مرض لا علاج لاحق ہے کہ جس کی وجہ سے یہ ہر بار طبیب حاذق کے ہاتھوں میں دم توڑ دیتی ہے ؟ طبیب جب تک دریافت تریاق سے عاجز رہے گا یہ عمل بار بار ہوتا رہے گا۔ اطباءجب بھی بیماری کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں بیماری اپنا رنگ دکھاتی ہے اور مریضہ یعنی جمہوریت دم توڑنے لگتی ہے۔

ہمارے ہاں سیاست کا چلن بھی نیک نہیں ہے جب تک معالج ہی کی نیت مریض کے متعلق ٹھیک نہیں ہو گی مریض شفا یاب نہیں ہو سکتا۔ یہاں پر سیاسی مقدمے بازیوں کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے۔ اس مقصد کے لئے سیاسی جماعتیں باقاعدہ بندے بھرتی کرتی ہیںجو کسی بھی شکل میں ہو سکتے ہیں! لیکن اپنے کام میں طاق، انہیں اپنا خاص الخاص کارکن یا لیڈر متعارف کر وا کراپنے دور حکومت میں عوامی خرچے پر اسے سینٹر یاوزیر مشیرکا کوئی بھی عہدہ دے کر اپنے کام نکلواتی ہیں۔ ماضی کی بھی کئی مثالیں موجود ہیں اور آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا۔ نیب اور اس طرح کے دیگر ادارے بنا کر سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور مخالفین کو زچ کرنے کے لئے طرح طرح کے مقدمے ایجاد کئے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک سیاسی مشیر دوست کو اس قدر محتاط پا کر ہمیں حیرت تو ہوئی لیکن اس حیرت نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ سیاست کی یہ بیماری آخر کب ہماری جان چھوڑے گی ؟

اس طرح کے مقدمات سننے سے عدالتیں انکار نہیں کر سکتیں اور اس طرح عدالتوں کا قیمتی وقت ایسے مقدمے بازیوں کی نظر ہو جاتا ہے جن کا لمبے عرصے تک کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اور اس طرح عام آدمی انصاف تک رسائی حاصل نہیں کر پاتا۔صدر محترم آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات بنائے گئے جو تاحال اپنے منتقی انجام کو نہیں پہنچ پائے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اس کیس میں تعاون نہ کرنے پر عدالت کی حکم عدولی کے مرتکب قرار پائے اور ان کی شایان شان سزا بھی ایجاد کی گئی جسے انہوں نے عدالت کے کٹہرے میں ہی ہنسی خوشی قبول فرمایا۔ویسے تو پاکستان میں جرگہ سسٹم پر پابندی ہے لیکن حزب مخالف کے اسرار پر حکومت وزیراعظم کے کیس کو پارلیمنٹ بامثل جرگہ کے پاس لے گئی اور سپیکر نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے اور سیاستدانوں کا تو کام ہی یہی ہوتا ہے کہ ملکی مسائل کا حل ایجاد کیا جائے جب وہ اپنے لئے کوئی حل ایجاد نہیں کر پائیں گے ؟ تو ملک یا عوام کے لئے کیا وہ خاک کریں گے؟ اس لئے حکومت کی یہ ادا بھی پزیرائی چاہتی ہے۔ آئین میں کئی گئی بیشتر ترامیم کا تعلق ایسی ہی ایجادات سے ہے۔ ہم اس دن کے انتظار میں ہیں کہ جس دن کوئی یہ کہے کہ یہ آنئین تو سیاست دانوں کا بنایا ہوا ہے ہم اسے نہیں مانتے یا یہ کہہ یہ صرف سیاست دانوں کے حقوق کی پاسداری کرتا ہے اس لئے ہم اپنے حقوق کے لئے کوئی نئی ایجاد لاتے ہیں چاہے وہ الگ صوبے کی شکل میں ہو یا آزاد ملک کی صورت۔

حکومتی ایوان ہوں یا اونچی عدالتوں کے فیصلے عوام تک ان کی رسائی موجودہ ماحول میں ناممکن ہے۔ مرض ایسا ہے کہ مریض تو مریض ساتھ معالج کے بھی متاثر ہونے کا اندیشہ یقین میں بدل جاتا ہے۔

کیا ضروری ہے کہ ہر شخص ہی حکومت کا حصہ بنے کیا ضروری ہے کہ لوٹ مار کے لئے اسی راستے کا انتخاب کیا جائے دنیا میں دیگر کاروبار اور ذرائع بھی ایسے ہیں کہ جن سے اتنا کمایا جا سکتا ہے کہ کم از کم ملک ریاض جتنا، تو پھر صرف سیاست ہی کیوں ؟ہمیں کسی کی اہلیت پر شک نہیں لیکن کیا یہ مذاق نہیں کہ احمد مختیار کی وزارت نوید قمر کو سونپ دی جائے اور نوید قمر کی وزارت احمد مختیار کے سپرد کر دی جائے اور حدف یہ ہو کہ اس سے وزارت کی کارکردگی اچھی ہو گی اور عوام فیض یاب ہو گی۔ اس طرح تو سرکاری گاڑیوں کے ڈرائیور چابیاں بھی چینج نہیں کرتے۔ ہمیں نہیں معلوم کے یہ کسی مرض کا علاج ہے یا صرف زائد توانائی کے حصول کا کوئی نیا طریقہ، لیکن علاج کی یہ صورت بہر حال مناسب نہیں ہے۔

کاش ہمارے سیاسی لیڈرصاحبان اپنا اپنا محاصبہ کریں اور دیکھیں کے اگر سیاست انکے بس کی بات نہیں تو وہ اس سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔کیونکہ سیاست ملک و قوم کے لیے ہی ہو تو اچھی ہوتی ہے ذاتی مقاصد کا حصول سیاست کا حدف نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ وطن عزیز کو بھی ہماری توجہ کی ضرورت ہے ۔ سیاست کی خامیوں کو دور کر کے جمہوریت کی معراج حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اس بیماری کا سرٹیفکیٹ کون جاری کرے گا ؟
Azhar Hassan
About the Author: Azhar Hassan Read More Articles by Azhar Hassan: 16 Articles with 14146 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.