افتخار محمد چوہدری اور آزاد عدلیہ کیلئے ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
(imran changezi, karachi)
ارسلان افتخار کیس استحصالی
طبقات کی آزاد عدلیہ کے خلاف پہلی سازش ہے ‘ عدلیہ اور چیف جسٹس کو ایسی
مزید کئی سازشوں کیلئے تیار رہنا چاہئے !
ارسلان افتخار کیس کے ذریعے عدلیہ کو پیغام دیا گیا ہے کہ عدلیہ انقلابی کی
بجائے روایتی کردار ادا کرے وگرنہ ہر جج افتخار چوہدری نہیں جس کے ساتھ
عوام کی حمایت اور وکلاءکی طاقت ہو !
پاکستان طاقتور طبقات کی دی گئی آخری لائن تک اپنا جمہوری سفر طے کرچکا ہے
اور اب اسے آمریت کی جانب پلٹنا ہے او ر آمریت کی روایت میں آزاد عدلیہ
کہیں دکھائی نہیں دیتی!
ارسلان افتخار کیس میں انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرکے چیف جسٹس اور
آزاد عدلیہ جمہوریت و عدلیہ کے خلاف کی گئی طاقتور طبقات کی اس سازش کو
ناکام بناسکتے ہیں !
چیف جسٹس اور آزاد عدلیہ کا کردار اور نظام کی تبدیلی کا خوف استحصالیوں
اور طاقتور طبقات کو جسٹس افتخار چوہدری سے خائف رکھے ہوئے ان کے خلاف
سازشوں پر مجبور کررہا ہے !
پاکستان چونکہ تیسری دنیا سے تعلق رکھتا ہے اور اپنی دنیا میں غربت و کرپشن
کے حوالے سے ایک نمایاں مقام رکھنے والا ملک ہے اسلئے یہاں آزاد عدلیہ کو
پنپنے دینے کی روایت کسی بھی طور فروغ نہیں پاسکتی کیونکہ تیسری دنیا کے
بدعنوان اور بے مہار سیاست دانوں کیلئے آزاد عدلیہ کسی ڈراؤنے خواب سے کم
نہیں ہوتی‘ یہ بیباک حکمران اس بات کے متحمل قطعی نہیں ہوسکتے کہ ایسی فعال
اور آزاد عدلیہ وجود میں آجائے جو قانون اور انصاف کے نام پر ان کے گریبان
پکڑنے اور ان کی سیاہ کاریوں کا محاسبہ کرنے لگے اور اس بات کی حقیقت سے
انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عدلیہ کی فعالی ‘ غیر جانبداری اور آزادی جمہوری
حکمرانوں سے زیادہ آمروں کو نا پسند ہوتی ہے اور حالات جس قسم کے اشارے دے
رہے ہیں اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ پاکستان اپنا جمہوری سفر اتنی حد تک طے
کرچکا ہے جو اسے طاقتور طبقات نے دی ہے اور اب اسے ایک بار پھر آمریت کی
جانب پلٹنا ہے جبکہ آمریت میں عدلیہ کو تابع بنانے کی روایت بھی بڑی پرانی
ہے لیکن موجودہ عدلیہ اور چیف جسٹس چونکہ پرویز مشرف جیسے آمر کے سامنے
جھکنے سے انکار کرکے فوجی عتاب سے دوچار ہونے کے بعد عوامی قوت سے بحال
ہوئے تھے اس لئے موجودہ عدلیہ اور چیف جسٹس آمروں کی گڈ بک میں نہیں ہیں
اور اگر ملک میں ایکبار پھر آمریت آتی ہے تو جمہوریت پر شب خون مارنے والوں
کیلئے چیف جسٹس اور موجودہ عدلیہ سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہے اسی لئے
طاقتور طبقات یعنی آمرانہ حلقے ‘ حکومتی حلقے ‘ سرمایہ دار اور جاگیردار جو
ہمیشہ عوام کا استحصال کرکے ملک میں مساوات و انصاف کا خون کرتے چلے آئے
ہیں یکجا ہوکر موجودہ عدلیہ کے خلاف مصروف عمل ہیں اور ملک ریاض بحریہ کے
ذریعے ارسلان افتخار کیس کو تابعدار میڈیا نمائندگان کے ذریعے ملک و قوم کا
سب سے بڑا ایشو بنایا جانا ان حلقوں کی مصروفیات کا پہلا اثر اور پہلا ثمر
ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی اور اب عدلیہ کو
ایسے مزید کئی امتحانوں اور بحرانوں کیلئے تیار رہنا چاہئے کیونکہ پاکستان
انگریزوں کی قید سے آزاد ہوا ہے انگریزوں کے نمک خواروں اور نمک حلالی کے
صلے میں جاگیریں اور جائیدادیں پانے والوں سے نہیں تو پھر غلام ملک کی
عدلیہ کی آزادی کو کس طرح سے برداشت کیا جاسکتا ہے اور چونکہ انگریز وں کے
نمک خوار بھی انگریزکی پالیسی ’‘لڑاؤ اور حکومت کرو “ پر عمل کررہے ہیں
اسلئے اپنی حکمرانی کو قائم رکھنے کیلئے پاکستانیوں کوشیعہ ‘ سنی ‘ وہابی
اور دیو بندی کے فرقوں میں مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے بعد پاکستانی قوم کو
سندھی ‘ مہاجر ‘ پنجابی ‘ بلوچ ‘ پختون اورکشمیری میں بانٹنے والے اب نئے
صوبوں کے قیام کے نام پر سرائیکی ‘ ہزارہ ‘ گلگت بلتستان ‘ پشتون بلوچ کے
نام پر مزید قتل و غارتگری اور نفرتوں کو فروغ دینے کیلئے نئے صوبوں کی
حمایت و مخالفت کی منظم مہم چلاکر بھی شاید اپنے مقاصد کی تکمیل میں کامیاب
نہیں ہورہے تھے اسی لئے انہوں نے ملک ریاض اور ارسلان افتخار کیس کے ذریعے
زاہد بخاری اور اعتزاز احسن کو سامنے لاکر نہ صرف وکلاءکے اتحاد میں دراڑیں
ڈال دیں بلکہ اسی کیس میں میڈیا کو بھی انتہائی خوبصورتی سے استعمال اور
بعد میں بدنام کرکے میڈیا کے کردار پر سوالات اٹھانے کے ساتھ ساتھ میڈیا
میں بھی دو طبقات پیدا کرکے دونوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے لاکھڑا کیا
ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ طاقتور حلقے بڑی تیز رفتاری سے کامیابی کی
منازل طے کررہے ہیں اور ان کی منزل چیف جسٹس ی رخصتی کے ذریعے عدلیہ کو
پیغام دینا ہے کہ عدلیہ انقلابی کردار ادا کرنے کی بجائے روایتی کردار ادا
کرے تو اس کے حق میں بہتر ہوگا وگرنہ ہر جج افتخار چوہدری نہیں جس کے ساتھ
عوام کی حمایت اور وکلاءکی طاقت ہو !
رہی بات ارسلان افتخار کیس کی تو عدلیہ نے ارسلان افتخار کیس میں ” رشوت
لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں “ کے فرمان کا حوالہ دیکر اس کیس
کا فیصلہ از خود کردیا ہے کہ اگر ارسلان افتخار نے ملک ریاض یا ان کے داماد
سے پیسے لئے ہیں اور عدالت میں چلنے والے کیسز میں رعایت کی فراہمی کیلئے
لئے ہیں تو وہ رشوت ہی کے مترادف ہے خواہ اس رعایت کی فراہمی میں کامیاب
رہے ہیں یا ناکام لیکن رشوت وصول تو کی گئی ہے اور رشوت تو رشوت ہے خواہ وہ
ایک روپے کی ہو یا ایک کروڑ کی گناہ یکساں ہے اور سزا بھی یکساں ہی ہوتی ہے
جبکہ ملک ریاض کی جانب سے پیش کئے گئے ثبوت اور شواہد سے تمام نہ سہی کچھ
نہ کچھ رقم کی وصولی ثابت تو یقینا ہوتی ہے اسلئے انصاف کے تقاضے یہی ہیں
کہ ملک ریاض ‘ ان کے داماد سلمان کو قانون کے مطابق رشوت دینے کے اور
ارسلان افتخار کو قانون کے مطابق رشوت وصولی کی سزا دے کر افتخار چوہدری کی
غیر متنازعہ شخصیت کو داغدار کرنے کی اس سازش کو ناکام بنایا جائے کیونکہ
افتخار محمد چوہدری کو 12دسمبر 2013ءتک چیف جسٹس کے منصب پر فائز رہنا ہے۔
اس دوران نئے انتخابات ہونے ہیں۔ نئی نگران حکومت بننی ہے۔ نہایت ہی اہم
مقدمات کے حتمی فیصلے ہونے ہیں۔ اسی دوران جنرل کیانی کو رخصت ہوجانا ہے۔
اسی دوران صدر زرداری منصب صدارت سے فارغ ہوجائیں گے۔ اسی دوران ایک نئی
حکومت وجود میں آئے گی اور یہ سب کچھ افتخار محمد چوہدری کی سپریم کورٹ میں
بحیثیت چیف جسٹس موجودگی میں ہوگا اس لئے ان کی ذات کا غیر متنازعہ ہونا
انتہائی ضروری ہے کیونکہ قوم کو بھی یہ توقع ہے اور پاکستان کے وسائل اور
عوام کی تقدیر پر قابض استحصالیوں کو بھی یہ خدشہ ہے کہ افتخار چوہدری کی
سپریم کورٹ میں بحیثیت چیف جسٹس موجودگی میں جو ہوگا وہ سب صالح ہوگا اور
جب سب صالح ہوگا تو ظلم کا نظام بدل جائے اور اسی تبدیلی کا خوف استحصالیوں
کو جسٹس افتخار چوہدری سے خائف رکھے ہوئے ان کے خلاف سازشوں پر مجبور کررہا
ہے اور ان کی کوشش ہے کہ افتخار چوہدری کی شخصیت کو متنازعہ بنا دیا جائے
اور ایسا ہانکا لگایا جائے کہ کسی نہ کسی وہ ٹھکانے لگ جائیں مگر ان سازشوں
کا ناکام بنانا اب کود افتخار چوہدری اور آزاد عدلیہ کے ہاتھ میں ہے کیونکہ
ارسلان افتخار سے چیف جسٹس کا خون کا رشتہ ضرور ہے مگر اس کے افعال و اعمال
کی ذمہ داری کسی بھی طور چیف جسٹس بھی نہیں ڈالی جاسکتی مگر بطور منصف
ارسلان افتخار کے معاملے میں انصاف کے تقاضے پورے کرکے عدلیہ اور چیف جسٹس
نہ صرف عوامی امنگوں اور توقعات کو پورا کرسکتے ہیں بلکہ اپنا قد مزید بڑھا
کر تبدیلی سے خائف استحصالیوں کی سازشوں کو ناکام بناکر انقلاب و تبدیلی کے
عمل کی رفتار کو تیزبھی کرسکتے ہیں اور اسے استحکام بھی دے سکتے ہیں جبکہ
میڈیا کیلئے بھی یہ آزمائش کی گھڑی ہے کیونکہ عوام کو حقائق سے روشناس
کرانے اور شعور و آگہی فراہم کرکے انقلاب کی راہیں ہموار کرنے والے میڈیا
کو بھی وقتی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی مفادات کو ترجیح دینی ہوگی اور
بدنامی کا باعث بننے والی کالی بھیڑوں سے نجات حاصل کرنی ہوگی کیونکہ
اشتہارات اور فنڈز میڈیا کی ضرورت سہی لیکن اگر آج میڈیا نے تھوڑی سی
قربانی دےکر اس ملک کو بچالیا توتبدیلی کیلئے اپنا کردار پوری دیانتداری سے
نبھایا تو آنے والا کل انتہائی روشن ہوگا جس میں انصاف و مساوات کی وجہ سے
امن و سکون ہوگا اور معیشت و تجارت کا پہیہ پوری رفتار سے چل رہا ہوگا تو
پھر میڈیا کو اشتہارات و فنڈز کے حصول کیلئے نہ تو ملک ریاض جیسوں کے
پلانٹڈ انٹرویوز کرنے ہوںگے اورنہ ہی اشتہارات کے حصول کیلئے سرمایہ داروں
کی مرضی کی مہم چلانی ہوگی بلکہ اشتہارات کی بہتات چینل و اخبارات کو
ایڈورٹائزنگ کمپنیوں اور کلائنٹس سے معذرت پر مجبور کر دے گی جس کے بعد
مزید کمرشیل چینلز کی ضرورت محسوس کی جانے لگے گی ۔ |
|