حرمت قلم کا سودا کب تک ؟؟

”جب طوائف بِکتی ہے تو صرف ایک جسم برباد ہوتا ہے، مگر جب صحافی کا قلم اور زبان بِکتی ہے توتاریخ مسخ،ضمیر مردہ اور قومیں برباد ہوتی ہیں“۔ آج کل یہ عبارت سوشل میڈیا اور موبائل پیغامات کے ذریعے بہت عام ہورہی ہے۔ 14 جون 2012ءکے” میڈیاگیٹ“(میڈیا اسکینڈل)کے بعد پاکستان میں میڈیا کا کردار ہر جگہ موضع بحث بن چکا ہے۔

اگرچہ میڈیا کے کردار کے ضمن میں تلخ اور حقائق پر مبنی سوالات گزشتہ کئی سالوں بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کی بھرمار اور” اینکرو کریسی“ (اینکرز پرسن) کی ”ایجاد“ کے بعد صحافیوں کی زبان اور قلم کے بکنے کے چرچے زبان زد ِعام تھے ۔تاہم پرویز مشرف کے آخری دور میں میڈیا کے بعض نمانیدوں کے مثالی کردار نے وقتی طور پر ”اینکرو کریسی اور میں ہی عقل کل“کی گندگی پر پردے کا کام کیا، مگر اس دوران بالعموم پورے میڈیا اور بالخصوص ”اینکرو کریسی“سے منسلک افراد نے اپنی اصلاح کرنے کی بجائے اپنے آپ کو ” بادشاہ گر“سمجھنا شروع کردیا ۔

بعض اوقات ان کے کردار، گفتاراور انداز سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میڈیاکے لوگ بالخصوص ” پاکستانی اینکرو کریسی“ قدرت کی زمین پر کوئی الگ مخلوق ہے جس پرکسی مذہب، قانون، اخلاق، روایات اور قواعد و ضوابط کا اطلاق نہیں ہوتا ہے اور انہیں ہر طرح کا ”استثنیٰ !“حاصل ہے۔ شاید انہیں اس کا ادراک نہ ہوکہ ”اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو”طاقت، عزت،شہرت،دولت، صحت اوردیگر نعمتیں“ دے کر امتحان لیتے ہیں، جو اس امتحان میں پورے اترتے ہیں وہ کامیاب و کامران اور جو ناکام ہوتے ہیں وہ پھر فرعون بن جاتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا کے ان فرعونوں کو دولت اور شہرت کے زعم میںتو اس کا ادراک نہیں رہا، مگر میڈیاسے منسلک بیشترافراد بالخصوص سنئیر اور صحافت کو دولت کی لونڈی سمجھ کر نہیں بلکہ مشن سمجھ کر اس شعبے سے منسلک ہونے والے مستقبل کے خطرات سے آگاہ تھے اور وقتاً فوقتاً آوازِ حق بلند کرتے رہے ہیں ۔افسوس کہ صحافت کے ماتھے کے بدنما داغوں،قلم اور زبان کے سوداگروں نے اپنے سینئرزکی نصائح کو بھی پیشہ وارانہ رقابت تصور کیا اور اپنی روش کو برقرار رکھا اور بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا ۔ارسلان افتخار اسکینڈل نے میڈیا کا سارا بھانڈا پھوڑ دیا اور اب میڈیا کے مختلف ادارے اور نمائندے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ءہیں۔ گندے کپڑے بیچ چوراہے دھو رہے ہیں اور بیورو کریسی ، ڈیمو کریسی،لوٹا کریسی اب ”اینکرو کریسی“ کا تماشہ دیکھ رہی ہے ۔

اس سب کی وجہ دورِ حاضر میں صحافت کا مشن کی بجائے کاروبار بننا ہے اور جب سے صحافت مال کماﺅ ذریعہ بن گیا اس وقت سے میڈیا کا حقیقی زوال شروع ہوا اور آج جب میڈیا کا نام آتا ہے تو لوگوں کے ذہنوں میں کرپٹ، بلیک میلر، شراب وکباب کے شیدائی،راتوں رات امیر بننے کے خواہشمند اور ہر چیز کو منفی انداز سے سوچنے والوں کا تصور سامنے آتا ہے حالانکہ قلم اور زبان کے سوداگروں کی تعداد انتہائی محدود ہے، مگر نمایاں ہونے کی وجہ سے آج ریاست کا چوتھا ستون نشانے پر ہے۔ اس میں قصور سوچنے والوں کا نہیں بلکہ میڈیا کا اپنا ہی ہے، کیونکہ اس مقدس پیشے میں ایسے گندے کیڑے شامل ہوگئے ہیں جنہوں نے صحافت جیسے مقدس پیشے کو بھی گندگی کا ڈھیر بنادیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب صحافت باعزت پیشے سے زیادہ بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔

مارچ 2011ءکواسلام آباد میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(پی ایف یوجے) کے دوسالہ الیکشن کے لیے ملک بھر سے منتخب مندوبین سہ روزہ اجلاس میں جمع تھے ۔ جب پی ایف یو جے کے آئین میں مختلف ترامیم کے دوران ”تمام اینکرز پرسن“ کو صحافی تسلیم کرنے کے لیے ترمیم پیش کی گئی، اس پراجلاس میں موجود متعدد اینکروںاورصحافیوں نے شدت سے اس کی مخالفت کی ۔الحمدللہ ان میں راقم بھی شامل تھا اور بندہ نے مدلل انداز میں اپنا موقف پیش کیا اوریہ جملہ کہا تھا کہ ”بعض اینکر پرسن نہ صرف صحافی نہیں بلکہ وہ صحافت کے ماتھے پر بدنما داغ اور قلم و زبان کے سودا گر ہیں“۔ ایسے عناصر کو توصحافتی صفوں سے نکال پھینکنا چاہیے۔ ایسے عناصر کوصحافی تسلیم کرنا اس مقدس شعبے سے غداری ہے، جس کی تائید اجلاس میں شریک اکثر صحافیوں نے کی۔ البتہ بعض نے ”ملا جی ملاجی “کی رٹ کے ساتھ تنقید بھی کی، مگر مدلل گفتگو کے بعد پی ایف یو جے کا ایوان اس پر متفق ہوا کہ تمام اینکروں کو کسی بھی صورت پی ایف یو جے کے آئین کے مطابق صحافی تسلیم نہ کیا جائے، بلکہ صرف ”نیوز اینکرز بالخصوص وہ جو صحافت کے شعبے سے منسلک رہے ہیں انہیں صحافی تسلیم کیا جائے“ اور یہ ترمیم اتفاق رائے سے منظور ہوئی، جو اب پی ایف یوجے کے آئین کا حصہ ہے ۔راقم نے مزید کہاتھاکہ ”اگر صحافیوں اور صحافتی تنظیموں نے فوری طور پر خود احتسابی کا عمل نہ شروع کیا تو وہ وقت دور نہیں جب لوگوں کے ہاتھوں میں جوتے ہوں گے اور صحافی آگے بھاگ رہے ہوں گے اور صحافت کے مقدس شعبے کو بھی لوگ کوٹھے سے تشبیح دیں گے۔ کیوں کہ آج بعض اداروں سے لے کر منشیات فروشوں، ٹی وی پروگرام سے لے کر خبروں یا آرٹیکلز تک فروخت ہوتے ہیں۔ پیڈانٹرویوز اور ٹی وی پروگرامز معمول بن چکے ہیں۔

راقم نے یہی موقف دسمبر 2011ءکراچی پریس کلب کے جنرل کونسل کے اجلاس میں بھی دہرایا۔ مگر بعض دوستوں نے” جوتے ‘والی بات کو مذاق میں لے لیا اور طنز کرنا شروع کردیا اور دیگر فورموںپر بھی آواز اٹھائی لیکن اس کو دیوانے کی بڑ تصور کیا گیا۔ مگرآج کئی سینئر صحافی اپنے ٹی وی پروگراموں میںیہی کہنے اور کالموں میں یہی لکھنے پر مجبور ہیں۔

اے کاش! ہم روزِ اول سے اپنی اصلاح پر توجہ دیتے، آج بیچ چوراہے گندے کپڑے دھونے کا موقع نہ آتا۔ آج یہ عالم ہے کہ کسی کے حصے میں بنگلے نکل رہے ہیں تو کسی کے حصے میں کروڑوں روپے کی جائیدادیں سامنے آرہی ہیں۔ کسی نے قلم کا سودا کیا ہے اور کسی کی زبان بک چکی ہے۔ کسی نے ضمیر بیچا ہوا ہے تو کسی نے اپنا سودا کیا ہوا ہے۔اے کاش میڈیا کے ادارے اور نمائندے اس وقت” اینکرو کریسی“ کے منفی کردار کی نفی کرتے جب یہ لوگوں کو اپنے پروگراموں میں مرغوں کی طرح لڑارہے تھے ۔ ان کے پروگرام معلومات کی بجائے عوام کے لیے ہائپر ٹینشن کا سبب بنتے تھے ۔اے کاش اینکرو کریسی کے ان عناصر کے خلاف اس وقت کارروائی کی جاتی جب یہ” لوٹوں “سمیت مہمانوں کو مدعو کرتے اور دوسری پارٹیوں کو زچ کرنے کے لیے دوران پروگرام” لوٹے توڑنے پر ایسے مہمانوں کو روکنے کی بجائے حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

پاکستان کے میڈیا بالخصوص الیکٹرونک کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں پر تربیت کا فقدان ہے۔ بعض ایسے اینکرز بھی ہیں جن کا گزارہ ”کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھے ہوئے سوالات اور پروڈیوسر کی ڈکٹیشن “ پر ہوتاہے۔ پرنٹ میڈیا میں پھر بھی کسی حد تک ضابطے اور قانون کو مدنظر رکھا جاتا ہے لیکن الیکٹرونک میڈیا میںبعض عناصر ہر حد پار کرجاتے ہیں،جن کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ ایک ا ندازے کے مطابق ملک بھر میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے منسلک صحافیوں اوردیگر عملے کی تعداد مجموعی طور پر 60ہزار کے قریب ہے جن میں سے 25 سے 30فیصد (دیہی علاقوں کے نمایندے)نہ صرف تنخواہوں اور ادارتی مرعات سے کلی طور پر محروم ہیں بلکہ اداروں کو بھتا(مخصوص معاوضہ ) دینے پر مجبور ہیں ۔25سے30فیصدکا معاوضہ عام مزدور سے بھی انتہائی کم ہے۔20سے 25 فیصد کا معاوضہ زیادہ بہتر تو نہیں البتہ مناسب ہے، 15سے20فیصد کا معاوضہ ضرورت کے مطابق ہے، جب کہ 5فیصد کا معاوضہ ضروت سے بہت زیادہ ہے جن میں سے اکثریت کا تعلق ” اینکرو کریسی“ ےاان کے عملے سے ہے (جن کے شر سے شاید ہی کوئی محفوظ ہو) ۔ان کے علاوہ جن کا معاوضہ طے ہے ان میں سے 30 سے 40 فیصد کو بروقت معاوضہ نہیں ملتا ہے اور کئی کئی ماہ کی تاخیر ہوتی ہے جو کئی خرابیوں کی وجہ ہے ۔میڈیاکی اصلاح کے ان امور پر غور ضروری ہے ۔

موجودہ حالات میں ملک ریاض صاحب اور ان جیسے دیگر صاحب ثروت اور بااثر افراد سے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ اپنی دنیا اور آخرت کی بقاءکے لیے اس قوم پر اتنا احسان کریں کہ وہ ان تمام صحافیوں اور بلیک میلروں کے نام قوم کو بتادیں جن کی زبانیں اور قلم انہوں نے کل یا جز وقتی خریدے ہیں یا کبھی وہ صحافی ان کے آلہ کار رہے ہوں اور میڈیا بالخصوص پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(پی ایف یوجے) اور اس کی ذیلی تنظیموں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان کالی بھیڑوں کو بے نقاب کریں جو کبھی راتوں کو امریکیوں کے ساتھ شراب کی محافل سجانے پر فخر کرتے ہیں، تو کبھی اپنے ملک اور مذہب کی بدنامی کے لیے ہر حد پار کرنے کو تیار ہوتے ہیں اور ان میڈیا کے اداروں کو بھی بے نقاب کیا جائے جو چند پیسوں کے لیے ذہنوں کو تبدیل کرنے کے لیے قوم کا سودا کرتے ہیں اور یہ بات بھی ضروری ہے کہ میڈیا کی تنظیمیں اور ادارے اپنے ضابطہ اخلاق کو مزید بہتر بنائےں۔ ویسے بھی پی ایف یو جے کا 13نکاتی ضابطہ اخلاق پہلے سے موجود ہے ،اس پر عمل درآمد کیا جائے تو کوئی شخص کسی بھی جرم میں ملوث نہیں ہو سکتا۔ میڈیا کے نمائندوں، اداروں اور تنظیموں کو یہ کوشش بھی کرنی ہوگی کہ کوئی ایسا فورم ہو جہاں پر میڈیا کے نام پر بلیک میل، کرپشن اور دیگر جرائم میں ملوث عناصر کی پوچھ ہو۔

یہ کتنی بدقسمتی ہے کہ ایک پریس کارڈ ہاتھ میں لینے والا شخص اپنے آپ کو صحافی یا میڈیا کا نمائندہ کہہ کر معاشرے میں قانون، اخلاق اور روایات سے اپنے آپ کوبری الذمہ سمجھتا ہے۔ اس کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ صحافتی تنظیمیں اور ادارے ذاتی نوعیت کے اختلاف کو ایک طرف رکھ کر کوئی ایسا طریقہ کار وضع کریں جس میں صحافیوں کو پابند کیا جا سکے اور ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہوجس کو قانونی اور آئینی تحفظ حاصل ہو، ورنہ دولت کا پجاری، کرپٹ، بلیک میلر، شراب وشباب کا شیدائی اور بدی کے محور افراد میڈیا کی بدنامی کے لیے میدان میں کود پڑیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے ایک طویل عرصے بعد میڈیا کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ خود احتسابی کا عمل شروع کریں اور اس عمل کو جاری رکھنے کے لیے کوئی ایسا طریقہ اختیار کریں جس سے میڈیا کے نام پر قوموں کو سودا کرنے اور میڈیا کو طوائف کی طرح استعمال کرنے والوں کی بیخ کنی کی جاسکے۔ جبھی ہم معاشرے میں سر اٹھا کر سوال کرنے کے قابل ہوں گے۔ ورنہ ملک ریاض کے حالیہ انٹرویو کے بعد قومی اور سوشل میڈیا میں اٹھنے والی بحث کو نہ روکا جاسکے گا اور پھر ایک دن میڈیا نشانِ عبرت بن جائے گا۔ اب یہ میڈیا کی تنظیموں کے نمائندوں اور ذمہ داروں پر منحصر ہے کہ وہ موجودہ میڈیا گیٹ سے کس حد تک فائدہ اٹھاتے ہوئے اصلاح کی کوشش کرتے ہیں یا پھر ماضی کی طرح بغیر تحقیق اور” ہم سب سے آگے“ یا ”بریکنگ نیوز“ کے چکر میں صحافتی برادری کی بدنامی کا سبب بنتے رہیں گے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 106878 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.