عدلیہ سے محاذآرائی ‘ عدالتی
فیصلوں پر عملدرآمد سے انکار ‘ سوئس حکومت کو خط لکھنے کے عدالتی حکم کی
عدم تعمیل اور عدلیہ کی جانب سے 30سیکنڈ تک عدالت میں کھڑے رہنے کی سزا
پانے کے باوجود خود کو سزا یافتہ تصور نہ کرنے والے یوسف رضا گیلانی نے
اپنی وزارت عظمیٰ بچانے کیلئے اسپیکر قومی اسمبلی کو پوسٹ مین کا کردار ادا
نہ کرنے کا مشورہ دے کر اسپیکر رولنگ کے ذریعے جو سیاسی داؤ کھیلا عدلیہ نے
اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیتے ہوئے وزیراعظم یوسف
رضا گیلانی کو نہ صرف وزارت بلکہ اسمبلی کی رکنیت سے بھی نااہل قرار دے دیا
اور الیکشن کمیشن نے عدلیہ کے حکم پر وزیراعظم کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری
کردیا جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کو پہلا ”سیاسی شہید “
یوسف رضا گیلانی کی شکل میں دستیاب ہوچکا ہے جبکہ اسپیکر کی رولنگ غیر
آئینی و غیر قانونی قرار دیئے جانے کے بعد اب اسپیکر کی اہلیت پر بھی سوال
اٹھنا شروع ہوگیا ہے اور اگر اس سوال کا جواب بھی عدلیہ سے کسی نے مانگ لیا
تو شاید پیپلز پارٹی کو دوسرا سیاسی شہید بھی مل ہی جائے !
یوسف رضا گیلانی کے صدر زرداری کی حرمت پر شہید ِسیاست ہونے کے بعد احمد
مختار اور چوہدری برادران کے درمیان جاری عداوت پر ق لیگ کے اعتراض و
تحفظات نے احمد مختار کو وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے باہر کردیا جبکہ وزارت عظمیٰ
کیلئے مضبوط ترین امیدوار سمجھے جانے والے خورشید شاہ سندھ سے تعلق کی
بنیاد پر اس لئے اس دوڑ میں شامل نہیں ہوپائے کہ صدر پاکستان اور اسپیکر
قومی اسمبلی دونوں ہی عہدے سندھ کے پاس ہیں اسلئے اپنی حکومت کو قائم و
مستحکم رکھنے کیلئے وزیراعظم ”جنوبی پنجاب “ سے لانا پیپلز پارٹی کی مجبوری
ہے یوں وزارت عظمیٰ کا قرعہ فال مخدوم شہاب کے نام نکل آیا ہے اور پیپلز
پارٹی نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے مخدوم شہاب کو وزیراعظم منتخب کرانے
کیلئے آج قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔
ہمارا مشورہ نئے منتخب ہونے والے وزیراعظم کیلئے یہ ہوگا کہ وہ وزارت عظمیٰ
کا حلف اٹھانے کے بعد سب سے تو شاہ محمود قریشی کا شکریہ اداکریں جن کی جلد
بازی کی وجہ سے مخدوم شہاب وزارت عظمیٰ کے عہدے تک پہنچے کیونکہ گیلانی کو
زرداری سے وفاداری کے انعام میں نااہلی کی سند ملنے کے بعد وزارت عظمیٰ کا
قلمدان شاہ محمود قریشی کو ہی ملنا تھا مگر نجانے کس کے کہنے پر وہ اپنے
برسوں پرانے خواب کی تکمیل کے آخری مراحل میں حوصلہ ہارکر پارٹی بدل بیٹھے
اور اب یقینا ان لمحات کو کوس رہے ہوں گے جب انہوں نے پیپلزپارٹی چھوڑنے کا
فیصلہ کیا تھا اور ان حضرات کو بھی جنہوں نے انہیں پیپلز پارٹی چھوڑنے کا
مشورہ دیا یا تحریک انصاف میں آنے کی دعوت !
دوسرا کام مخدوم شہاب کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ یوسف رضا گیلانی کو حاصل
تمام قانونی و غیر قانونی مشیر و ماہرین سے خود محفوظ رکھتے ہوئے چند
دانشورمشیروں کی ایسی ٹیم بنائیں جو انہیں اپنی مدت وزارت کی تکمیل کیلئے
ایسا جواز مہیا کرنے کی ترکیب سکھائے جس کی بنیاد پر وہ عدالت کی نگاہوں
میں بھی نااہل نہ قرار پائیں اور صدر زرداری و پارٹی کے وفادار بھی کہلائیں
کیونکہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی عدلیہ نے ان سے سوئس حکام کو صدر
زرداری کے خلاف کیسز ری اوپن کرنے کیلئے خط لکھنے کا وہ مطالبہ ضرور کرنا
ہے جس کی عدم تعمیل پر یوسف رضا گیلانی کووزیراعظم ہاؤس ہی نہیں چھوڑنا پڑا
بلکہ اپنی گاڑی سے جھنڈہ بھی اتارنا پڑگیا ۔
تیسری بات جو مخدوم شہاب کو اپنی گرہ میں باندھنی ہے وہ یہ ہے کہ ملک کو
بہتر انداز میں چلانے کیلئے سیاسی رقابت کے جذبات کو ٹھنڈہ کرنا ہوگا اور
اس مقصد کیلئے اگر وہ صدر زرداری کو قائل کرکے اپنی نئی بنائی جانے والی
کابینہ میں اتحادی جماعتوں کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں کے نمائندگان کو بھی
شامل کریں تو ان کی وزارت بھی چل سکے گی اورقوم بھی ان تکلیف دہ لمحات سے
آگے نکل سکے گی جس میں وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی جنگ کے باعث پھنس
چکی ہے ۔
چوتھی چیز جو انتہائی اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ وطن عزیز سے دہشت گردی
کے خاتمے اور قیام امن کیلئے نو منتخب وزیراعظم کو تمام مسالک سے تعلق
رکھنے والے علمائے کرام ‘ تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے نمائندگان ‘ سول و
فوجی بیوروکریسی کے سربراہان اور عدلیہ کے نمائندگان پر مشتمل ایک قومی
کمیشن تشکیل دینا ہوگا جو قومی امور پر عوامی امنگوں اور ملکی مفادات کے
تحت اپنی سفارشات مرتب کرکے پارلیمنٹ کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے تاکہ
پارلیمنٹ کے فیصلوں اور قوم کی امنگوں کے درمیان تضاد پیدا نہ ہو‘نہ ادارو
ں کے درمیان محاذآرائی جیسی صورتحال پیدا ہو اور نہ ہی دہشت گردوں کی چھوٹی
سی سازش پورے ملک میں مسلکی یا لسانی تعصب کو ہوا دے کر قتل و غارت گری کے
اسباب پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکے ۔
دہشت گردی کے خاتمے اور ناراض افراد کو واپس قومی دھارے میں لانے کیلئے
”قومی پیس کمیشن “ بناکر اگر اس میں عمران خان ‘ منور حسن اور مولانا فضل
الرحمن کو اس کمیشن کاچیئرمین ‘ کو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین بناکر ناراض
بلوچوں ‘ طالبان اور دہشت گردوں سے مذاکرات کی ذمہ داری دے دی جائے تو نہ
صرف حکومت مخالف اتحاد کو بننے سے پہلے ہی سبوتاژ کیا جاسکے گا بلکہ اس
کمیشن کی کارکردگی سے بہت سے مسائل بھی یقیناحل ہوتے دکھائی دیں گے ۔
اسی طرح وزارتوں کی تقسیم میں بھی اگر وزیراعظم صدر اور پیپلز پارٹی کو
اعتماد میں لیکر حقیقی جمہور ی سیاست کا مظاہرہ کریں اور پانی و بجلی کے
بحران پر سب سے زیادہ شور مچانے والوں کو ہی اس کے حل کی ذمہ داری سونپتے
ہوئے پانی و بجلی کی وزارت مسلم لیگ ن کے حوالے کردیں تو پنجاب کی سڑکوں پر
لگی ہوئی آگ بھی ٹھنڈی ہوجائے گی اور وفاقی حکومت و پیپلز پارٹی کے خلاف
پنجاب میں لگائے جانے والے نعرے بھی از خود دم توڑ دیں گے اور بجلی بحران
کو وفاقی حکومت کا تحفہ قرار دینے والوں کو آئندہ انتخاب میں کامیابی کیلئے
اس بحران کو یا تو حل کرنا ہوگا یا پھر عوام کو اس بحران کی اصل وجوہات اور
حقائق بتانے ہوں گے جو یقینا پیپلز پارٹی کے مفاد میں ہوگا ۔
ریلوے نے چونکہ شیخ رشید کے دور میں انتہائی ترقی کی اور یہ دارہ منافع بخش
ادارے کی حیثیت رکھتا تھا اسلئے اس ادارے کو شیخ رشید کے حوالے کرکے اس
ادارے سے وابستہ لاکھوں افراد کو بھوک سے مرنے سے بچایا جاسکتا ہے اور اس
ادارے سے وابستہ لاکھوں ملازمین کے ووٹوں کو بھی پیپلز پارٹی کے حق میں
استعمال کرایا جاسکتا ہے جس کیلئے شیخ رشید کو مشیر برائے ریلوے و
ٹرانسپورٹ مقرر کیا جاسکتا ہے ۔
وزارت خزانہ ‘ وزارت دفاع اور وزارت داخلہ پیپلز پارٹی اپنے پاس رکھے جبکہ
دیگر وزارتوں کو اپنے اتحادیوں کی تعداد میں اضافے کیلئے استعمال کرے تو
یقینا موجودہ حکومت اپنے خلاف بننے والے مخالف اتحاد اور پریشر کو توڑ کر
اپنی آئینی مدت بھی پوری کرسکتی ہے اور آئندہ انتخابات میں بھی سرخروہوکر
عوام کے سامنے جاسکتی ہے کیونکہ حکومت میں تمام دھڑوں اور گروپوں کی کسی نہ
کسی بہانے شرکت سے یقینا صلاح احوال ممکن ہوگی اور اس کے نتائج ملک وقوم کے
بہترمفاد میں برآمد ہوں گے! |