پیپلز پارٹی کو ایک اور شہید مل گیا ۔ ۔ ۔ ۔

زندہ شہید

اور گیلانی فارغ ہوگئے ۔ ۔ ۔ ۔

نااہلی کی خبر کیا آئی خبروں کی برسات چل نکلی،ہر نیوز چینل،ہر ویب سائٹ پرایک ہی بریکینگ نیوز تھی ”سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دے دیا، وزیر اعظم کی چھٹی ہوگئی،پیپلز پارٹی کو ایک اور سیاسی شہید مل گیا۔“ پاکستان کا ہر شہر،ہر محلہ ،ہر بازار،ہر گلی،ہر کوچہ اس خبر کی برسات سے جل تھل تھا،فیصلے کی خوشی میں جہاں بہت سے لوگ ڈھول پیٹ رہے تھے،بھنگڑے ڈال رہے تھے اورایک دوسرے کومٹھائیاں کھلارہے تھے ،وہیں کچھ مقامات پر جیالے احتجاج بھی ہورہا ہے، اِس منظر نامے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اپنے طویل المدت وزیر اعظم رہنے کے اعزاز پر مسروروشاداں نظر آنے والے وزیر اعظم اِس اعزاز سے ہی محروم نہیں ہوئے،بلکہ عدالتی فیصلے نے انہیں پاکستان کے پہلے نااہل اور سزایافتہ وزیر اعظم کے منصب سے بھی سرفراز کرکے سیاسی تاریخ کو ایک اور نیا کردار دے دیا، ویسے بھی نواب اسلم رئیسانی کے فلسفے کی روشنی میں دیکھا جائے تو”اعزاز تو اعزاز ہی ہوتا ہے“ طویل المدتی وزیر اعظم نہ سہی، پاکستان کے پہلے نااہل وزیر اعظم ہی سہی۔

انیس جون2012 کوچیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی اہلیت سے متعلق ا سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کےخلاف مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف اور دیگر افراد کی جانب سے دائر کی گئی 8 آئینی درخواستیں نمٹاتے ہوئے سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے 26 اپریل کے فیصلہ کو برقرار رکھتے ہوئے وزیراعظم کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیدیا، فاضل عدالت نے اِن درخواستوں کی سماعت مکمل کرکے شام ساڑھے تین بجے اپنا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے 26 اپریل کو وزیراعظم کو توہین عدالت کے جرم میں تابرخواست عدالت قید کی سزا دی تھی، جس کی بنیاد پر آئین کی دفعہ 63 ون جی کے تحت وہ 26 اپریل سے ہی نااہل قرار دیئے جا چکے ہیں، سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ ا سپیکر کی رولنگ کو پارلیمانی تحفظ حاصل نہیں اوروزیر اعظم 26اپریل سے نااہل ہیں، اب وہ پارلیمنٹ کے ممبر نہیں رہے،الیکشن کمیشن وزیراعظم کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرے،عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ صدر جمہوری عمل کو جاری رکھتے ہوئے اقدامات کریں، دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے کہاکہ پارلیمنٹ کااحترام کرتے ہیں لیکن آئین اور قانون کو بھی دیکھناہے ، سات ججوں کا فیصلہ صرف اپیل میں ہی تبدیل ہوسکتا ہے۔

عدالت کا کہناتھاکہ وزیراعظم اگر اپیل کردیتے توانہیں مزید مہلت مل سکتی تھی ، جسٹس خلجی عارف نے کہاکہ جج اپنے ضمیر کو جانتے ہیں اور اللہ کو جواب دہ ہیں،اِس موقع پرجسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ آئین اہم اور مقدم ہے ،جج ہو یا وزیراعظم ، سب عوام کے ملازم ہیں،دوران سماعت فاضل چیف جسٹس کے یہ ریمارکس بھی معنی خیز تھے کہ کیا اسپیکر قومی اسمبلی سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے فیصلہ کی سکروٹنی کر سکتی ہیں، اگر اِس بات کی اجازت دے دی گئی تو عدلیہ کی آزادی کہاں جائیگی اور عدلیہ کہاں کھڑی ہو گی؟ جبکہ کسی عدالتی فیصلے کو مجاز اپیلٹ کورٹ کے سوا کوئی دوسری اتھارٹی ختم نہیں کر سکتی،فاضل بینچ نے دوران سماعت یہ بھی باور کرا دیا کہ چونکہ وزیراعظم نے اپنی سزا کیخلاف مقررہ میعاد کے اندر اپیل دائر نہیں کی اِس لئے اُن کی سزا کے بارے میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کا فیصلہ حتمی ہو چکا ہے اورا سپیکر کو سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اپنا فیصلہ دینے کا قطعاً اختیار نہیں ہے۔

قارئین محترم ! حقیقت یہ ہے کہ اِس نااہلی کی طرف واضح اشارہ تو 26 اپریل کے فیصلے میں موجودتھا اور امید کی جا رہی تھی کہ ا سپیکر خود ہی وزیراعظم کی نااہلی کا سوال اٹھائیں گی، اگر سید یوسف رضا گیلانی اور حکمران پیپلز پارٹی کی طرف سے 26 اپریل کو ہی سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے فیصلہ کو تسلیم کرلیا جاتا اور اُس کی روشنی میں کسی نئے وزیراعظم کا انتخاب ہوجاتا تو آج پیپلز پارٹی پر آئین اور عدالتی فیصلوں سے روگردانی کا کوئی دھبہ نہ لگتا، مگر پیپلز پارٹی اور اُس کی حکومت نے وزیراعظم کی نااہلیت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ پر بھی اپنی من مرضی کی تاویلیں پیش کرنا شروع کر دیں اور پارلیمنٹ کی برتری خطرے میں ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا جانے لگا،جبکہ اِس عمل میں حکمران پیپلز پارٹی نے ا سپیکر کے منصب کو بھی متنازعہ بنا دیا،اَمر واقعہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اِس فیصلہ کے بعد جہاں اِس بارے میں کوئی آئینی اور قانونی ابہام نہیں رہا کہ سید یوسف رضا گیلانی 26 اپریل سے ہی اپنی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل ہو چکے ہیں،وہیں یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ اب پاکستان میں کوئی بھی شخص انصاف سے بالاتر نہیں ہے اور ہر شخص چاہے وہ کتنے بھی بڑے عہدے پر کیوں نہ فائز ہوقابل احتساب اور قابل سزا ہے،اُمید ہے کہ اسپیکر رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ دورس اثرات کا حامل ہوگا۔

اب جبکہ ا سپیکر رولنگ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد سید یوسف رضا گیلانی کیلئے دادرسی کے تمام دروازے بند ہو چکے ہیں،مگریہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ 26 اپریل کے بعد یوسف رضا گیلانی کے بطور وزیراعظم کئے گئے فیصلوں اور اقدامات کی قانونی اور آئینی حیثیت کیا ہوگی اور یہ کہ جب وزیراعظم کی نااہلیت کے ساتھ اُن کی کابینہ کا وجود باقی نہیں رہا تو اب تک کابینہ کے نام پر ہونیوالے فیصلوں کی کیا حیثیت ہے؟لہٰذاضرورت اِس امر کی ہے کہ فوری قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر نئے وزیراعظم کا انتخاب عمل میں لایا جائے اور قومی اسمبلی سے سید یوسف رضا گیلانی اور اُن کی کابینہ کے 26 اپریل سے 19 جون تک کے فیصلوں اور قومی اسمبلی میں منظور کئے گئے وفاقی بجٹ کو آئینی تحفظ دیا جائے تاکہ ملک و مملکت کو کسی ممکنہ آئینی خلاءسے بچاجاسکے ،اس وقت حکمران جماعت اور اُس کے اتحادیوں کیلئے سسٹم بچانے کا یہی واحد راستہ ہے،سنا ہے یوسف رضا گیلانی سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرچکے ہیں اور وہ وزیراعظم ہاؤس سے بغیر جھنڈے والی گاڑی میں گھر روانہ ہوچکے ، اگر یہی کام وہ 26 اپریل کو کرلیتے تو آج پارلیمانی جمہوری نظام کی عملداری میں اُن کا بول بالا ہو تا،مگر افسوس کہ یہ سعادت اُن کے نصیب میں نہیں تھی،انہوں نے سوا چار سال تک جس انداز سے حکومت چلائی اُس کا خمیازہ پیپلز پارٹی سے زیادہ ملک کے غریب عوام بھگت رہے ہیں۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب کئی مشکل سیاسی چیلنجوں سے کامیابی سے گزرنے کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اب وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کر لیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا،وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی بلاشبہ طویل عرصے تک وزیر اعظم رہے ہیں، لیکن اُن کے حوالے سے عوامی تاثر بہت ہی منفی ہے ،یہی وجہ ہے کہ اُن کی نااہلی پر لوگوں نے خوشیاں منائیں جبکہ اُن کے حق میں کلمہ خیر کہنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ،ماسوائے سیاسی اتحادیوں کے پاکستان کا عام شہری اُن کے دور حکومت سے قطعاً مطمئن دکھائی نہیں دیتا،کیونکہ اُنہوں نے اپنے دور حکومت سوائے دعووں اور وعدوں کے عوام کو کچھ نہیں دیا، بعض مبصرین کے نزدیک آئینی اصلاحات، آغاز بلوچستان پیکج اور صوبہ سرحد کو نئی شناخت دینا چند اہم پیش رفت ضرور ہیں، لیکن اِن سے زمینی حقائق میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی ہے، نا اہل قرار دیئے جانے والے وزیر اعظم اور اُن کی معاشی ٹیم نے اقتصادی میدان میں کوئی جھنڈے نہیں گاڑے،اُن کے دور حکومت میں مہنگائی، لوڈشیڈنگ، خسارے اور روپے کی بے قدری نے عوام کو پریشان حال رکھا،نااہل وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا دور اقتدار میں پانچ بار وزیر خزانہ اور چھ بار سیکریٹری خزانہ تبدیل ہوئے، 2008 میں پاکستانی معیشت پر مجموعی قرضہ اور واجبات 64 کھرب کے لگ بھگ تھا جو اب 121 کھرب روپے کی خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے، مہنگائی کے طوفان کی وجہ سے عوام کو کئی مشکل معاشی فیصلے بھگتنا پڑے، حکومتی اداروں نے چار سال میں 50 فی صد مہنگائی کا اعتراف کیا لیکن حقیقت حکومتی اعداد و شمار سے کہیںزیادہ ہے، اِن چار سالوں میں بجلی 96 فی صد مہنگی ہوئی، جبکہ ہر مہینے تیل سے بجلی بنانے کے نرخ اِس کے علاوہ ہیں، سی این جی 37 روپے سے بڑھ کر 81 روپے تک پہنچی،اُن کے آنے سے پہلے پٹرول 58 روپے تھا،جسے عوام نے سنچری کراس کرتے ہوئے بھی دیکھا۔

ابتدا میں مالی خسارہ جو 7 کھرب کے لگ بھگ تھا جو اب 13 کھرب تک پہنچ چکاہے، 2008میں معاشی ترقی کی شرح 7 فی صد تھی جو اب ڈھائی فی صد پر لڑکھڑارہی ہے،لوڈ شیڈنگ سے قومی معیشت کو ہر سال 2 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا اور ہر سال 4 لاکھ افراد روزگار سے محروم ہوئے ،آج یہ حال ہے کہ مزدور کے ہاتھ میں اوزار کے بجائے ڈنڈے ہیں جنھیں وہ لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہروں میں استعمال کررہے ہیں، یہ اعزاز بھی یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت کو حاصل ہے کہ اُن کے دور میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی تاریخ ایک مذاق بن کر رہ گئی،بدعنوانی کے معاملے میں بھی حج اور ایفیڈرین سمیت لاتعداد سکینڈل سامنے آئے،،قومی اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے یوسف رضا گیلانی کا زیادہ تر وقت عوامی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنے حلیفوں کو منانے اور اپنا اقتدار قائم رکھنے میں گزرا، اپنے پورے دور حکومت میںگیلانی حکومت نے امریکہ اور فوج کو ناراض نہ کرنے کی پالیسی اپنائے رکھی،جس کا نیتجہ یہ نکلا کہ امریکی ڈرون حملے نہ صرف زیادہ ہوئے بلکہ امریکیوں نے پہلی بار پاکستان میں گھس کر ایبٹ آباد میں کارروائی بھی کی، اِن حقائق کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یوسف رضا گیلانی کوئی قابل فخر کارنامہ انجام نہ دے سکے اور اُن کی حکومت پاکستان کی ناکام ترین حکومت رہی،یہ تماشا بھی انہی کے دور میں ہوا کہ توہین عدالت کے مرتکب ہونے کے باوجود وزیر اعظم صاحب نے اخلاقی طور پر اپنے عہدے سے علیحدہ ہونا پسند نہیں کیا چنانچہ یہ ناخوشگوار ذمہ داری بھی عدالت عظمیٰ کو سرانجام دینا پڑی اور یوں اُن کا 34سالہ سیاسی سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔

قارئین محترم !صدیوں پہلے سقراط نے کہا تھا”اسمبلیاں ،ذہنی معذوروں،بے وقوفوں، ترکھانوں، لوہاروں، موچیوں،دکانداروں اور منافع خوروں کی آماجگاہ ہوتی،کوئی شخص صرف اِس بنیاد پر کہ اُسے عوام نے چنا ہے حکمران کہلانے کا حقدار نہیں۔“صدیوں پہلے کہا گیا یہ قول آج ہمارے ارکان اسمبلی اور حکمرانوں پر کتنا صادق آتا ہے،آپ سمجھ سکتے ہیں، محض اقتدار کی کرسی پر بیٹھ جانے سے کوئی شخص عوام کا حکمران نہیں بن جاتا،بلند ایوانوں کے دروبام پر اترنے والی خوشحالی کی چاندنی اگرغریب بستیوں کے کچے گھروندوں اور شکستہ دروبام تک نہ پہنچ پائے تو ایسی حکمرانی کا کیا فائدہ، عوامی حکمران بننے کیلئے عوام کے دکھ درد اور غموں کا مداوا بھی ضروری ہے،جس میں ہمارے ارباب اقتدار بری طرح ناکام ثابت ہوئے، اپنی اِس ناکامی کے اعتراف کرتے ہوئے وزیر اعظم صاحب کو تو بہت پہلے ہی عوامی نمائندگی اور اقتدار سے الگ ہوجانا چاہیے تھا،مگر ایسا نہیں ہوا،پھر 26 اپریل کو عدالت نے انہیں باعزت واپسی کا راستہ فراہم کیا۔

افسوس کہ سعادت و افتخار کا لمحہ اُن کی زندگی میں نہیں تھا،اگر محترم وزیر اعظم اُس وقت عدالتی حکم کی پیروی کرتے ہوئے از خود اقتدار سے الگ ہوجاتے توآج اُن کی عزت و توقیر میں اضافہ ہی ہوتا،مگر افسوس کہ باعزت واپسی کا وہ لمحہ انہوں نے کھودیا ،ویسے بھی یہ ہماری تاریخی سچائی ہے کہ یاکستان میں جمہوریت کو کبھی بھی ساز گارموسم اور خوشگوار آب وہوا میسر نہیں آئی،کبھی فوجی آمروں نے حکمرانوں کو اٹھاکر ایوان اقتدار سے باہر پھینک دیا تو کبھی خود جمہوری حکمرانوں کی خودسری، آمرانہ رویئے اور ماورائے آئین اقدامات انہیں ایوان اقتدار سے باہر لے گئے ،یوسف رضا گیلانی کے ساتھ بھی یہی ہوا،وہ اِس لحاظ سے پاکستان کے پہلے منفرد وزیر اعظم ٹہرے کہ انہیں پاکستان کی سپریم کورٹ نے توہین عدالت کا مجرم قرار دےکر وزارت عظمیٰ کے منصب کیلئے نااہل قرار دیا،یوں وزیر اعظم کی نااہلی سے پیپلز پارٹی جو شہیدوں کے نام پر سیاست میں مشہور ہے ، کو ایک اور سیاسی شہید مل گیا،بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہ شہید زندہ ہے،جسے پیپلز پارٹی آئندہ الیکشن میںایک ترپ کارڈ کے طور پر استعمال میں لائے گی ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357780 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More